لگ بھگ ڈیڑھ ہزار سال قبل افلاطون نے کہاتھا کہ بہترین معاشرہ تشکیل دینے کے لیے بہترین نظام تعلیم ضروری ہے، لیکن دوسری طر ف کسی بھی معاشرے کاتعلیمی نظام اس معاشرے کے مجموعی ثقافتی معیار سے مشروط ہے، چنانچہ مختلف معاشروں کے ثقافتی معیار کے مطالعے کے بعد ممتاز مورخ ایچ۔ جی ویلز یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ’’انسانی تاریخ، تعلیم اور تباہی کے مابین روز بروز ایک دوڑ بنتی جارہی ہے۔‘‘
کسی بھی نظام تعلیم میں خود تعلیم کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور نصاب تعلیم اس نظام کے مقاصد کی تکمیل کاتحریری ذریعہ ہوتاہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متعلم کی شخصیت پر سب سے قوی اور فوری اثر نہ نظام تعلیم کا مرتب ہوتاہے اور نہ اسس نصاب کا۔ اس جادو کاسرچشمہ استاد کی ذات ہے۔ کوئی بھی انسان بالخصوص نوخیز انسان جس قدر گہرا اثر خود انسان سے قبول کرتاہے، ایسا اثر وہ کسی اور ذریعے سے قبول نہیں کرتا اور انسانوں میں متاثر کرنے کا کام شعوری طور پر استاد ہی انجام دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ اور متحرک معاشرے استاد کو ایک ممتاز اور محترم فرد تصور کرتے ہیں۔مسلم معاشرے میں استاد نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔ قدیم یونان اور چین میں تو استاد کی گویا پوجا ہوتی تھی۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد سے استاد مغربی معاشروں میں بھی بڑی قدر ومنزلت کا حامل ہوگیا۔ جرمنی میں بھی استاد کی بے حد تکریم ہے۔ استاد ہر کہیں واجب الاحترام ہے۔ اس کے کام اور مرتبے کا ہرکوئی معترف ہے، مگر اس کے رتبے کی پہچان اگر کہیں کم ہے تو وہ ہماراملک ہے۔
استاد کی تحقیرسامراجی حکمت عملی کا اہم جز وتھی، مگر قیام پاکستان کے بعدبھی ہماری سیاسی قیادت ودانش کو نہ فرصت ملی اور نہ توفیق نصیب ہوئی کہ معماران قوم کو بھی کوئی مقام دیاجائے۔ چنانچہ استاد کو بے مقام کرکے ہم خود بحیثیت قوم بے وقار ہوکر رہ گئے ہیں۔ قوم اور حکمرانوں کا رویہ اپنی جگہ، مگر استاد کی بدحالی اور تذلیل کی اصل وجہ خود ہمارا استاد ثابت ہوا۔ اس نے اپنے خلاف ہونے والی تقریباً دو سو سالہ سازش کو اس کے صحیح تناظر میں نہیں دیکھا۔ اگر دیکھا تو اسے سنجیدگی کا مستحق خیال نہیں کیا جو اس کے لیے ’’ازالہ حیثیت عرفی‘‘ کاسبب بن سکتی۔ حالات نے استاد کو اس کے مقام سے ناآشنا کرنا چاہا تو وہ خود اپنے مقام سے بیگانہ ہوگیا اور اب تو ایسا لگتاہے کہ اسے خود آشنائی کے لیے بھی کافی وقت درکار ہوگا۔
استاد کے معاشرتی مرتبے کی بحالی کے لیے تعلیم وتدریس کے میدان میں اچھے اور برے یا کامیاب اور ناکام استاد کا ایک واضح تصور اجاگر کرنا ناگزیر ہے۔ اچھے استاد کے لیے ترقی کرنے اور اپنی پوری قامت کو پہنچنے کے معیار اور ضوابط مقرر کیے جائیں۔ ایک طرف تو تعلیمی پالیسی سازوں کو اساتذہ کی شرائط ملازمت،ان کی سہولتوں اور مراعات، ترقی اور اعزاز کے معاملات کے حوالے سے موثر اور مثبت اقدامات اٹھانے ہیں تو دوسری طرف استاد کو بھی خود آگاہ اور مقام آشنا ہونا ہوگا۔ لازم ہے کہ استاد خود بھی محاسبہ کریں کہ کیا وہ خود اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے صحیح معنوں میں عہدہ برآ ہورہے ہیں۔
ہم یہاں مختصراً اچھے استاد کی چند خصوصیات کا تذکرہ کریں گے جنہیں دیکھ کر استاد خود اندازہ لگا سکتاہے کہ کیا وہ استادہے یا نظام تعلیم کا ایک بیکار پرزہ؟ اس حوالے سے ہمارے پاس ایک کامل راہنمائی معلم انسانیت حضرت محمد ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی صورت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے جو سب کے سب معلم تھے۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۱۵۱ کی روشنی میں دیکھیں تو واضح ہوتاہے کہ معلم کاسب سے بڑا منصب تدریس ہے، کیونکہ اس نے لوگوں کو کتاب کی علمی وضاحتیں دینی ہوتی ہیں، حکمت سکھانا ہوتی ہے۔ حکمت دراصل اسی کتاب کو لوگوں پر applyکرنے کانام ہے۔ یہ کتاب کی عملی شکل ہے۔ پھر تزکیہ نفس کرناہے۔حضورﷺ نے فرمایا کہ’’مجھے معلم اخلاق بنا کر بھیجا گیاہے‘‘۔ تعمیر کردار کے لیے معلم سمعی اور بصری دونوں صورتوں کو استعمال میں لاتاہے۔ اچھی تدریس کی اولین شرط یہ ہے کہ استاد مطمئن ہو اور اس کی عزت نفس محفوظ ہو۔ تعلیم محض نصابی کتابیں پڑھانے اور طالب علموں کے ذہنوں میں بعض معلومات جاگزیں کرنے ہی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تخلیقی عمل ہے جس میں استاد کی شخصیت، اس کا وقار، اس کی علمیت اور اس کا اپنے پیشے کے ساتھ آزادانہ شغف مرکزی اہمیت رکھتاہے۔استاد کو جب اور جہاں یہ احساس ہوا کہ وہ ایک حقیر ملازم ہے یا ایسے لوگ جو علم وذوق میں اس کے برابر نہیں، ا س پر حکمران ہیں، ا س کی روح فناہوجاتی ہے۔ عمل تدریس عزت نفس اور ایک خاص احساس ووقار یا احساس تفاخر کے بغیر ممکن نہیں ۔
درس وتدریس کے لیے سب سے اول چیز کتاب ہے۔ جو علم بھی آپ متعلم تک پہنچانا چاہتے ہیں، اس کتاب یا نصاب سے استاد کی گہری وابستگی اور اس سے پوری واقفیت لازم ہے۔ پیغمبرآخرالزمان ﷺ اپنی کتاب کو عملی صورت تھے۔ تعلیم وتدریس کا سارا عمل کتاب کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ جس قوم کے استاد اچھی اورعمدہ کتاب پیدا کرنے سے قاصر ہوں، وہ تعلیم وتدریس کے میدان میں پس ماندہ اور غیروں کی دستِ نگر ہوکررہ جاتی ہے۔استاد اصل میں صاحب کتاب ہوتاہے، کیونکہ کتاب زندگی کے حقائق کو جاننے اور اس جانکاری کو دوسروں تک پہنچانے کانام ہے تاکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔ کتا ب علم کی حفاظت، ترسیل اورتوسیع کانام ہے۔ کتاب ہی وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعے سے پہلی نسلوں کی محنت وکاوش، دانش وبنیش اور حکمت وبصیرت نئی نسلوں تک منتقل ہوتی ہے۔لیکن جب یہ عمل رک جاتاہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت زندگی کاعمل رک جاتاہے۔ اچھی کتاب نہ لکھ سکنا محض کوتاہی نہیں بلکہ ایک اجتماعی جرم ہے۔ خود علمی کتابیں نہ لکھ پانا دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔استاد کسی قوم کی نظریاتی سرحدوں کامحافظ ہوتاہے مگر افسوس کہ آج کے استاد کو ٹیوشن کے سرطان نے اس قدر ناکارہ بنا دیا ہے کہ تحقیق وتحریر سے اس کاتعلق شرمناک حد تک کمزور ہوچکاہے۔
اچھے استاد کی دوسری اہم صفت غوروفکر ہے، کیونکہ سوچے اور غور کیے بغیر اور فکر کی نئی راہیں تراشے بغیرتدریس مہمل ہوجاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے قبل بھی غار حرا میں تشریف لے جاتے اور غور وفکرکرتے تھے۔ یہ کسی بھی معلم کے لیے لازمی ہے۔غور وفکر کے بغیر کسی نے زمانے کو کچھ نہیں دیا۔ عقل صرف تدبر وتفکر سے بڑھتی ہے۔ اس کے بغیر کوئی استاد اچھا استاد نہیں بن سکتا۔ معلم انسانیت کی زندگی کا یہ معمول تھا ۔اسی غور وفکر سے آپ ﷺ نے لوگوں سے ان دیکھے خدا کو تسلیم کروا کے زمانے کی تقدیر بدل دی۔ ہر اچھے استاد کے لیے اس سنت رسول کی اتباع ضروری ہے۔ بڑا استاد مسلسل تفکر ،تحقیق اور اشاعت میں مصروف عمل رہتاہے مگر آج ہمارا استاد ٹیوشن کے جبر میں کولہو کے بیل کی طرح جت گیا ہے۔ اب اس کے پاس غور وفکر اورمطالعہ کتا ب کے لیے وقت ہی نہیں۔
فکر وتدبر کے ساتھ کام کی لگن کے بغیر بھی اچھے استاد کا مقام حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اکرم ﷺ کے ذمے جب پروردگار عالم نے کام لگایا تو پھر آپ نے پوری لگن سے کام کیا۔ شب وروز کی پروا نہیں کی۔ معاشی مجبوریوں، ذاتی خواہشات، بھوک اور دھوپ کونہیں دیکھا۔ مسائل ووسائل کی شکایت نہ کی، یہاں تک کہ سفر طائف کے موقع پر حضرت زید بن حارثہؓ کو ہمراہ پیدل گئے، نہ کہ مشن کی تکمیل کے لیے وسائل کے حصول تک کام روک دیا۔ایسا نہیں ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ کویہ علم ہوا ہو کہ فلاں شخص اللہ کی بات سننا چاہتاہے اور آپ ﷺنے اسے کل پر ٹال دیاہو۔ چنانچہ اچھے استاد کے لیے ضروری ہے کہ اس میں لگن یعنیDevotionہو۔
لگن کے بغیر استقامت بے ثمر رہتی ہے۔ چنانچہ استاد کے لیے استقامت واستحکام کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ایسا نہیں کہ آج رویہ کچھ اور ہے اور کل کچھ اور ہے۔ آج آپ کے علم کے بڑے متلاشی اور ہر لمحہ مصروف عمل ہیں، مگر پھر سال سال بھر کتا ب کوہاتھ نہیں لگاتے۔معلم ہونا پیغمبروں کا منصب ہے۔ رب العزت نے سب سے زیادہ عزت ،احترام اور توقیر اہل علم کودی ہے۔اسوہ حسنہ پرنظر ڈالیں تو عیاں ہوگا کہ حالات نے آپﷺ کو مشن سے روکنے کے لیے کتنا جبر کیا، دباؤ ڈالا، پریشان کیامگر آپ کے پائے استقامت میں ذرا لغزش نہیں آئی۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر تم میرے ایک ہاتھ پر چاند اوردوسرے ہاتھ پر سورج لاکر رکھ دو تو بھی میں اپنے کام سے باز نہیں آؤں گا‘‘۔ یہ استحکام واستقامت کاعمل ہے۔
اچھا استادہونے کے لیے ایک خوبی یہ ہے کہ آپ کو time managment آتی ہو۔ دنیا میں اسوہ حسنہ کے علاوہ کہیں یہ مثال نہیں ملتی کہ اتنے کم وقت میں کسی نے اتنی بڑی تبدیلی لائی ہو۔ آپﷺ نےtime کو manageکیا، انرجی کو manageکیا، human resources کو manage کیا۔ چنانچہ اچھا استاد بننے کے خواہش مندوں کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ وقت کے استعمال کی صلاحیت پیدا کریں۔ وقت کو ضائع کیے بغیر ہی کم وقت میں بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ اگر آپtime managmentنہیں جانتے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے رسول ﷺکی حیات مبارکہ سے آپ کچھ نہیں سیکھا۔جی ہاں،ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھائے بغیر آپ علم نہیں بانٹ سکتے، اچھے استاد نہیں بن سکتے کیونکہ اس طرح آپ کی ترجیحات ضائع ہوجاتی ہیں ۔
اچھے استاد کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ متعلم کی صلاحیتوں کا ادراک حاصل کرنے کے بعد اس کے ٹیلنٹ کو مثبت انداز میں اجاگر کرے۔ استاد اپنے طالب علم کی ضرورتوں کاتعین کرے اور پھر جہاں ہے، وہاں سے مطلوبہ تعلیمی حاصل تک پہنچنے میں اس کی مدد کرے۔ استاد متعلمین کے تنوع کو ملحوظ رکھ کر، ان کے اکتساب کو تقویت دے کر، تعلیمی حاصلات کو مخصوص اطلاقات میں ڈھال کر اور تاحیات قابل استعمال تعلیمی مہارتوں کو ترتیب دے کر یہ مقصد حاصل کرتا ہے۔ اچھا استاد مثبت زاویے کا حامل ہوتاہے۔ سادہ الفاظ میں اچھا استاد اچھا مردم شناس ہوتاہے۔ وہ شخصیت کی نشوونما میں رکاوٹیں پیدا نہیں کرتا ۔وہ منفی فکر کاحامل نہیں ہوتا۔آنحضرت ﷺکی حیات طیبہ سے ظاہر ہوتاہے کہ مردم شناسی کی اسی صفت سے آپ نے دنیا کا سب سے بڑا معاشرتی انقلاب برپاکیا۔ وحشی وجنگلی معاشرے کو سنجیدہ، بردبار اور بااخلاق بنا دیا۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوا کہ آپ نے کسی پر اعتراض کرنے کے بجائے اس کے جوہر خاص کو پروان چڑھایا۔ ہر فر د کے پوشیدہ ٹیلنٹ کو تبدیلی کے لیے استعمال کیا۔ حضرت انس بن مالکؓ دس سال آپ ﷺ کے خادم رہے۔ انہوں نے بھی برملا کہا ’’دس سال میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺنے کسی کام پر مجھے ڈانٹاہو۔ ‘‘ہر اچھے معلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ منفی اپروچ کو ترک کرکے یہ دیکھے کہ متعلمین میں سے کس میں کیا خوبی ہے اور اس کو ابھارے ۔نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کی مثبت قوتیں ابھار کرہی ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل کی۔ سیرت طیبہ کی روشنی میں دیکھیں کہ مدینہ پہنچنے کے بعد آپ کی حیات مبارکہ غزوات کی نذر ہے، مگر تلواروں کے سائے تلے حضرت حسان بن ثابتؓ جیسے صحابی ؓ بھی موجود ہیں جنہوں نے کبھی تلوار کو ہاتھ نہیں لگایا، مگر رحمت للعالمین کی زبان مبارک سے کبھی نہ نکلا کہ حسانؓ تم تلوار نہیں اٹھاتے۔ بلکہ معلم انسانیت نے یہ دیکھا کہ حضرت حسانؓ میں شاعری کا جوہر موجود ہے تو اسے لوگوں میں جو ش وجذبہ پیدا کرنے، امید دلانے اور قوت ارادی بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ اچھے استاد کے لیے سیرت پاک سے یہ راہنمائی ملتی ہے کہ وہ مثبت انداز میں اپنے شاگردوں کے جو ہرتلاش کرکے انہیں جلا بخشے۔ استاد کو اس قابل ہونا چاہے کہ وہ نصاب کو متعلم کی حقیقی زندگی سے جوڑ کر اور معاشرتی معاملات کی آگاہی پیدا کرکے نصاب کے ساتھ بچوں کا انفرادی تعلق قائم کرے۔
ایک اچھے استاد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حقائق کی باز آفرینی پر توجہ دینے کے بجائے مسئلہ حل کرنے کی مہارتیں پیدا کرنے پر زور دے۔ استاد کو جستجو کے عمل سے متعلق مہارتوں اورتعین قدر کے عمل سے متعلق مہارتوں کے ذریعے سے متعلم کی سرگرم شرکت کو فروغ دینا چاہیے۔
ایک اچھے استاد کی ایک اور نمایاں صفت جس کا اداراک ہمیں سیرت طیبہ ﷺ کے ذریعے سے بھی ہوتاہے، یہ ہے کہ معلم کو تکبر وامتیاز کا حامل نہیں ہونا چاہیے۔ آپ ﷺنے کبھی امتیازی رویے کو نہیں اپنایا، نہ بیٹھنے کے لیے جگہ مخصوص کی، نہ لباس مخصوص، نہ خوراک مخصوص، نہ الگ تھلگ بیٹھنے کا طریقہ۔ ظاہر ہے جب تک استاد طلبہ سے گھلے ملے گا نہیں، اس کی ذہنی مطابقت نہیں ہوگی، ذہنی لگاؤ نہیں ہوگا تو مطلوبہ سطح پر مکالمہ بھی نہیں ہوسکے گا ۔بغیر گھلے ملے استاد صحیح معنوں میں علم مہیا نہیں کرسکتا۔ استاد کا متعلمین سے mixupہونا ضروری ہے۔ امتیاز علم دشمن رویہ ہے ۔
اچھا اور بڑا استاد خود اعتماد ہوتا ہے۔ خود اعتمادی کو کامیابیوں کی کنجی سمجھا جاتاہے۔ ایک استاد اسی صورت میں کامیاب قوم کی تعمیر کرسکتاہے جب وہ اس میں خود اعتمادی بانٹ سکے، لیکن کچھ بانٹنے سے پہلے اس کا استاد کے پاس ہونا بھی ضروری ہے۔ پر اعتماد استاد کی زندگی ابہام سے پاک ہوتی ہے۔ آپ نے جو سیکھا ہے، اگر اس سے متعلق خود کنفیوژڈ ہیں تو پھر اپ اسے دوسروں کو بھی نہیں سکھا سکتے ۔
خود اعتماد استاد ہی طلبہ میں سوال کرنے کی جرات پیدا کرسکتاہے۔ سوال وجواب کی صلاحیتوں کو پیدا کیے بغیر کوئی قوم وقت کے تقاضوں کامقابلہ نہیں کرسکتی۔ سوال علم کی ماں ہے مگر صدا فسوس کہ آج سوال ہی ہم سے چھین لیاگیاہے۔ اس سے علم کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔ سوال وجواب اللہ کے رسول اللہ ﷺ کا وصف تدریس تھا۔ نبی کریمﷺ وعظ فرمارہے ہوتے، جمعہ کا خطبہ دے رہے ہوتے تو لوگ کھڑے ہو کرسوال پوچھتے اور آپ جو اب دیتے۔آج سیکھنے سکھانے کے عمل میں ہم دوسروں کے دست نگر ہیں کیونکہ ہم سے سوال چھین لیاگیاہے ۔نالائق استاد سوال کو گستاخی سمجھتاہے حالانکہ یہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ مبارک تھا۔سوال کا مطلب ہے کہ اس میں متعلم کی طلب، توجہ اور مکمل حاضری شامل ہے۔
اچھا استاد اپنے شاگردوں کا’’ محبوب ‘‘ہوتاہے۔ استاد کا انداز حیات اور اس کی گفتار وکردار طالب علم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ استاد کی عادات، اظہار، اعتدال، عالی ظرفی، وقار ومتانت اور علم وتحقیق ہی اسے محبوب بنا سکتے ہیں۔ اگر استاد کی شخصیت میں محبوبیت کا فقدان ہو تووہ اچھا استاد نہیں بن سکتا۔ محبوب راہنما واستاد ہی تعلیم وتطہیر کافریضہ بحسن وخوبی ادا کرسکتاہے، چنانچہ استاد کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے postureکو، اپنے مزاج کو، اپنے ڈھنگ کو بھی متوازن رکھے۔
اچھا استاد وعدے کا پکا اورپاسدار ہوتاہے۔یہی چیز اسے لوگوں میں محترم بناتی ہے۔ وہ امین وصادق ہوکر ہی انقلاب کا داعی ہوسکتاہے۔ اگر استاد معاشرے میں معززنہ ہوگا تو اس کابانٹا ہوا علم تاثیر کا حامل نہ ہوگا۔ایک اچھا استاد غیبت کرنے والا، جھوٹ بولنے والا، دروغ گو، کھوکھلے دعوے کرنے والا نہیں ہوتا۔ چنانچہ اپنے کردار کا محاسبہ کیے بغیر اچھا معلم نہیں بنا جاسکتا۔ بدکردار استاد معاشرے میں صلاح وفلاح پھیلانے کے بجائے فساداور مایوسی پھیلانے والا بن جائے گا۔ اچھا استاد ہمیشہ آسانیاں پیدا کرنے والااور علم کو خوشخبری کے انداز میں دینے والا ہوتاہے۔جب تک آپ طلبہ کی ضرورتوں کاخیال نہیں رکھیں گے، آپ بڑے معلم نہیں بن سکتے ۔استاد کو تبدیلی کا مقابلہ کرنے اور اس پر دسترس حاصل کرنے میں شاگردوں کی مدد کے قابل ہونا چاہیے۔ بلوغت اور بے روز گاری کے خلاف طلبہ کی تگ ودواساتذہ سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ انہیں کمانے، زندہ رہنے اورسماجی تحفظ کے مٹتے ہوئے گوشوں، نسلی ومذہبی تشدد، معلوماتی انقلاب یاسرمایہ دارانہ معاشروں میں موجو د طمع سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرے۔
اچھا استاد ہمیشہ اچھا طالب علم رہتاہے۔ وہ ہمیشہ نئے علم اور نئی روشنی کو اپنانے والا ہوتا ہے۔ خندق کھودنا اہل فارس کاطریقہ تھا۔ آپ ﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے سے اسے اختیار کیا۔ ایک شخص آیا اور اس نے آپ ﷺ کو پاجامہ پیش کیا تو آپ ﷺ نے اسے پسند کیاحالانکہ عرب پاجامہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ آپ نے یمن کی طرف بعض صحابہ کرامؓکو بھیجا کہ جاؤ اور قلعوں پر چڑھنے کی ترکیب سیکھ کر آؤ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے علاوہ دیگر علوم کو حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔
بڑے استاد کی ایک اورمثالی صفت قوت برداشت ہے۔ وہ رد عمل ظاہر نہیں کرتا۔ استاد جتنا reactionary ہوگا، ہ علم میں اتنا ہی چھوٹا ہوگا ۔استاد اقدار کے تصادم سے نبردآزما ہوسکتاہے۔ اساتذہ کو یہ علم ہونا چاہیے کہ غفلت کرنے والے بچوں کے ساتھ کس طرح کام کرنا ہے۔ غور کریں کہ لوگ مشرک ہیں، بتوں کو پوجتے ہیں، چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ فوری reactکرتا اور نافرمانوں کی گردنیں توڑ دیتا، مگر اللہ عالی ظرف ہے اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے کبھی reactنہیں کیا اور کسی سے ذاتی بدلہ نہیں لیا۔ شاگرد گستاخ ہوسکتاہے، مگر بڑا ستاذ عالی ظرف ہوتاہے۔ معاف اور درگزر کرنا ہی اس کے بڑے پن کا ثبوت ہے۔
مذکورہ بالا صفات وخصوصیات کے حامل اچھے استاد پید اکیے بغیر کوئی بھی نظام تعلیم اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتا۔ اگر ایک طرف اساتذہ کی تربیت، ان کی مراعات اور باعزت مقام حکومت اور عوام کی ذمہ داری ہے تو دوسری طرف خود استاد پر بھی بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ آج مادی طمع وحرص کے شکار معاشرے میں استاد خود زمانے کی روکا شکار ہوکر معمار قوم کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام اور زوال پزیر معاشرے میں استاد کو پہلے خود آشنا ہوکر اپنی اصلاح کرنی ہے، اس کے بعد ہی وہ تعمیر کردار وسیرت کا فریضہ انجام د ے سکتاہے۔ استاد خود کوپیغمبروں کی میراث معلمی کے وارث کہتے ہیں، لہٰذا انہیں معلم انسانیت وفخر انسانیت کے اسوہ حسنہ سے راہنمائی حاصل کرکے اپنی کردار سازی کرنی ہے۔ پیغمبروں کا وارث ہونے کا دعوے دار استاد ہی اگر سیرت طیبہ کا پیروکار نہ ہو تو اس سے زیادہ نالائق اور کون ہوسکتا ہے۔