(مرکزِ تحقیق ،فیصل آباد کے زیر اہتمام دوسرے قومی سیرت سیمینار منعقدہ ۳۔۴ جون ۲۰۰۶ کے لیے لکھا گیا۔)
بسم اللّٰہ الرحمن الر حیم۔
الحمدللّٰہ رب العالمین والصلوۃ والسلا م علی جمیع الانبیاء والمرسلین خصوصا علی سید الرسل وخاتم النبین وعلی اٰلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین،اما بعد!
مرکزِ تحقیق ،فیصل آباد کے زیر اہتمام دوسرے قومی سیرت سیمینار میں میری گفتگو کا عنوان ہے ’’باہمی تعلقات کے لیے بین المذاہب مکالمہ کی اہمیت وضرورت، ترجیحات اور تقاضے ‘‘ ۔سب سے پہلے تو میں مرکزِ تحقیق کے منتظمین اور ذمہ داران کو مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا جنھوں نے آج کے معروضی حالات اور تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اس اہم موضوع پراس پروقار تقریب کا انعقاد کیاہے، اوران تما م احباب کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ جیسے طالب علم کو اس اہم اور فکر انگیز موضوع پر اظہارِ خیال کاموقع فراہم کیا۔
معزز حاضرین!
اربابِ دانش سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ گلوبلائزیش(Globalization) کے اس دورمیں بین المذاہب مکالمہ (Inter-Faith Dialogue) کی ضرورت و اہمیت پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے،باہمی مکالمہ ہی وہ واحد آپشن ہے جس سے کسی بھی مذہب کا داعی مخاطب کو اپنی دعوت کی طرف متوجہ کرسکتا ہے ، باہمی مکالمہ دعوت کا ایک ایسا اسلوب ہے جس کے ذریعے مخاطب کو زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پر مجبورکیا جا سکتاہے، گفتگو کایہ ایسا اسلوب ہے جس میں متکلم اور سامع کے درمیان براہ راست گفتگو ہوتی ہے اور حقائق پوری طرح نکھر کر سامنے آتے ہیں، اب یا تو مخاطب مدِّ مقابل کے موقف کو قبول کرلیتاہے یا پھر دلائل کی بنیاد پر رد کر دیتاہے، یہ مکالمہ افراد کے درمیان بھی ہوسکتاہے، تہذیبوں اور مختلف مذاہب کے درمیان بھی۔
سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں بین المذاہب مکالمہ کی اہمیت
بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپﷺ کی امت آخری امت ہے اس لئے امت اجابت ہونے کی حیثیت سے دنیا کے تمام انسانوں تک پیغامِ الٰہی کا پہنچانا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے ۔قرآن و حدیث کے متعدد نصوص سے واضح طور پرامت محمدیہﷺ پر انفرادی اور اجتماعی سطح پریہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ شاہانِ عالم کے نام رسول اللہ ﷺکے دعوتی و تبلیغی خطوط جہاں معاصر مذاہب اور تہذیبوں سے آپ ﷺ کے مکالمہ کی ایک خوب صورت مثال ہیں وہی یہ خطوط اس بات کی بھی دلیل ہیں کہ اسلام اصلاً دینِ دعوت ہے اور اس کی دعوت کا دائرہ کار تمام عالم کو محیط ہے ،اس لئے اس کے عالمی پیغام کو دوسروں تک منتقل کرنا مسلمانوں کادینی فریضہ ہے۔ مذاہبِ عالم میں اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے نہ صرف عالمگیر سطح پر دعوت وتبلیغ کا حکم دیاہے بلکہ دوسری تہذیبوں، قوموں اور افراد کے ساتھ گفتگو اور مکالمے کے باقاعدہ اصول بھی بیان کیے ہیں ۔قرآن مجید نے ایک داعی کے لئے مکالمے کے جو بنیادی اصول بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں :
(اُدْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ) (النحل ،۱۶،۱۲۵)
’’آپ ﷺلوگوں کو اپنے پروردگارکی طرف حکمت اوراچھی نصیحت سے بلائیے اوران کے ساتھ پسندیدہ طریقہ سے بحث کیجئے۔‘‘
اسلام کی یہ ایک ایسی انفرادیت ہے جو اسے تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔ علامہ سید سلمان ندویؒ (م ۱۹۵۳ھ) لکھتے ہیں:
’’یہ نکتہ کہ کس طرح لوگوں کو سچائی قبول کرنے کی دعوت دینی چاہیے دنیامیں پہلی دفعہ محمد رسول اللہﷺ کی زبان وحی ترجمان سے اداہوا، وہ مذہب بھی جو الہامی اور تبلیغی ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے صحیفوں نے ان کے لیے تبلیغ کے اہم اصول کی تشریح کی ہے، لیکن صحیفہ محمدیﷺ نے نہایت اختصار لیکن پوری تشریح کے ساتھ اپنے پیرووں کو یہ بتایا کہ پیغامِ الٰہی کو کس طرح لوگوں تک پہنچایا جائے اور ان کو قبولِ حق کی دعوت کس طرح دی جائے۔‘‘(1)
مذا ہبِ عالم میں عملی طور پر صرف عیسائیت اور اسلام ہی تبلیغی مذاہب ہیں ،دیگر تمام مذاہب کا دائرہ کار کسی خاص علاقے یا نسل تک محدود ہے ،جبکہ عیسائیت کی عالم گیر دعوت اور اشاعت بھی حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات کے منافی ہے کیونکہ ان کی بعثت خاص بنی اسرائیل کی طرف ہوئی تھی۔حضرت عیسیٰ ؑ کا بیان ہے:
’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجاگیا ۔‘‘ (انجیل متّی ،۱۵:۲۴)
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب بارہ نقیب مقرر فرمائے اور ان کو مختلف علاقوں کی طرف دعوت وتبلیغ کے لیے روانہ فرمایا تو بطور خاص ان کوتلقین فرمائی :
’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔‘‘ ( انجیل متی، ۱۰:۶)
الغرض یہ صرف اسلام ہی ہے جس نے اپنے پیروکاروں کو نہ صرف دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کا حکم دیا ہے بلکہ دیگر مذاہب اور تہذیبوں کے ساتھ مکالمے کے بنیادی اصولوں کی تعلیم بھی دی ہے ۔ داعی اعظم ﷺنے مختلف اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ جو مکالمہ فرمایا ،سیرتِ طیبہ سے اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ایک طرف حضورﷺنے عرب کی مشرکانہ تہذیب کے نمائندہ افراد ، سردارانِ قریش اور ان کے وفود سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر مکالمہ کیا ، اور دوسری طرف ورقہ بن نوفل سے لے کر نجران کے عیسائی علماء سے آپ ﷺکا مکالمہ گویا عیسائیت سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر مکالمہ تھا، اسی طرح مدنی دور میں میثاق مدینہ ،جس کے بڑے فریق یہودی قبائل تھے،یہود سے مکالمہ ہی کی ایک صورت تھی۔
ہم زبانی ،بین المذاہب مکالمے کا بنیادی اصول
حضورﷺ کے نزدیک مکالمہ بین المذاہب کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپﷺ نے مختلف صحابہ کرامؓ کودوسری قوموں کی زبانیں سیکھنے کا حکم دیا ،کیونکہ دعوت وتبلیغ اور باہمی مکالمہ میں تاثیر اور قوت اسی وقت پیداہوسکتی ہے جب پیغام کی زبان آسان،نرم اورقابل فہم ہو،ہم زبانی سے اُنسیت میں اضافہ ہوتاہے،اجنبیت دور ہوجاتی ہے اور گفتگو کا مقصد آسانی سے سمجھا اور سمجھایا جا سکتاہے ۔اسی ضرورت کے پیشِ نظر رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن ثابتؓ (م ۴۴ھ) کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا ،تاکہ یہود سے انہی کی زبان میں گفتگو کی جاسکے اور انہی کی زبان میں ان کے خطوط کا جواب دیاجاسکے۔حضرت زید بن ثابتؓ کا بیان ہے:
’’فتعلّمت کتابھم مامرّت بی خمس عشرۃ لیلۃ حتی حذقتہ وکنت اقراء لہ کتبھم اذا کتبوا الیہ واجیب عنہ اذا کتب‘‘(2)
’’پس میں نے ان کی زبان میں لکھنا سیکھ لیا۔ ابھی پندرہ دن نہیں گزرے تھے کہ میں اس میں ماہر ہو گیا۔ جب یہودی کوئی خط آپ ﷺ کی طرف لکھتے تو میں آپ ﷺ کو پڑھ کر سنا دیتا اور اگر آپ ﷺ کو جواب لکھنا ہوتا تو میں وہ لکھ دیتا۔‘‘
