مکاتیب

ادارہ

(۱)

مکرمی جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب

سلام و رحمت، مزاج شریف؟

جون کے شمارے میں میثاق جمہوریت کے حوالے سے آپ کا کلمہ حق نظر نواز ہوا۔ کلمہ حق واقعی کلمہ حق ہے۔ آپ نے جس حسن توازن سے اظہار فرمایا، وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ پڑھنے کے لائق ہر تحریر کو پورے غور سے پڑھتا ہوں اور ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ اس میں سے کوئی بات لائق توجہ ہو تو قلم اٹھایا جائے۔ مدت سے حسرت تھی کہ آپ کی تحریر میں سے کوئی ایسی بات پکڑ لوں، ہمیشہ ہی ناکام رہا۔ آپ کی ہر تحریر نے پہلے سے زیادہ خراج لیا اور آپ کے لیے نیازمندی کے احساسات میں اضافے کا باعث ہوئی۔ زیر بحث تحریر سے بھی میرے احساسات تو وہی رہے مگر لکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ راہ نکل آئی ہے۔ 

آپ نے جو کچھ بھی لکھا، درست اور سچ سچ لکھا۔ مگر ایک بات کو پس منظر میں رہنے دیا گیا جو میرے نقطہ نظر میں کھل کر سامنے آنا چاہیے تھی۔ شاید آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بات جمہوری اقدار ہی کی کافی ہے۔ دیانت داری کی بات کرنے کا زمانہ ہی نہیں رہا۔ مگر جمہوری اقدار پر ہمارے قائدین جتنا ایمان اور عمل کر سکتے ہیں، اس پر تاریخ کی شہادت موجود ہے۔ ان سے آئندہ بھی کسی خیر کی توقع، پرلے درجے کی حماقت ہے۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے، اس کا منشا بھی یہی ہے مگر مذکورہ جمہوری اقدار سے بھی زیادہ ضروری دیانت داری ہے۔ میثاق پر دستخط کرنے والے ’’بہن ‘‘اور ’’بھائی ‘‘نے ملک کو اپنی لوٹ کھسوٹ سے دیوالیہ پن سے دوچار کرنے میں کون سی کسر اٹھا رکھی تھی؟ ایک صاحب وزیر اعظم بنے اور ان کے والد محترم حقیقی حکمران اور چھوٹے بھائی، سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ۔ محترمہ وزیر اعظم بنیں تو ان کے شوہر، والدہ، سسر اور کئی رشتہ دار مرکزی کابینہ میں وزیر بنے۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں اس طرح کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ بات دیانت داری کی تھی۔ یہ اولین قدر ہے۔ کسی مذہب، دین، جماعت اور نظریے سے پہلے دیکھا یہ جانا چاہیے کہ دیانتداری کا کوئی معیاری کردار موجود ہے۔ مسلمان تو دور کی بات ہے، جو دیانت دار کے کم سے کم معیار سے نیچے ہے، اس کا دین، مذہب، عقیدہ اور نظریہ محض منافقت اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال نے اسی لیے تو کہا تھا: ’چو می گویم مسلمانم بلرزم‘۔

لیکن دیانت داری کا نام تک لینے کو بھی کوئی تیار نہیں۔ آپ نے بھی اس کا ذکر گول کر دیا ہے۔ سب کو یاد ہو گا کہ ’’باجی ‘‘اور ’’باجے ‘‘کے اس جوڑے سے تھوڑا عرصہ قبل، کم از کم ہماری صف اول کی (قومی) قیادت اس صفت سے مالا مال تھی۔ ۵۸ء سے پہلے کے کسی قائد، فیلڈ مارشل ایوب خان، آغا یحییٰ خان، خود ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق پر مالی بد دیانتی کا کوئی الزام نہیں لگا۔ ضیا کی شہادت پر تو اس کا اپنا مکان تک نہیں تھا۔ (چھوڑ دیجیے اس بات کو کہ ضیا کے فرزندان ارجمند نے کیا کچھ کیا، یہ حقیقت ہے کہ ان کے صاحبزادوں کو مرحوم کی شہادت سے پہلے کوئی جانتا تک نہ تھا) بھٹو صاحب کے بارے میں، میں کبھی مثبت رائے رکھنے پر قادر نہیں مگر ان پر کبھی کسی نے مالی بد دیانتی کا الزام نہیں رکھا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ آج اس کم سے کم معیار پر پورا اترنے والا کوئی شخص کسی صف میں نظر نہیں آتا۔ آخر کہیں تو کوئی حد قائم کرنا پڑے گی۔ 

