مکاتیب

ادارہ

(۱)

محترم مدیر الشریعہ گوجرانوالہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

’الشریعہ‘ ما شاء اللہ فکری اعتبار سے کافی اہم رول ادا کر رہا ہے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے بنیادیں فراہم کر رہا ہے اور مسالک اور مذاہب کے مابین افہام وتفہیم کو فروغ دے رہا ہے۔

جون ۲۰۰۶ کے شمارے میں ڈاکٹر کنول فیروز نے بجا کہا ہے کہ’’یہ دور مناظرے کا نہیں بلکہ انٹر فیتھ مکالمہ (Interfaith dialogue) کا ہے تاکہ مختلف مذاہب وادیان اور مسالک کے درمیان نہ صرف غلط فہمیوں اور کج بحثیوں کا خاتمہ ہو بلکہ باہمی رواداری، یگانگت، ہم آہنگی، محبت اور برداشت کی ثقافت کو فروغ حاصل ہو۔‘‘ 

اسی حوالے سے راقم نے بھی انتہا پسندی، بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمہ پر کافی لکھا ہے۔ "Interfaith relationship: Islamic Perspective" کے عنوان سے ایک مضمون HSSRD کے رسالہ Science-Religion Dialogue میں شائع ہوا ہے جو ہماری ویب سائٹ www.hssrd.org پر بھی موجود ہے۔ علاوہ ازیں اردو میں ایک تفصیلی مقالہ اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سیرت کانفرنس ۲۰۰۶ کے لیے لکھا گیا تھا جسے سرحد کی طرف سے پہلا انعام بھی دیا گیا۔ اگر آپ چاہیں تو راقم ’الشریعہ‘ میں اشاعت کے لیے بھیج سکتا ہے۔

جون ہی کے شمارے میں محمد سمیع اللہ فراز صاحب کا مضمون ’’اسلامی تحریکیں اور مغربی تحقیقات‘‘ مستشرقین کی کتب کے overview پر مشتمل ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے جن کتابوں کے نام پبلشرز اور سن اشاعت کی تفصیلات کے ساتھ درج کیے ہیں، ان کا خود مطالعہ نہیں کیا، ورنہ وہ مشہور اسکالر اور اسلام اور عیسائیت کے مابین مکالمہ اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کام کرنے والے مستشرق John L. Esposito کی تقریباً ساری اچھی کتابوں کے نام گنوانے کے بعد یہ نہ لکھتے کہ ’’انھوں نے اسلامی تحریکات کو ہدف تنقید بناتے ہوئے مغرب کو ان کے عزائم سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ اگر وہ صرف ان کی کتاب "The Islamic Threat: Myth of Reality" کا مطالعہ کرتے تو انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اسپوسیٹو نے تو امریکہ اور مغرب کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ چند اسلامی تحریکات کے طرز عمل کی بنیاد پر اسلام یا تمام مسلمانوں پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا لیبل نہیں لگانا چاہیے بلکہ اسلام اور عالم اسلام کے اس کے حقیقی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ مذکورہ کتاب کے چند جملے ملاحظہ ہوں:

The selective analysis fails to tell the whole story, to provide the full context for Muslim attitudes events and actions, or fails to account for the diversity of Muslim practice. While it sheds some light, it is a partial light that obscures or distorts the full picture." (p. 1973)

آگے لکھتے ہیں:

Selective and therefore biased analysis adds to our ignorance rather than our knowledge, narrows our perspective rather than broadening, reinforces the problem rather than opening the way to new solutions." (p. 173)

اسپوسیٹو نے اسی صفحہ پر پروفیسر برنارڈ لیوس کے طرز فکر سے سخت اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ برنارڈ لیوس نے اپنی تحریروں میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے متعصبانہ رویہ اختیار کیا ہے جو مغرب اور امریکہ کے تعصب میں مزید اضافہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ (صفحہ ۱۷۳، ۱۷۴)

کتاب کے آخری پیرا گراف میں اسپوسیٹو نے لکھا ہے:

"Our challenge is to better understand the history and realities of the Muslim World. Recognizing the diversity and many faces of Islam counters our image of a unified Islamic threat. It lessens the risk of creating self-fulfilling prophecies about the battle of the West against a radical Islam." (p. 215)
’’ہمارے (امریکہ اور مغرب کے) لیے یہ چیلنج ہے کہ ہم عالم اسلام کی تاریخی اور حقائق کو بہتر انداز میں سمجھیں۔ اسلام کی تعبیرات میں تنوع اور اس کے مختلف (وسیع النظر) پہلوؤں کو سمجھنا ہی کسی یک رنگ اسلامی خطرے کے بارے میں ہمارے تصور کو ختم کر سکتا ہے اور اس سے مستقبل میں انتہا پسند اسلام کے ساتھ مغرب کے تصادم کے بے بنیاد نظریات گھڑنے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔‘‘

جان اسپوسیٹو نے Muslim and the Westکے نام سے ایک کتاب ادارۂ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کے ساتھ مل کر مرتب کی ہے۔ یہ کتاب بھی مسلمانوں اور اہل مغرب کے مابین غلط فہمیوں کو کم کرنے کے سلسلے میں ایک اہم کوشش ہے۔ 