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک ایرانی عورت حضرت ابو ہریرہؓ (م ۵۸ھ) کی خدمت میں استغاثہ لے کر آئی کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب مجھ سے میرا بیٹا بھی چھینا چاہتاہے اس عور ت نے یہ ساری گفتگو فارسی زبان میں کی اور ابو ہریرہؓ نے بھی اس سے اسی زبان میں گفتگو کی اور پھر آپؓ نے بچہ عورت کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔(3)
ان واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ نے دوسری قوموں کی زبانیں صرف اس غرض سے سیکھ رکھی تھیں تاکہ ان سے براہ راست تبادلہ خیال کرکے اس کے مسائل کو حل کیاجاسکے۔ بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید کے بعض اجزا کادوسری زبانوں میں ترجمہ بھی کیا تھا تاکہ عربی زبان سے ناواقف لوگ اسلام کی حقیقی روح اور تعلیمات سے محروم نہ رہ جائیں ۔چنانچہ علامہ سرخسیؒ (م ۴۹۰ھ) لکھتے ہیں:
’’روی ان الفرس کتبوا الی سلمانؓ ان یکتب لھم الفاتحۃ بالفارسیۃ فکانوا یقرء ون ذالک فی الصلوۃ حتیٰ لانت السنتھم للعربیۃ‘‘ (4)
’’بیان کیا جاتاہے کہ بعض نو مسلم ایرانیوں نے حضرت سلمانؓ کی خدمت میں لکھا کہ ان کے لیے سورۃ الفاتحہ کو فارسی میں نقل کردیاجائے ،چنانچہ وہ لوگ (اسی ترجمہ کو)نماز میں پڑھتے تھے یہاں تک کہ وہ عربی سیکھ گئے۔‘‘
اسی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک اوربڑے فقیہ نے اپنی کتاب ’’النہایۃ حاشیۃ الھدایۃ ‘‘ میں مزید تفصیل درج کی ہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ (م ۳۳ھ) نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے یہ کام انجا م دیا اور ان کے ترجمے کا ایک جز بھی نقل کیاہے ،’’بنام خداوند بخشا یندہ مہربان ‘‘ یہ بسم اللہ کا ترجمہ ہے ۔(5)
شاہانِ عالم کی طرف بھیجے جانے والے نبوی سفراء کا معجزانہ طور پر انہیں قوموں کی زبان میں گفتگو کرنے لگ جانا بھی دعوت وتبلیغ اور مکالمے میں زبان کی یکسانیت کی اہمیت کو واضح کرتاہے۔(6)
ا س کے علاوہ جن صحابہ کرامؓ کو رسول اللہﷺ نے مختلف قوموں کی طرف داعی اور مبلغ بنا کر روانہ فرمایا اس میں بھی یہ چیز آپ ﷺ کی حکمتِ عملی کا حصہ نظر آتی ہے کہ وہ مبلغ اسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں بصورتِ دیگروہ اس قوم کی زبان، رسم ورواج اور کلچر سے آگاہ ہوں ۔ بہر حال آپﷺ کے طرزِ عمل سے واضح ہوتا ہے کہ آپﷺ کی نظر میں بین المذاہب مکالمے کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ آپ ﷺ نے اس مقصد کے لئے صحابہ کرامؓ کی باقائدہ تربیت فرمائی۔
اسلام کی ترجیح : امن اور مکالمہ
سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب بھی آپﷺ کو جنگ اور امن میں سے کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کا موقع ملا تو آپﷺنے ہمیشہ امن کو ترجیح دی ،یہی وجہ ہے کہ صلح حدیبیہ 6 ھ کے موقع پر آپﷺ نے جنگ پر امن کو ترجیح دی اور ایسی شرائط پر بھی صلح کو قبول کر لیا جن سے بظاہر مسلمانوں کی پسپائی کا واضح تاثر ملتا تھا ،اگرچہ ان شرائط کے قبول کرنے سے مسلمانوں کی دل شکنی ہوئی اور صحابہؓ نے اس پر احتجاج بھی کیا، لیکن آپ ﷺ نے جنگ پر امن کو ترجیح دی کیونکہ آپﷺ اپنے نورِ بصیرت سے دیکھ رہے تھے کہ امن کی صورت میں جب اسلامی اور مشرکانہ تہذیب کے درمیان آزادانہ ماحول میں مکالمہ ہوگا تو قریش اور دیگر قبائل کو مسلمانوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی اوریہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب مسلمان اور قریش باہم ایک دوسرے سے آزادانہ طور پر ملنے لگے اور انہیں ایک دوسرے کے موقف کو سننے اور سمجھنے کا موقع ملا تو صرف دوسال کے عرصہ یعنی فتح مکہ 8ھ تک اتنے کثیر لوگ مسلمان ہوئے جتنے پہلے تمام عرصے میں نہیں ہوئے تھے ۔امام زہری ؒ (م ۱۲۵ھ) کا بیان ہے:
’’فما فتح فی الاسلام فتح قبلہ کان اعظم منہ،انما کان القتال حیث التقی الناس ،فلما کانت الھدنۃ ،ووضعت الحرب وآمن الناس بعضھم بعضا ،التقوا فتفاوضوا فی الحدیث المنازعۃ، فلم یکلم احد بالاسلام یعقل شیئا الادخل فیہ، ولقد دخل فی تینک السنتین مثل من کان فی الاسلام قبل ذلک او اکثر‘‘(7)
’’صلح حدیبیہ سے پہلے اسلام میں اتنی بڑی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی ۔لوگ جہاں بھی ملتے جنگ ہوکر رہتی تھی ،لیکن جب صلح ہوگئی ،جنگ موقوف ہوگئی اور لوگ ایک دوسرے سے بے خوف ہوگئے باہم ملے جلے باتیں ہوئیں تو کوئی عقل مند ایسا نہیں تھا جس سے اسلام کے متعلق گفتگو ہوئی اور اس نے قبول نہ کرلیا۔چنانچہ جتنے لوگ ابتداء سے اب تک مسلمان ہوئے تھے صر ف ان دو برسوں میں ان کے برابر بلکہ ان سے زیادہ تعداد میں لوگ مسلمان ہوگئے۔‘‘
یہاں ضمناً ایک اور بات کا ذہن نشین رہنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں اسلام کی امن پسندی پر استدلال کے لئے صلح حدیبیہ کا حوالہ جس انداز سے دیا جاتا ہے اس سے اس عظیم تاریخی واقعے کی حیثیت محض ایک منفی سمجھوتے کی سی ہو کر رہ جاتی ہے حالانکہ کوئی بھی تاریخی واقعہ یک دم وقوع پذیر نہیں ہوجاتا بلکہ اس کا ایک پورا پس منظر ہوتا ہے۔صلح حدیبیہ کو بھی اگر اس کے تاریخی پسِ منظر میں دیکھا جائے تو صاف معلوم ہو تا ہے کہ سن 6 ھ سے قبل کے واقعات اسلام کے متعلق ہر قسم کے مفعولی تاثر کو ختم کر چکے تھے، اس پسِ منظر میں صلح کا معاہدہ مسلمانوں سے زیادہ خود قریش کی ضرو رت تھا، یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے خونِ عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لئے مسلمانوں سے مشہور بیعت’’ بیعتِ رضوان‘‘ لی اور مسلمان جنگ کے لئے تیار ہو گئے تو قریش نے عافیت اسی میں جانی کہ صلح کے موقع کو ضائع نہ کیا جائے، تاہم آپﷺ نے جن شرائط پر صلح کی اس سے آپﷺ کی امن پسندی کا واضح ثبوت ملتا ہے۔
معزز حاضرین!
اسلام میں دعوت اصل ہے اور جہاد ضرورتاََ،جہاد کی اگر اجازت ہے تو وہ صرف اسلامی تہذیب و تمدن کے دفاع اور استحکام کے لئے ہے،اس لئے لا محالہ اسلام کی ترویج و اشاعت کا تمام تر انحصار صرف دعوت و تبلیغ اور باہمی مکالمہ پر ہے اس لئے ایک سچے داعی کی حیثیت سے ہمارے لئے بین المذاہب مکالمہ کی ضرورت واہمیت کو تسلیم کرنا دینِ اسلام کا بنیادی تقاضہ بن جاتا ہے۔جب اسلام کی ترویج واشاعت کا تمام تر انحصار دعوت و تبلیغ اور باہمی مکالمہ پر ہی ہے تو اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ باہمی مکالمہ اور امن وامان کا ماحول اسلام کی ضرورت ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب بھی دلائل کی بنیاد پر گفتگو ہو گی تو میدان ہمیشہ اسلام اور اہلِ اسلام کے ہاتھ ہی رہے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُون) (التوبۃ ،۹:۳۳)
’’وہ اللہ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو کیسا ہی ناگوار ہو۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں اکثرمفسرین نے یہی لکھا ہے کہ اسلام کا غلبہ تمام ادیان پر عقل واستد لال کی رو سے تو مطلق ہے اور وہ کسی زمانہ اور وقت کے ساتھ مخصوص نہیں البتہ مادی غلبہ اہلِ اسلام کی اہلیت اور صلاحیت کے ساتھ مشروط ہے ،کیونکہ آزادانہ مباحثے اور مکالمے میں آخر کار جو چیز باقی رہے گی وہ سچائی ہے جبکہ کامل اور بے داغ سچائی اسلام کے علاوہ کسی او ر کے پاس نہیں ہے ،اسلام کے پاس طاغوت کو شکست دینے کے لیے دلائل وبراہین کی ہرگز کمی نہیں ہے اور مکالمے کی میز پر یہی ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے ۔
معزز حاضرین !
حقیقت یہ ہے کہ جب دلیل ہار جائے تو انسان اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتاہے توہین آمیز خاکوں سمیت اہل مغر ب کی اسلام کے خلاف موجودہ آویزش در اصل دلیل کی شکست کا اعتراف ہی تو ہے اس وقت جبکہ مغر ب دلیل کی زبان میں اسلام کا مقابلہ کرنے سے پہلو تہی کر رہاہے اور اپنی برتر ٹیکنالوجی کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقابلہ جنگ کے میدان میں کرنا چاہتا ہے ، مسلمان اہلِ دانش کا کام یہ ہے کہ وہ اہلِ مغرب کو مکالمے کی اس کی میز پر کھینچ لائیں جہاں انہیں مدِّ مقابل پر فیصلہ کن برتری حاصل ہے، کیونکہ یہی وہ میدان ہے جس میں اسلام کی کامیابی کے امکانات سو فیصد ہیں بشرطیکہ ہم اسلام کو صحیح طور پر اپنے مخاطبین کے سامنے پیش کرسکیں۔
اس موقف کی ایک دلیل وہ مکالمہ بھی ہے جو نجران کے عیسائی علماء اور حضورﷺ کے درمیان ہوا ، جب عیسائی علماء حضور ﷺ کے دلائل کے سامنے بالکل عاجز آ گئے تو انھوں نے جزیہ دینے کی شرط پر آپ ﷺکے ساتھ صلح کرلی۔ عیسائی علماء کا دلیل اور استدلال کو چھوڑ کر جزیہ پر صلح کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس حقیقت کو جان چکے تھے کہ اسلام کا مقابلہ مکالمے اور استدلال کی زبان میں ممکن نہیں ۔
اہل علم واقف ہیں کہ ولیم میور نے جب Life of Muhammad لکھ کررسول اللہ ﷺ کے مقام اور مرتبہ کو کم کرنے کی کوشش کی تو علامہ شبلی نعمانی ؒ (م ۱۹۱۴ء) نے اپنے قلم کو جنبش دی، اپنے شعورکو مجتمع کیا اور اپنے فہم وادراک کو کام میں لاتے ہوئے’’ سیرت النبی ﷺ ‘‘جیسی معرکۃ الآراء کتاب سے مستشرق موصوف کا منہ بند کر دیا۔دورِ حاضر میں’’ضیاء النبیﷺ ‘‘ کی صورت میں پیر محمد کرم شاہ الازھری ؒ ( م ۱۹۹۸ء) نے بھی یہی خدمت انجام دی ہے۔
عصر حاضر میں اسلام کا مکالمہ کس مذہب سے ہے؟
اس وقت مختلف سطحوں پر بین المذاہب مکالمے کی ضروت و اہمیت پر زور دیا جارہا ہے جون ؍۲۰۰۴ء میں اوسلو (ناروے ) میں پہلی بین المذاہب کانفرنس منعقد ہوئی جس میں گورنمنٹ آف ناروے اور نارویجن چرچ کی دعوت پر مولانا محمد حنیف جالندھری ،مفتی منیب الرحمن، ریاض حسین نجفی اور بشپ سموئیل عزرایاہ وغیرہ نے شرکت کی۔ عالمی سطح کی اس بین المذاہب کانفرنس میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے بین المذاہب ہم آہنگی اور محبت کی فضا کو فروغ دینے پر زور دیا’’اعلانِ اوسلو‘‘کے تحت پاکستان میں بھی ’’ورلڈ کونسل آف ریلیجنز برائے عالمی امن وعدل اجتماعی ‘‘کے زیر اہتمام ۱۶؍ستمبر ۲۰۰۴ء کو نیشنل لائبریری ہال، اسلام آبا د، میں پہلی بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا ۔اس کے بعد سے یہ سلسلہ مسلسل جاری وساری ہے۔ یقیناًیہ ساری کوششیں لائقِ صد تحسین اور قابلِ قدر ہیں ،لیکن اس ساری تگ ودو کے مثبت اور دور رس نتائج اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں جب ہم بعض باتیں طے کرلیں سب سے پہلی بات تو ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ آج کی عالمی صورتِ حال میں اس مکالمے کے اصل فریق کون ہیں؟اور دوسرا، یہ کہ اس مکالمے کاایجنڈا کیاہے؟اس طرح ہمارے لئے یہ ممکن ہو گا کہ ہم علمی حلقوں میں اپنا موقف بہتر طور پر پیش کرسکیں ۔
معزز حاضرین!
فی الوقت دنیا میں اسلام کے علاوہ عیسائیت،یہودیت،ہندو مت،بدھ مت، جین مت وغیرہ ہی کو دنیا کے بڑے اور زندہ مذاہب کی صف میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔وحی ،الہام اور خدا پریقین رکھنے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق انھی مذاہب سے ہے، اپنی غیر فطری اور غیر عقلی تعلیمات کی وجہ سے ان مذاہب کا ماضی میں بھی انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے کوئی زیادہ تعلق نہیں رہا ہے، لیکن عقل پرستی (Rationalism) کے موجودہ دور میں مذہب کا لوگوں کی ذاتی زندگی سے عمل دخل بھی بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا ہے۔ اور اس وقت عملی طور پر مسلمانوں کے علاوہ انسانوں کی غالب اکثریت لا دین اور سیکولر ہے اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ اسلام کے بعد اس وقت بلا امتیاز رنگ ونسل پوری دنیا میں مغربی سیکولر ازم مقبول ترین مذہب کی حیثیت اختیا کر چکا ہے ،تو غلط نہ ہوگا۔ اس وقت جبکہ دنیا کے تمام مذاہب ایک تاریخی یاد گار کی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں، یہ کہنا درست معلو م ہوتا ہے کہ دورِ حاضر میں مغربی فکرو فلسفہ کی بنیاد پر پروان چڑھنے والا سیکولر ازم ہی اسلام کا اصل مدِّ مقابل ہے۔
حالات کے سرسری جائزے سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس وقت مغرب اور مسلمانوں کے درمیان جو علمی ،فکری اور تہذیبی کشمکش جاری ہے اس کے اصل فریق مغرب کے مذہب سے منحرف سیکولر حلقے اور مذہب پر پختہ یقین رکھنے والے مسلمان ہیں ،جبکہ عیسائی علما اس مکالمے کے اصل فریق نہیں ہیں کیونکہ مغرب کے عیسائی رہنماجس مذہب کی نمائندگی کرتے ہیں اس کا مغرب کی اجتماعی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ، اس لئے موجودہ کشمکش میں عیسائی علماء سے مکالمہ کی افادیت محدود ہے۔
اس واضح حقیقت کے باوجود ہمیں عیسائیت اور دیگر مذاہب سے گفتگو اور مکالمے سے انکار نہیں ہے تاہم روایتی عیسائی حلقے سے ہماری گفتگو اس موضوع پر ہونی چاہیے کہ عیسائی مذہبی رہنما اپنے معاشرے کو وحی الہٰی اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپس لانے کے لیے کیا کردار اد اکرسکتے ہیں ؟ جبکہ وہ اصولی طور یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور انسان کی اجتماعی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت جبکہ پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی بنی نوع انسان کی وحی الٰہی اور مذہب کی طرف واپسی کی کوشش کررہے ہیں، سوال یہ ہے کہ مغرب کے مذہبی حلقے اس حوالے سے مسلمانوں کی کیا مدد کرسکتے ہیں ؟۔
مسلمانوں کو اپنے عیسائی مخاطبین پر یہ حقیقت واضح کرنی چاہیے کہ وہ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں جو الحاد اور لادینیت کے خوفناک طوفان کے اندر گھری ہوئی ہے اور الحادو لا دینیت کے اس عالم گیر طوفان کے خلاف مسلمان، مسیحی اور دیگر مذہبی علماء ایک دوسرے کے فطری اتحادی ہیں۔ عیسائی علما ء کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اگر و ہ واقعی وحی اور آسمانی تعلیمات کی صداقت پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور انسانی معاشرے پر اس کی علمبرداری کے خواہش مند ہیں تو انہیں سیکولر حلقے کی تائید کی بجائے وحی اور آسمانی تعلیمات کے معاشرتی کردار کی کوشش کرنی چاہیے۔
روایتی مذہبی حلقے سے مکالمے کے بنیادی اصول
بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ نسلِ انسانی کی فلاح اور بہتری کے لئے ہم مسیحیت کے ساتھ مکالمہ میں مشترک صفات پہ زور دیں ،دینِ ابراہیمی کی مشترک روایت حضرت عیسیٰؑ اور مریم علیہا السلام کا احترام اور ہمارے مشترک سماجی بندھن وغیرہ عیسائیت کے ساتھ مکالمے کی بنیاد بن سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میںآپﷺ کے شاہانِ عالم کے نام خطوط ہمارے لئے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ہرقل اور دیگر عیسائی حکمرانوں سے رسول اللہﷺ کا بذریعہ خطوط جو مکالمہ ہوا اس میں درج ذیل آیت مقدسہ کا مکرر استعمال ہمارے لئے قابلِ توجہ ہے:
(قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْْئاً )(آل عمران ،۳:۶۴)
’’آپﷺ کہہ دیجیے کہ اے اہلِ کتاب ایسے قول کی طرف آ جاو جو ہم میں اور تم میں مشترک ہے وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اورکسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔‘‘
اسی طرح شاہانِ عالم کے نام خطوط لے جانے نبوی سفراء جن کی رسول اللہﷺ نے خاص اسی مقصد کے لئے تربیت فرمائی تھی، نے جس طرح اپنے مخاطبین سے مکالمہ کیاوہ اسلوب بھی ہمارے لئے بین المذاہب مکالمے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ حضورﷺ نے حاطب بن ابی بلتعہؓ (م ۳۰ھ) کو مقوقس ،شاہِ مصر کی طرف دعوتی خط دے کر روانہ فرمایا،ابنِ اثیر(م ۶۳۰ھ) نے حضرت حاطبؓ اور شاہِ مصرکے درمیان ہونے والے مکالمے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب شاہِ مصر نے حضرت حاطبؓ سے یہ کہا کہ اگر تمہارے صاحب اللہ کے رسول ہیں تو پھر تمہارے نبیﷺ نے اس وقت اپنی قوم کے خلاف بد دعا کیوں نہ کی جب ان کی قوم نے ان کو ان کے اپنے شہر سے نکالا ؟تو حضرت حاطبؓ نے فرمایا: عیسیٰؑ بن مریم کی نسبت توآپ خود کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول تھے پھر جب ان کو ان کی قوم نے سولی دینے کا ا رادہ کیا تو انہوں نے ان کو بددعا کیوں نہ دی ؟ یہاں تک کہ اللہ نے ان کوآسمان پر اٹھالیا۔ مقوقس اس برجستہ جواب سے بڑا متاثر ہو ااور کہنے لگا :
’’احسنت!انت حکیم جاء من عند حکیم ‘‘(8)
’’تم نے اچھا جواب دیا تم حکیم ہو او ر حکیم کے پاس سے آئے ہو ۔‘‘
امام ابنِ قیم ؒ ( م ۷۵۱ھ) نے مقوقس اور حضرت حاطبؓ کے باہمی مکالمے کی جو روایت نقل کی ہے وہ حسب ذیل ہے:
حاطبؓ:’’(اس زمین پر )تم سے پہلے ایک شخص (فرعون) گزرا ہے جو اپنے آپ کو ربِ اعلیٰ سمجھتا تھا ۔اللہ نے اسے آخر واوّل کے لیے عبرت بنا دیا ۔پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنا یا لہٰذا دوسروں سے عبرت پکڑو ،ایسانہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں ۔‘‘
مقوقس :’’ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑنہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے ۔‘‘
حاطبؓ:ہم تمھیں اسلام کی د عوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا (ادیان) کے بدلے کافی بنا دیا ہے ۔دیکھو ! اسی نبیﷺ نے لوگوں کو (اسلام کی) دعوت دی تو اس کے خلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے، یہود نے سب سے بڑھ کر دشمنی کی اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے ۔میری عمر کی قسم! جس طرح موسیٰ ؑ نے عیسیٰ ؑ کے لیے بشارت دی تھی،اسی طرح حضرت عیسی ؑ نے محمد ﷺ کے لیے بشار ت دی ہے ،اور ہم تمھیں قرآنِ مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جیسے تم اہلِ تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو ۔جو نبی جس قوم کو پاجاتاہے وہ قوم اس کی امت ہوجاتی ہے اور اس پر لازم ہوجاتاہے کہ وہ اس نبی کی اطاعت کرے او ر تم نے اس نبی کا عہد پالیا ہے ،اور پھر ہم تمھیں دینِ مسیح سے روکتے نہیں ہیں بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں۔‘‘
مقوقس : میں نے اس نبی ﷺ کے معاملہ پرغور کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں نہ جھوٹے کاہن ،بلکہ میں دیکھتاہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے ہیں اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں ،میں مزید غورکروں گا۔‘‘(9)
حضر ت حا طبؓ (م ۳۰ھ) اور مقوقس کے باہمی مکالمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ر سول اللہ ﷺ نے جن اصحابؓ کو دوسری قوموں کی طرف دعوت وتبلیغ کے لیے ر وانہ فرمایا،ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور خاص طور پر اس بات کا اہتمام فرمایا کہ جو صحابیؓ جس قوم کی طرف جائے ایک تو وہ اس قوم کی زبان سے اچھی طرح واقف ہو، دوسرا، وہ ان کے کلچر اور رسم ورواج سے واقف ہو، تیسرا ،وہ ان کے دین سے جس کو وہ اختیار کیے ہوئے ہیں آگاہ ہو اور چوتھا یہ کہ وہ اس سر زمین کے پورے جغرافیہ سے بھی مکمل واقفیت رکھتاہو ،تاکہ باہمی مکالمہ میں اسے ان معلومات کی بنا پراپنے مخاطب پر علمی برتری حاصل رہے ۔ ہم نے اختصار کے پیشِ نظر محض ایک مثال ذکر کی ہے اگر تمام نبوی سفراء کے احوال کاتفصیلی جائزہ لیا جائے تو بین المذاہب مکالمے کے لئے کئی راہنمااصول اخذ کئے جا سکتے ہیں۔(10)
مغرب کے تحفظات پر مکالمے کا اسلوب
جو لوگ خدا ،رسول اور آخرت پر اعتقاد رکھتے ہوں ان کے ساتھ مکالمہ نسبتاً آسان ہے، اگر چہ اہل مغرب کا اب بھی چرچ کے ساتھ کمزور سا تعلق باقی ہے لیکن مغرب کی اکثریت بالخصوص اہلِ یورپ عیسائیت کی بنیادی تعلیمات سے دست بردار ہو چکے ہیں اس لئے مسلمان مبلغین کو مغرب میں تمام خرابیوں کی ذمہ داری عیسائیت کے سر نہیں ڈال دینی چاہیے،بلکہ ان کے ساتھ مکالمے میں ان کے موجودہ نظریات ہی کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے ،جیسا کہ میں نے عرض کیا موجودہ علمی اور فکری کشمکش میں اسلام کے ساتھ مکالمے کا اصل فریق اور مدِّ مقابل مغرب کا موجودہ دانش ور اور سیکولر طبقہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ہمارا مکالمہ اسی وقت مفیدہوسکتا جب ہم مغربی فکر وفلسفہ کے تاریخی ارتقا، پس منظر اور اس کے اصل فکری سر چشموں سے آگاہی رکھتے ہوں اور مغربی افکار کا تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس حوالے سے جن پہلووں پر خصوصی غور وفکر کی ضرورت ہے وہ درج ذیل ہیں۔
ایک تو اس پہلو کا جائزہ لیناضروری ہے کہ مغرب مسیحیت کو چھوڑ کر موجودہ سیکولر ازم تک کیوں اور کیسے پہنچا؟اس لئے ہمارے لئے اس تاریخی حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ کہ سولہویں صدی تک مغرب میں قدیم عیسائیت ہی غالب تھی،طاقت اور اختیار پوپ کے ہاتھ میں تھا۔ مارٹن لوتھر (Martin Luther) (م ۱۵۴۶ء) وہ پہلا شخص تھا جس نے پوپ کے اختیار کو چیلنج کیا اور ساتھ ہی عقلِ انسانی کو وحی کی تعبیر کاواحد ذریعہ قرار دیا ، یہی وہ دور ہے جس کے بعد مغربی معاشرے پر عیسائیت کی گرفت آہستہ آہستہ کمزور پڑنے لگی، لیکن جس فکر نے بالآخر عیسائیت کو مکمل پسپائی اور شکست پر مجبور کیا وہ اٹھارویں صدی عیسوی میں پروان چڑھنے والی تحریکِ تنویر(Enlightenment Movement)اورتحریکِ رومانیت (Romanticism) ہے۔مغرب کی موجودہ روشن خیالی کی تحریک کا یہ وہ مختصر پس منظر ہے جس کا پوری تفصیل کے ساتھ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا پہلو جس کا جائزہ لینا ضروری ہے وہ تحریکِ استشراق (Orientalism) ہے۔ اہلِ مغرب میں اسلام کے بارے میں پائی جانے والی ان بے شمار غلط فہمیوں کو ہم ا س وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک تحریکِ استشراق کے مقاصد ،محرکات اور عالمِ مغرب پر اس کے اثرات کا بھر پور تجزیہ نہ کرلیں، کیونکہ بد قسمتی سے مستشرقین کی مرتب کردہ تاریخ نہ صرف زندہ ہے بلکہ ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر سمجھی جاتی ہے۔اس وقت بھی پوری دنیا میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ اسلام کی جو تصویر کشی کی جارہی ہے اس کا بڑا ماخذ مستشرقین کی وہی تحقیقات ہیں جن کا اسلام کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ۔
مغرب کے ساتھ باہمی مکالمہ کی صورت میں تیسری بات جس کا لحاظ رکھنا ضرو ری ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں قرآن وحدیث سے راہنمائی تو ضرور لینی چاہیے تاہم مغرب کی نفسیات کے مطابق ہمیں سب سے پہلے اسلامی تعلیمات کے عقلی جواز پر بات کرنا ہوگی اور مغرب کے موجودہ سماجی علوم کے ساتھ تقابلی مطالعہ کے بعداسلامی احکام کی افادیت پر دلائل پیش کرنا ہوں گے اور اسلامی تعلیمات کی سماجی اور معاشرتی اہمیت واضح کر نا ہو گی۔بدقسمتی سے اسلامی احکام کے اسرار وحکم پر حضرت شاہ ولی اللہ ؒ (م ۱۱۷۶ھ) کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے بعد کوئی بھی قابلِ قدر کتاب سامنے نہیں آئی۔
مغرب، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو تحفظات رکھتا ہے وہ دو طرح کے ہیں۔ مغرب کے پہلی قسم کے تحفظات تو وہ ہیں جن کا تعلق اسلامی تاریخ اورنظامِ معاشرت سے ہے۔ اسلامی تعلیمات کا یہ وہ حصہ ہے جس کا براہِ راست ٹکراو مغرب کے موجودہ طرزِ معاشرت سے ہے۔ دوسری قسم کے تحفظات وہ ہیں جن کا تعلق دین کی اساس اور بنیاد سے ہے۔ مغرب کے ساتھ ہمارا مکالمہ اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتا جب تک ہم کھلے ذہن اور مکمل تیاری کے ساتھ ان کے تمام تحفظات پربات کرنے کے لئے تیار نہ ہوں۔سب سے پہلے تو ہمیں مغرب سے اس موضوع پر مکالمہ کرنا ہو گا کہ وہ دینِ اسلام پر ایک نظامِ حیات اور طرزِ معاشرت کے طورغور کرے۔
انسانی حقوق اور اسلام
اس وقت مغرب میں مساوات ،آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے بڑی حساسیت پائی جاتی ہے بدقسمتی سے اسلام کے بارے میں یہ غلط تاثر پھیل گیاہے کہ اسلام میں بنیادی انسانی حقوق اور خاص طور پر عورتوں کے حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا ، ہمیں اہلِ مغرب پر واضح کرنا ہوگا کہ اسلام تمام انسانی حقوق کا تحفظ کرتاہے اور اس کے عطا کردہ حقوق ہی فطری بنیادوں پر مبنی ہیں۔ مثلاًجب اسلام ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتاہے تو کیا یہ حرمتِ انسان کا بہترین قانون قرار نہیں پائے گا؟ اسی طرح اسلام کی بیان کردہ دوسری تمام سزائیں بھی ’’انسانی حق‘‘ کے اثبات ہی کے لیے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کے حقوق میں بھی ان کے فطری دائرہ کار اور نفسیات کو مدِ نظر رکھا گیا ہے ۔
ایک داعی کی حیثیت جو بات ہماری خصوصی توجہ کی مستحق ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ انسانی حقوق کے عالمی منشور، (Universal Declaration of Human Rights) جو بجا طور پر آج کا عالمی قانون ہے، کی تمام شقوں کو قبول کرناہمارے لیے ممکن نہیں ہے تاہم ہمیں اس بحث میں زیادہ مثبت اور تعمیری انداز میں حصہ لینا چاہیے اور اگر باہمی مکالمہ میں کسی جگہ لچک کی گنجائش موجود ہو تو اس کا لحاظ کیا جانا چاہیے۔اس حوالے سے سیرت طیبہﷺ سے کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ کئی مواقع پر رسول اللہﷺ نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے بھی بین الاقوامی قانون ،عرف اور قبائلی رسم ورواج کا احترام کیا ۔مثلاً :
جب حضور ﷺ کا مسیلمہ کذّاب کے سفیروں سے مکالمہ ہوا تو آپﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم مجھے اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہو ؟ انھوں نے اقرار کیا، پھر آپﷺ نے سوال کیا کہ کیاتم مسیلمہ کو بھی نبی مانتے ہو تو انھوں نے کہا :ہاں ،اس پر آپﷺ نے فرمایا: اگر سفیروں کا قتل جائز ہوتا تو میں تمہیں قتل کروادیتا۔ دیکھئے اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے لیکن آپﷺ نے ان پر یہ حد جاری نہیں کی بلکہ فرمایا کہ چونکہ عالمی قانون یہ ہے کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا اس لئے میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں ورنہ میں تمہیں قتل کروادیتا۔
سن ۹ہجری میں اقرع بن حابسؓ کی زیرِ قیادت بنوتمیم کا وفد اسلام قبول کرنے کے لیے بارگاہ رسالت ﷺمیں حاضر ہوا،لیکن ان لوگوں نے قبولِ اسلام کے لیے بڑی عجیب شرط لگائی کہ آپﷺ پہلے ہمارے ساتھ مفاخرت کریںآپﷺ کا خطیب ہمارے خطیب کا اور آپ کا شاعر ہمارے شاعر کا مقابلہ کرے تب ہم اسلام قبول کریں گے ۔آپ ﷺ نے ان کے اس مطالبہ کو قبول کیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺکے حکم پر حضرت حسان بن ثابتؓ نے ان کے شاعر زبر قان بن بدر کا مقابلہ کیا اور ثابت بن قیسؓ نے ان کے خطیب عطارد ابن حاجب کا مقابلہ کیا ،بنو تمیم نے با لآ خر حضورﷺ کے شاعر اور خطیب کی برتری کو تسلیم کر تے ہوئے اسلام قبول کرلیا ۔
دیکھا جائے تو وفدِ بنی تمیم کا مطالبہ بالکل لایعنی تھا ،بالفرض اگر مسلمانوں کا شاعر اور خطیب مقابلے میں شکست بھی کھا جاتے تو پھر بھی اسلام کی حقانیت میں کوئی شک نہ تھا،لیکن اس کے باوجود آپﷺنے ان کے رسم ورواج کا احترام کیا۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے دوسری قوموں کے ساتھ مکالمے کی اتنی زبردست تیاری کر رکھی تھی کہ بنو تمیم نے جب قبولِ اسلام کی یہ عجیب وغریب شرط رکھی تو آپﷺ نے بلا جھجک اپنے ان ساتھیوں کو طلب کیا جن کی خاص اسی مقصد کے لئے تربیت کی گئی تھی۔
اسی طرح جب آپﷺ نے شاہانِ عالم کے نام دعوتی خطوط روانہ کرنے کا پروگرام بنایا تو واقفانِ حال نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! حکمرانوں میں یہ اصول ہے کہ وہ ان خطوط پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے جن پر کوئی مہراور سیل(Seal) وغیرہ نہ ہو،چنانچہ اسی وقت آپﷺ نے خطوط کوُ مہر بند کرنے کے لیے مُہر بنانے کا حکم دیا ۔
رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے کردار سے کون واقف نہیں؟ اس کی شر انگیزیوں کی وجہ سے اسلام کو کئی دفعہ نقصان اٹھانا پڑا۔صحابہ کرامؓ نے بارہا اس کے قتل کا ارادہ کیا حتی کہ ایک دفعہ تو خود ان کے اپنے صاحب زادے، جو مخلص مومن تھے، نے بھی حضور ﷺسے اپنے باپ کے قتل کی اجازت طلب کی ، لیکن نبیﷺ نے صحابہ کرامؓ کو ایسے کسی بھی عمل سے سختی کے ساتھ منع کر دیا اور فرمایا کہ میں اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ لوگ یہ کہیں کہ محمدﷺ اپنے ساتھیوں کے قتل کادیتے ہیں ۔اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو عبداللہ بن ابی سخت ترین سزا کا مستحق تھا لیکن آپﷺنے ا س سے پھر بھی در گزر فرمایا صرف اس وجہ سے کہ کہیں عام لوگوں کے ذہن میں اسلام کے بارے میں کوئی منفی تاثر پیدا نہ ہو جائے گویا آپﷺ کی نظر اصولی حکم کے نفاذ کے علاوہ اس کے نتائج اور عملی اثرات پر بھی تھی۔
ان مثالوں سے واضح ہوتاہے کہ ایک داعی کے لیے نہ صرف عالمی قانون، رسم ورواج اور عرف سے واقفیت ضروری ہے بلکہ اگر دعوت اور مکالمہ کے مثبت نتائج کی توقع ہو تو دیگر اقوام کے قوانین اور رسم ورواج کا ممکن حد تک لحاظ اور احترام بھی کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح اگر کسی اسلامی حکم کا نفاذوقتی مصلحت کے خلاف ہو تو اس کے نفاذ میں توقف بھی کیا جاسکتا ہے۔عصرِ حاضر میں مسلمان قانون دانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کا سیرتِ طیبہﷺ کی روشنی میں مطالعہ کریں اور ان پہلوؤں کا جائزہ لیں جہاں باہمی گفتگو اور مکالمہ میں لچک کے پہلو کو مد نظر رکھا جا سکتا ہے۔
اسلام کا تصورِ جہاد
اسلام کے بارے میں اہلِ مغرب کو جو غلط فہمیاں ہیں ان میں سے ایک اسلام کا تصورِ جہاد ہے ، مدنی دور میں رسول اللہ ﷺ نے چھوٹی بڑی تقریباً ستاسی (۸۷) مہمات ترتیب دیں ان تمام مہمات کے مقاصد ،محرکات اور اہداف مختلف تھے ، ان میں سے بعض مہمات انسدادی نوعیت کی تھیں تو بعض دفاعی نوعیت کی تھیں جبکہ بعض خالص دعوتی اور تبلیغی نوعیت کی تھیں، لیکن محدثین اور مسلمان سیرت نگاروں نے ان تمام مہمات کو جن میں ترتیب اور تنظیم کا معمولی سا بھی خیا ل رکھا گیا تھا کتا ب المغازی اور غزوات وسرایاکے عنوان سے ذکر کر دیا جس سے اس غلط پروپیگنڈا نے جڑ پکڑی کہ اسلام جنگ وجدال کا دین ہے۔مغرب میں یہ تاثر عام ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور اگر اب بھی مسلمانوں کو موقع ملا تو وہ بزورِ شمشیر اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرکے دم لیں گے۔
اسلام کے تصورِ جہاد کے حوالے سے اہلِ مغرب کے ساتھ ہمارا مکالمہ دو پہلووں پر ہونا چاہیے ، پہلی بات تو ہمیں یہ واضح کرنا ہوگی کہ ابتدائی ایک دو صدیوں میں اسلام کے اسپین ،وسطی ایشیاء اور برصغیر تک پھیلنے کی بڑی وجہ اسلامی تعلیمات کی کرشمہ سازی اور مسلمان مبلغین کی انتھک کوششیں ہیں ، دنیا کے کتنے ہی علاقے ایسے ہیں جہاں اسلامی فوجوں کا کبھی بھی داخلہ نہیں ہوا لیکن اسلام وہاں بھی موجود ہے ، انڈو نیشیا اور ملا ئیشیاپر بھلا کون سی اسلامی فوجیں حملہ آور ہوئی تھیں ؟ لیکن کیا وہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں ؟۔ اس لئے تاریخ کا کوئی بھی سنجیدہ طالب علم اس حقیقت کو تسلیم کر نے کے لئے تیار نہیں کہ اسلامی تاریخ کے کسی بھی دور میں اسلام کو دوسری اقوام پر ٹھونسنے کے لئے تلوار سے کبھی مدد نہیں لی گئی۔
اس موضوع پرعلامہ اقبالؒ کے استاذ پروفیسر ٹی ۔ڈبلیو آرنلڈ کی کتاب( The Preaching of Islam) ہمارے لئے بنیادی حوالے کی حیثیت رکھتی ہے، بدقسمتی سے جہاد کے بارے میں ہم اسلامی نقطہ نذر کو اہلِ مغر ب پر پوری طرح واضح نہیں کر سکے ، عام لوگ اب بھی اسی پرانی غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ ہمیں اہلِ مغرب کو قائل کرنا ہوگاکہ اسلام کے پھیلاؤ کی وجوہات دیگر بھی ہیں۔مثلاً ہمیں دلائل کے ساتھ بتانا ہوگا کہ بہت سے عیسائی جن سے ابتدائی دور میں اسلام کا مکالمہ ہوا وہ بھی مسلمانوں کی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی الوہیت کے قائل نہیں تھے۔ اس لئے عقائد کی یکسانیت ابتدائی دور کے مسیحیوں کے قبولِ اسلام کا بڑا سبب بنی ہے، ڈاکٹر حمید اللہ ؒ (م ۲۰۰۱ء) لکھتے ہیں :
’’نجاشی فرقہ طبیعت واحد کا (یعنی مانو فرائٹ) عیسائی تھا ۔اور ان دنوں اس فرقے اور یونان کے عیسائیوں میں بڑے سخت اختلافات تھے ،آخر الذکر اس بات کے قائل تھے کہ حضرت عیسیٰ میں بوقت واحد دو طبیعتیں تھیں،انسانی اور خدائی بھی ۔ابرہہ جو (یمن میں ) نجاشی کا نائب تھا ۔حضرت عیسی ٰ کو ابن اللہ نہیں مانتاتھا بلکہ صرف مسیح اللہ ۔غالباً نجاشی کے بھی یہی عقائد ہوں گے ۔اور یہ مسلمانوں کے عقائد کے بہت مماثل ہیں ‘‘(11)
اسی طرح روم اور ایران کے لوگوں نے قیصر وکسریٰ کی نسبت مسلمانوں کے کم جارحانہ اندازِ حکمرانی اور مناسب اور قانونی ٹیکسوں کے نفاذ کو خوش آمدید کہا اور یہی چیز ان کے قبولِ اسلام کا بنیادی سبب بنی ۔
دوسرا، ہمیں اہلِ مغرب کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ جنگ ، انسانی نفسیات کا لازمی جزوہے ۔ اس لیے دنیا کی ہر تہذیب میں جنگ بہر طور موجود رہی ہے ۔ اہلِ مغرب جو اس وقت امن کے سب سے بڑے داعی ہیں ان کا موجودہ رویہ اس حقیقت کازندہ ثبوت ہے ۔ اسلام نے انسانی نفسیات کے اس پہلو سے آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ انسان کے جنگی جنون کی تہذیب و تطہیر کرکے اس کو جہاد کے روپ میں پیش کیا ہے ، اس سلسلے میں جہاد و قتال کے اسلامی قواعدو ضوابط ، جنگی جنون کی منفیت عیاں کرنے کو کافی ہیں ۔
خلافت اور جمہوریت
اسلام کے حوالے سے مغرب میں ایک اور غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اگر مسلمان طاقت میں آگئے تو وہ پوری دنیا میں خلافت کا نظام نافذ کریں گے اور طالبان طرز کا کوئی نظامِ حکومت نافذ کرکے لوگوں کی شخصی آزادیاں اور حقوق سلب کر لیں گے۔ برطانیہ کے موجود ہ وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ مسلمان خلافت کا نظام واپس لانا چاہتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔
اسلامی نظامِ خلافت کے خلاف اہلِ مغرب کے اس شدید ردِ عمل کی اصل وجہ اور پسِ منظر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مغرب کی اس غلط فہمی کی بڑی وجہ مغرب کا وہ دور ہے جسے قرونِ مظلمہ (Dark Ages) کہاجاتا ہے،جس میں پوپ ہی طاقت کا اصل سر چشمہ اور وہی فائنل اتھارٹی(Final Authority) تھا۔ پوپ نے ہمیشہ اربابِ حل وعقد کا ساتھ دیا اور حکمرانوں کو مذہبی تحفظ فراہم کیا،دوسری طرف عوام کو کسی قسم کے سیاسی حقوق حاصل نہ تھے ۔ اصل میں مغرب نے اسلام کے نظامِ خلافت کو بھی یورپ کے د ورِ تاریک میں اپنے ہاں پائی جانے والی مذہبی حکومتوں پر قیاس کر رکھا ہے۔ مغرب نے صدیوں کی کشمکش کے بعد جو سیاسی اور شخصی آزادیاں حاصل کیں ہیں وہ اب انہیں کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا۔
اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم مغرب پر یہ بات واضح کریں کہ اسلام کے تصورِ خلافت کو پاپائیت کے ساتھ کوئی نسبت نہیں کیونکہ مسلما نوں کاخلیفہ عیسائیوں کے پوپ کی طرح خدا کا نمائندہ نہیں ہے، جس کی کسی بات کو نہ تو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی دلیل کا پابند ہے ایک دفعہ جب حضرت صدیق اکبرؓ (م ۱۳ھ) کو ایک شخص نے خلفیۃ اللہ کہا تو آپؓ نے فوراً ا س کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اللہ کا خلیفہ نہیں بلکہ اس کے رسول ﷺ کا خلیفہ ہوں۔پوپ کے بر عکس مسلما نوں کاخلفیہ خدا کی بجائے رسول اللہ ﷺ کا نمائندہ ہے ، جو مطلق العنان نہیں بلکہ دلیل کا پابند ہوتاہے ، جس سے اختلاف بھی کیاجاسکتاہے، اور جو ایک خاص دائرے میں رہ کر ہی اپنے فرائضِ منصبی ادا کر سکتا ہے،چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ خلفاء راشدین سے دیگر مسلمانوں نے نہ صرف اختلاف کیا بلکہ بسااوقات ان کو اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور بھی کیا۔یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ (م ۲۳ھ)جب مسلمان عورتوں کے لئے مہر کی ایک خاص مقدار مقرر کرنا چاہی توایک خاتون نے ان کو بر سرِممبر ٹوک دیا اور پھر حضرت عمرؓ کو اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑا۔
