نئی نسل کے ذہنوں میں گردش کرتے حساس سوالات

آصف محمود ایڈووکیٹ

(روزنامہ جناح اسلام آباد کے کالم نگار آصف محمود ایڈووکیٹ صاحب ’’ترکش‘‘ کے عنوان سے ۱۹؍ جون ۲۰۰۶ کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں بعض اہم سوالات اور اشکالات کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس وقت عالمی ماحول، مغربی تعلیم اور جدید فکر وفلسفہ کے حوالے سے بے شمار مسلمان نوجوانوں کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔ ان سوالات پر قرآن وسنت اور دیگر مسلمات کی روشنی میں بحث ومکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور اہل علم ودانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کے ذہنوں میں پرورش پانے والے ان شکوک وشبہات کے ازالہ کی طرف فوری اور سنجیدہ توجہ دیں۔ ان سوالات پر ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی کا تبصرہ آئندہ شمارے میں پیش کیا جا رہا ہے، اور دیگر اہل علم ودانش کو بھی اس سلسلے میں اظہار خیال کی دعوت دی جاتی ہے۔ مدیر)


میرے ماموں طاہر چوہدری ایک عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ شادی بھی وہیں کی، صاحب اولاد ہیں ، آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ چند روز قبل میں ان سے ملنے گاؤں آیا تو ان سے تفصیلی نشست رہی جس میں انھوں نے تفہیم دین کے حوالے سے چند سوالات اٹھائے۔ ان میں کچھ سوالات ایسے تھے جن پر میں نے انھیں مطمئن کر دیا، تاہم ایسے سوالات بھی تھے جن کا جواب میرے جیسے طالب علم کے پاس نہ تھا اور میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ان سوالات کو میں صاحبان علم کے سامنے رکھوں گا اور ان کے جوابات آپ تک پہنچا دوں گا۔ ہماری گفتگو ایک نجی گفتگو تھی تاہم اس نشست میں جو سوالات اٹھائے گئے، ان کی نوعیت ایسی ہے کہ میں اپنے قارئین کو بھی ان کا مخاطب بنانا چاہتا ہوں اور میں جملہ صاحبان علم سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ان سوالات کے حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جناب طاہر چوہدری کے سوالات کچھ یوں تھے:

۱۔ میں نے ایک اہل کتاب خاتون سے شادی کی ہے۔ میرا ایک بیٹا ہے جس کا نام علی ہے۔ علی ابھی نابالغ ہے۔ فرض کریں، اس کا نام علی نہیں، کچھ اور ہے اور وہ اہل کتاب میں سے ہے۔ ایسی صورت میں کیا میں اس کو حق وراثت سے محروم کر دوں گا؟ جب اہل کتاب سے شادی جائز ہے تو اہل کتاب بیٹے کو وراثت میں سے حصہ کیوں نہیں دیا جاتا؟

۲۔ عورت کا حق وراثت نصف کیوں ہے؟ مجھے عمومی طور پر جواب دیا جاتا ہے کہ چونکہ گھر کی معاشی ذمہ داریاں مرد کے کندھوں پر ہوتی ہیں، اس لیے عورت کا وراثت میں سے حصہ مرد کا نصف ہے۔ اگر یہ جواب درست ہے تو پھر یہ بتائیں کہ میں ایک ایسے معاشرے میں ہوں جہاں عورت معاشی ذمہ داریوں میں مرد کے شانہ بشانہ ہے۔ ہم دونوں مل کر یہ معاشی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ کیا ہمارے معاشرے میں عورت کا حق وراثت مرد کے برابر نہیں ہو جائے گا؟

