معاصر تہذیبی تناظر میں مسلم علمی روایت کی تجدید

پروفیسر میاں انعام الرحمن

مسلم دانش وروں کے علاوہ غیر مسلم اہلِ قلم کے ہاں بھی آج کی مسلم دنیا کی سیاسی و معاشی میدانوں میں پس ماندگی اور زبوں حالی دلچسپی کا باعث اور موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ لیکن ایسے صائب الرائے افراد انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو مسلم دنیا کی سیاسی و معاشی پس ماندگی کے اسباب تلاش کرتے کرتے اس کے تہذیبی انحطاط تک جا پہنچیں ۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ سوشلزم کے زوال کے بعد مغربی دانش وروں کے ایک مخصوص حلقے نے پچھلے تقریباََ ایک عشرے سے اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے تصادم کا نظریہ گھڑ کر ایک طرف مسلم دنیا کی سیاسی و معاشی پس ماندگی کی ان وجوہات کو چھپانے کی کوشش کی ہے جن کے ڈانڈے مغربی استحصالی رویے میں پیوست ہیں اور دوسری طرف مسلم دنیا میں داخلی اعتبار سے ایسے منفی رویے کی آبیاری کی ہے جس کی وجہ سے مسلم دنیا اپنے تہذیبی زوال سے آگاہ ہونے اور اس کی وجوہات تلاش کرنے کے بجائے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ اپنا کر انتہائی کھوکھلے انداز میں مغرب کے مقابل آ کھڑی ہوئی ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تہذیب اساسی اعتبار سے، دنیا کی کسی بھی تہذیب سے زیادہ بہتر انداز میں ،ایک خاص علمی روایت پر استوار ہے ۔ اس لیے اسلامی تہذیب کی موجودہ صورتِ حال کے صحیح اور کماحقہ ادراک کی کوئی بھی کوشش مسلم علمی روایت کے عمیق جائزے کے بغیر نامکمل اور ادھوری ہی سمجھی جا سکتی ہے ۔ لیکن تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ ، جس کے اثبات کے لیے اب واقعاتی شواہد پیدا کیے جا رہے ہیں ، مسلم علمی روایت کے بے لاگ اور غیر جانبدارانہ تجزیے کے بجائے جانبدارانہ اور ردِ عمل پر مبنی ایسا تہذیبی رویہ پروان چڑھا رہا ہے جو کئی پہلوؤں سے اسلامی علمی روایت سے مغایرت alienation کا حامل ہے ۔ درج ذیل سطور میں ہم اسلامی علمی روایت کی روشنی میں مسلم علمی روایت کا تنقیدی جائزہ لیں گے تاکہ امت کے تہذیبی زوال کی اساس کسی حد تک سامنے آ سکے ۔

مسلم علمی روایت کے تنقیدی مطالعے سے قبل اسلامی علمی روایت کا تعین ناگزیر اور ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ اسلامی علمی روایت دو ستونوں پر استوار ہے۔ ان میں سے ایک ستون قرآن مجید اور دوسرا ستون سنتِ رسول اللہ ﷺ ہے ۔ ان دو ستونوں کے علاوہ دیگر ایسے عناصر، جو بنیادی طور پر تاریخی آثار اور قرآن و سنت کی تعبیرات سے عبارت ہیں، اپنی نوعیت میں اساسی نہیں بلکہ اضافی ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اضافی عناصر اہمیت و افادیت کے اعتبار سے لائقِ اعتنا نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قرآن و سنت جب سماجی سطح پر آکر ایک منفرد تہذیب کی تشکیل وشناخت میں اساسی کردار ادا کرتے ہیں تو اپنی نوعیت میں اساسی سطح سے اتر کر اضافی سطح پر آ جاتے ہیں ، کیونکہ سماج میں ان کا اثرو نفوذ بعینہٖ نہیں ہو سکتا بلکہ تعبیر و تشریح کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اسلامی تہذیب اپنے عملی احوال میں قرآن سنت کا نعم البدل نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس تہذیب کی عمارت براہ راست قرآن و سنت ( اسلامی علمی روایت ) پر استوار نہیں ہوتی، بلکہ اس کی تعبیر و تشریح ( مسلم علمی روایت ) پر قائم ہوتی ہے۔ چونکہ قرآن و سنت کی تعبیر، اضافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاص زمانے اور ایک خاص سماج میں ظہور پذیر ہوتی ہے اس لیے وہ اس مخصوص زمانے اور مخصوص سماج کی سیاسی ، معاشی ، عسکری اور نفسیاتی ضروریات کو بطریقِ احسن پورا کرتی ہے ۔زمانی ارتقا اور مکانی تبدیلیوں کے فطری عوامل کے باعث ، مسلم علمی روایت (قرآن و سنت کی تعبیر ) کو اسلامی علمی روایت ( قرآن و سنت ) کے ساتھ ایک مسلسل اور زندہ تعلق قائم رکھنا پڑتا ہے تاکہ زمانی ارتقا اور مکانی تبدیلیوں کے بوجھ تلے دب کر مسلم علمی روایت خلط ملط نہ ہو سکے اور مسلم تہذیب کا ارتقا، مسلم علمی روایت کے ارتقا کی بنیاد پر جاری و ساری رہ سکے ۔ لیکن اگر مسلم علمی روایت ( قرآن و سنت کی تعبیر ) ، اسلامی علمی روایت (قرآن و سنت) سے اپنا زندہ ربط و تعلق منقطع کر لے ، تو وہ نہ صرف داخلی لحاظ سے بے روح ہو جاتی ہے بلکہ آہستہ آہستہ اسلامی علمی روایت کی قائم مقام بن جاتی ہے اورپھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ، مسلم علمی روایت کو اسلامی علمی روایت کی روشنی میں مسلسل پرکھنے اور ارتقا پذیر رکھنے کے بجائے اساسی تسلیم کر لیا جاتا ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ اسلامی تہذیب، کسی خاص زمانے کی تعبیر و تشریح کو قرآن و سنت کے مساوی و متوازی کھڑا کر کے ، اسلامی علمی روایت سے زندہ تعلق کھو بیٹھتی ہے اور زوال پذیر ہو جاتی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ آج کی اسلامی تہذیب ، اگرچہ مسلم علمی روایت پر قائم ہے لیکن یہ روایت ، اسلامی علمی روایت سے روگردانی کے باعث ، زمانی ارتقا اور مکانی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دے سکی ، اور المیہ تو یہ ہے کہ یہ مردہ روایت ، اسلامی علمی روایت کی قائم مقام بن چکی ہے ۔ اب اگر کوئی فرد اسلامی علمی روایت سے زندہ تعلق قائم کرنے کی بات کرتا ہے تو اس کی کوشش کو فکری انتشار پھیلانے کا الزام دیا جاتا ہے ۔ 

قرآن مجید کی ترتیب سے استشہاد

نبی خاتم ﷺ کی بعثت سے لے کر آپ ﷺ کے وصال تک کے زمانے میں اسلامی علمی روایت اور مسلم علمی روایت کے درمیان مذکورہ فرق دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نازل ہو رہا تھا اور چونکہ قرآن مجید ایک ہی وقت میں نازل نہیں ہوا بلکہ تقریباََ ۲۳برس کے عرصہ میں درجہ بدرجہ نازل ہوا ، اس لیے مسلم سماج کا قرآن مجید کی نزولی ترتیب کے ساتھ براہ راست زندہ تعلق موجود تھا ۔ یہی بات سنت رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے بھی ہے کیونکہ آپ ﷺ اس سماج میں خود موجود تھے ۔ اس طرح کہ عہدِ نبوی ﷺ کی اسلامی تہذیب نہ صرف اسلامی علمی روایت پر قائم تھی بلکہ اس کا اس روایت کے ساتھ زندہ تعلق بھی موجود تھا ۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ نبی خاتم ﷺ نے وصال سے کچھ عرصہ قبل جبریل ؑ کے ساتھ قرآن مجید کا جو دور کیا ، اس میں قرآن مجید کی ترتیب، نزولی ترتیب سے مختلف ہے ۔( اس ترتیب کو ہم آئندہ سطروں میں ’’ حتمی ترتیب ‘‘ کا نام دیں گے ) ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن مجید کی آیات وہی ہیں جو درجہ بدرجہ نبی خاتم ﷺ پر نازل ہوئیں تو پھر ان کی ترتیب بدلنے میں آخر کیا حکمت پنہاں ہے؟ آخر نزولی ترتیب کو ہی برقرار کیوں نہیں رکھا گیا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سوال کا جواب ، اسلامی علمی روایت اور مسلم علمی روایت کے درمیان فرق کی نشاندہی کرتا ہے ۔ 

اگر قرآن مجید کی نزولی ترتیب کو مدِ نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ :

(۱) قرآنی احکامات ارتقائی مراحل سے گزرے ہیں ۔

(۲) تمام آیات کسی خاص پس منظر میں نازل ہوئی ہیں، اس لیے خاص سیاق کی حامل ہیں ۔

(۳) نزولِ آیات کا خاص سیاق ، ایک مخصوص زمانے، مخصوص علاقے، مخصوص عوامل اور مخصوص ثقافت کے ارد گرد ہی گھومتا ہے ۔

اگر نزولی ترتیب کے بجائے حتمی ترتیب کو مدِ نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ :

(۱) قرآنی احکامات میں ارتقا کا عنصر کلیدی نہیں ہے بلکہ امدادی ہے ۔

(۲) آیات کا خاص سیاق بھی امدادی ہے ، کلیدی نہیں ہے ۔ خاص سیاق سے ہٹ کر بھی آیات کی تفہیم ممکن ہے ۔ 

(۳) خاص سیاق ، ایک مخصوص زمانے مخصوص علاقے مخصوص عوامل اور مخصوص ثقافت کے ارد گرد ہی گھومتا ہے، اس لیے اس کے اثبات کے لیے نزولی ترتیب ناگزیر ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ قرآن مجید ، نبی خاتم ﷺ کے زمانے سے نزولی ترتیب کے بجائے حتمی ترتیب کے مطابق تلاوت کیا جاتا ہے ، اس لیے خاص سیاق اور اس کے لوازمات بے اصل ہو جاتے ہیں ۔ 

(۴) قرآن مجید کی حتمی ترتیب جہاں اس طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ نزولی ترتیب اور اس کے متعلقات کی حیثیت امدادی ، اضافی اور تاریخی عناصر کی ہے ، وہاں دوسری طرف اس امر پر بھی شاہد ہے کہ کسی بھی خاص زمانے، خاص علاقے، خاص عوامل اور خاص ثقافت کے تناظر میں فہمِ قرآن کی کوشش اگرچہ درست ہے ، لیکن حتمی نہیں ہے ۔ حتمی حیثیت صرف قرآن مجید کی حتمی ترتیب کے متن کی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نبی خاتم ﷺ نے الہیاتی حکمت کے مطابق ، قرآن مجید کو نزولی ترتیب کے بجائے حتمی ترتیب میں اس لیے ڈھالا تاکہ نزولی ترتیب کے ساتھ منسلک علائق قرآن مجید کی آفاقیت اور معنویت کو محدود نہ کر سکیں ۔یہیں سے اسلامی علمی روایت( قرآن و سنت ) اور مسلم علمی روایت( قرآن و سنت کی تعبیر ) میں فرق بھی واضح ہو جاتا ہے ۔ آپ ﷺ کے عہد میں چونکہ قرآن خاص سیاق میں نازل ہوا تھا اور وہ سیاق، خاص زمانی و مکانی اور ثقافتی تقاضوں سے عبارت تھا ، اس لیے قرآنی آیات کو مخصوص زمان و مکان اورمخصوص ثقافت سے مبرا کر نے کے لیے آپ ﷺ نے خدائی حکم کے مطابق قرآن مجید کو حتمی ترتیب دی ۔ اس طرح قرآن مجید کے لیے ممکن ہو سکا کہ وہ نزول آیات کے خاص سیاق سے بالاتر ہوکر زمان و مکان کے تسلسل اور ثقافتی متغیرات پر غالب ہوسکے ۔ افسوس ! ہم مسلمان حکمتِ نبوی ﷺ کے برعکس ،( دورِ نبوی ﷺ تو کجا ) دورِ نبوی ﷺ کے بعد کے علائق کوبھی ، جن کی حیثیت اب سراسر تاریخی آثار کی ہے ، قرآن مجید کی حتمی ترتیب کے متن کے حتمی فہم کا مقام دیے بیٹھے ہیں ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگ مسلم علمی روایت ( قرآن و سنت کی تعبیر ) اور اسلامی علمی روایت ( قرآن و سنت ) کے درمیان فرق کرنے کے روادار نہیں ہیں ۔ یہی عدم رواداری ہمارے تہذیبی زوال کا بنیادی سبب ہے ، کیونکہ ہم لوگ خاص زمانے خاص علاقے اور خاص ثقافتی متغیرات سے چمٹے ہوئے ہیں، حالانکہ زمانہ بدل چکا ہے اسلام نئے خطوں میں قدم رکھ رہا ہے جس سے ثقافتی تنوع کی نئی نئی جہتیں سامنے آ رہی ہیں ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم علمی روایت ( قرآن و سنت کی وہ تعبیر جو معاصر سماجی و ثقافتی تقاضوں سے لگا نہیں کھاتی ) پر استوار تہذیب سے چمٹے رہنے اور اسے ہی اسلامی قرار دینے کے بجائے اسلامی علمی روایت ( قرآن و سنت ) سے زندہ تعلق قائم کیا جائے ، تب ہی ہم معاصر تقاضوں کے مطابق مسلم علمی روایت کی تشکیلِ نو کرکے صحیح معنوں میں تہذیبی بیداری کی راہ ہموار کر سکتے ہیں ۔ اگر ہم مسلم علمی روایت کو اسلامی روایت سمجھنے پر مصر رہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ مسلم علمی روایت( اپنے مخصوص پس منظر کے باعث ) ہر زمانے ہر علاقے اور ہر ثقافت کے تقاضوں سے نبھا نہیں کر سکتی۔ نتیجے کے طور پر ( مسلم علمی روایت کے بجائے ) اسلامی علمی روایت کو ہی فرسودہ اور دقیانوسی قرار دے کر مسترد کر دیا جائے گا ۔ 

فہمِ قرآن میں حتمی ترتیب کی اہمیت 

فہمِ قرآن کے لیے مسلمانوں نے جن علوم و فنون کی داغ بیل ڈالی ، ان میں سرِ فہرست تفسیر نویسی ہے ۔ نبی خاتم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے ادوار میں تفسیر نویسی کی ایسی مثال نہیں ملتی ، جو ہمارے ہاں رائج ہو چکی ہے ۔ اگرچہ بعض قرآنی آیات کی معنویت کی بابت اکابر صحابہؓ کی آرا موجود ہیں ، لیکن یہ آراء جزوی اور بکھری ہوئی ہیں ، ان میں قرآنی آیات کی درجہ بدرجہ تشریح و توضیح اس انداز میں نہیں کی گئی ، جس طرح آجکل کے مفسرین کرتے ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید کی تفسیر بالرائے یا تفسیر بالروایت کی طرف توجہ کیوں نہیں دی ؟ حالانکہ تفسیر بالروایت کرنے کی صورت میں انھیں سنت و احادیث تک براہ راست رسائی کی سہولت حاصل تھی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن کی تفسیر کرنے سے عمداََ احتراز کیا ، کیونکہ آنے والے ا دوار میں ایک تو ان کی تفسیر کو قرآنی متن کے متوازی سمجھنے کا احتمال موجود تھا ، دوسرا تفسیر نویسی اصولاََ ممکن ہی نہیں تھی ۔ 

دوسرے نکتے کی وضاحت یہاں ضروری معلوم ہوتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر قرآن مجید کی فقط نزولی ترتیب ہی رائج ہوتی تو تفسیر نویسی ممکن اور سہل کام تھا ، کیونکہ قرآن مجید مسلم سماج کی تشکیل و ارتقا کے ساتھ ساتھ بتدریج نازل ہو رہا تھا ، اس لیے نزولی ترتیب میں وہ خاص نظم تلاش کیا جا سکتا تھا جو تفسیر نویسی کا انتہائی ناگزیر لازمہ ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں ایسا نظم نہیں پایا جا تا، جس کے پیچھے کسی زندہ سماج کی تشکیل و ارتقا کارفرما ہو اور حتمی ترتیب میں ایسے نظم کی غیر موجودگی ، قرآن کی کسی بھی ایسی تشریح کوعملاً غیر ممکن بنا دیتی ہے جو محض اس کے نزول کے سیاق میں ترتیب وار کی گئی ہو۔ اس لیے اول تو ایسے مذہبی حلقوں کی کوششیں جو قرآن مجید کی حتمی ترتیب کے متن کی تفسیر ’’ نظم ‘‘ میں کرنے کا خواہش مند ہے ، کافی عجیب و غریب اور بے اصل معلوم ہوتی ہیں۔ دوم ، ایسے مذہبی حلقے جوکسی نظم کی غیر موجودگی کے اعتراف کے باوجود تفسیر نویسی پر خواہ مخواہ تلے ہوئے ہیں ، اسلامی علمی روایت کی اساس سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں ۔ مثلاً، قصہ آدم و ابلیس کو ہی لیجیے ۔ یہ قصہ کسی نظم کے بغیر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر بکھرا ہوا ہے ، اس کی تفسیر کرتے ہوئے اگر سورۃ بقرہ کی آیات کو ہی مدِ نظر رکھا جائے گا تو اس واقعے کے بہت سے پہلو نگاہوں سے اوجھل رہنے کے باعث خدائی منشا واضح نہیں ہو سکے گی اور اگر سورۃ بقرہ میں ہی رہتے ہوئے دیگر قرآنی مقامات سے اس واقعے کے متعلقات سے استفادہ کیا جائے گا تو پھر قرآن مجید کی ترتیب وار تفسیر کا جواز باقی نہیں رہتا ۔ اس مثال کے علاوہ دیگر قرآنی موضوعات پر نظر دوڑائیے ، اسی قسم کی صورتِ حال سے واسطہ پڑے گا ۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کی نزولی ترتیب کے بجائے حتمی ترتیب بنفسہٖ اور اس کی ساخت و نوعیت ، اس امر پر شاہد ہیں کہ قرآن مجید میں نظم کے بجائے وحدت کا عامل کارفرما ہے ۔ قرآن مجید کا یہ وحدتی رجحان ، قرآنی آیات کو مختلف زاویوں سے ایک لڑی میں ضرور پروتا ہے لیکن انھیں ارتقائی نظم سے بہرہ مند ہر گز نہیں کرتا ۔قرآن مجید کی حتمی ترتیب ، اپنے موضوعاتی بکھراؤ کے سبب ، ایک ہی موضوع کو ارتقائی انداز میں دیکھنے کے بجائے ایسے وحدتی رخ میں دیکھنے کا بنیادی سامان فراہم کرتی ہے جس میں کسی زمانے، کسی علاقے اور کسی ثقافت کی مقتضیات کو بآسانی سمویا جا سکتا ہے ۔ اس لیے قرآن مجید سے جو قرآنی نظامِ فکر اخذ کیا جا سکتا ہے ، ضروری نہیں کہ وہ ہر زمانے ، ہر علاقے اور ہر ثقافت میں یکساں اور یک رنگ ہی ہو ، بلکہ یہ ایک ہی زمانے ایک ہی علاقے اور ایک ہی ثقافت میں بھی مختلف اور امتیازی نوعیت کا ہو سکتا ہے ۔ 

خیال رہے کہ قرآن مجید کا وحدتی رجحان کوئی نیا مظہر نہیں ہے ، بلکہ قرآن مجید کے نزول کے ساتھ ہی اس کا وحدتی رجحان بھی واضح ہوتا گیا ۔ ایسا ہر گز نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی موضوع کے متعلق تمام احکامات بتدریج نازل کر دیے اور ان کے درمیان کسی دوسرے موضوع کے متعلق کوئی آیت نہ اتاری ۔مثال کے طور پر یہ نہیں ہوا کہ سب سے پہلے نماز کے متعلق تمام آیات نازل کر دی گئیں ، اس کے بعد جہاد کے متعلق اور پھر اس کے بعد سود ( وغیرہ ) کے متعلق تمام احکامات دے دیے گئے، بلکہ ایسا ہوا کہ ایک موضوع کے متعلق حکم کے بعد کسی دوسرے موضوع کے متعلق آیات نازل کی گئیں، اس طرح ایک ہی موضوع کے متعلق احکام ، دیگر موضوعات کے متوازی ، ارتقائی منازل طے کرتے رہے ۔ موضوعاتی احکامات کی اس ترتیب سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی سماج کی تشکیل ، تبدیلی اور ارتقا کے پیچھے کوئی ایک عامل کارفرما نہیں ہوتا ، بلکہ کئی عوامل بیک وقت اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔ اس لیے قرآن مجید کے نزول کے وقت بھی کسی ایک عامل کے متعلق تمام احکام کے بجائے مختلف النوع عوامل کے متعلق متفرق احکامات نازل ہوتے رہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نزولِ قرآن کے وقت موضوعاتی ارتقا کی مذکورہ ترتیب ، قرآن مجید کے وحدتی رجحان پر دال ہے ۔ یہی وحدتی رجحان ، قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں بھی جھلملا رہا ہے ۔ 

جس مذہبی حلقے کے نزدیک قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں’’ نظم ‘‘موجود ہے اس کے مطابق اسی نظم کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآن مجید کا فہم ممکن ہے اور اس سے اصول بھی اخذ کیے جا سکتے ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن مجید کی حتمی ترتیب کے نظم سے ایسے اصول اخذ کیے جا سکتے ہیں جو کسی سماج ( بلکہ ہر سماج ) کے تقاضوں کو نبھانے پر قادر ہوں تو پھر قرآن مجید اسی ترتیب سے نازل کیوں نہیں کیا گیا ؟ آخر قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں ایسا کون سا عجیب و غریب نظم پنہاں ہے جو ہر دور کے لیے اصول اخذ کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے لیکن عہدِ نبوی ﷺ میں یہ ایسے اصول فراہم کرنے سے قاصر تھا ؟ اور اسی لیے نزولی ترتیب اور حتمی ترتیب میں فرق روا رکھا گیا ؟حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں اول تو ایسا نظم موجود ہی نہیں ،( نزولی ترتیب میں ایسا نظم موجود ہے، کیونکہ اس کے پیچھے ایک زندہ سماج موجود تھا ) ، لیکن ایسا نظم اگر طوعاً و کرہاً ، حتمی ترتیب سے منسوب بھی کر دیا جائے تب بھی اس نظم سے ایسے اصول اخذ نہیں کیے جاسکتے جو ایک زندہ سماج کے تقاضوں سے نمٹنے پر قادر ہوں ۔ درحقیقت کسی زندہ سماج کے تناظر میں ہی نظم تشکیل پاتا ہے اور زندہ سماج کہیں پڑاؤ نہیں ڈالتا ، بلکہ اس کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے ۔ اس لیے ایک مستقل سماجی تقاضے کے پیشِ نظر ، نزولی ترتیب میں موجود نظم کو تغیر آشنا کرنے کے لیے قرآن مجید کی حتمی ترتیب کا اجرا کیا گیا ۔ 

قرآن مجید کی موضوعاتی اور حتمی ترتیب 

بعض اہلِ علم نے فہمِ قرآن کے سلسلے میں قرآن مجید کو موضوع وار ترتیب دیا ہے۔ اگرچہ ایسے طریقہ کار کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ، لیکن اس سے قرآن مجید کی حتمی ترتیب کی حکمت کا مکمل احاطہ نہیں ہوتا ۔یہاں یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب عہدِ نبوی ﷺ میں قرآن مجید کی نزولی ترتیب کے بجائے حتمی ترتیب کو اپنایا گیا تو اسے موضوعاتی اعتبار سے ترتیب کیوں نہ دیا گیا ؟ آخر موضوعاتی بکھراؤ میں اللہ رب العزت نے کیا حکمت رکھی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ :

(۱) قرآنی موضوعات کا انتخاب بنفسہٖ کسی شخص، کسی ادارے، کسی زمانے، کسی علاقے، کسی ثقافت یا دیگر عوامل سے اثر پذیر ہونے کے سبب ، حتمی کے بجائے اضافی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یوں ، موضوعاتی بکھراؤ ، موضوعاتی چناؤ کے لحاظ سے تنوع کا باعث بنتا ہے ، یہ تنوع قرآنی امکانات کا اشاریہ بن کر قرآن کے آفاقی پہلوؤں کا گواہ بن جاتا ہے ۔ 

(۲) اگر قرآن مجید کی حتمی ترتیب کے بجائے موضوعاتی ترتیب ہوتی ، تو قاری کسی موضوع کی تلاوت کرکے اسی موضوع کے سیاق میں قرآنی حکمت دریافت کرنے کی کوشش کرتا ۔ ایسی کوشش پورے قرآنی سیاق سے محرومی کے باعث ، قرآنی منشا تک رسائی کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہ ہو سکتی ۔ لیکن قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں ایک ہی موضوع سے متعلق آیات کے درمیان والی آیات موضوع کے مکمل ادراک کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے وحدتی رجحان کو موضوع میں سمونے کا سبب بنتی ہیں ۔ یہ وحدتی رجحان ، ایک موضوع کا دیگر موضوعات سے ربط و تعلق قائم کرکے فہمِ قرآن کا بنیادی تقاضا پورا کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر جہاد و قتال سے متعلق آیات کو اگر کتاب الجہاد کے عنوان سے ایک الگ باب میں جمع کر دیا جائے اور فقط انھی آیات کو پیشِ نظر رکھ کر جہاد وقتال کے متعلق احکام اخذ کیے جائیں تو پورے قرآنی سیاق سے غفلت کے باعث بھٹکنے کا احتمال موجود رہے گا ،کیونکہ قرآن مجید کا وحدتی رجحان ایسی تخصیص کی نفی کرتا ہے ۔ لیکن بر عکس صورت میں جہادوقتال کے قرآنی احکامات ان تمام پہلوؤں سمیت سامنے آ سکیں گے جس حد تک بشر ی استعداد میں ممکن ہے ۔