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان علماء نے ہمیشہ دلیل اور حق کا ساتھ دیا ہے اور ہمیشہ عوام کے شانہ بشانہ مذہبی اور سیاسی حقوق کی جنگ لڑی ہے پوری اسلامی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ ،(م ۱۵۰ھ) امام احمد بن حنبل ؒ (م ۲۴۱ھ) اور کتنے ہی جلیل القدرآئمہ نے وقت کے حکمرانوں کو چیلنج کیا اور اپنی جانوں تک کی پرواہ نہ کی۔ ہمیں مغرب کو قائل کرنا ہو گا ہمارا ماضی ان کے ماضی سے بالکل مختلف ہے ،اس لئے مغرب کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنا تاریک ماضی دکھا کر ہمیں ہمارے روشن ماضی سے محروم کر دے۔
اگر ہم اہلِ مغرب کو اس بات پر قائل کرلیں کہ اسلام کا معاشرتی ،معاشی اور سیاسی نظام انسانی سوسائٹی کے لئے زیادہ مفید اور بہترہے تو پھر شاید ہمارے لئے ان کے ان تحفظات کو دور کرنا مشکل نہیں ہوگا جن کا تعلق دین اور مذہب کی اساس سے ہے۔ اہلِ مغرب کے وہ تحفظات جن کا تعلق اسلام کے بنیادی اور اساسی تصو رات سے ہے وہ درج ذیل ہیں:
خدا کے وجود کا اثبات
یہاں بھی ہمیں اہلِ مغرب سے مکالمہ کرتے وقت اس ماحول کو پیشِ نظر رکھناہو گا جس میں مغربی ذہن پر وان چڑھتا ہے اور شعور کی منازل طے کرتا ہے۔ اہل مغرب، جو ہر چیز کو عقل (Reason) کی بنیاد پر پرکھنے کے عادی ہیں ان کے سامنے خدائی کتاب کی بنیاد پر اپنے دلائل شروع کرنے سے پہلے خود خدا کے وجود کو زیر بحث لانا ہوگا ورنہ مغرب کی خطرناک حدتک آزاد سوچ ہمیں غیر سنجیدہ قرار دے گی ۔ سائنسی امکان اور عقل کی بنیاد پر اگر خدا کے وجود کے لیے فطرت کے مشاہدے پر زور دیا جائے تو شاید ہمیں کامیابی حاصل ہو۔ جیسا کہ مکی عہدِ نبوت میں رسول اللہﷺ نے اہلِ مکہ کو عقل اور مشاہدہ فطرت کی بنیاد پر اسلام کی طرف متوجہ کیا تھا۔
اسلام ،عیسائیت اور یہودیت کی نئی صورت گری ہے؟
مغرب میں اسلام کے بارے صرف عوام ہی نہیں بلکہ خواص کے ذہن میں بھی یہ تصور راسخ ہے کہ اسلام کوئی مستقل دین نہیں بلکہ یہ عیسائیت اور یہودیت ہی کا نیا روپ ہے اس خیال کی ترویج میں بنیادی کردار تحریکِ استشراق کا ہے۔دوسری صدی ہجری کے مشہور عیسائی عالم یوحنا دمشقی (John of Damascus)کوتحریکِ استشراق کا بانی قرار دیا جاتا ہے ،اس نے ’’محاورۃ مع المسلم‘‘ اور ’’ارشادات النصاریٰ فی جدل المسلمین ‘‘ نامی کتب سے اسلام کے خلاف جس منفی پروپیگڈے اور قلمی مناظرے کا آغاز کیا تھا ،مغرب میں اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں ۔ پیر محمد کرم شاہ الازھری ؒ نے اپنی قابل قدر تصنیف ’’ضیاء النبی ﷺ‘‘ کی چھٹی اور ساتویں جلد میں تحریکِ استشراق کا بھر پور جائزہ لیا ہے۔
اہلِ مغرب جو سماجی ،معاشرتی اور سائنسی علوم کی معراج کو پہنچے ہوئے،میں آج بھی اسلام کے بارے میں نہ جاننا کم علمی کی دلیل نہیں ہے ، مغرب میں یہ تاثر اب بھی عام ہے کہ اسلام، عیسائیت اور یہودیت ہی کی مسخ شدہ تعلیمات پر مبنی ہے اوراسلامی قوانین یہودیوں کی فقہ’’ تالمود ‘‘سے اخذ شدہ ہیں جن کا زیادہ زور ان کے ظاہری الفاظ پر ہے نہ کہ مقاصد پر۔ مشہورمستشرق ول ڈیورانٹ(Will Durant)(م ۱۹۸۱ء)نے اپنی کتاب The Age of Faithمیں،فلپ کے ہٹی(Philip K Hitti)نے اپنی کتابIslam and the West میں اور مستشرق موریس سیل(Morris S Seale)نے اپنی کتاب(Muslim Theology)میںیہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن وحدیث کا بڑا حصہ یہودی اور عیسائی روایات ہی سے ماخوذ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام اور عیسائیت کے تقابلی مطالعہ سے اہل مغرب کی ا س غلط فہمی کو دورکیا جائے۔(12)
قرآن وحی الٰہی ہے
رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے انکار کی وجہ سے مغرب میں قرآن کو آسمانی صحیفے کے بجائے محمدﷺ کی ذاتی تصنیف سمجھا جاتا ہے ۔اس غلط فہمی کی بڑی وجہ بھی ماضی کا پروپیگنڈا ہی ہے جس کو زائل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ گذشتہ کئی صدیو ں سے کئی یورپی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کیا جا رہا ہے لیکن ان تراجم کے اسلوب پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان مترجمین کے پیش نظر اسلام کا تعارف کروانے کی نسبت مسیحی جنگوؤں کو مقدس جنگ (Sacred War) کے لیے مسلمانوں کے خلاف تیار کرنا تھا ،بعد کے دور میں قرآ ن مجید کے تراجم میں یہی اسلوب کسی نہ کسی انداز میں غالب رہا ہے، اسی پروپیگنڈے کے زیر اثر مسلمانوں کو محمڈن (Muammadan) پکارا گیا اور اسی سے محمڈن لا (Muhammadan Law)کی اصطلاح وجود میں آئی ۔
قرآن مجید ہر دور کے لیے نبی کریم ﷺ کا زندہ وجاوید معجزہ ہے عہدِ رسالت میں بھی لوگوں نے قرآنِ مجید کو جب حضورﷺ کی اخترا ع قرار دیاتو آپ ﷺ نے قر آن مجید کی فصاحت وبلاغت، اس کے اسلوبِ بیان اورہر قسم کے تناقض سے مبرّا ہونے کو اس کے کلام الٰہی ہونے پر دلیل کے طور پر پیش کیا ۔ عقل پرستی کے موجودہ دور میں قرآن مجید کا معجزانہ پہلو اس کی تعلیمات کے علاوہ وہ سائنسی اور تاریخی حقائق ہیں جن کو قر آن نے بیان کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قر آ نِ مجید کے اس پہلو پر توجہ دیں اور اہلِ مغرب کو یہ بتائیں کہ کتنے ہی ایسے تاریخی اور سائنسی حقائق ہیں جن تک مغرب صدیوں کی محنت او ر تجربات کے بعد پہنچاہے لیکن قرآنِ مجید نے صدیوں پہلے ان حقائق کو بیان کردیا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے ڈاکٹر موریس بوکائے کی کتاب The Bible, The Quran and Science اوراس کے بعد اس موضوع پر شائع ہونے والی دیگر کتب اس حوالے سے ہماری توجہ کی خصوصی مستحق ہیں۔
اسلامی دنیا میں مذہبی تکثیر یت کا وجود
اہل مغر ب میں اسلام کے بارے یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں اقلیتو ں کے حقوق کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس لئے مغرب سے مکالمہ میں اس نکتہ کو اجاگر کرنا ضروری ہے کہ عہدِ رسالتﷺ اور اس کے بعد کی اسلامی دنیا بالخصوص مصر، لبنان ،انڈیا اور عثمانی ترکوں کے دور میں ہمیشہ قرآنی اصول کے مطابق لوگوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل رہی ہے ۔اسلامی دنیا میں مذہبی تکثیر یت کا وجود ہمارے موقف کی واضح شہادت مہیا کرتاہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن مجید کی اصولی تعلیم:
(لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّّ)(البقرۃ،۲:۲۵۶)
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں،ہدایت تو گمراہی سے صاف صاف کھل چکی ہے‘‘
کی نظری اور عملی تبلیغ اور اشاعت کی جائے۔اس کے علاوہ عہدِ رسالت ﷺ، عہدِ خلافتِ راشدہ اور مسلم عروج کے ان تاریخی معاہدات سے بھی استشہاد کیا جا سکتا ہے ،جن میں مذہبی آزادی کے تحفظ کا وعدہ کیا گیاہے۔
اسلام ایک حقیقی متبادل
اہلِ مغرب میں اعلیٰ ترین سطح پر اب یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ مذہب سے مکمل دستبرداری ان کے معاشرتی اور تہذیبی زوال کا باعث بن رہی ہے اور موجودہ مغربی فلسفہ ان کے تمام مسائل کا حل نہیں ہے اس وقت اہلِ مغرب جو روحانی خلا محسوس کر رہے ہیں اس کی بنا پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا فی الوقت مغربی سیکولر ازم کو ایک خاص مفہوم میں بحران کا سامنا ہے اس حوالے سے ماہنامہ’’ الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ (بابت ماہ اگست ۲۰۰۵ء) میں پروفیسر میاں انعام الرحمن کاتجزیاتی مضمون ’’مغرب کی ابھرتی ہوئی مذہبی شناخت‘‘قابل مطالعہ ہے۔ پروفیسر موصوف کا تجزیہ یہ ہے کہ آج کی عالمی صورتِ حال میں مذہب ایک بار پھراہلِ مغرب کی زندگی میں دبے پاؤں داخل ہورہاہے ، اس لئے مسلمان اہلِ علم کے لیے یہ مناسب وقت ہے کہ وہ اہلِ مغرب کے سا منے اسلام کو بہتر انداز میں پیش کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مغرب کی نفسیات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اسلام کوآج کے جدید اسلوب ،تکنیک اور زبان میں پیش کیا جائے کوئی وجہ نہیں کہ اسلا م اپنی فطری تعلیمات کی وجہ سے مغرب کے اعلیٰ ذہن کو متاثر نہ کرے۔
ضروری گزارش
کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے رجالِ کار کی تیاری بڑی اہمیت رکھتی ہے ،چونکہ اسلام کی اشاعت کا تمام انحصار دعوت وتبلیغ اور دوسری قوموں سے مکالمے پر ہے اس لیے رسول اللہ ﷺنے نہ صرف بین المذاہب مکالمے کی عملی مثال قائم کی بلکہ ایسے افراد بھی تیار کیے جو دوسری قوموں سے مکالمے کی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے اب جبکہ حالات کے جبر نے ہمیں بین المذاہب مکالمے کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے، ہمارے پاس ایسے افراد کی شدید کمی ہے جن کی مغربی فکرو فلسفہ پر تنقیدی نظر ہو اور جو اہلِ مغرب کی ذہنی ساخت ان کی نفسیات، پسِ منظراور تکنیک سے واقف ہوں،اس وقت ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو لوگ علمی رسوخ رکھتے ہیں وہ مغربی زبان وادب اور مغرب کی نفسیات سے واقف نہیں اور جو لوگ مغربی زبان اور محاورے کو جانتے ہیں وہ علمی طور پر کمزور ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدارس اور جامعات کے نصابِ تعلیم میں مغربی فکروفلسفہ کو بطور لازمی مضمون کے شاملِ نصاب کیا جائے ،تاکہ ایسے رجالِ کار کی تیاری ممکن ہو جو مغرب کے دا نش ور طبقے سے پورے اعتماد کے ساتھ بات کرسکیں ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یونانی فکر وفلسفہ کے عروج کے دور میں مسلمان اہل علم نے یونانی علم کلام اور فلسفہ پر مکمل عبور حاصل کیا اور پھر یونانی فکروفلسفہ کے علمی اور تحلیلی جائزے کے بعد اسلامی فکر کی برتری کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا۔ دورِ حاضر میں مسلمان اہل علم پر لازم ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی تاریخ کو دہراتے ہوئے جدید علمِ کلام اور مغربی فکروفلسفہ پر عبور حاصل کریں ،تاکہ مغربی فکر کابھر پور تنقیدی جائز ہ لے کر اربابِ دانش پر اس کی کمزوریوں اور کھوکھلے پن کو واضح کیا جا سکے۔
پاکستان میں ماہنامہ’’ ساحل ‘‘کراچی ، ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ اورسہ ماہی’’مغرب اور اسلام ‘‘ اسلام آباد ، کے علاوہ کئی دیگر رسائل میں مغربی فکر پر تنقیدات شائع ہوتی رہتی ہیں ، لیکن ان کوششوں کو زیادہ مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔میری معلومات کے مطابق علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،اسلام آباد اور مولانا زاہد الراشدی کے زیر نگرانی قائم ’ الشریعہ اکادمی ‘گوجرانوالہ کے علاوہ شاید چند ہی ایسے ادارے ہوں گے جہاں پر مغربی فکروفلسفہ کا تعارفی اور تنقیدی جائزہ مستقل مضمون کے طور پر داخلِ نصاب ہو۔
ایک اور چیز جس کا ہمیں خاص طورسے لحاظ رکھنا چاہے وہ یہ ہے کہ مغرب کے ساتھ مکالمہ میں ہمارا رویہ معذرت خواہانہ اور دفاعی کی بجائے اقدامی ہونا چاہیے، ہمیں اسلام کے بنیادی عقائد اور نظریات کی ایسی تاویل سے اجتناب کرنا چاہیے جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔معروف روایت کے مطابق جب قریشی وفد حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ کے سامنے مختلف آپشنز(Options) ر کھے کہ آپﷺ جو پیش کش بھی چاہیں قبول کر لیں اور دعوت وتبلیغ سے باز آجائیں تو آپﷺ نے اس وقت جو الفاظ ارشاد فرمائے وہ ذہنی مرعوبیت کے شکار لوگوں کے لئے خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں ، آپﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں تب بھی میں اپنے مشن سے پیچھے ہٹنے والا نہیں۔
اسی طرح جب شاہِ حبشہ نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا تاکہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ اورعیسائی مذہب کے بارے اپنا موقف بیان کریں ، تو مسلمانوں سخت پریشان ہوئے کیونکہ سچ کہنے کی صورت میں نجاشی اور درباریوں کے ناراض کا خطرہ تھا ،لیکن آپﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ نے باہمی مشاورت کے بعد یہ متفقہ فیصلہ کیا :
’’نقول واللّٰہ ماقال اللّٰہ وماجاء نابہ نبینا‘‘(13)
’’اللہ کی قسم ہم وہی کہیں گے جو اللہ کا حکم اور رسول اللہﷺ کی تعلیم ہے ‘‘
اس لئے ہمیں کسی قسم کی ذہنی مرعوبیت کے بغیر پورے اعتماد کے ساتھ مغرب کو قائل کرنا ہوگا کہ اسلام ہی ایک ایسا تریاق ہے جو مغرب کی تہذیب کو ہر قسم کے نقائص سے پاک کرکے زندہ وجاوید کر سکتاہے۔ مغرب کے تمام مسائل ،خاندانی نظام کی شیرازہ بندی ،بچوں میں بڑوں کا احترام پیدا کرنا،باہمی اخو ت ،نسلی تفاخر کا خاتمہ ،نفسیاتی استحکام ،احترامِ آدمیت ،تحمل ،ایڈز جیسی بیماریوں کے خلاف سماجی مدافعت وغیرہ کاحل صرف اسلام کے پاس ہے ۔
حوالہ جات
(1)شبلی نعمانی ،ؒ علامہ( م ۱۹۱۴ء) ’’سیرۃ النبیﷺ‘‘، ۴؍۹۱ (الفیصل ناشران وتاجران کتب اردو بازار ،لاہور،)
(2)احمد بن حنبل ؒ ،ابو عبداللہ الشیبانی، الامام (م ۲۴۱ھ) ’’المسند‘‘ ،حدیث زید بن ثابتؓ،ح:۱۱۰۸،۶؍۲۳۸(دار احیاء التراث العربی،بیروت،۱۹۹۱)
(3)ابو داودؒ ،سلیمان بن الاشعث بن اسحاق السجستانی (م ۲۷۵ھ) ’’سننِ ابی داود‘‘،کتاب الطلاق،باب من احق بالولد،ح:۲۲۷۷،ص:۲۳۰(دارالسلام للنشر والتوزیغ ،الریاض،۱۹۹۹ء)
(4) سرخسی ،ابو بکر محمد بناحمد بن ابی سھل ،(م ۴۹۰ھ) ’’المبسوط ‘‘ کتاب الصلوٰۃ ،۱/۳۷،(دار المعرفۃ ،بیروت ،۱۹۷۸ء)
(5) حمید اللہ ،ڈاکٹر ،(م ۲۰۰۲ء) ’’صحیفہ ہمام بن منبہ‘‘ ص ۱۹۳،(ناشر رشید اللہ یعقوب ،کلفٹن ،کراچی ،۱۹۹۸ء)
(6)ابن سعد ،ابو عبد اللہ محمد،(م ۴۵۶ھ) ’’الطبقات الکبری ‘‘ذکر بعثۃ رسول اللّٰہ ﷺ الرسل بکتبہ الی الملوک ، ۱/۲۵۸،(دار صادر ،بیروت،۱۹۸۵ء)
(7)ابن ہشام ،ابو محمد عبدالمالک(م ۲۱۸ھ) ’’السیرۃ النبویۃ‘‘ امر الھدنۃ ،۳/۳۵۱ (دار احیاء التراث العربی ،بیروت، ۱۹۹۵ء)
(8)ابنِ اثیر،ابو الحسن علی بن ابی البکرمحمد ابن اثیر الجزری (م ۶۳۰ھ) ’’اسد الغابۃ ‘‘تذکرۃ حاطب بن ابی بلتعۃؓ ،۱/۳۶۲ (دار احیاء التراث العربی ،بیروت)
(9)ابنِ قیم الجوزیہ،ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر(م ۷۵۱ھ) ’’زاد المعاد ‘‘۳؍۶۹۱،۶۹۲ (موسسۃ الرسالۃ،بیروت،۱۹۷۹ء)
(10)مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو: راقم الحروف کی کتاب’’صحابہ کرام کا اسلوبِ دعوت و تبلیغ‘‘ صفحہ ۱۷۷۔۱۸۷ ، (ناشر ،مکتبہ جمال کرم،لاہور، ۲۰۰۴ء)
(11)حمید اللہؒ ،ڈاکٹر ،(م ۲۰۰۱ء) ’’رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی ‘‘، ص:۱۲۷(دار الاشاعت ،کراچی،۱۹۸۷ء)
(12)راقم الحروف نے اپنے پی ایچ ۔ڈی کے زیرِ تکمیل مقالے ’’صحاح ستہ کی احادیث پر منکرینِ حدیث اور مستشرقین کے اعتراضات کا علمی جائزہ‘‘ میں مستشرقین کے ان اعتراضات کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔
(13)ابنِ ہشام ،۱/۳۷۳