۳۔ عورت کی دیت مرد کا نصف کیوں ہے؟ مجھے بتایا گیا ہے کہ چونکہ اس کی گواہی مرد کا نصف ہے اور اس کا حق وراثت مرد کا نصف ہے، اس لیے اس کی دیت بھی نصف ہے۔ یہاں ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا واقعتا وہ ناقص العقل ہے اور اس کی گواہی ادھوری ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم وراثت اور گواہی پر کفایت کرتے ہوئے یہ قانون اخذ کر لیں کہ اس کی دیت بھی آدھی ہے تو پھر اس اصول کا اطلاق دیگر معاملات پر کیوں نہیں کیا جاتا؟ مثلاً یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ عورت رمضان کے آدھے روزے رکھے گی اور آدھی نمازیں پڑھے گی؟ مزید یہ کہ اگر وہ ناقص العقل ہے، ادھوری ہے، وراثت آدھی ہے، دیت آدھی ہے تو اس نقص عقل کو جواز بنا کر یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ ا س کو جرم پر سزا بھی آدھی ملے گی؟ آپ کہتے ہیں کہ وہ ناقص العقل ہے، گواہی آدھی ہے، پھر اس کی بنیاد پر آپ دیت بھی آدھی بنا دیتے ہیں تو کیا یہ انصاف نہیں ہوگا کہ پھر اسے جرم میں سزائیں بھی آدھی دی جائیں؟ ایک صحیح عقل والا مرد گناہ کرے تو اسے بھی وہی سزا اور ایک ناقص العقل عورت گناہ کرے تو اسے بھی وہی سزا، یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے؟

۴۔ نکاح میں عورت کی مرضی ضروری ہے، لیکن میں پاکستان آکر دیکھتا ہوں کہ اکثر نکاح بے جوڑ ہیں اور اسلام کے اصول کفو کو ان میں مد نظر نہیں رکھا گیا۔ ہمارا معاشرہ اور پھر ہمارا خاندان اس طرح کا ہے کہ یہاں لڑکیوں کو بے زبان مخلوق کی طرح بڑوں کے فیصلے تسلیم کرنا ہوتے ہیں۔ ان سے کچھ پوچھا نہیں جاتا۔ عملاً ان پر جبر ہوتا ہے اور انھیں بے بس بے زبان مخلوق کی طرح زندگی کے دن گزارنا ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے نکاحوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ زنا بالجبر کے زمرے میں آتی ہیں؟

۵۔ شادی کو اسلام نے عقد کہا ہے۔ عقد کا مطلب ہے Contract۔ اب معاہدہ وہ لوگ کر سکتے ہیں جو اس کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن اسلام میں نابالغ بچی کی شادی کا تصور موجود ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ایک نابالغ بچی کی شادی کیوں کی جائے؟ ا س کے بالغ ہونے کا انتظار کیوں نہ کیا جائے؟ ہو سکتا ہے وہ بالغ ہو تو اس کے احساسات کچھ اور ہوں، اس کا دل کسی اور کے لیے دھڑکے لیکن اس کو پتہ چلے کہ اس کی شادی ہو چکی ہے۔ کیا یہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی نہیں؟ میرا سوال یہ ہے کہ اس بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟

۶۔ اہل کتاب سے شادی جائز ہے تو دوستی کیوں منع ہے؟ دوستی ممنوع ہے تو شادی کیوں جائز ہے؟

۷۔ کیا یہ درست ہے کہ مرتد کی سزا موت ہے؟ ایک آدمی اسلام میں نہیں رہنا چاہتا تو اسے مرتد کی سزا کا خوف دلا کر ساتھ رکھنا بہتر ہے یاایسے ناسور کو کاٹ کر الگ پھینک دینا زیادہ مناسب ہے؟

۸۔ لونڈی کا تصور کیا اسلامی ہے؟ کیا آج کے دور میں لونڈی رکھی جا سکتی ہے؟ مجھے امریکہ میں سب سے زیادہ اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ لونڈی ایک زندہ وجود ہے، کوئی اس کا مالک بن جائے، اس کی مرضی کے خلاف اس سے جنسی تعلقات قائم رکھے، اسے بیچے یا رکھے، میرا دل نہیں مانتا کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہو۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں ایک پہاڑ کے اوپر ایک بستی میں رہتا ہوں۔ وہاں میری منگیتر رہتی ہے۔ ایک دن اسلامی لشکر آتا ہے، جنگ ہوتی ہے، ہم ہار جاتے ہیں، وہ جیت جاتا ہے اور لشکر کا سپہ سالار میری منگیتر کو مونگ پھلی کے پیکٹ کی طرح لونڈی بنا کر کسی سپاہی کے حوالے کر دیتا ہے تاکہ وہ اسے لے جائے، اس سے خدمت کرائے، اس سے جنسی بے گار لے۔ میں نہیں سمجھتا کہ نبی رحمت کے دین میں اس کی کوئی گنجایش ہو۔ اس بارے میں اسلام کا حقیقی موقف کیا ہے؟ یہ سوال مجھے امریکہ میں لاجواب کر دیتا ہے۔

۹۔ اسلام دین فطرت ہے اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ موسیقی ممنوع ہے۔ میں نے یہ بھی سن رکھا ہے کہ راگ کو زنا کا منتر کہا گیا ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ موسیقی ناجائز ہے اور یہ اخلاق کو تباہ کر دیتی ہے۔ اب میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ بعض گانے قطعاً اخلاق کو متاثر نہیں کرتے بلکہ ان کو سن کر روح کو سکون ملتا ہے۔ میں آج بھی پردیس میں جب اداس ہو جاتا ہوں تو گانا گنگناتا ہوں کہ ’’ہم تو ہیں پردیس میں، دیس میں نکلا ہوگا چاند‘‘۔ میری احتیاج ہوتی ہے کہ میں اس گانے کو سنوں۔ کیا ایسا گانا بھی منع ہے؟ میرا تجربہ یہ ہے کہ موسیقی مجھے تروتازہ کر دیتی ہے اور میرے اخلاق پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا۔ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

۱۰۔ مرد اگر نیک بن کر رہے گا تو اس کو جنت میں حور ملے گی۔ حور کا یہ تصور مرد کی Sexual Containment کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن ایسا ہی جذبہ عورت میں بھی ہوتا ہے تو اس کے لیے ایسا ہی کوئی تصور کیوں نہیں ہے؟ نیک مرد کو حور ملے گی، نیک عورت کے لیے کوئی انسینٹو کیوں نہیں ہے؟ کیا اس سے یہ مراد لی جائے کہ ہمارا مذہب مرد کو محور سمجھتا ہے اور عورت کو ایک حقیر اور تیسرے درجے کی مخلوق تصور کرتا ہے؟

۱۱۔ میں جب چھوٹا ہوتا تھا ، تب سے یہی سنتا آیا ہوں کہ مرد کو کہا گیا ہے اگر اس کی بیوی میں کوئی عیب ہے تو اس سے صرف نظر کرے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں کوئی اور خوبی بھی ہو، لیکن ایسا کوئی حکم عورت کے بارے میں نہیں ہے۔ وہ بھی تو احساسات رکھتی ہے۔ کیا صرف مرد کا حق ہے کہ اس کی بیوی خوبیوں کا مجموعہ ہو؟ کیا عورت مرد کے بارے میں کوئی معیار نہیں رکھ سکتی جس پر مرد بھی پورا اترے؟

۱۳۔ امریکہ میں دہریے اور عیسائی مجھ کو اکثر جس سوال سے لاجواب کرتے ہیں، وہ آقاے دو جہاں کے بارے میں ہے اور میری اپنی معلومات چونکہ نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے میں اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہوں اور ان کو جواب نہیں دے پاتا۔ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ ایک عام مسلمان چار شادیاں کر سکتا ہے۔ یہ اسلامی قانون ہے تو نبی کریم نے چار سے زیادہ شادیاں کیوں کیں؟ مجھے اس سوال کا شافی جواب چاہیے تاکہ میں وہاں جا کر وضاحت کر سکوں۔ یہ بات میری کنپٹیاں سلگا دیتی ہے کہ مجھ سے میرے نبی کی ذات کے بارے میں کیے گئے سوال کا جواب نہ بن پائے۔

سوالات میں نے اہل علم کے سامنے رکھ دیے۔ مجھے جواب کا انتظار رہے گا۔ جناب جاوید غامدی، مفتی تقی عثمانی، مولانا زاہد الراشدی، قاضی حمید اللہ خان، مولانا حسن جان اور جناب سرفراز نعیمی اور ان کے شاگردوں میں سے کوئی صاحب کیا ہماری رہنمائی فرمائیں گے؟

اسلام اور عصر حاضر

(جولائی ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter