(ایک مجلس میں یا ایک جملے میں تین طلاقوں کے وقوع کے بارے میں بحث ایک عرصے سے ’الشریعہ‘ کے صفحات میں جاری ہے اور مختلف حضرات کے مضامین اس سلسلے میں شائع ہو چکے ہیں۔ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاے امت کا موقف یہ ہے کہ ایک مجلس میں یا ایک جملے سے دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی واقع ہو تی ہیں، جبکہ مستند اہل علم کا ایک گروہ جس کی نمایاں ترجمانی شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے رفقا کرتے ہیں، اس صورت میں ایک طلاق کے واقع ہونے کا قائل ہے۔ اس مسئلے پر جمہور علما کے موقف کی وضاحت کے لیے شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے ’’عمدۃ الاثاث فی حکم الطلقات الثلاث‘‘ کے نام سے ایک مستقل کتابچہ تصنیف کیا ہے جس کے باب اول میں انھوں نے جمہور کے موقف کے دلائل ذکر کیے ہیں۔ اس باب کا خلاصہ قارئین کی معلومات کے لیے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ فروعی فقہی اور مسلکی اختلافات اور ان پر روایتی طرز کا بحث مباحثہ ’الشریعہ‘ کے دائرۂ موضوعات میں شامل نہیں۔ ان صفحات میں تین طلاقوں کے مسئلے کی طرف توجہ اصلاً معاشرتی صورت حال کے تناظر میں دلانے کی کوشش کی گئی ہے جو اپنی سنگینی کے پیش نظر اہل علم کی توجہ اور اجتہاد کی متقاضی ہے۔ اس بحث میں مزید حصہ لینے کے خواہش مند اہل قلم اگر اس نکتے کو ملحوظ رکھیں تو بحث زیادہ مفید اور نتیجہ خیز ہوگی۔ مدیر)
۱۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا قاعدہ اور ضابطہ یہ بیان فرمایا ہے کہ دو طلاقوں کے بعد خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہے اور اسی طر ح بیوی کو حبالہ عقد اور نکاح میں نہ رکھنے کا حق بھی اسے پہنچتا ہے، لیکن اگر دو مرتبہ طلاق دے چکنے کے بعد تیسری طلاق دے دے تو اب وہ عورت اس مرد کے لیے حلال نہیں تاوقتیکہ وہ شرعی قاعدہ کے مطابق کسی اور مرد سے نکاح نہ کر لے اور پھر وہ اپنی مرضی سے طلاق دے اور عدت گزر جائے۔
فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْْرَہُ (البقرہ ۲۳۰)
’’پھر اگر شوہر اس کو (تیسری مرتبہ) طلاق دے دے تو اب وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں، تاآنکہ وہ اس کے علاوہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح کر لے۔‘‘
یہاں حرف فا ہے جو اکثر تعقیب بلا مہلہ کے لیے آتا ہے جس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ دو طلاق کے بعد اگر فی الفور تیسری طلاق بھی کسی نادان نے دے دی تو اب اس کی بیوی اس کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے۔ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ایک ہی مجلس اور ایک ہی جگہ میں تین طلاقیں دی جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت کریمہ کی تفسیر اور مفہوم میں دفعۃً تین طلاقیں دینا بھی داخل ہے اور یہ متفرق طور پر تین طلاقوں کے لیے ہی متعین نہیں اور نہ اس میں یہ نص ہے کہ دفعۃً تین طلاقوں کو شامل نہ ہو۔
۲۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ سو اس نے کسی اور مرد سے نکاح کیا اور اس نے (ہم بستری سے پہلے) اسے طلاق دے دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہے تو آپ نے فرمایا کہ نہیں، جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہم بستری نہ کر لے (اور لطف اندوز نہ ہو جائے) (بخاری ۲/۷۹۱، مسلم ۱/۴۶۳، السنن الکبریٰ ۷/۳۳۴)
اس حدیث میں ’طلق امراتہ ثلاثا‘ کے جملہ کی تشریح میں حافظ ابن حجر عسقلانی اور حافظ بدر الدین عینی فرماتے ہیں کہ یہ جملہ ظاہراً اسی کو چاہتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی اور دفعۃً دی گئی تھیں۔ (فتح الباری ۹/۴۹۵، عمدۃ القاری ۹/۵۳۷)
۳۔ حضرت عائشہؓ سے سوال کیا گیا کہ کوئی شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور اس کے بعد اس کو تین طلاقیں دے دیتا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ عورت اس شخص کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے لطف اندوز نہ ہو جائے جس طرح کہ پہلا خاوند اس سے لطف اٹھا چکا ہے۔ (مسلم ۱/۴۶۳، السنن الکبریٰ ۷/۳۷۴)
اس حدیث میں بھی لفظ ’ثلاثا‘ بظاہر اسی کا مقتضی ہے کہ تین طلاقیں دفعۃً اور اکٹھی دی گئی ہوں۔
۴۔ حضرت محمود بن لبیدؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں تو آپ غصے میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے؟ حتیٰ کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ حضرت! کیا میں اس شخص کو قتل نہ کر دوں؟ (نسائی ۲/۸۲)
اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ دفعۃً تین طلاقیں دینا پسندیدہ امر نہیں ہے ورنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو اس کارروائی پر سخت ناراض ہوتے اور نہ یہ ارشاد فرماتے کہ میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے۔ ہاں آپ نے باوجود ناراضی کے ان تینوں کو اس پر نافذ کر دیا۔ چنانچہ قاضی ابوبکر ابن العربی مذکورہ روایت کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاقوں کو رد نہیں کیا بلکہ ان کو نافذ فرما دیا۔ حافظ ابن القیم نے قاضی ابن العربی کا یہ قول نقل کیا ہے اور اس کو رد نہیں کیا۔ (تہذیب سنن ابی داؤد ۳/۱۲۹ طبع مصر)
۵۔ حضرت سہل بن سعدؓ کی روایت ہے کہ حضرت عویمرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور آپ نے ان کو نافذ کر دیا۔ (ابوداؤد ۱/۳۰۶)
اگر دفعۃً تین طلاقیں حرام ہوتیں اور تین کا شرعاً اعتبار نہ ہوتا اور تین طلاقیں ایک طلاق تصور کی جاتیں تو آپ ضرور اس کا حکم ارشاد فرماتے اور کسی طرح خاموشی اختیار نہ فرماتے۔
۶۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بحالت حیض اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی۔ پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی باقی دو حیض (یا طہر) کے وقت دے دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے حضرت ابن عمر سے فرمایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم تو نہیں دیا۔ تو نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے۔ سنت تو یہ ہے کہ جب طہر کا زمانہ آئے تو ہر طہر کے وقت اس کو طلاق دے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ تو رجوع کر لے، چنانچہ میں نے رجوع کر لیا۔ پھر آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کو طلاق دے دینا اور مرضی ہوئی تو بیوی بنا کر رکھ لینا۔ اس پر میں نے آپ سے عرض کیا، یا رسول اللہ، یہ تو بتلائیں کہ اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لیے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کر لوں؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں، وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اور یہ کارروائی معصیت ہوتی۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۴، دارقطنی ۲/۴۳۸، مجمع الزوائد ۴/۳۳۶، نصب الرایہ ۳/۲۲۰)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ تین طلاقیں دے چکنے کے بعد پھر رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
۷۔ حضرت نافع بن عجیرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت رکانہ بن عبد یزیدؓ نے اپنی بیوی سہیمہ کو بتہ (تعلق قطع کرنے والی) طلاق دی تو اس کے بعد انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی اور کہا، بخدا میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم، تو نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے؟ رکانہ نے کہا، اللہ تعالیٰ کی قسم، میں نے صرف ایک ہی طلا ق کا ارادہ کیا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بی بی اسے واپس دلوا دی۔ دوسری طلاق رکانہ نے اس کو حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں اور تیسری طلاق حضرت عثمانؓ کے زمانے میں دی۔ (ابو داؤد ۱/۳۰۰، المستدرک ۲/۱۹۹، دارقطنی ۲/۳۹، موارد الظمآن ۳۲۱)
اگر لفظ ’بتہ‘ سے دفعۃً تین طلاقیں پڑنے کا جواز ثابت نہ ہوتا تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رکانہ کو کیوں قسم دیتے؟ چونکہ کنایہ کی طلاق میں نیت کا دخل بھی ہوتا ہے اور لفظ بتہ تین کا احتمال بھی رکھتا ہے، اس لیے آپ نے ان کو قسم دی۔ اگر تین کے بعد رجوع کا حق ہوتا اور تین ایک سمجھی جاتی تو آپ ان کو قسم نہ دیتے۔
۸۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بحالت حیض اپنی بیوی کو بتہ (تعلق قطع کرنے والی اور یہاں مراد تین طلاقیں ہیں) طلاق دے دی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ تو نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے بالکل الگ ہو گئی۔ اس شخص نے کہا کہ عبد اللہ بن عمرؓ کے ساتھ بھی تو ایسا ہی معاملہ پیش آیا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کو رجوع کا حق دیا تھا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اسے فرمایا کہ بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کی طرف رجوع کر لے، مگر اس لیے کہ اس کی طلاق باقی تھی اور تیرے لیے تو اپنی بیوی کی طرف رجوع کا حق نہیں (کیوں کہ تیری طلاق باقی نہیں)۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۴، مجمع الزوائد ۴/۳۳۵)
چونکہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی، اس لیے ان کے رجوع کا حق تو محفوظ تھا، مگر اس شخص نے اپنے حق رجوع کا ترکش بالکل خالی کر دیا تھا جس سے یہ صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں اس لیے حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ تم رجوع نہیں کر سکتے۔
۹۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے جب اسی قسم کے مسئلے کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ فرماتے کہ تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس صورت میں) مجھے رجوع کا حکم دیا تھا اور اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو یقیناًوہ تم پر حرام ہو گئی ہے، جب تک کہ وہ تیرے بغیر کسی اور مرد سے نکاح نہ کر لے اور اس طرح تو نے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بھی کی ہے۔ (مسلم ۱/۴۷۶، بخاری ۲/۸۰۳، السنن الکبریٰ ۷/۳۳۱، دارقطنی ۲/۴۳۶)
۱۰۔ حضرت زید بن وہب سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک مسخرہ مزاج آدمی تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دیں۔ جب اس کا یہ معاملہ حضرت عمرؓ کے ہاں پیش کیا گیا اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ میں تو محض دل لگی او رخوش طبعی کے طور پر یہ طلاقیں دی ہیں ، یعنی میرا قصد اور ارادہ نہ تھا تو حضرت عمرؓ نے درہ سے اس کی مرمت کی اور فرمایا کہ تجھے تو تین طلاقیں ہی کافی تھیں۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۴)
اس روایت سے ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ بھی ایک کلمہ اور ایک مجلس میں دی گئی طلاقوں کا اعتبار کرتے تھے، مگر چونکہ تین طلاقوں سے زائد کا شریعت میں ثبوت نہیں، اس لیے ایک ہزار میں سے تین کے وقوع کا تو انھوں نے حکم صادر فرمایا اور باقی کو لغو قرار دے دیا۔
۱۱۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دے دیں، فرمایا کہ تین ہی طلاقیں متصور ہوں گی اور وہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں تا وقتیکہ وہ کسی اور شخص سے نکاح نہ کرے اور حضرت عمرؓ کے پاس جب ایسا شخص لایا جاتا تو آپ اس کو سزا دیا کرتے تھے۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۴)
۱۲۔ حضرت عبد الرحمن ابن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی کو ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دے ے تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں، یہاں تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کر لے۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۴)
ایک اور روایت میں یوں آتا ہے کہ ایک شخص حضرت علیؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دی ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ تین طلاقیں تو اس کو تجھ پر حرام کر دیتی ہیں اور باقی ماندہ طلاقیں اپنی دوسری بیویوں میں تقسیم کر دے۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۵)
معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ بھی ایک کلمہ اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیتے تھے، اسی لیے تو انھوں نے فرمایا کہ تین طلاقیں تو تیری بیوی پر واقع ہو چکی ہیں اور ہزار میں سے باقی نو سو ستاونوے اپنی باقی ماندہ بیویوں پر بانٹ دے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ نے انتہائی خفگی اور ناراضی کا اظہار فرمایا۔
۱۳۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اب اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تیرے چچا نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے اور اب اس کی کوئی صورت نہیں بن سکتی۔ وہ شخص بولا کہ کیا حلالہ کی صورت میں بھی جواز کی شکل نہیں پید اہو سکتی؟ اس پر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دھوکہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اس کا بدلہ دے گا۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۷، طحاوی ۲/۲۹)
ایک روایت یوں آتی ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں، مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو اے ابن عباس، اے ابن عباس؟ بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی۔ جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے تو اب تمھارے لیے کوئی گنجایش ہی نہیں۔ تمھاری بیوی اب تم سے بالکل علیحدہ ہو چکی ہے۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۱)
۱۴۔ حضرت معاویہ بن ابی عیاش انصاریؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور عاصم بن عمرو کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں حضرت محمد بن ایاس بن بکیر تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ ایک دیہاتی گنوار نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو (جس سے ابھی تک ہم بستری نہیں کی گئی) تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے فرمایا، جا کر عبد اللہ بن عباسؓ اور ابو ہریرہؓ سے پوچھو۔ میں ابھی ان کو حضرت عائشہ کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں۔ مگر جب ان سے سوال کر چکو تو واپسی پر ہمیں بھی مسئلہ سے آگاہ کرنا۔ جب سائل ان کے پاس حاضر ہوا اور دریافت کیا تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہؓ، فتویٰ دیجیے، لیکن سوچ سمجھ کر بتانا کہ مسئلہ پیچیدہ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک طلاق اس سے علیحدگی کے لیے کافی تھی اور تین طلاقوں سے وہ اس پر حرام ہو گئی ہے، الا یہ کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے۔ اور حضرت ابن عباسؓ نے بھی یہی فتویٰ دیا۔ (موطا امام مالک ۲۰۸، طحاوی ۲/۲۹، السنن الکبریٰ ۷/۳۳۵)
۱۵۔ ایک شخص نے حضرت ابن مسعودؓ سے سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو دو سو طلاق دے دی ہے، اب کیا حکم ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ تجھے کیا فتویٰ دیا گیا ہے؟ اس نے کہا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ عورت اب مجھ سے بالکل الگ اور جدا ہو گئی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ لوگوں نے سچ کہا ہے۔ (موطا امام مالک ۱۹۹)
۱۶۔ حضرت عمران بن حصینؓ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے یہ سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی ہیں ، اب وہ کیا کرے؟ حضرت عمران نے فرمایا کہ اس نے رب تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے اور ا س کی بیوی اس پر حرام ہو گئی ہے۔ سائل وہاں سے چل کر حضرت ابو موسیٰ الاشعری کے پاس پہنچا اور اس خیال سے اس نے ان سے بھی سوال کیا کہ وہ شاید اس کے خلاف فتویٰ صادر فرمائیں گے، مگر حضرت ابو موسیٰ نے حضرت عمران بن حصینؓ کی تائید کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہم میں ابو نجید جیسے آدمی مزید پیدا کرے۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۲، مستدرک ۳/۴۷۲)
۱۷۔ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سوال کیا کہ ایک شخص نے ہم بستری سے قبل اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، وہ کیا کرے؟ اس پر حضرت عطاء بن یسار نے فرمایا کہ کنواری کی طلاق تو ایک ہی ہوتی ہے۔ حضرت ابن عمر نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تو قصہ گو ہے۔ ایک طلاق ایسی عور ت کو جدا کر دیتی ہے اور تین اس کو حرام کر دیتی ہیں تاوقتیکہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرے۔ (مسند امام شافعی ۳۶، طحاوی ۲/۳۰)
۱۸۔ ایک شخص نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر اس کا خیال ہوا کہ وہ اس سے نکاح کر لے۔ اس نے حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے فتویٰ طلب کیا۔ ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ تم اس سے نکاح نہیں کر سکتے تاوقتیکہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کر لے۔ اس شخص نے کہا کہ اس کے لیے میری طرف سے تو ایک ہی طلاق ہے (یعنی تین سے مراد ایک ہے) تو انھوں نے فرمایا کہ تم نے اپنا وہ اختیار کھو دیا ہے جو تمھارے ہاتھ اور بس میں تھا۔ (مسند امام شافعی ۳۶)
۱۹۔ حضرت عطا فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اب کیا صورت ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تجھ پر تمھاری بیوی حرام ہو گئی حتیٰ کہ وہ تمھارے بغیر کسی اور مرد سے نکاح کرے۔ (جامع المسانید ۲/۱۴۸)
۲۰۔ حضرت مسلمہ بن جعفر الاحمسیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام جعفر بن محمد سے سوال کیا کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس شخص نے جہالت میں مبتلا ہو کر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو ان کو سنت کی طرف لوٹایا جائے گا اور ا س صورت میں ایک ہی طلاق واقع ہوگی، اور لوگ اس کو آپ حضرات کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ معاذ اللہ تعالیٰ، ہمارا یہ قول نہیں ہے۔ جس شخص نے تین طلاقیں دے دیں، وہ تین ہی ہوں گی۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۴۰)
اس سے ثابت ہو اکہ اہل بیت کی طرف تین طلاقوں کے ایک ہونے کی جو نسبت کی جاتی ہے، وہ قطعاً غلط اور یقیناًبے بنیاد ہے اور حضرات اہل بیت بھی دیگر حضرات کے ہم نوا ہیں اور تین طلاقوں کو تین ہی سمجھتے اور اسی کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔
الغرض اندرونی اور بیرونی دلائل وبراہین اور قرائن وشواہد اس امر کو متعین کر دیتے ہیں کہ آزاد مرد طلاق دے یا غلام، تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں یا دو، ان کا شرعاً اعتبار کیا جائے گا اور دو کو دو اور تین کو تین ہی سمجھا جائے گا۔ تقریباً سو فی صدی حضرات صحابہ کرام، اکثر تابعین، ائمہ اربعہ اور جمہور سلف وخلف اسی کے قائل ہیں اور ظاہر قرآن کریم اور صحیح وصریح احادیث بھی یہی کچھ بتاتی ہیں اور یہی حق وصواب ہے، لہٰذا جن بعض حضرات کے اقوال اور فتوے اس مسئلے میں جمہور کے اجماع کے خلاف نقل کیے جاتے ہیں، ان کی کوئی وقعت نہیں ہے اور وہ سب کے سب شاذ ہیں جو قابل عمل نہیں۔ چنانچہ علامہ احمد بن محمد القسطلانی الشافعی تین طلاقوں کو ایک سمجھنے والوں کے مذہب کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ مذہب شاذ اور منکر ہے اور اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ (ارشاد الساری ۸/۱۵۷ طبع مصر)