ان سطور سے راقم کا مقصود مستشرقین کا دفاع نہیں، کیونکہ بالعموم ان کی تحریروں سے واقعی تعصب اور عناد کی بو آت ہے۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمام مستشرقین کو ایک نظر سے دیکھنا صحیح نہیں، بلکہ قرآنی آیات کی روشنی میں اہل کتاب یعنی مسیحیوں میں مسلمانوں سے مودت اور ہمدردی رکھنے والے بھی ہیں جن کے نقطہ نظر کی تعریف کرنی چاہیے۔ 

پروفیسر عبد الماجد

چنار روڈ، مسلم ٹاؤن، مانسہرہ

(۲)

جناب رئیس التحریر ماہنامہ ’الشریعہ‘

سلام مسنون۔ مزاج گرامی؟

موجودہ حالات میں ’الشریعہ‘ کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے، اس لیے کہ معاصر مذہبی رسالہ جات زیادہ تر پرانے واقعات کو دہرانے کا کام کرتے ہیں، جبکہ تحقیقاتی کام کم ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ، جن میں نوجوان طبقہ خاص طور پر شامل ہے، مذہبی ٹائٹل کے حامل رسالوں سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔ لیکن مجھے اس بات پر تکلیف ہوئی ہے کہ جولائی کے شمارے میں حدود آرڈیننس پر تبصرے کے دوران میں آپ نے تعریفی طور پر جنرل ضیاء الحق کو نعوذ باللہ ’شہید‘ لکھ دیا۔ وہ شخص جس نے اس ملک کے قانون، آئین اور اسلامی روح کو برباد کیا، جو اپنے ہی ملک کے شہریوں پر ظلم کرتا رہا اور جو لسان، مذہبی اور علاقائی تقسیم کا چیمپئن تھا، اسے شہید اور پھر رحمۃ اللہ علیہ کس بنیاد پر کہا جاتا ہے؟

کبھی میر جعفر بھی حکومت میں ہوتے ہوئے لالچیوں اور سازشیوں کا لیڈر تھا۔ آج میسور (انڈیا) میں ٹیپو سلطان اور حیدر علی کا مقبرہ ملکی وغیر ملکی سیاحوں کی آماج گاہ ہے، لیکن چند کلومیٹر دور میر جعفر کی قبر چند ٹوٹی پھوٹی اینٹوں کے سوا کچھ نہیں اور کوئی وہاں نہیں جاتا۔ جنرل ضیاء الحق فیصل مسجد کے باہر دفن ہے، لیکن وہاں چڑیوں اور کووں کا بسیرا ہے۔ خود ضیا کے حامی، جماعت اسلامی اور نواز شریف وغیرہ اس کا نام لینا چھوڑ گئے ہیں۔ 

آپ کے ہاتھ میں قلم ہے، لیکن اسے انفرادی خواہش اور پسندیدگی کی نذر نہ کیجیے بلکہ واقعات کو بیان کر کے فیصلہ عوام پر چھوڑ دیجیے۔ خدا آپ کا حامی وناصر ہو۔

محمد سعید اعوان

موضع اروپ۔ ضلع گوجرانوالہ

(۳) 

محترمی ومکرمی ،السلام علیکم 

امیدہے بخیر وعافیت ہوں گے۔

برادرِمکرم شبیر احمد خان میواتی کے وسیلہ سے گزشتہ چند ماہ سے ’’الشریعہ‘‘سے استفادہ کا موقع مل رہاہے۔ کم علمی کے سبب مندرجات پر اظہار رائے کا اہل تو میں خود کو نہیں سمجھتا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ دینی اور علمی جرائد میں الشریعہ کونہ صرف بے تعصبی اور وسعت فکر کے حوالے سے انفرادیت حاصل ہے، بلکہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے لیے جس تحمل کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بھی الشریعہ ہی میں نظر آتاہے ۔یہ تحمل اور حوصلہ جملہ فکری مباحث کے لیے شرطِ اول ہے لیکن مجھے تو علمی اور دینی حلقوں میں کم کم نظر آیاہے ۔

سید امتیاز احمد

۱۰۷۔ عرفان چیمبرز

۱۳۰ ؍ ٹمپل روڈ ۔ لاہور

مکاتیب

(اگست ۲۰۰۶ء)

اگست ۲۰۰۶ء

جلد ۱۷ ۔ شمارہ ۸

اسلام کا قانون ازدواج اور جدید ذہن کے شبہات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دین کی جامعیت اور ہمارا عمومی مذہبی رویہ
مولانا محمد یوسف

معاصر تہذیبی تناظر میں مسلم علمی روایت کی تجدید
پروفیسر میاں انعام الرحمن

اچھے استاد کے نمایاں اوصاف
پروفیسر شیخ عبد الرشید

مسئلہ رجم اور مولانا اصلاحیؒ کا تفسیری موقف
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

قورح، قارون: ایک بے محل بحث
ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی

لبنان کی صورت حال اور مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مکاتیب
ادارہ

ذکر ندیم
پروفیسر میاں انعام الرحمن

’’انکار رجم: ایک فکری گمراہی‘‘
محمد عمار خان ناصر

تلاش

Flag Counter