فقہ اور قرآن مجید کی حتمی ترتیب 

اگر قرآن مجید کی حتمی ترتیب کی حکمت کو ذہن میں رکھتے ہوئے فقہ کی مسلم روایت پر نظر ڈالی جائے تو کئی سوالات پیداہوتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر کی سطروں میں واضح کیا، نزولی ترتیب کے بجائے حتمی ترتیب کا اجرا ، قرآن کو نزولِ قرآن کے خاص سیاق سے الگ کرنے کی علامت بنتا ہے اور یہ کہ وہ خاص سیاق ، ایک خاص ثقافت خاص علاقے اور خاص زمانے کے ارد گرد گھومتا ہے ۔ اگر فقہ ، قرآن و سنت کے ایسے فہم پر موقوف ہے جس کی بنت و بافت اسی زمین پر ایک خاص علاقے ایک خاص زمانے اور ایک خاص ثقافت میں ہوئی ہے تو پھر کسی خاص زمانے، خاص علاقے اور خاص ثقافت کی فقہ ، ہر زمانے، ہر علاقے اور ہر ثقافت کے تقاضوں کو کیونکر محیط ہو سکتی ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ فقہ کسی خاص ثقافتی سیاق میں ہی ترتیب پاتی ہے۔ چونکہ یہ خاص ثقافتی سیاق ، اپنی اصل میں اضافی ہے ، اس لیے فقہ بھی اضافی ٹھہرتی ہے ۔ جہاں تک قرآن و سنت کا تعلق ہے، وہ اپنی جگہ پر بطور اسلامی علمی روایت مستقلاً موجود رہتے ہیں ، صرف ان کا خاص ثقافتی فہم ہی مرورِ ایام کے ساتھ ، امدادی اور اضافی ہوتا چلا جاتا ہے ، اگرچہ کسی خاص وقت تک سماجی تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے باعث یہ خاص ثقافتی فہم ، قرآن و سنت کی تعبیر بن کر تہذیب اسلامی کی شناخت بنتا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ آئمہ اربعہ کی خدمات اسی دائرے میں آتی ہیں ۔ 

اگر ائمہ اربعہ کی خدمات کی انسانی محدودیتوں کو نظر انداز کر دیا جائے جائے اور اصرار کیا جائے کہ ان کے اخذ کردہ اصول، قرآن و سنت کی تعبیر اور ان کی فقہی آرا حتمی ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئمہ اربعہ نے قرآن و سنت کی ایسی ’’اصولی اور معروضی تعبیر ‘‘ کر دی ہے جس کی معنویت قرآن و سنت کے متوازی ، ان کے امکانات پر محیط اور ہمیشگی کی حامل ہو؟ اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ دور جس میں فقہ ترتیب دی گئی ، دورِ نبوی ﷺ سے زیادہ اہم اور مقدس ہے ، کیونکہ ایسی ہی کسی حتمی تعبیر سے گریز کی خاطر قرآن کو اس کے نزول کے خاص سیاق سے الگ کیا گیا تھا ۔ اگر مذکورہ سوال کا جواب نفی میں ہے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آئمہ اربعہ بشر تھے ، سماج میں رہتے تھے اور ان کی ذہنی ساخت کی تشکیل میں ان کے ہم عصر مخصوص ثقافتی ماحول کا بہت عمل دخل تھا ۔ اس لیے ان کی تعبیروتشریح ، ان کے زمانے علاقے اور خاص ثقافت کی انعکاس ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک خاص دور میں ائمہ اربعہ کی سماجی مقبولیت خود اس بات کی آئینہ دار ہے کہ ائمہ اربعہ سماجی مقتضیات سے بخوبی آگاہ تھے ، اپنے وقت کے زمانی احوال اور ثقافتی متغیرات پر ان کی گہری نظر تھی ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ائمہ اربعہ سماجی تقاضوں سے مکمل غافل رہ کر ایسی فقہ ترتیب نہیں دے سکتے تھے جو اسلامی علمی روایت کی زندہ علامت بن کر تہذیبِ اسلامی کے تسلسل کو برقرار رکھ سکتی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب فقہ کی مسلم روایت ، اپنے مخصوص ثقافتی سیاق کے باعث ، اسلامی علمی روایت کی نمائندگی کے منصب سے دستبردار ہو کر اضافی سطح پر آچکی ہے اور اپنی عملی افادیت کھو بیٹھی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے ماحول کا گہرا مطالعہ کیا جائے اور ماضی کی فقہی روایت کو امدادی حیثیت میں لیتے ہوئے قرآن و سنت کی تعبیروتشریح آج کے ثقافتی متغیرات اور سماجی مقتضیات کے تناظر میں کی جائے کہ ایسی زندہ علمی روایت ہی تہذیبِ اسلامی کے تسلسل کی ضامن ثابت ہو سکتی ہے ۔ 

قرآن مجید کی حتمی ترتیب سے ماخوذ ایک بنیادی اصول 

اگر ہم تہذیبِ اسلامی کا تعلق مردہ علمی روایت کے بجائے زندہ علمی روایت سے قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہم عصر ماحول سے مکمل باخبری اور واقفیت کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں پنہاں ایک بنیادی اصول کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاصر ثقافتی سیاق میں اس اصول کی آمیزش سے نہ صرف پیچیدہ مسائل سے بطریقِ احسن نمٹا جا سکتا ہے بلکہ قرآن مجید کی حتمی ترتیب کی معنویت مزید اجاگر ہوسکتی ہے ۔

ابھی تک یہ اصول مسلمہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک ہی موضوع پر قرآنی احکامات ، اپنی نزولی ترتیب کے اعتبار سے جن مراحل سے گزرے ہیں ، وہ مراحل بعینہ ، مستقل نوعیت کے حامل ہیں اور ایک ہی موضوع پر آخری حکم ، حتمی حکم کا درجہ رکھتا ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ اصول اتنا درست نہیں ہے جتنا سمجھا جا تا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی حتمی ترتیب نے نزولی ترتیب کے احکامات کا ’’ ارتقائی نظم ‘‘ گڈ مڈ کر دیا ہے۔ اب حتمی ترتیب میں ایک ہی موضوع پر احکامات ، اس ترتیب کے ساتھ نہیں پائے جاتے جس ترتیب کے ساتھ یہ نازل ہوئے تھے ۔ نزول کے وقت چونکہ وہ خاص سماج مخاطب تھا ، اس لیے اس کے مخصوص تقاضوں کے مطابق ایک خاص ترتیب کے ساتھ احکامات نازل ہوئے اور بتدریج آخری حکم دے دیا گیا ۔ بعد میں نزولی ترتیب کے خاتمے اور حتمی ترتیب کے اجرا سے ، ارتقا و تدریج کے اس اصول کو بھی خیر باد کہہ دیا گیا۔ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں ذکر ہوا، حتمی ترتیب میں ارتقا کے بجائے وحدتی رجحان دکھائی دیتا ہے ۔ یہ وحدتی رجحان اپنے موضوعاتی بکھراؤ کے جلو میں ایک ہی موضوع کے متعلق مختلف احکامات کو ارتقاوتدریج کے بجائے نئے زمانی احوال ، سماجی مقتضیات اور ثقافتی متغیرات کے حوالے سے دیکھتا ہے ۔ اس کاایک مطلب یہ ہے کہ کسی موضوع پر کوئی آخری حکم ، سابقہ احکامات کی تنسیخ نہیں کرتا ، کیونکہ قرآن کی حتمی ترتیب کے مطابق کسی حکم کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ آخری حکم ہے۔ آخری حکم نزولی ترتیب کے ساتھ منسلک ہے جبکہ ہم حتمی ترتیب کے مکلف ہیں ۔ قرآن مجید کی حتمی ترتیب سے ماخوذ اس اصول کے تحت ممکن ہے کہ : 

(۱) ایک ہی موضوع سے متعلق تمام احکامات کی ارتقائی درجہ بندی کے بجائے نئے زمانی احوال ، سماجی مقتضیات اور ثقافتی متغیرات کے تناظر میں ترجیحی درجہ بندی کر لی جائے ۔ 

(۲) ترجیحی درجہ بندی میں ایک ہی موضوع سے متعلق تمام احکامات میں سے کوئی ایک حکم بھی منسوخ نہ کیا جائے ۔ ایک ہی موضوع کے ہر حکم کا اپنا محل تسلیم کیا جائے ، جس کا سماج میں نفاذ ، اس موضوع کے علاوہ دیگر موضوعات کی بابت سماجی مقتضیات کے پیشِ نظر کیا جائے ۔ 

(۳) ترجیحی درجہ بندی میں ہر حکم کا اپنا محل تسلیم کرنے کے علاوہ ،ایک ہی موضوع کے تمام احکامات کی مجموعی منشا کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔ در حقیقت اسی مجموعی منشا کا حصول ، ترجیحی درجہ بندی کے جواز کو تقویت دیتا ہے اور اس مجموعی منشا کے حصول کی خاطر ہی احکامات کی درجہ بندی میں ترجیحات کے لحاظ سے ردو بدل بھی کیا جا سکتا ہے ۔ 

(۴) ایک ہی موضوع پر تمام احکامات کی مجموعی منشا کے حصول میں قرآن مجید کے وحدتی رجحان یعنی قرآنی سیاق سے بھی غفلت نہ برتی جائے ۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک قرآن مجید کی حتمی ترتیب کا اجرا نہیں ہوا تھا اس وقت تک مذکورہ اصول سے واقفیت اور اس سے اخذ واستنباط بھی ممکن نہیں تھا ۔ لیکن جب قرآن مجید کی حتمی ترتیب کا اجرا ہو گیا تو یہ اجرا اپنی ذات میں خود اس بات کا شاہد بن گیا کہ عہدِ نبوی ﷺ کا مسلم سماج تغیر آشنا ہو گیا ہے اور چونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر نیا سماج اپنے پیش رو سماج جیسے مراحل سے اور اسی ترتیب سے گزرے ، اس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ پیش رو سماج کی بابت جو احکامات بتدریج نازل ہوئے ہوں یا اپنائے گئے ہوں، وہ اسی ترتیب کے ساتھ جانشین سماج کے لیے لازم قرار دیے جائیں ۔ نبی خاتم ﷺ کے وصال کے بعد خلافتِ راشدہ اور صحابہ کرامؓ کے ادوار میں مسلمانوں کی عسکری فتوحات کے ساتھ ہی نبوی ﷺ عہد کی اسلامی تہذیب ، اپنے مخصوص ثقافتی سیاق سے نکل کر نئے زمانی احوال ، سماجی مقتضیات اور ثقافتی متغیرات سے ہم کنار ہوئی ، اس لیے ان ادوار کے سنجیدہ مطالعے سے ایسے نظائر و شواہد دستیاب ہو سکتے ہیں جو مذکورہ اصول کی اسلامیت اور افادیت پر مہرِ تصدیق ثبت کر سکیں ۔ اس سلسلے میں ایک مثال یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ، قحط کی وجہ سے ، ہاتھ کاٹنے کی حد ساقط قرار دی تھی ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عمر فاروقؓ نے محض ایک خارجی مظہر سے دب کر ایک حد کو ساقط قرار دے دیا ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا سمجھنا قرینِ قیاس نہیں ہے ۔ حضرت عمرؓ کسی خارجی مظہر سے دب کر ایک صریح حد کو ساقط قرار نہیں دے سکتے تھے۔ قرینِ قیاس یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے قحط کے زمانے میں ہاتھ کاٹنے کی حد کو ساقط قرار دیتے وقت ، قرآن مجید کے وحدتی رجحان ( یعنی ایک حکم کو پورے قرآنی سیاق میں سمجھنا ) کو پیشِ نظر رکھا ۔ اگر غور کیاجائے تو فاروقِ اعظمؓ کا یہ فیصلہ ہمارے اخذ کردہ مذکورہ بالا اصول سے بھی ایک قدم بڑھ کر ہے ، کیونکہ انھوں نے احکامات کی ترجیحی درجہ بندی کرکے بر محل حکم کے نفاذ کے بجائے قرآن مجید کے محض وحدتی رجحان سے استفادہ کیا۔ 

یہاں پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ فاروقِ اعظمؓ کا یہ فیصلہ استثنائی، ہنگامی اور عارضی نوعیت کا تھا جسے ہم خوامخواہ پھیلا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہم گزارش کریں گے کہ فاروقِ اعظمؓ نے یہ فیصلہ ایک ایسے خارجی مظہر ( قحط ) کے پیدا کردہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا تھا جو اپنی نوعیت میں عشروں اور صدیوں پر محیط نہیں ہوتا ۔ جس حد تک اس مظہر ( قحط ) کے مسائل پھیلے ہوئے تھے ، اسی حد تک ایک استثنائی و ہنگامی حکم بھی جاری کر دیا گیا اور وہ بھی قرآن مجید کے وحدتی رجحان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جاری کیا گیا ۔ لہٰذا ایسے مظاہر جو اپنی نوعیت میں برسوں نہیں ، بلکہ کئی عشروں اور کئی صدیوں پر محیط ہوتے ہیں (سماجی، ثقافتی وغیرہ وغیرہ ) ان کے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنے کے لیے استثنائی و ہنگامی حکم نہیں بلکہ اصولی حکم جاری کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ نئے زمانی احوال ، سماجی مقتضیات اور ثقافتی متغیرات کا حقیقت پسندانہ سامنا کرنے کے لیے ، کسی موضوع پر قرآنی احکامات کی ترجیحی درجہ بندی کر کے ، پورے قرآنی سیاق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ، برمحل حکم کا نفاذ کیا جا سکتا ہے کہ ہر قرآنی حکم ، اصولی حکم ہوتا ہے۔ 

حرفِ آخر 

اختتامی کلمات کی طرف بڑھتے ہوئے ہم گزارش کریں گے کہ سیاسی و معاشی میدانوں میں مسلمانوں کی موجودہ بد حالی درحقیقت مسلم تہذیبی زوال کا منطقی نتیجہ ہے اور تہذیبی زوال کی تہہ میں ایک علمی روایت سے ایسی غیر مشروط وابستگی موجود ہے جس پر انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلامی علمی روایت اور مسلم علمی روایت میں فرق نہیں کیا جاتا ۔ تہذیبِ اسلامی کا وہ طبقہ ، جو اپنے تئیں اسلام کا صحیح نمائندہ ہے ، مسلم علمی روایت کو ہی اسلامی علمی روایت سمجھنے پر مصر ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی و معاشی میدانوں میں مسلمانوں کی ترقی و خوش حالی کے لیے زوال پذیر تہذیبی رویے کی اصلاح انتہائی ناگزیر ہے اور یہ اصلاح ، مردہ علمی روایت کو چیلنج کیے بغیر نا ممکن ہے ۔صحیح احادیث کے مطابق قرآن مجید کی نزولی ترتیب کو بدل دیا گیا تھا ، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سنتِ رسول اللہ ﷺ میں پوشیدہ حکمت کو تلاش کیا جائے اور اس حکمت کے مطابق اسلامی علمی روایت ( قرآن و سنت ) سے براہ راست تعلق قائم کیا جائے ،زوال پذیر تہذیبِ اسلامی کی پشت پر موجود مسلم علمی روایت کو اساسی و بنیادی حیثیت دینے کے بجائے امدادی و اضافی حیثیت میں لیا جائے ۔ قرآن مجید کی حتمی ترتیب کی حکمت کے مطابق، آج کے زندہ سماج کے تقاضوں اور ثقافتی متغیرات کے تناظر میں ، اصولِ تفسیر اور اصولِ فقہ پر نظر ثانی کر کے ایسی زندہ مسلم علمی روایت قائم کی جائے جواسلامی علمی روایت ( قرآن و سنت ) کی نمائندہ بن کر ہماری زوال پذیر تہذیب کو عروج آشنا کر سکے۔

اسلام اور عصر حاضر

(اگست ۲۰۰۶ء)

اگست ۲۰۰۶ء

جلد ۱۷ ۔ شمارہ ۸

اسلام کا قانون ازدواج اور جدید ذہن کے شبہات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دین کی جامعیت اور ہمارا عمومی مذہبی رویہ
مولانا محمد یوسف

معاصر تہذیبی تناظر میں مسلم علمی روایت کی تجدید
پروفیسر میاں انعام الرحمن

اچھے استاد کے نمایاں اوصاف
پروفیسر شیخ عبد الرشید

مسئلہ رجم اور مولانا اصلاحیؒ کا تفسیری موقف
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

قورح، قارون: ایک بے محل بحث
ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی

لبنان کی صورت حال اور مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مکاتیب
ادارہ

ذکر ندیم
پروفیسر میاں انعام الرحمن

’’انکار رجم: ایک فکری گمراہی‘‘
محمد عمار خان ناصر

تلاش

Flag Counter