اوپر جس جوڑے کا ذکر کیا گیا ہے، ان کے ما بین طے پانے والے میثاق کو کیسے ایک میثاق جیسے مقدس لفظ اور ترکیب سے موسوم کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ دو دو ’’باریوں‘‘ کے بعد بھی اعتبار دلوانے کی باتیں کرنے والے کتنے سادہ ہیں اور لوگوں کو کس قدر بے وقوف بنانے پر مشاق ہیں۔ بہرحال ان کے دفاع میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے خلاف بد دیانتی کے الزامات ثابت نہیں ہوئے۔ میں یہ کہوں گا کہ ہم کسی پر کوئی تعزیر کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت جمائے ہوئے نہیں بیٹھے کہ کم سے کم عدالتی معیار کی شہادت کی ضرورت ہو۔ رائے عامہ کی عدالت میں شہرت عامہ کو بھی سیاست میں ایک مقام ملنا چاہیے۔ طاقت ور سیاسی نظاموں میں بڑی مضبوط روایات ہوتی ہیں۔ اس امر پر بہر صورت اجماع لازم ہے کہ بددیانتی اور لوٹ مار کی شہرت عامہ کی زد میں آنے والوں کے لیے قیادت و سیادت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ لہٰذا یہ ضروری تھا کہ آپ قوم کی جانب سے بہن اور بھائی کے اس جوڑے سے معافی کے طلب گار ہوتے۔ متحدہ مجلس عمل کے لوگوں سے بھی اپیل کی جاتی کہ وہ بھی آئندہ کے سمجھوتوں میں کم از کم اس جوڑے سے معافی ہی طلب کریں۔ ملکی معیشت اور وجود تک کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ سمجھوتے کے امکانات کی جستجو کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے لیے گنجائش کی جستجو کرنے والے بہرحال اپنی دیانت و امانت کے بارے میں موجود امیج کو مشکوک بنائیں گے (بشرطیکہ ایسا امیج موجود ہو)۔ 

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

گلی نمبر ۱ عابد جہانگیر کالونی گوجرانوالہ

(۲)

محترم جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کافی عرصہ پہلے آپ کے مجلے میں آپ کا نام پڑھ کر میں نے ایک خط کے ذریعہ دریافت کیا تھا کہ کیا آپ وہی زاہد الراشدی صاحب ہیں جو تقسیم سے قبل اور اس کے بعد بھی جماعت اسلامی کے ایک نوجوان عالم کارکن ہوتے تھے۔ آپ کا جواب نفی میں آیا تھا۔ بہرحال کچھ ماہ سے ’الشریعہ‘ میںآپ کے افکار پڑھتا رہا۔

فروری کا شمارہ جو مجھے بہت دیر سے ملا، یعنی ابھی مئی میں چند روز قبل، تو اس میں شیخ ابو زہرہ کی کتاب کے حوالے سے ’تعارف وتبصرہ‘ کالم کے تحت امام زیدؒ کا بہت ہی مختصر ذکر اور ان کے مذہب کا تعارف پڑھا۔ ساتھ ہی اس تعارف میں اپنے برادر ارشاد سید نفیس شاہ صاحب کا ذکر پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ کا ان سے تعلق ہے۔ شاہ صاحب گزشتہ آٹھ نو برس سے جب بھی کراچی تشریف لاتے ہیں تو اس ناچیز کے گھر بھی قدم رنجہ فرماتے ہیں، اور وہی ۱۹۹۹ میں مجھے اپنے ساتھ مرشدی حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری کے مزار لے گئے تھے۔ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ آپ کو ایران جانے سے قبل امام زید اور ان کے مذہب کا علم نہ تھا۔ امام زید تو سیدنا حسینؓ سے کم مظلوم نہیں ہیں۔ شیعہ حضرات مخصوص اسباب کے تحت ان کا ذکر نہیں کرتے۔ یہ ان کا بڑا ظلم ہے۔ ان کی تو لاش کو جلا کر ہشام اموی نے اس کی راکھ بکھروا دی تھی اور سر کا کوفہ ودمشق میں گشت کرایا تھا۔ یمن میں ۱۹۶۱ کے انقلاب سے قبل جن امام احمد بن یحییٰ کی حکومت تھی، وہ زیدی ہی تھے۔ اب بھی یمن میں شوافع کے ساتھ کافی بڑی تعداد زیدی مذہب کے لوگوں کی ہے۔ آپ کو پسند ہو تو میں امام زید پر ایک تفصیلی مضمون لکھ سکتا ہوں۔

میں نے آپ کے مجلے کو اپنی دو سال قبل کی کتاب ’’خانوادۂ نبوی وعہد بنی امیہ‘‘ بھیجی تھی جو شاید آپ کے مطالعے میں آئی ہو۔ یہ کتاب حضرت سید نفیس شاہ صاحب کو بہت پسند ہے۔ اس میں ناصبیوں کے پیدا کردہ مسائل کا بڑی حد تک شافی رد ہے اور فرقہ پرستی کی مذمت۔ ایک اور کتاب ’’قرآن کی روشنی میں‘‘ بھی بھیجی تھی۔ افسوس کہ تبصرے کے بجائے صرف مختصر نوٹس مجلہ میں شائع ہوئے، اور اس میں بھی غلطی یہ کہ موخر الذکر کتاب کو ساڑھے چار سو سے زائد صفحات کی کتاب کہا گیا، جبکہ اس کے صرف ۳۶۶ صفحات ہیں۔

(ڈاکٹر) رضوان علی ندوی

5۔ گلی P خیابانِ سحر فیز 6

ڈیفنس کراچی

(۳)

مکرمی ومحترمی جناب محمد عمار خان ناصر

السلام علیکم ورحمۃ اللہ!

امید ہے آپ ’الشریعہ‘ کی پوری ٹیم کے ساتھ بخیر وخوبی ہوں گے۔ ماہنامہ ’الشریعہ‘ نے قلیل مدت میں دینی مجلات ورسائل میں جو قابل قدر انفرادی مقام حاصل کیا ہے، اس پر مجلہ کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ جون ۲۰۰۶ کا ماہنامہ ’الشریعہ‘ راقم کے پیش نظر ہے۔ شمارہ مجموعی طور پر مفید اور دل چسپ ہے۔ رئیس التحریر کے پر مغز اداریہ میں ملک کی حالیہ سیاسی صورت حال کا نہایت حقیقی اور غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے جو عوام وخواص، ہر دو طبقات کے لیے قابل غور ہے۔ دیگر مضامین بھی اختصار اور جامعیت کی خوبیاں لیے، لائق مطالعہ ہیں۔

مولانا افتخار تبسم نعمانی کے مضمون ’’مسئلہ طلاق ثلاثہ اور فقہاے امت‘‘ کے حوالے سے چند گزارشات حسب ذیل ہیں:

نہایت حیرت ہوئی کہ مضمون نگار نے ایک نہایت اہم فقہی وعلمی مسئلے پر مناظرانہ، غیر تحقیقی اور غیر علمی انداز اختیار کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ موقف کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بیک دفعہ تین طلاقیں دینے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ فاضل مضمون نگار نے چند نامور فقہا کی کتب سے چند اقتباسات نقل کیے ہیں۔ مذکور فقہاے کرام جیسے امام طحاوی حنفی، امام عینی حنفی، امام نووی شافعی، امام رازی شافعی، قاضی ابو الولید ابن رشد مالکی، امام محمد حنفی وغیرہم تمام کے تمام فقہا طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں تین طلاق کے نافذ ہونے کے قائل ہیں۔ انھوں نے اپنی اپنی کتب میں اس رائے کو بدلائل قطعیہ ثابت کیا ہے۔ مضمون نگار نے مذکورہ فقہا کی عبارات سے جو اقتباسات نقل کیے ہیں، وہ صر ف مخالف آرا کی نقل کی غرض سے تحریر کیے گئے ہیں نہ کہ ان آرا کی حمایت وتوثیق کے لیے۔ فاضل مضمون نگار نے مذکورہ اقتباسات نقل کر کے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ فقہا بیک دفعہ تین طلاق دینے کو ایک طلاق سمجھنے کی رائے کی تحسین کرتے ہیں، حالانکہ ایسا تاثر پیدا کرنا علم وتحقیق کے اصولوں کے منافی ہے۔ صحابہ کرام، تابعین عظام اور فقہاے کرام کی جمہوریت واکثریت اس بات کی قائل ہے کہ تین طلاقیں واقع ہوں گی، جبکہ اہل ظاہر اور چند فقہا جیسے علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم اور عصر حاضر میں اہل حدیث مکتب فکر کا موقف یہ ہے کہ ایک طلاق رجعی ہوگی۔ اہل قلم اہم منصب ومقام کے حامل ہیں۔ انھیں علمی وتحقیقی اخلاقیات کی پابندی کرنی چاہیے۔

عاصم نعیم

لیکچرر شعبہ علوم اسلامیہ، یونیورسٹی آف سرگودھا

(۴)

محترم عمار خان ناصر صاحب، مدیر الشریعہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں گزشتہ دو سال سے ماہنامہ الشریعہ کا باقاعدہ قاری ہوں۔ الشریعہ معاصر جرائد میں ایک وقیع مقام رکھتا ہے اور آزادانہ بحث وتمحیص کا علم بردار ہے، لیکن مئی ۲۰۰۶ کے شمارے نے راقم کو خلجان میں مبتلا کیے رکھا، کیونکہ میں الشریعہ کے علاوہ دوسرے علمی ودینی رسائل وجرائد کو بھی دیکھتا ہوں۔ حافظ زبیر صاحب کا نام میں نے کسی جگہ پڑھا تھا اور میری یادداشت کے مطابق وہ قرآن اکیڈمی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے ہاں ان کو ’’مجلس التحقیق الاسلامی‘‘ لاہور کا ریسرچ اسسٹنٹ لکھا گیا۔ ماہ جون کے الشریعہ سے معلوم ہوا کہ یہ غلط ہے، بلکہ وہ قرآن اکیڈمی لاہور سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ 

ماہ جون کے الشریعہ میں آپ کے اعتذار اور حافظ زبیر صاحب کے خط کو پڑھنے کے بعد میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا کہ آپ نے اپنے آزادانہ بحث وتمحیص کے دعوے کے مطابق عمل نہیں کیا، بلکہ جاوید احمد غامدی صاحب کی بے جا محبت میں آپ نے حافظ صاحب کا مضمون مسخ کیا جو انصاف پر مبنی نہیں۔ میری ناقص رائے میں جو کچھ آپ نے کیا، اس کا آپ کو حق حاصل نہیں تھا۔ آپ کا حق یہ تھا کہ ۱۔ آپ مضمون سرے سے شائع ہی نہ کرتے یا مسترد کر دیتے، ۲۔ مقالہ نگار کی رضامندی سے جتنا ممکن ہوتا، مختصراً شائع کرتے، ۳۔ قسط وار مکمل مضمون شائع کرتے۔ لہٰذا راقم آپ سے ملتمس ہے کہ آپ دوبارہ اس مضمون کو کسی کتر بیونت کے بغیر من وعن شائع کیجیے ۔ فقط اعتذار شائع کر دینے سے حق ادا نہیں ہوا۔

شمس الرحمن

۸/۵۰ شکار پور کالونی، ایم اے جناح روڈ

نزد اسلامیہ کالج، کراچی ۷۴۸۰۰

(۵)

جناب محمد عمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

ماہ مئی کے شمارے میں اکثر مضامین بہت جاندار اور علمی وقعت کے حامل ہیں۔ خاص طور پر حافظ محمد زبیر صاحب کا غامدی کے نظریات پر تحقیقی مضمون بہت ہی پسند آیا۔ غامدی صاحب کے متجددانہ نظریات کے خلاف بہت سے علما اور بزرگوں سے بہت کچھ سنا ہے، لیکن علمی انداز میں ایسی گرفت اب سے پہلے نظر سے نہیں گزری۔ اگر ممکن ہو تو حافظ زبیر صاحب کا تعارف آئندہ کسی شمارے میں ضرور شامل فرما دیں۔

قاسم رضوان

چیف انسٹرکٹر، گورنمنٹ کالج آف کامرس

علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور

مکاتیب

(جولائی ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter