’’انکار رجم: ایک فکری گمراہی‘‘

محمد عمار خان ناصر

شریعت کی مقرر کردہ سزاؤں میں ’رجم‘ کی حیثیت اور نوعیت کیا ہے؟ یہ سوال معاصر علمی بحثوں میں ایک اہم بحث کا عنوان ہے۔ برصغیر کے جلیل القدر عالم اور مفسر مولانا حمید الدین فراہی علیہ الرحمہ نے قرآن مجید کی تاویل وتفسیر کے باب میں قرآن کے الفاظ کے قطعی الدلالت ہونے اور تاویل وتفسیر کے تمام معاون ذرائع مثلاً احادیث وآثار اور تاریخی روایات پر قرآن کے اپنے الفاظ کی حاکمیت کو ہر حال میں قائم رکھنے کے جن علمی اصولوں کو اختیار کیا تھا، اس کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر ان کے نتائج فکر نہ صرف فروعی امور میں بلکہ بعض بے حد اہم اور بنیادی نوعیت کے مسائل میں بھی عام فکری رجحانات سے مختلف قرار پائے۔ زنا کی سزا کا مسئلہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید نے زنا کی سزا صریح طور پر اور کسی قسم کی تخصیص کے بغیر صرف سو کوڑے بیان کی ہے، جبکہ روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زنا کے بعض مجرموں کو رجم کرنے اور شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونے کی بنیاد پر زانی کی سزا میں فرق کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس ضمن میں بنیادی ماخذ کی حیثیت اس روایت کو حاصل ہے: ’البکر بالبکر جلد ماءۃ ونفی سنۃ والثیب بالثیب جلد ماءۃ والرجم‘ (کنوارا مرد اور کنوری عورت زنا کریں تو ان کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا جائے۔ شادی شدہ مرد اور عورت زنا کریں تو ان کو سو کوڑے لگائے جائیں اور رجم کر دیا جائے)۔

مولانا فراہی رحمہ اللہ کے اصول کے مطابق چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول وفعل کے ذریعے سے قرآن مجید کے مدعا میں کسی قسم کا کوئی تغیر پیدا نہیں کرتے، بلکہ آپ کے تمام استنباطات اور اجتہادات قرآن ہی پر مبنی اور اسی کے تحت ہوتے ہیں، اس وجہ سے انھوں نے رجم کی سزا کا ماخذ قرآن مجید ہی میں متعین کرنے کی کوشش کی اور یہ رائے ظاہر کی کہ رجم کی سزا آیت محاربہ پر مبنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے (جس کی ایک صورت مولانا کی رائے میں ’رجم‘ بھی ہے)، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ اس تناظر میں مولانا کی یہ رائے زیر بحث مسئلے میں ایک پہلو سے احناف ہی کی رائے کی توسیع ہے۔ احناف اپنے اصول کے مطابق رجم کی روایات کی کثرت اور شہرت کی بنا پر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کے تو قائل ہیں اور سورۂ نور کے حکم ’فاجلدوا کل واحد منہما ماءۃ جلدۃ‘ کو صرف غیر شادی شدہ زانیوں کے حق میں قابل عمل مانتے ہیں، تاہم وہ اس پر ’البکر بالبکر جلد ماءۃ ونفی سنۃ‘ میں بیان ہونے والے اضافے یعنی ایک سال کی جلا وطنی کو سزا کا لازمی حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی رائے میں قرآن نے جس سزا کے بیان پر اکتفا کیا ہے، وہی اصل سزا ہے اور اس پر کوئی اضافہ کرنا قرآن کے نسخ کو مستلزم ہے جو خبر واحد سے نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے نزدیک زانی کو جلا وطن کرنا محض ایک صواب دیدی سزا ہے جو قاضی اگر مناسب سمجھے تو حالات کی رعایت سے مجرم کو دے سکتا ہے۔ مولانا فراہی چونکہ قرآن سے باہر کی کسی بھی چیز سے، چاہے وہ خبر مشہور ہی کیوں نہ ہو، قرآن کے حکم میں تبدیلی کے قائل نہیں، اس لیے انھوں نے اسی اصول کا اطلاق روایت کے دوسرے حصے یعنی ’الثیب بالثیب جلد ماءۃ والرجم‘ پر کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا سو کوڑے ہی ہے، جبکہ رجم کی سزا اس صورت میں دی جائے گی جب مجرم زنا کے ساتھ ساتھ فساد فی الارض کا بھی مرتکب ہو۔

یہ اس بحث کا اصل علمی پس منظر ہے۔ جہاں تک آیت محاربہ کو رجم کی سزا کا ماخذ قرار دینے کا تعلق ہے تو اس رائے پر یقیناًبہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں جن میں دو سوال بنیادی نوعیت کے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا آیت محاربہ اپنے الفاظ، سیاق وسباق اور علت کی رو سے رجم کا ماخذ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اور دوسرا یہ کہ کیا رجم سے متعلق احادیث اور روایات اس توجیہ کو قبول کرتی ہیں؟ یہ سوالات علمی استدلال کے ساتھ زیر بحث لائے جا سکتے ہیں اور مولانا فراہی کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اس بحث کے علمی نکات پر اپنا نقطہ نظر تو ہم کسی مناسب موقع پر تفصیل کے ساتھ پیش کریں گے، یہاں ہم صرف اس نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ کسی بھی نقطہ نظر پر تنقیدی گفتگو اسی وقت تک ’علمی بحث‘ کے دائرے میں رہتی ہے جب تک اس کو اس کے اصل علمی پس منظر میں دیکھا جائے اور اس کے استدلال کی صحت یا سقم کو دیانت دارانہ طریقے سے متعین کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر علمی مباحث میں طعن وتشنیع اور تفسیق وتضلیل کا رویہ در آئے تو تنقید فکر ونظر کی آبیاری کرنے کے بجائے محض ’بغیا بینہم‘ کا ایک نمونہ بن کر رہ جاتی ہے۔ 

بہرحال مولانا فراہی کی مذکورہ رائے کو صاحب ’تدبر قرآن‘ مولانا امین احسن اصلاحی نے زیا دہ وضاحت کے ساتھ موضوع بحث بنایا تو فطری طور پر علمی حلقوں میں ایک بحث پیدا ہو گئی اور طرفین سے مباحثہ واستدلال کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسی تناظر میں فراہی اسکول کے معروف عالم مولانا عنایت اللہ سبحانی نے ’’حقیقت رجم‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں انھوں نے مولانا فراہیؒ کے نقطہ نظر کے حق میں دلائل وشواہد پیش کیے۔ ’’انکار رجم: ایک فکری گمراہی‘‘ کے عنوان سے زیر نظر کتاب ڈاکٹر ابو عدنان سہیل صاحب نے مولانا سبحانی کی اسی تصنیف کے جواب میں لکھی ہے۔ مصنف نے بحث کے اہم نکات کے حوالے سے جمہور اہل علم کے موقف کے حق میں دلائل پیش کیے ہیں اور بعض مقامات پر منفرد توجیہات کرنے کوشش بھی کی ہے۔ لب ولہجہ اور طرز استدلال بالعموم متوازن ہے، تاہم موضوع اصولی نوعیت کے علمی مباحث اور متعلقہ علمی مواد پر جس سطح کی گرفت کا متقاضی ہے، ا س کے لحاظ سے کتاب میں بہتری کی کافی گنجایش موجود ہے۔ اسی طرح مخالف استدلالات پر جن متنوع پہلوؤں سے تنقید کی جا سکتی ہے، ان سب کا احاطہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ مجموعی اعتبار سے ایک عام قاری کتاب کے مطالعے سے اختلافی نکات کا مناسب تعارف حاصل کر سکتا ہے۔ 

۱۲۸ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مکتبہ قدوسیہ، رحمان مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۵۰ روپے ہے۔

تعارف و تبصرہ

(اگست ۲۰۰۶ء)

اگست ۲۰۰۶ء

جلد ۱۷ ۔ شمارہ ۸

اسلام کا قانون ازدواج اور جدید ذہن کے شبہات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دین کی جامعیت اور ہمارا عمومی مذہبی رویہ
مولانا محمد یوسف

معاصر تہذیبی تناظر میں مسلم علمی روایت کی تجدید
پروفیسر میاں انعام الرحمن

اچھے استاد کے نمایاں اوصاف
پروفیسر شیخ عبد الرشید

مسئلہ رجم اور مولانا اصلاحیؒ کا تفسیری موقف
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

قورح، قارون: ایک بے محل بحث
ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی

لبنان کی صورت حال اور مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مکاتیب
ادارہ

ذکر ندیم
پروفیسر میاں انعام الرحمن

’’انکار رجم: ایک فکری گمراہی‘‘
محمد عمار خان ناصر

تلاش

Flag Counter