بھارت میں غیر سرکاری شرعی عدالتوں کا قیام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ جنگ لاہور ۲۱ دسمبر ۲۰۰۴ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی صوبے گجرات میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے پہلی شرعی عدالت ’’دار القضاء‘‘ کے نام سے قائم کر دی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ بہار، اڑیسہ، آسام اور اتر پردیش میں شرعی عدالتیں پہلے ہی کامیابی سے کام کر رہی ہیں جس کی کامیابی کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے، جو بھارت میں شریعت کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کا سب سے بڑا ادارہ ہے، اب گجرات میں بھی شریعت کورٹ قائم کر دی ہے۔ ’’دار القضاء‘‘ میں مسلمانوں کے روز مرہ معاملات کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔ مفتی عبید اللہ الاسدی کو دار القضاء کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جو ممتاز عالم دین اور جامعہ عربیہ اسلامیہ کے سربراہ ہیں۔ اس موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اسلام کا نظام انصاف مسلمانوں سے تقاضا کرتا ہے کہ انھیں اپنے تنازعات کے لیے شریعت کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے اور خدشات کے بغیر عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنا چاہیے۔ 

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ بھارت میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار نمائندوں کا مشترکہ فورم اور اس لحاظ سے مسلمانوں کا سب سے بڑا نمائندہ ادارہ ہے جس میں تمام مذہبی مکاتب فکر شامل ہیں اور اس کا مقصد پرسنل لا یعنی نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ کے معاملات میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو قائم رکھنا اور اس عالمی اور قومی دباؤ کا مقابلہ کرنا ہے جو مسلمانوں پر انھیں نکاح وطلاق اور وراثت وغیرہ کے جداگانہ دینی قوانین واحکام سے دست برداری پر آمادہ کرنے کے لیے مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔ بھارت میں ’’کامن سول کوڈ‘‘ کے نام سے ایک عرصہ سے یہ تحریک جاری ہے کہ جس طرح دوسرے مذاہب کے لوگ باہم شادیاں کر رہے ہیں اور پرسنل لا میں اپنے مذہبی احکام کے بجائے مشترکہ عالمی وملکی قوانین پر عمل پیرا ہیں، اسی طرح مسلمانوں کو بھی مشترکہ برادری کا حصہ بننا چاہیے اور اپنے لیے الگ مذہبی قوانین پر اصرار نہیں کرنا چاہیے، مگر مسلمانوں نے متفقہ طور پر اس کو مسترد کر دیا ہے اور ایک عرصہ سے مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم پر وہ اپنے جداگانہ تشخص اور خاندانی قوانین وروایات کے تحفظ کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اس بورڈ کے سربراہ بالترتیب حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ ، مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابو الحسن علی ندویؒ اور فقیہ ملت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ رہ چکے ہیں، جبکہ ان کے بعد ندوۃ العلماء لکھنو کے سربراہ حضرت مولانا سید محمد رابع ندوی مدظلہ بورڈ کے سربراہ ہیں۔ 

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی کوششوں میں یہ بات بھی شامل رہتی ہے کہ مسلمان اپنے نکاح وطلاق کے تنازعات اور دیگر باہمی معاملات شرعی عدالتوں کے ذریعے سے حل کرائیں اور اسی مقصد کے لیے پرائیویٹ سطح پر شرعی عدالتوں کے قیام کا تجربہ کیا جا رہا ہے جہاں تحکیم کی صورت میں دونوں فریق مقدمہ لاتے ہیں اور شرعی عدالتیں ’حکم‘ کی حیثیت سے ان کا فیصلہ صادر کرتی ہیں۔ صوبہ بہار میں امارت شرعیہ کے نام سے یہ پرائیویٹ نظام بہت پہلے سے قائم ہے جس میں حضرت مولانا قاضی سجادؒ ، حضرت مولانا منت اللہؒ اور حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ ایک عرصہ تک امیر شریعت اور قاضی کے طور پرفرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور کم وبیش پون صدی سے یہ نظام وہاں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے جسے مسلم پرسنل لا بورڈ، بھارت کے دوسرے صوبوں تک وسیع کرنے میں مصروف ہے جو ایک خوش آیند امر ہے۔ 

جن معاملات میں لوگ تحکیم یا ثالثی کی صورت میں باہمی رضامندی کے ساتھ اپنے تنازعات اور مقدمات پرائیویٹ عدالتوں کے پاس لے جا سکتے ہیں، ان میں لوگوں کو شرعی فیصلوں کو قبول کرنے کے لیے آمادہ کرنا اور ان کے فیصلوں کے لیے اس طرح کی عدالتوں کا اہتمام ایک انتہائی بہتر اور اچھی جدوجہد ہے جس کا تجربہ کرنے کی ایک بار ہم نے بھی کوشش کی تھی۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا ملک گیر کنونشن جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کی صدارت میں منعقد ہوا تھا جس میں ملک بھر سے ہزاروں علماء کرام اور دینی کارکنوں نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز نے جمعیۃ کی مرکزی مجلس شوریٰ کے فیصلے کے مطابق ملک بھر میں آزاد شرعی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے مرکزی بورڈ میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے علاوہ بیر شریف لاڑکانہ کے حضرت مولانا عبد الکریم قریشی رحمہ اللہ تعالیٰ اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم بھی شامل تھے۔ اس بورڈ نے ملک میں اس نوعیت کی آزاد شرعی عدالتوں کے قیام کے لیے ضروری امور اور طریق کار کا خاکہ طے کیا تھا اور مختلف علاقوں میں قاضیوں کا تقرر بھی کر لیا گیا تھا، لیکن عوامی سطح پر مناسب ذہن سازی نہ ہونے اور جمعیۃ علماء اسلام کی دیگر قومی سیاسی سرگرمیوں میں حد درجہ مصروفیت کی وجہ سے یہ کام آگے نہ بڑھ سکا۔

اب بھارت میں اس تجربہ کی کامیاب پیش رفت کی خبر پڑھ کر اس پروگرام کی یاد ایک بار پھر ذہن میں تازہ ہو گئی ہے اور یہ کسک سی دل میں ہونے لگی ہے کہ یہ کام اگر انڈیا میں ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ جہاں تک ملکی قوانین کا تعلق ہے، دستور وقانون، دونوں حوالوں سے اس امر کی گنجایش موجود ہے کہ جو معاملات قابل دست اندازی پولیس نہیں ہیں اور جن میں فریقین باہمی رضامندی کے ساتھ کسی کو حکم اور ثالث مان کر اپنا مقدمہ ان کے سپرد کر سکتے ہیں، ان میں اس طرح کی عدالتیں یا ثالثی کونسلیں قائم کی جا سکتی ہیں، بلکہ ان عدالتوں اور ان کے فیصلوں کو قانونی تحفظ بھی مل سکتا ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ کے حوالے سے وہاں کے دوستوں نے ہمیں یہ بتایا کہ امریکی دستور کے مطابق نہ صرف پرسنل لا میں بلکہ بعض مالی معاملات میں بھی تحکیم اور ثالثی کی صورت میں پرائیویٹ عدالتوں کی گنجایش موجود ہے جس کو ایک مخصوص پراسس اور شرائط کے ساتھ سرکاری طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور سپریم کورٹ تک تمام عدالتی فورم ان فیصلوں کااحترام کرتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق امریکہ میں بسنے والے یہودیوں نے اس دستوری گنجایش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جداگانہ عدالتی ادارے قائم کر رکھے ہیں اور وہ اپنے بہت سے معاملات کے فیصلے ان عدالتوں سے کراتے ہیں۔ ہم نے امریکہ میں وہاں کے بہت سے علماء کرام اور دانش وروں سے متعدد بار یہ گزارش کی ہے کہ اگر امریکہ کا دستور بعض معاملات میں اس طرح کی عدالتوں کی گنجایش دیتا ہے تو اس سے فائدہ نہ اٹھانا اور اپنے ہر طرح کے معاملات بالخصوص پرسنل لا کے امور کو غیر مسلم عدالتوں کے پاس لے جانا بہت زیادتی کی بات ہے۔ وہاں بعض حلقوں میں اس کا احساس پایا جاتا ہے، لیکن پیش رفت کے لیے جس سطح کی سوچ، حوصلہ، محنت، ہوم ورک، اور عوامی ذہن سازی کی ضرورت ہے، اس کا فقدان ہے اور کم وبیش یہی صورت حال ہمارے ہاں پاکستان میں بھی ہے جہاں ہم نے شریعت کی ہر بات کے لیے حکومت پر انحصار کر رکھا ہے اور ہر مسئلہ حکومت کے کھاتے میں ڈال کر خود آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شریعت کے جن احکام پر عمل حکومت اور اقتدار پر موقوف نہیں ہے اور اس کے لیے لوگوں کو تیار کرنے اور اس میں پیش رفت کے لیے مناسب نظم پرائیویٹ سطح پر بنایا جا سکتا ہے، اس کے لیے ہم کیوں تیار نہیں ہوتے؟

ہمارے نزدیک سب سے زیادہ ضرورت عوامی سطح پر دینی شعور کو بیدار کرنے اور اجتماعی معاملات میں دینی راہ نمائی کو قبول کرنے کا احساس پیدا کرنے کی ہے اور اس سے بھی زیادہ ضرورت دینی اخلاقیات کو عملی زندگی میں لانے کی ہمہ گیر جدوجہد کی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کواس بات کے لیے تیار کرنا بھی ضروری ہے کہ ہر معاملہ میں عدالت اور سرکاری دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے جو معاملات وہ کسی سطح پر خود طے کر سکتے ہیں، انھیں عدالت اور سرکار کے دروازے سے باہر ہی نمٹا لیا جائے۔ اس سے جھگڑوں میں بھی کمی آئے گی اور عدالتوں پر کام کا بوجھ بھی کم ہوگا، مگر اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے، مناسب منصوبہ بندی درکار ہے، ٹیم ورک اور مسلسل ورک کا حوصلہ چاہیے جس کے لیے ہم میں سے شاید کوئی بھی تیار نہ ہو اور یہی ہماری قومی زندگی کا سب سے بڑا روگ ہے۔ خدا کرے کہ ہم اپنی سوچ اور ترجیحات پر ایسی نظر ثانی کر سکیں جو ہماری معاشرتی زندگی میں کسی مثبت تبدیلی اور انقلاب کی نوید بن جائے۔ آمین یا رب العالمین۔

حالات و واقعات

(جنوری ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter