مدینہ منورہ آمد کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ مسجدِ نبوی ؐ کی تعمیر تھی۔ مسجدِ نبوی کے ایک گوشے میں ایک سائبان اور چبوترہ (صفہ) بنایا گیاجس پر وہ مہاجرین صحابہ کرامؓ مدینہ منورہ آکر رہنے لگے تھے جو نہ تو کچھ کاروبار کرتے تھے اور نہ ان کے پاس رہنے کو گھر تھا۔ مکہ مکرمہ اور دیگر علاقوں سے دین متین کی تعلیمات حاصل کرنے کے لیے آنے والے صحابہ کرام بھی یہاں قیام کرتے تھے ۔گویا صفہ ان غریب اور نادار صحابہ کرام کی جائے پناہ تھی جنہوں نے اپنی زندگی تعلیمِ دین ،تبلیغِ اسلام ،جہاد اور دوسری اسلامی خدمات کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
مدنی عہد نبوت میں مذہبی تعلیم وتربیت کے دو طریقے تھے ۔ ایک غیر مستقل، جس میں مختلف قبائل کے آدمی مدینہ آکر چند دن قیام کرتے اور ضروری مسائل سیکھ کرواپس چلے جاتے اور اپنے اپنے قبائل کو جاکر تعلیم دیتے۔ ضروری مسائل کی تعلیم کے بعد رسول اللہﷺ انہیں ان کے قبائل میں واپس بھیج دیتے ،چنانچہ مالکؓ بن الحویرث کو بیس دن کی تعلیم کے بعد حکم دیا:
اِرجعوا الی أھلیکم فعلّموھم ومروھم وصلواکما رأیتمونی أصلی ،واذا حضرت الصلوٰۃفلیؤذّن لکم احد کم ثم لیؤمکم اکبر کم۔ (۱)
’’تم اپنے خاندان میں واپس جاؤ اور ان میں رہ کر ان کو امور شریعت کی تعلیم دو اور جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح پڑھانا، اور جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی اذان دے، پھر تم میں سے سب سے زیادہ پڑھالکھا امامت کرائے‘‘۔
اسی طرح وفد عبد القیس نے رسول اللہ ﷺ کے دست اقدس پر اسلام کی بیعت کی تو آپ ﷺ نے ان کو ادائے خمس ، نماز ، روزہ اور زکوٰۃ وغیر ہ کی تعلیمات دیں اور پھر فرمایا :
احفظوہ واخبروہ من وراء کم۔ (۲)
’’ان باتوں کو یاد کر لو اور جاکر دوسروں کو بھی بتا دو۔‘‘
دوسرا طریقہ مستقل تعلیم وتربیت کا تھا اور اس کے لیے صفہ کی درس گاہ مخصوص تھی۔ اس میں وہ لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے جو علائق دنیوی سے بے نیاز تھے اور انھوں نے اپنے آپ کو دینی تعلیم وتربیت اور عبادت و ریاضت کے لیے وقف کررکھا تھا۔مسجد نبوی کی اس درس گاہ کے دوحلقے تھے، ایک درس وتعلیم کاحلقہ اور دوسرا ذکر وفکر اور عبادت وریاضت کا۔حضرت عبداللہؓ بن عمر وفرماتے ہیں:
خرج رسول اللّٰہ ﷺذات یوم من بعض حجرہ،فدخل المسجد، فاذا ھو بحلقتین احدھما یقرؤن القرآن ویدعون اللّٰہ، والاخریٰ یتعلّمون ویعلّمون، فقال النبی ﷺکل علی خیر، ھؤلآء یقرءون القرآن ویدعون اللّٰہ، فان شاء اعطاھم وان شاء منعھم، وھولاء یتعلّمون و یعلّمون، وانما بعثت معلما، فجلس معھم۔ (۳)
’’ایک روز رسول اللہ ﷺاپنے کاشانۂ اقدس سے باہر تشریف لائے تو مسجد میں دو حلقے دیکھے۔ ایک حلقہ کے لوگ تلاوت ودعا میں مصروف تھے اور دوسرے حلقے کے لوگ تعلیم وتعلم میں، آپ ﷺ نے دونوں کی تحسین فرمائی اور فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ لوگ قرآن پڑھتے ہیں اور اللہ سے دعا مانگتے ہیں ،اگر چاہے تو ان کو عطا فرمائے اور اگر چاہے تو روک لے،اوریہ لوگ سیکھتے ہیں اور سکھاتے ہیں۔( پھر آپ ﷺیہ فرماتے ہوئے کہ) ’’میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘حلقہ ء درس وتعلیم میں جاکر بیٹھ گئے‘‘
اصحابِ صفہ کے لیے اساتذہ کا تقرر
اصحابِ صفہ کے معلمِ اول تو خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس تھی۔چنانچہ حضرت انسؓ سے روایت ہے:
اقبل ابو طلحۃؓ یوما فاذا النبیﷺ قائم یقرئ اصحاب الصفۃ علی بطنہ فصیل من حجر یقیم بہ صلبہ من الجوع۔ (۴)
’’ایک دن حضرت ابو طلحہؓ آئے تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺاصحابِ صفہ کو کھڑے قرآن پڑھا رہے ہیں،آپؐ نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر کا ٹکڑا باندھاہوا تھا تاکہ کمرسیدھی ہوجائے‘‘۔
رسول اللہ ﷺ جب تعلیم ونصیحت سے فارغ ہوکر تشریف لے جاتے تو حضرت عبداللہؓ بن رواحہؓ حلقہ میں بیٹھ کر تعلیم کے سلسلہ کو اسی طرح جاری رکھتے ۔پھر جب رسول اللہﷺ دوبارہ تشریف لاتے تو لوگ خاموش ہوجاتے۔ آپ ﷺ تشریف فرما ہونے کے بعد فرماتے کہ اسی عمل میں مشغول رہیں اور اس کو جاری رکھیں۔ کبھی کبھارحضرت معاذؓ بن جبل بھی تعلیمی حلقہ سنبھا ل لیتے تھے۔(۵)
رسول اللہ ﷺکے علاوہ کئی مستقل معلمین بھی اصحابِ صفہ کی تعلیم وتربیت پر متعین تھے۔حضرت عبادہؓ بن صامت کا بیان ہے:
علّمت ناسا من أھل الصفۃ القرآن والکتاب فاھدیٰ الیّ رجل منھم قوساً۔ (۶)
’’میں نے اصحاب صفہ میں سے چند لوگوں کو قرآن مجید پڑھایا اور لکھنے کی تعلیم دی تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے ہدیہ میں ایک کمان دی‘‘۔
اسی طرح حضرت عبداللہؓ بن سعید بن العاص جو خوشخط تھے اور زمانۂ جاہلیت میں بھی کاتب کی حیثیت سے مشہور تھے، اصحابِ صفہ کو لکھنا سکھاتے تھے۔(۷)
اوقاتِ تعلیم
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نمازِ فجر ادا فرمالیتے تو ہم لوگ آپ ﷺ کے پاس بیٹھ جاتے اور ہم میں سے کوئی آپ سے قرآن کے بارے میں سوال کرتا، کوئی فرائض کے بارے میں دریافت کرتا اور کوئی خواب کی تعبیر معلوم کرتا تھا۔(۸)
سماک بن حرب نے حضرت جابرؓ بن سمرہ سے پوچھا :کیا آپ رسول اللہ ﷺکی محفل میں بیٹھا کرتے تھے ؟ تو انھوں نے کہا:ہاں،میں بہت زیادہ آپﷺ کی مجلس میں شریک رہا کرتا تھا۔ جب تک آفتاب طلوع نہیں ہوتا تھا آپ ﷺ مصلیٰ پر رہتے تھے ،اور طلوع آفتاب کے بعد اٹھ کر مجلس میں تشریف لاتے تھے،اور مجلس کے درمیان صحابہ زمانۂ جاہلیت کے واقعات بیان کرکے ہنستے تھے اور آپﷺ مسکرادیتے تھے۔
اصحابِ صفہ انتہائی نادار اور مفلس تھے اس لیے ان میں سے بعض لوگ دن میں شیریں پانی بھرلاتے،جنگل سے لکڑیاں چن کر لاتے اور ان کو بیچ کر جو آمدنی ہوتی، اس سے اپنے مصارف پورے کرتے تھے۔ (۹)
اس مصروفیت کی وجہ سے ان میں سے بعض حضرات کو دن میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا، اس بنا پر ان کی تعلیم کا وقت رات کو مقرر کیا گیا تھا۔حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ سترکے قریب اصحاب صفہ رات کے وقت تعلیم حاصل کرتے تھے۔
فکانوا اذا جنّھم اللیل انطلقوا الی معلم لھم بالمدینہ، فیدرّسون اللیل حتٰی یصبحوا۔ (۱۰)
’’جب رات ہوجاتی تھی تو یہ لوگ مدینہ میں ایک معلم کے پاس جاتے اوررات بھر پڑھتے حتیٰ کہ صبح ہو جاتی۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جگہ مسجدِ نبوی سے ہٹ کر کوئی اور جگہ تھی جہاں اصحابِ صفہ رات کے وقت تعلیم حاصل کرتے تھے۔ گویا اصحابِ صفہ کا سارا وقت درس وتدریس ہی میں بسر ہوتا تھا۔ابن المسیبؓ نے حضرت ابو ہریرہؓ کا یہ بیان نقل کیا ہے:
یقولون: ان ابا ھریرۃؓ قد اکثر، واللّٰہ الموعد ویقولون مابال المہاجرین والانصار لا یتحدّثون مثل احادیثہ؟ وسأخبرکم عن ذالک: إن إخوانی من الانصار کان یشغلھم عمل ارضھم، واما إخوانی من المہاجرین کان یشغلھم الصفق بالاسواق، وکنت الزم رسول اللّٰہﷺ علی ملء بطنی، فاشھد اذا غابوا، واحفظ اذا نسوا، (۱۱)
’’لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہؓ کثرت سے حدیثیں بیان کرتا ہے۔ اللہ ہی ہمارا اور تمہارا محاسبہ کرنے والا ہے۔اور لوگ کہتے ہیں کیا وجہ ہے کہ انصار ومہاجرین ابوہریرہؓ کی طرح کثرت سے حدیثیں بیان نہیں کرتے؟میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ہمارے مہاجر بھائی بازاروں میں اپنے کاروبار میں لگے رہتے تھے اور انصاری بھائی اپنی زمین کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے تھے۔ میں محتاج آدمی تھا ، میرا سار ا وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گزرتا تھا،پس جس وقت یہ موجود نہ ہوتے تھے میں موجو د رہتا تھا اور جن چیزوں کو وہ بھلا دیتے تھے میں محفوظ کرلیتا تھا‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ‘ؓ جو خود بھی اصحابِ صفہ میں سے تھے، ان کا یہ بیان گویا اصحابِ صفہ کا ترجمان ہے۔ یہ سب لوگ درس گاہِ نبوت میں سب سے زیادہ حاضر رہنے والے تھے۔ حضرتِ ابو ہریرہ ؓ کے اس بیان کی تصدیق خود حضرت عمرؓؓ کے اس بیان سے ہوتی ہے:
کنت انا وجار لی من الانصار فی بنی امیۃ بن زید، وھی من عوالی المدینۃ، وکنا نتناوب النزول علی رسول اللّٰہ ﷺ، ینزل یوما وانزل یوما، فاذا نزلت جئتہ بخبر ذالک الیوم من الوحی وغیرہ، واذا نزل فعل مثل ذالک۔ (۱۲)
’’میں اورعوالی مدینہ میں قبیلہ امیہ بن زید کا ایک انصاری پڑوسی ہم دونوں باری باری رسول اللہ ﷺ کے یہاں جاتے تھے، ایک دن وہ جاتے اور ایک دن میں جاتا ، جب میں جاتا تو اس دن کی وحی وغیرہ کی خبر لاتا اورجس دن وہ جاتے وہ بھی اسی طرح کرتے‘‘۔
طریقۂ تعلیم
ابتدا میں مجلس میں طلبہ کے بیٹھنے کا کوئی خاص انتظام اور طریقہ نہ تھا،جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے حلقے بنا کر بیٹھ جاتے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺنے باقاعدہ ایک حلقہ بنوایااور سب لوگ ایک ساتھ بیٹھنے لگے۔ جابرؓ بن سمرہ کا بیان ہے:
دخل رسول اللّٰہ ﷺالمسجد وھم حلق فقال ﷺ: مالی اراکم عزین۔ (۱۳)
’’رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے جہاں صحابہ کرامؓ کے جدا جدا حلقے تھے،آپﷺ نے فرمایاکہ کیا بات ہے تم لوگ جداجدا ہو (یعنی ایک ساتھ بیٹھو)‘‘
رسول اللہ ﷺ اپنے تمام حاضرین مجلس کو اس طرح تعلیم دیتے تھے کہ عالم،جاہل،شہری ، بدوی، عربی، عجمی بوڑھے،بچے،جوان پوری طرح فیض اٹھاتے تھے اور آپﷺ کی ہر بات سامعین کے دل میں اتر جاتی تھی۔حضرت انسؓ کا بیان ہے:
انہ کان اذا تکلم بکلمۃ اعادھا ثلاثا حتّٰی تفھم عنہ، واذا أتی علی قوم فسلم علیھم ثلاثا۔ (۱۴)
’’رسول اللہ ﷺجب کوئی حدیث بیان کرتے تو اس کو تین بار کہتے تھے تاکہ سمجھ لی جائے اور جب کسی جماعت کے پاس جاتے تو ان کو تین بار سلام کرتے تھے‘‘
ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ ،جومسجد نبوی کی اس درس گاہ کے معلم تھے ،حضرت عائشہؓ کے حجرہ کے قریب اہلِ مجلس کے سامنے جلدی جلدی حدیثیں بیان کرنے لگے۔ اس وقت ام المومنین حضرت عائشہؓ نماز میں مصروف تھیں۔جب آپؓ نماز سے فارغ ہوئیں تو ابو ہریرہؓ مجلس ختم کرکے جاچکے تھے ۔چنانچہ آپؓ نے عروہ بن زبیرؓ سے فرمایا کہ ابو ہریرہؓ مل جاتے تو میں ان کے جلدی جلدی حدیث بیان کر نے پرنکیر کرتی، اس کے بعد فرمایا:
ان رسول اللّٰہﷺ لم یکن یسرد الحدیث سردکم۔ (۱۵)
’’رسول اللہﷺ تم لوگوں کی طرح حدیث جلدجلد اور مسلسل بیان نہیں فرماتے تھے‘‘۔
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:
ان رسول اللّٰہ ﷺ لیحدّث الحدیث لو شاء العادّ ان یحصیہ أحصاہ۔ (۱۶)
’’رسول اللہ ﷺاس طرح حدیث بیان کرتے تھے کہ اگر شمار کرنے والا چاہتا تو شمار کرلیتا‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا طریقہ تعلیم یہ تھا کہ آپ بات ٹھہر ٹھہر کر اس انداز میں کہتے کہ سننے والوں کے دل میں بیٹھ جائے،یاد کرنے والے یاد کرلیں اور لکھنے والے لکھ لیں۔نرم کلامی ،شیریں بیانی اور اندازِ تعلیم کے اسی اسلوب کی بدولت بدوی لوگ بھی آپ ﷺپر فدا ہوجاتے تھے۔ حضرت معاویہؓ بن حکم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ ﷺ کی امامت میں نماز پڑھ رہا تھا ،مجھ سے خلافِ نماز کوئی حرکت سرزد ہوگئی ،جس کی وجہ سے تمام نمازی مجھ سے بگڑ گئے اور گھورگھور کر میری طرف دیکھنے لگے، لیکن خود معلمِ انسانیت کا رویہ اور طریقہ تعلیم کیاتھا؟ صحابی کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
فبأبی ھو وامی، مارأیت معلّما قبلہ ولا بعدہ احسن تعلیما منہ، فواللّٰہ ما کھر نی ولا ضربنی، ولا شتمنی، قال ﷺ: ان ھذہ الصلوۃ لا یصلح فیھا شیء من کلام الناس، انما ھو التسبیح، والتکبیر وقرأۃ القرآن۔ (۱۷)
’’میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں،میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر معلم نہیں دیکھا۔خدا کی قسم نہ مجھے جھڑکا،نہ مارا اور نہ ہی سخت سست کہا ،بلکہ فرمایا نماز میں انسانی کلام اچھا نہیں ہے ۔اس میں صرف تسبیح،تکبیر اور قرآن پڑھنا ہے‘‘۔
اصحابِ صفہ میں درس وتدریس کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ ایک شخص قرآن مجید پڑھتا جاتا اور دوسرے لوگ سنتے جاتے۔ حضرت ابو سعید خدریؓکابیان ہے کہ میں ضعفاء مہاجرین کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ان میں سے بعض لوگ عریانیت کے خوف سے ایک دوسرے سے مل کر بیٹھے تھے اور ایک قاری ہم لوگوں کو قرآن پڑھارہا تھا۔اس حال میں رسول اللہﷺ آکر ہمارے پاس کھڑے ہوگئے۔ آپﷺکو دیکھ کر قاری خاموش ہوگیا۔ آپﷺ نے سلام کر کے پوچھا کہ تم لوگ کیا کررہے ہو؟ہم نے کہا یا رسول اللہﷺ ایک قاری قرآن پڑھ رہا ہے اور ہم سن رہے ہیں۔ہمارا جواب سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا:
الحمد للّٰہ الذی جعل من امتی من امرت ان أصبر نفسی معھم۔
’’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسے لوگوں کو پیدا کیا ہے جن کے ساتھ مجھے بیٹھنے کا حکم ہے‘‘۔
یہ کہہ کر آپ ﷺ ہمارے بیچ میں بیٹھ گئے تاکہ آپﷺ ہم لوگوں کے سامنے رہیں،پھرہاتھ سے اشارہ کیا کہ اس طرح بیٹھو، اور حاضرین مجلس اس طرح حلقہ بنا کر بیٹھ گئے کہ سب کا چہرہ آپ ﷺ کی طرف ہوگیا۔اور آپ ﷺ نے فرمایا: اے فقراء مہاجرین! تم کو بشارت ہو قیامت کے دن نورتام کی ، تم لوگ مالداروں سے آدھ دن پہلے جنت میں داخل ہوگے، اور یہ (دنیوی حساب سے)پانچ سو سال ہے۔(۱۸)
اصحابِ صفہ کی دعوتی سرگرمیاں
ویسے تو ہر مسلمان ہی داعی اور مبلغ ہے اور دعوت وتبلیغ ہی اس امت کا وہ خصوصی وصف ہے جس کی بدولت اس کو’’خیر الامم‘‘کے لقب سے ملقب کیا گیا۔ (۱۹) اسلامی معاشرہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دعوتِ دین کے لیے ایک ایسی جماعت تیار کرے جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے اپنی زندگیوں کووقف کردے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃ’‘ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر۔ (آل عمران، ۳:۱۰۴)
’’تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے، نیکی کا حکم کرے اور برائی سے منع کرے‘‘۔
چنانچہ ہجرت مدینہ کے فوراً بعد رسول اللہ ﷺنے مسجد نبوی میں ایک باقاعدہ درسگاہ قائم فرمائی، تاکہ مبلغین کی ایک تربیت یافتہ جماعت تیار کی جائے۔اصحابِ صفہ کی صورت میں جب یہ جماعت تیار ہوگئی تو آپﷺ نے ان اصحاب کو ،جو اپنے علم و فضل کی وجہ سے ’’قراء ‘‘ کہلاتے تھے،(۲۰) مختلف دعوتی وتبلیغی مہمات پر روانہ فرمایا۔
رجیع کی مہم:
صفر ۴ھ میں قبائل عضل وقارہ کے چند آدمی رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور بارگاہِ رسالت میں درخواست کی کہ آپ اپنے رفقا میں سے کچھ آدمیوں کو ہمارے ساتھ روانہ کردیجیے تاکہ وہ لوگوں میں دین کی سمجھ پیداکریں،قرآن پڑھائیں اور شریعت اسلامیہ کی تعلیم دیں ۔رسول اللہ ﷺنے اصحابِ صفہ میں سے مندرجہ ذیل چھ (*۱) افراد منتخب کیے:مرثدؓ بن ابی مرثد غنوی، خالدؓ بن بکیرلیثی،عاصمؓ بن ثابت ،خبیبؓ بن عدی،زیدؓ بن دثنہ،عبداللہؓ بن طارق، اور مبلّغین کی اس جماعت کا امیر مرثدؓ بن ابی مرثد کو مقرر فرمایا۔
جب یہ لوگ رجیع،جو مکہ اور عسفان کے درمیان ایک جگہ ہے ،پہنچے تو قبیلہ عضل اور قارہ کے لوگوں نے مسلمانوں سے غداری کی اور قبیلہ ہذیل کو مدد کے لیے پکارا،چنانچہ ان لوگوں نے حضرت خبیبؓ بن عدی اور زیدؓ بن دثنہ کو پناہ کا دھوکہ دے کر گرفتار کرلیا، جبکہ باقی صحابہ کو شہید کردیاگیا۔زیدؓ بن دثنہ اور خبیبؓ بن عدی کو بھی ان لوگوں نے بعد میں مکہ لے جاکر فروخت کردیا، چنانچہ زیدؓ بن دثنہ کو صفوان بن امیہ نے اپنے باپ امیہ بن خلف کے عوض قتل کرنے کے لیے خرید لیا ،جبکہ خبیبؓ کو حجیر بن ابو اہاب تمیمی نے خرید کر قتل کردیا۔(۲۱)
بئر معونہ کی مہم:
صفر ۴ھ میں نجد کے ایک قبیلے عامربن صعصعہ کے ایک رئیس ابوالبراء عامر بن مالک کوآپ ﷺنے اسلام کی دعوت دی ،وہ نہ اسلام لایا اورنہ اس نے تردید کی بلکہ کہنے لگا!اے محمد! اگر آپﷺ اپنے رفقا میں سے کچھ لوگوں کو اہلِ نجد کے ہاں بھیج دیں اور وہ وہاں آپ ﷺ کا پیغام پہنچاکر انہیں اسلام کی دعوت دیں تو مجھے امید ہے کہ اہلِ نجد آپ کے پیغام پر ضرور لبیک کہیں گے۔رسول اللہﷺ نے جواب دیا:مجھے اپنے آدمیوں کے متعلق اہلِ نجد سے خوف ہے۔ ابوبراء نے کہا:میں اس کاضامن ہوں، اس لیے آپ ان کو روانہ فرمادیجئے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے منذرؓ بن عمروکی قیادت میں ستر صحابہ ،جو سب کے سب درسگاہِ صفہ کے تربیت یافتہ تھے، اس کے ساتھ بھیج دیے ۔(۲۲)
ابنِ ہشام اور ابن اثیر کی روایت کے مطابق یہ جماعت چالیس صحابہ پر مشتمل تھی ۔یہ سب لوگ بئر معونہ پہنچ گئے، جو بنو سلیم کے قریب ایک جگہ تھی۔ وہاں سے اپنی جماعت کے ایک آدمی حرامؓ بن ملحا ن کو رسول اللہﷺ کا خط دے کر قبیلے کے سردار عامر بن طفیل کی طرف بھیجا، لیکن اس نے خط پڑھنے سے قبل ہی قاصد کوقتل کردیا اور بنو سلیم کے ہمراہ بئر معونہ روانہ ہوا اور باقی مسلمانوں کو بھی قتل کردیا۔(۲۳)
سطور بالا کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے دعوتی وتبلیغی مقاصد کے لیے ایک ایسی جماعت کی تیاری کو ضروری خیال کیا جس کو دعوتی مشن اپنی جان سے بھی عزیز تھا۔ رجیع اور بئر معونہ کی دعوتی مہمات میں انتہائی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور رسول اللہ ﷺ کو ان واقعات کا انتہائی رنج ہوا۔ اس لیے بعد کے دور میں خالصتاً تبلیغی مہمات بھی حفاظتی نقطۂ نظر سے مسلح کرکے بھیجی گئیں۔
درس گاہِ صفہ کے تربیت یافتہ معلمین ومبلغین کی دعوتی سرگرمیاں اس کے بعد بھی جاری رہیں۔آپﷺان لوگوں کو مختلف جہادی مہمات میں افواج کے ہمراہ بطور مبلغ روانہ فرماتے ،اس کے علاوہ قبائل عرب کی طرف سے آنے والے وفود کی تعلیم وتربیت کے لیے بھی آپ اصحابِ صفہ سے مدد لیتے تھے۔
قریش مکہ کو چونکہ مذہبی سیادت حاصل تھی، اس لیے عرب میں ان کا ادب واحترام کیاجاتا تھا اور تمام عرب مذہبی معاملات میں ان کو اپنا مقتدا اور پیشوا سمجھتے تھے۔ کفرو اسلام اور حق وباطل کی جو آویزش جاری تھی، اس میں قبائل عرب قریش کی طرف دیکھ رہے تھے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے ۔بالآخر جب مکہ فتح ہوگیا اور قریش سب کے سب مسلمان ہوگئے تو اب قبائل عرب کے لیے بھی اسلام کے حق میں فیصلہ کرنا آسان ہوگیا۔ ابنِ حجر لکھتے ہیں:
ان مکۃ لما فتحت بادرت العرب باسلامھم فکان کل قبیلۃ ترسل کبراء ھا یسلّموا ویتعلّمو ویرجعوا الی قومھم فیدعوھم الی الاسلام۔ (۲۴)
’’فتح مکہ کے بعد تما م عرب نے اسلام کی طرف نہایت تیزی سے قدم بڑھایا۔ ہر قبیلہ اپنے سرداروں کو بھیجتا تھاکہ جاکر اسلام لائیں اور دین کی تعلیم حاصل کریں، واپس آئیں تو اپنی قوم کو دعوتِ اسلام دیں‘‘۔
فتح مکہ کے بعد تقریباً ایک سال کے عرصہ میں تمام قبائلِ عرب نے اپنے منتخب افراد کو وفود کی صورت میں مدینہ طیبہ بھیجا تاکہ وہ پوری قوم اور قبیلہ کی طرف سے اسلام کی بیعت کریں ۔فتح مکہ سے قبل رسول اللہ ﷺکی حکمتِ عملی یہ تھی کہ جو قبیلہ اور قوم بھی اسلام قبول کرے، اسے مدینہ آکر مستقل رہنے پر آمادہ کیا جائے۔اس کی بظاہر حکمت یہ معلو م ہوتی ہے کہ ایک تو لوگ دارالہجرت میں آکر دین کی تعلیم حاصل کریں اور مزید یہ کہ دفاعی نقطہ نظر سے بھی مدینہ میں مسلمانوں کی تعداد اور طاقت میں اضافہ ہو۔ چنانچہ فتح مکہ سے قبل رسول اللہ ﷺ جو دعوتی مہمات روانہ فرماتے تھے، ان کو یہی نصیحت کی جاتی تھی کہ لوگوں کو دین کی دعوت دیں۔ اگر وہ قبول کرلیں تو ان کو مدینہ کی طرف ہجرت کی دعوت دیں ۔حضرت بریدہؓ کا بیان ہے:
کان رسول اللّٰہﷺ اذا بعث امیرا علی سریۃ او جیش اوصاہ بتقوی اللّٰہ فی خاصۃ نفسہ وبمن معہ من المسلمین خیرا، وقال ﷺ! ’’اذا لقیت عدوک من المشرکین فادعھم الی احدی ثلاث خصال فایتھا اجابوک الیھا فاقبل منھم وکف عنھم ،ادعھم الی الاسلام ،فان اجابوا فاقبل منہم وکف عنہم ،ثم ادعھم الی التحول من دارھم الی دارالمہاجرین وأعلمھم انھم ان فعلوا ذالک ان لہم ما للمہاجرین وان علیہم ما علی المہاجرین، فان ابوا واختاروا دارہم فأعلمھم انھم یکونون کأعراب المسلمین یجری علیہم حکم اللّٰہ الذی کان یجری علی المؤمنین ولا یکون لہم فی الفئ والغنیمۃ نصیب إلا ان یجاھدوا مع المسلمین،فان ھم ابوا فادعہم الی اعطاء الجزیۃ فان اجابوا فاقبل منہم وکف عنہم، فان ابوا فاستعن باللّٰہ وقاتلہم۔ (۲۵)
’’رسول اللہ ﷺجب کسی کو کسی جماعت یا لشکر کا امیر بنا کر روانہ فرماتے تو اس کو خاص اپنی ذات کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم دیتے اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہیں، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتے اور یہ فرماتے: جب تمہارا مشرک دشمنوں سے سامنا ہو تو ان کو تین باتوں میں سے ایک کی دعوت دینا۔ان باتوں میں سے جو بات بھی وہ مان لیں، تم اسے ان سے قبول کرلینا اور ان سے جنگ نہ کرنا۔ پہلے ان کو اسلام کی دعوت دو، اگر وہ اسے منظور کرلیں تو تم ان سے اسے قبول کرلو اور ان سے رک جاؤ،پھر تم ان کو اپنا علاقہ چھوڑ کر دارالمہاجرین (مدینہ منورہ)کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دو اور انہیں یہ بتلادو کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کو وہ تمام منافع ملیں گے جومہاجرین کو ملتے ہیں اور ان پر وہ تما م ذمہ داریاں ہوں گی جو مہاجرین پر ہیں اور اگر وہ اسے نہ مانیں اور اپنے علاقے میں رہنے کوہی ترجیح دیں توانہیں بتلادو کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے اور اللہ کے احکام جو تمام مسلمانوں کے ذمہ ہیں، وہ ان کے ذمہ ہوں گے ۔ انہیں فے اور مالِ غنیمت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ہاں اگر مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے تو حصہ ملے گا۔اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کردیں تو انہیں جزیہ دینے کی دعوت دو اگر وہ اسے مان لیں تو تم اسے قبو ل کرلو اور ان سے جنگ نہ کرو اور اگر وہ اسے بھی نہ مانیں تو اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے ان سے جنگ کرو‘‘۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد ابتدائی سالوں میں رسول اللہ ﷺکی حکمتِ عملی یہ تھی کہ نو مسلم قبائل اور افراد کو مدینہ کی طرف ہجرت کی ترغیب دی جائے، لیکن فتح مکہ کی صورت میں جب اسلام کو نئی قوت وشوکت نصیب ہوئی تو رسول اللہ ﷺنے اپنی حکمتِ عملی تبدیل فرمائی اور واضح طور پر اعلان فرمادیاگیا:
لا ہجرۃ بعد فتح مکۃ۔ (۲۶)
’’فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے‘‘۔
اب آپ ﷺکا طریقہ کار یہ تھاکہ جو لوگ بھی انفرادی طور پر یاوفود کی صورت میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپﷺ ان کو خود تعلیم ارشاد فرماتے اور بعض اوقات انصار ومہاجرین صحابہ کو حکم دیتے کہ وہ ان لوگوں کو قرآن وسنت کی تعلیم دیں اور جب وہ لوگ دین کے بنیادی امور کا علم حاصل کرلیتے تو آپِﷺ ان وفود کو،جو عام طور پر رؤساے قبائل پر مشتمل ہو تے تھے ، واپس اپنے قبائل میں جانے کا حکم دیتے اور ان کو حکم ہوتا تھا کہ وہ جو کچھ سیکھ چکے ہیں وہ اپنے دوسرے لوگو ں کو سکھائیں۔(۲۷)
امام بخاری ؒ نے ایک جگہ’’ وصاہ النبی ﷺوفود العرب ان یبلغوا من وراۂم‘‘(۲۸)کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرامؓ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کو آگے دوسروں تک پہنچانا ان وفود کاسب سے اہم فریضہ تھا۔نیزبعض علاقوں کی طرف آپ ﷺنے دعوتی مہمات روانہ فرمائیں اور مبلغین کو تلقین کی کہ اگر وہ لوگ اطاعت کا اظہار کریں تو ان کو قرآن وسنت کی تعلیم دیں اور ان کو کہیں کہ وہ وفد بن کر مدینہ آئیں اور براہِ راست رسول اللہ ﷺسے فیضیاب ہوں۔(۲۹)
چنانچہ ۹ ھ میں اس کثرت سے وفود آئے اس لیے مورخین نے اس سال کو ’’ عام الوفود‘‘کا نام دے دیا۔ان وفود میں سے بعض سینکڑوں افراد پر بھی مشتمل تھے (*۲) اور بعض محض ایک،دو اور تین افراد پر۔ان وفود کی تعداد میں بھی کافی اختلاف ہے تاہم یہاں ان میں سے ان چند وفود اور قبائلی رؤسا کا ذکر کیا جارہا ہے جن کا کردار دعوت وتبلیغ کے حوالے سے اہمیت کاحامل ہے۔
قبائلی رؤسا کی تعلیم وتربیت کاانتظام
اصحابِ صفہ کی منظم اور مستقل تبلیغی جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے اس چیز کی حوصلہ افزائی فرمائی کہ ہر قبیلہ اور جماعت میں سے کچھ ایسے لوگ موجود رہیں جو تعلیم وارشاد اور دعوت وتبلیغ کے فریضہ کو انجام دیتے رہیں۔اسی بنا پر قرآن مجید میں یہ حکم نازل ہوا:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْفَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃ’‘ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِ رُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ۔ (التوبہ ، ۹:۱۲۲)
’’اور سب مسلمان تو سفر کرکے (مدینہ)نہیں آ سکتے تو ہر قبیلہ سے ایک جماعت کیوں نہیں آتی کہ وہ دین کی سوجھ بوجھ حاصل کریں ،تاکہ جب وہ واپس جائیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں ،شاید وہ بری باتوں سے بچ جائیں ‘‘
چنانچہ بعض قبائل نے تو خود ہی اپنے نمائندہ افراد کو مدینہ بھیجااور بعض قبائل مثلاً بنو حارث بن کعب اور ہمدان وغیرہ کو خود آپﷺنے پیغام بھیجا کہ وہ اپنے وفودبھیجیں۔چنانچہ اس کے بعد عرب کے تقریباً ہر قبیلہ نے اپنے وفود بارگاہِ رسالت ؐمیں بھیجے تاکہ وہ دین کافہم حاصل کریں اور واپس آکر خود ان کو اس کی تعلیم دیں۔تفسیر خازن میں ابنِ عباسؓ کا قول مروی ہے:
کان ینطلق من کل حی من العرب عصابۃ فیأتون النبیﷺ فیسأ لونہ عما یریدون من امر دینہم ویتفقّہون فی دینہم۔ (۳۰)
’’عرب کے ہر قبیلے کا ایک گروہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے مذہبی امور دریافت کرتا اور دین کا فہم حاصل کرتا‘‘۔
آنے والے وفود اور قبائل عرب کے نمائندہ افراد کی ایسی تعلیم وتربیت کہ وہ واپس جاکر دعوت وتبلیغ کاکام کماحقہ کرسکیں،بڑی اہم ذمہ داری تھی جس کو رسول اللہ ﷺ نے انصار ومہاجرین اور اصحابِ صفہ کی مدد سے عمدہ طریقہ سے انجام دیا، چنانچہ آپ ﷺوفود عرب میں آنے والے قبائلی عمائدین کی خود تعلیم وتربیت فرماتے اور بعض اوقات انصار ومہاجرین کو حکم ہوتا کہ معزز مہمانوں کے قیام وطعام کاانتظام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو قرآن وسنت سکھائیں۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ کابیان ہے:
کان رسول اللّٰہ ﷺ یشغل، فاذا قدم رجل مہاجر علی رسول اللّٰہ ﷺ دفعہ الی رجل منا یعلمہ القرآن۔ (۳۱)
’’کوئی شخص جب ہجرت کرکے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپﷺ اس کو تعلیمِ قرآن کے لیے ہم میں سے کسی کے سپرد کردیتے‘‘۔
چنانچہ حضرت وردانؓ طائف سے آئے تو رسول اللہ ﷺنے ان کو ابانؓ بن سعید کے حوالے کیا کہ ان کے مصارف کا بار اٹھائیں اور ان کو قرآن مجید کی تعلیم دیں۔ (۳۲)
انصارِ مدینہ باہر سے آنے والے حضرات کی مہمان نوازی کے ساتھ اس لگن اور دلسوزی سے ان کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے کہ وہ لوگ تشکر کے جذبات کے ساتھ واپس جاتے تھے۔چنانچہ وفد عبدالقیس آیا تو اس اعتراف کے ساتھ واپس گیا:
خیر اخوان، ألانوا فراشنا، وأطابوا مطعمنا، وباتوا واصبحوا یعلّمونا کتاب ربنا وسنۃ نبینا۔ (۳۳)
’’یہ ہمارے بہترین بھائی ہیں۔ انہوں نے ہمیں نرم بستر مہیا کیے، اچھا کھانا کھلایا اور دن رات ہمیں اللہ کی کتاب اور پیغمبر ﷺ کی سنت کی تعلیم دیتے رہے۔‘‘
آنے والی سطور میں ان چند قبائلی رؤسا اور مبلغین کا ذکر کیا جارہا ہے جنہو ں نے رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ سے تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے قبائل میں دعوت کا فریضہ انجام دیا۔
عمیرؓ بن وہب کی قریشِ مکہ کو دعوت
عمیرؓ بن وہب قریش کے ممتا زسرداروں میں سے ایک تھے ۔یہ ابتدائے اسلام میں اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں سے ایک تھے۔ ان کا بیٹا وہب بن عمیر غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو چھڑوانے کے بہانے رسول اللہﷺ کو مدینہ میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔اس سازش کا سوائے صفوان بن امیہ کے کسی کو علم نہ تھا، جوخود اس منصوبے میں شریک تھے۔لیکن مدینہ پہنچ کر جب وہ اس ارادے سے مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے تو رسول اللہ ﷺنے ان کو بذریعہ وحی صفوان بن امیہ کے ساتھ تیار کردہ سازش سے آگاہ کردیااب عمیرپر حقیقتِ حال واضح ہوچکی تھی۔ اس لیے انہوں نے فوراً اسلام قبول کرلیااور آپ ﷺسے عرض کی:
فائذن لی یارسول اللّٰہﷺ فألحق بقریش فادعوہم الی اللّٰہ والی الاسلام لعل اللّٰہ ان یھدیھم۔ (۳۴)
’’یا رسول اللہ ﷺمیں چاہتا ہوں کہ آپ ﷺ مجھے اجازت دیں کہ میں مکہ جاکر اہلِ مکہ کو اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دوں۔امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے گا‘‘۔
ابن الاثیر کا بیان ہے کہ حضرت عمیرؓ مکہ میں مسلسل اسلام کی صدا بلند کرتے رہے۔چنانچہ صفوانؓ بن امیہ سمیت متعدد لوگوں نے آپ کی ترغیب سے ہی اسلام قبول کیا۔(۳۵)
حضرت ضحاکؓ بن سفیان کی بنو کلاب کو دعوتِ اسلام
حضرت ضحاک کی کوششوں سے بنو کلاب کا پورا قبیلہ اسلام لے آیا۔ ۹ ھ میں اس قبیلہ کا ایک وفد رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے اسلام لانے کی اطلاع دی اور آپﷺ کو بتایا:ضحاک بن سفیان نے ہمارے درمیان کتاب اور آپ ﷺ کی سنت کے مطابق عمل کیا اور ہمیں آپِﷺ کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ہم نے اسے قبول کرلیا۔(۳۶)
ابو امامہؓ باہلی کی اپنی قوم باہلہ کو دعوتِ اسلام
ابو امامہؓ باہلی نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہﷺ نے ان کو ان کی اپنی قوم کی طرف ہی مبلغ بنا کر بھیجا تاکہ وہ ان کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔قوم نے جب ان کو دیکھا تو خوش ہوکر کہا :صدیؓ بن عجلان(ابو امامہؓ کانام ہے)کو خوش آمدیدہو۔ اور کہنے لگے کہ ہمیں خبر پہنچی ہے کہ تم بے دین ہوکر اس آدمی (رسول اللہﷺ)کی طرف مائل ہوگئے ہو۔انہوں نے جواب دیا :نہیں بلکہ میں تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف مائل ہوگیا ہوں اور مجھے اللہ اور رسول ﷺنے تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ میں تم پر اسلام اور اس کے احکام پیش کروں۔
چنانچہ اس کے بعد ابوامامہؓ ان کو اسلام کی دعوت دینے لگے، لیکن قوم نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیااور ان پر بڑی سختی کی۔ابو امامہؓ نے بڑی استقامت کا مظاہرہ کیا۔بالآخران کی دعوت وتبلیغ کے نتیجہ میں پوری قوم مسلمان ہو گئی۔ (۳۷)
حضرت ابو امامہؓ نے اس کے بعد دعوتِ دین کو اپنی زندگی کامشن بنالیاجہاں دوچار لوگوں کو دیکھتے ان تک اسلام کا پیغام ضرور پہنچاتے ۔مسلم بن عامر کا بیان ہے:’’جب ہم ابوامامہؓ کے پاس بیٹھتے تو وہ ہم کو احادیث سناتے اور کہتے ان کو سنو، سمجھو اور جو سنتے ہو اس کو دوسروں تک پہنچاؤ‘‘ (۳۸)
سلمان بن حبیب محاربی بیان کرتے ہیں : میں حمص کی مسجد میں گیا، دیکھا کہ مکحول ؒ اور ابن زیاد زکریا دونوں بیٹھے ہوئے ہیں۔مکحول ؒ نے کہا کہ اس وقت دل چاہتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺکے صحابی حضرت ابوامامہؓ باہلی کے حضور چلتے ،ان کی کچھ خدمت کرتے اور ان سے کچھ حدیثیں سنتے۔سلمان کہتے ہیں:ہم لوگ اٹھے اور ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم لوگوں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اس کے بعد فرمایا:تمہارا میرے پاس آنا تمہارے لیے باعثِ رحمت بھی ہے اور تمہارے اوپر حجت بھی،(یعنی اگر تم حدیث کی خلاف ورزی کروگے)میں نے رسول اللہﷺ کو اس امت کے حق میں جھوٹ اور تعصب سے زیادہ اور کسی چیز کا خوف کرتے ہوئے نہیں دیکھا، آگاہ رہو جھوٹ اور تعصب سے بچوپھرفرمایا:
الا وانہ أمرنا ان نبلّغکم ذالک عنہ ألا وقد فعلنا فأبلغوا عنا ما قد بلّغناکم۔ (۳۹)
’’آگاہ رہو رسول اللہ ﷺنے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم یہ باتیں تم تک پہنچادیں۔آگاہ رہو ہم نے پہنچادیں ،لہذا اب تم ان باتوں کو جو ہم سے تم نے سنیں ہیں دوسروں تک پہنچادینا۔‘‘
حضرت عمروؓ بن مرہ جہنی کی اپنی قوم کے لیے دعوت
حضرت عمروؓ بن مرہ جہنینے رسول اللہ ﷺکی بعثت کی خبرسنی تو خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکراسلام قبول کرلیااور قرآن مجید کی تعلیم حضرت معاذ بن جبلؓ سے حاصل کی(۴۰) پھر بارگاہِ رسالت میں عرض کیا:یارسول اللہﷺ آپ مجھے میری قوم میں بھیج دیں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر بھی میرے ذریعہ فضل فرمادے جیسے آپﷺکے ذریعہ سے مجھ پرفرمایا ۔چنانچہ رسول اللہﷺنے ان کو ان کی قوم میں دعوتِ اسلام کی اجازت مرحمت فرمائی، انہوں نے قوم کوان الفاظ میں اسلام کی طرف بلایا:
یا معشر جہینۃ ! انی رسول رسول اللّٰہﷺ الیکم ادعوکم الی الاسلام واٰمر کم بحق الدماء وصلۃ الارحام، وعبادۃ اللّٰہ وحدہ، ورفض الاصنام وبحج البیت، وصام شھر رمضان شھر من اثنی عشر شھرا، فمن اجاب فلہ الجنۃ ومن عصی فلہ النار۔ (۴۱)
’’اے قبیلہ جہینہ! میں تمہاری طرف اللہ کے رسول کاقاصد ہوں اور تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں،اور میں اس بات کا حکم دیتا ہوں کہ تم خون کی حفاظت کرو،صلہ رحمی کرو،ایک اللہ کی عبادت کرو،بتوں کو چھوڑ دو،بیت اللہ کا حج کرو اور بارہ مہینوں میں سے رمضان کے روزے رکھو۔جو مان لے گا اس کے لیے جنت ہے اور جس نے نافرمانی کی اس کے لیے جہنم کی آگ ہے‘‘۔
حضرت عمروؓ بن مرہ کی مسلسل دعوت اور کوشش سے ان کی قوم نے اسلام قبول کرلیاتو وہ اپنی قوم کو لے کر بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کا استقبال فرمایا، ان کو درازئ عمر کی دعا دی اور ان کی قوم کے لیے ایک تحریر لکھ کر دی۔ (۴۲)
رفاعہ ؓ بن زید جزامی کی اپنی قوم کے لیے بطور مبلغ تقرری
خیبر سے قبل صلح حدیبیہ کے موقع پر رفاعہؓ بن زیدجزامی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔رسول اللہ ﷺنے انہیں ایک تحریر ان کی قوم کے لیے لکھ دی اور ان کو اپنی قوم کی طرف مبلغ بنا کر روانہ فرمایا۔ اس خط میں تحریر تھا:
ھذا کتاب من محمد رسول اللّٰہﷺ لرفاعۃؓ بن زید، انی بعثتہ الی قومہ عامۃ، ومن دخل فیھم، یدعوہم الی اللّٰہ والی رسولہ، فمن اقبل منہم ففی حزب اللّٰہ وحزب رسولہ۔ (۴۳)
’’یہ محمد رسول اللہ کی جانب سے رفاعہ بن زید کے لیے تحریر ہے کہ میں نے انہیں ان کی عام قوم کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جوان کی قوم میں داخل ہوں، بھیجا ہے،رفاعہ ان سب کو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف دعوت دیں گے ،جوان کی دعوت کو قبول کرے گا ،اللہ اور اس کے رسول کی جماعت میں شمار ہوگا۔‘‘
پھر جب رفاعہ بن زید اپنی قوم میں پہنچے تو قوم نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور اسلام قبول کرلیا۔(۴۴)
عروہؓ بن مسعود کی ثقیف کو دعوت /عثمانؓ بن ابی العاص کا بطور امیر تقرر
ابن اسحاق کی روایت ہے کہ ماہ رمضان ۹ ھ میں جب رسول اللہﷺ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لارہے تھے عروہؓ بن مسعود ثقفی نے آپﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر اسلام قبول کرلیااور عرض کیا کہ مجھے اپنی قوم میں جانے کی اجازت دی جائے تاکہ میں ان کو اسلام کی طرف بلاؤں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہیں ایسا نہ ہو کہ ثقیف تمہیں قتل کرڈالیں ۔عروہؓ نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ ! میں ان کے نزدیک باکرہ عورتوں سے بھی زیادہ محبوب ہوں۔
چنانچہ وہ اس امید پر کہ قوم ان کی مخالفت نہیں کرے گی بڑے جذبے کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے اسلام کی دعوت کے لیے روانہ ہوئے ۔جب وہ اپنے مکان کے بالاخانے پرنمودار ہوئے ،قوم کو اسلام کی طرف بلایا اور ان پر اپنا دین ظاہر کیا تو انہوں نے ہر طرف سے ان پر تیروں کا مینہ برسادیا جس سے آپؓ شہید ہوگئے لیکن حضرت عروہؓ بن مسعود ثقفی کی یہ قربانی رائیگاں نہ گئی، جلد ہی قوم کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔چھ افراد پر مشتمل ایک وفد بارگاہِ رسالت ؐمیں حاضر ہوا اور اسلام قبول کرلیااور مدینہ میں ٹھہر کر اسلام کی تعلیمات سے فیض یاب ہونے لگے۔ جب یہ لوگ واپس جانے لگے تو رسول اللہ ﷺنے ان کے لیے ایک تحریر لکھ دی اور عثمان بن ابی العاص کو ان کا امیر مقرر کیا ۔
ابن ہشام نے ا ن کے تقرر کی یہ حکمت بیان کی ہے:ان لوگوں میں انہیں اسلام کو ٹھیک طور پر سمجھنے اور قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کا سب سے زیادہ شوق تھااور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی یہ کہتے ہوئے ان کے تقرر کی سفارش کی:
یارسول اللّٰہﷺ! انی قدرأیت ھذا الغلام منھم من احر صھم علی التفقہ فی الاسلام، وتعلم القرآن۔ (۴۵)
’’یارسول اللہ ﷺ !میں اس لڑکے کو ان لوگوں میں تفقہ فی الدین ،مسائل دینی اور قرآن سیکھنے کا سب سے زیادہ حریص پاتا ہوں‘‘۔
وفد بنو تمیم
بنو تمیم کا وفد بڑی شان وشوکت سے ۹ھ میں مدینہ آیا۔ وفد میں قبیلہ کے تقریباً تمام بڑے رؤسا مثلاً اقرع بن حابس، عمروبن اہتم ،نعیم بن یزید، قیس بن حارث ،عطا رد بن حاجب زبر قان بن بدر اور عیینہ بن حصن وغیرہ شامل تھے۔ یہ لوگ اپنے خطیب اور شاعر ساتھ لے کر آئے تھے۔ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
کان فی وفد تمیم سبعون او ثمانون رجلا ثم اسلمواالقوم وبقوا بالمدینۃ مدۃ یتعلمون القرآن والدین۔ (۴۶)
’’قبیلہ بنو تمیم کے ستر یا اسی افراد وفد کی صورت میں حاضر ہوکر اسلام لائے اور مدینہ میں ایک مدت تک دین اسلام اور قرآن کی تعلیم حاصل کرتے رہے‘‘۔
اسی وفد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیتِ مقدسہ نازل فرمائی تھی:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَا دُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُھُمْ لَایَعْقِلُوْنَ۔ (الحجرات ۴۹:۴)
’’وہ لوگ جوآپ ﷺ کو حجروں کے عقب سے پکارتے ہیں ان میں سے بیشتر ناسمجھ ہیں‘‘۔
جب رسول اللہﷺ تشریف لائے تو انہوں نے کہا ! اے محمدﷺ !ہم تمہارے پاس مفاخرہ کرنے کے لیے آئے ہیں ۔اس لیے ہمارے شاعر اور خطیب کو اجازت دو‘‘چنانچہ بنو تمیم کی طرف سے عطارد بن حاجب نے تقریر کی اور رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے ثابتؓ بن قیس نے اس کا جواب دیا۔ اسی طرح زبرقان بن بدر نے فخریہ اشعار پڑھے تو ابنِ اسحاق کے بقول رسول اللہﷺ نے حسانؓ بن ثابت کو بلوا بھیجا تو انہوں نے ان کا جواب دیا۔دوطرفہ مفاخرہ کے بعد اقرع بن حابس یہ کہتے ہوئے کھڑے ہوگئے:
’’باپ کی قسم! یہ آدمی (نبی کریمﷺ)وہ ہیں جن کو توفیق الہٰی حاصل ہے، ان کا خطیب ہمارے خطیب سے بہترہے ،ان کاشاعر ہمارے شاعر سے بہتر ہے اور ان کے الفاظ ہمارے الفاظ سے شیریں ہیں۔‘‘
پھر بنو تمیم کے وفد کے تمام افراد اسلام لے آئے، رسول اللہ ﷺنے انہیں بہترین انعامات سے نوازا۔(۴۷)
ضمامؓ بن ثعلبہ کی بنوسعد بن بکر کو دعوتِ اسلام
ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ بنو سعد بن بکرنے ضمامؓ بن ثعلبہ کو بارگاہِ رسالت میں اپنا نمائندہ بناکر بھیجا تاکہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ کر آئیں۔ضمام بڑے جری انسان تھے، چنانچہ یہ مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے اور پوچھا: ایکم ابن عبدالمطلب؟ (تم میں عبدالمطلب کا بیٹا کون ہے؟) رسول اللہﷺنے جواب دیا! ’’انا ابنِ عبدالمطلب‘‘۔(میں عبدالمطلب کابیٹا ہوں)۔پھر ضمامؓ بن ثعلبہ نے اسلام کے متعلق کئی سوال کیے، جن کو ابنِ ہشام اور دوسرے مؤرخین نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔مطمئن ہونے کے بعد انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور کہا!
فانی اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا رسول اللّٰہﷺ وسأودّی ھذہ الفرائض واجتنب ما نہیتنی عنہ، ثم لا ازید ولا انقص۔ (۴۸)
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ خدائے واحد کے سوا کوئی معبو دنہیں ۔اور اقرار کرتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں،اور میں یہ فرائض ادا کرتا رہوں گا اور جن چیزوں سے آپ ﷺنے منع فرمایا ان سے پرہیز کروں گا،پھر میں نہ زیادتی کروں گا اور نہ کمی کروں گا‘‘۔
پھر اپنے اونٹ پر بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔جب اپنی قوم میں پہنچے تو پوری قوم ان کے پاس جمع ہوگئی چنانچہ انہوں نے قوم سے جوپہلی بات کہی وہ یہ تھی:
بئست اللات والعزی! قالوا: مہ یاضمام! اتق البرص، اتق الجذام، اتق الجنون! قال: ویلکم! انھما واللّٰہ لا یضران ولاینفعان، ان اللّٰہ قد بعث رسولا وانزل علیہ کتابا استنقذکم بہ مما کنتم فیہ، وانی اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ، وقد جئتکم من عندہ بما امر کم بہ، ومانھا کم عنہ۔ (۴۹)
’’لات وعزی کتنے برے ہیں،اس پر قوم نے کہا: ضمام!ٹھہرو،ٹھہرو!برص میں مبتلاہونے سے ڈرو، جذام میں مبتلا ہونے سے ڈرواور جنون سے ڈرو۔ ضمام نے جواب دیا !تمہارا براہو،خدا کی قسم ! یہ دونوں نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں نہ نفع پہنچاسکتے ہیں۔بے شک اللہ نے ایک رسول بھیجا ہے اور اس پر ایک کتا ب نازل کی ہے جس کے ذریعے سے رسول اللہﷺنے تمہیں اس گمراہی سے نکالاہے جس میں تم پڑے ہوئے تھے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ خدائے واحد کے سوا کوئی اور معبودنہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے بند ے اور رسول ہیں اور میں تمہارے پاس ان کی طرف سے وہ لایا ہوں جس کا انہوں نے تمہیں حکم دیا ہے اور وہ لایا ہوں جس سے انہوں نے تمہیں منع کیا ہے‘‘۔
راوی (ابنِ عباس) کا بیان ہے کہ شام ہونے سے قبل ہی اس قبیلے کے ہرمردوعورت نے اسلام قبول کرلیا۔
اکثمؓ بن صیفی کی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
حضرت اکثمؓ کو ظہورِ اسلام کی خبر ہوئی تو د وآدمیوں کو رسول اللہ کی خدمت میں بھیجا کہ تحقیقِ حال کریں وہ دونوں خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپﷺنے ان کو یہ آیت سنائی:
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبیٰ وَیَنْھیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلََّکُمْ تَذَکََّرُوْنَ۔ (النحل ، ۱۶:۹۰)
’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل،احسان اور قرابت داروں کو دینے کاحکم کرتا ہے اور فحاشی،برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے۔خدا تم کو نصیحت کرتا ہے شاید تم سمجھو اور سوچو‘‘۔
ان لوگوں نے جاکر ان سے یہ واقعہ بیان کیا تو انہوں نے تمام قوم کی طرف خطاب کرکے کہا:
یا قوم! أراہ یأمر بمکارم الاخلاق وینھیٰ عن ملائمھا فکونوا فی ھذا الأمر رؤسا ولاتکونوا ادنابا وکونوا فیہ اولا ولا تکونوا فیہ آخر۔
’’اے میری قوم یہ پیغمبر مکارمِ اخلاق کاحکم دیتا ہے ۔ اور ذمائم اخلاق سے روکتا ہے تم لوگ قبول اسلام میں دم نہ بنو ،سر بنو، مقدم بنو،مؤخر نہ ہو‘‘۔
اس کے بعد تادمِ مرگ اس کوشش میں مصروف رہے،انتقال ہوا تو اہلِ عیال کوتقویٰ اور صلہ رحمی کی وصیت کی۔(۵۰)
حضرت زیادؓ بن حارث کی اپنی قوم کو بذریعہ خط دعوتِ اسلام
حضرت زیادؓ بن حارث صدائی فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام پر آپﷺسے بیعت ہوا۔مجھے پتہ چلاکہ حضورﷺنے ایک لشکر میری قوم کی طرف بھیجا ہے۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپﷺ لشکر واپس بلالیں،میں اس بات کی ذمہ داری لیتا ہوں کہ میری قوم مسلمان بھی ہوجائے گی اور آپﷺ کی اطاعت بھی کرے گی۔آپﷺنے فرمایا تم جاؤ اور اس لشکر کو واپس بلالاؤ۔میں نے کہا یارسول اللہﷺ میری سواری تھکی ہوئی ہے۔حضورﷺنے ایک آدمی کو بھیج کر لشکر واپس بلوالیا۔میں نے اپنی قوم کو خط لکھا ۔ وہ مسلمان ہوگئے اور ان کا ایک وفد یہ خبرلے کر حضور کی خدمت میں آیا آپﷺنے مجھ سے فرمایا:
یا اخاصداء! ’’انک لمطاع فی قومک‘‘ فقلت: ’’بل اللّٰہ ھذا ھم للاسلام فقالﷺ: افلا اؤمّرک علیھم؟‘‘ قلت! بلی یارسول اللّٰہﷺ! قال: فکتب لی کتابا امّرنی۔ (۵۱)
’’اے صدائی بھائی!واقعی تمہار ی قوم تمہاری بات مانتی ہے ۔میں نے کہا (اس میں میرا کمال نہیں) بلکہ اللہ نے ان کو اسلام کی ہدایت دی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں ان کا امیر نہ بنادوں؟میں نے کہا بنادیںیارسول اللہ!چنانچہ حضور ﷺ نے میری امارت کے بارے مجھے ایک خط لکھ کر دیا۔‘‘
فروہ ؓ بن مسیک کی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
فروہؓ بن مسیک ۱۰ھ میں خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔فروہ کا قبیلہ مراد سے تعلق تھا۔قبولِ اسلام کے بعد عرض کیا یارسول اللہ ﷺ مجھے اجازت ہوتو اپنی قوم کے اہلِ اسلام کو ساتھ لے کر اپنی قوم کے کافروں سے قتال کروں،رسول اللہﷺنے ان کو اجازت دے دی ۔ جب یہ چلے تو رسول اللہﷺنے ایک آدمی بھیج کر ان کو بلوالیااور فرمایا:
ادع القوم فمن اسلم منھم فاقبل منہ ومن لم یسلم فلا تعجل حتی احدثا لیک۔ (۵۲)
’’تم اپنی قوم کو اسلام کی ترغیب دینا ،جو شخص اسلام لے آئے اس کا اسلام قبول کرلینااور جو انکار کرے اس کے بارے میں توقف کرنا یہاں تک کہ میں تم کو کوئی حکم بھیجوں‘‘
ابوثعلبہؓ خشنی کی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
حضرت ابو ثعلبہؓ جر ثوم بن ناشب خشنیکاتعلق قبیلہ قضاعہ کی شاخ خشین سے تھا۔ یہ حدیبیہ اور بیعتِ رضوان میں شریک تھے۔ رسول اللہ ﷺنے ابو ثعلبہؓ کو ان کے اپنے قبیلہ کی طرف ہی مبلغ بنا کر بھیجا چنانچہ حضرت ابو ثعلبہؓ کی کوششوں سے ان کا پورا قبیلہ رسول اللہ کی زندگی ہی میں اسلام لے آیا۔(۵۳) ابنِ عبدالبر کا بیان ہے:
وارسلہ رسول اللّٰہ ﷺالی قومہ فاسلموا۔ (۵۴)
’’رسول اللہ ﷺ نے ان کو ان کی قوم کی طرف دعوت اسلام کے لیے بھیجا پس ان کی قوم نے ان کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا۔‘‘
عامرؓ بن شہر کی قبیلہ ہمدان کو دعوتِ اسلام
عامرؓ بن شہر ایک زمانہ تک بادشاہوں کی صحبت میں رہ چکے تھے اور اپنے قبیلے کے قابل ترین فرد تھے۔ جب رسول اللہﷺ کی بعثت کی خبر ان کے قبیلہ ہمدان کوملی تو قبیلہ والوں نے ان سے کہا کہ تم اس شخص (یعنی رسول اللہﷺ)کے پاس جاؤ اور جس چیز کو تم ہمارے لیے اچھا سمجھوگے اس کو ہم کریں گے اور جس کو برا سمجھو گے اس کونہ کریں گے۔چنانچہ عامرؓ بن شہر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور دین اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے۔پھر اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے اور ان لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی تو کئی لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ (۵۵)
حارثؓ بن ضرارکی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
حضرت حارثؓ بن ضرار نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا تو رسول اللہ ﷺنے ان کو عقائد اسلام اور زکوٰۃ کی تعلیم دی۔اس کے بعد انہوں نے عرض کیا:یارسول اللہ ﷺآپ ﷺمجھے اجازت دیں کہ میں اپنی قوم کی طرف لوٹ جاؤں تاکہ ان کو اسلام اور اداءِ زکوٰۃ کی دعوت دوں۔چنانچہ رسول اللہﷺکی اجازت سے حضرت حارثؓ بن ضرار واپس اپنی قوم میں آگئے اور ان کو اسلام کی طرف بلایا تو قوم نے ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کرلیا ۔حضرت حارثؓ زکوٰۃ اکٹھی کرکے خود مدینہ حاضر ہوئے۔ (۵۶)
عمروؓ بن حسان کی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
حضرت عمروؓ بن حسان نے اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلایا تو تمام لوگ مسلمان ہوگئے۔ چنانچہ وہ بارگاہِ رسا لت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہﷺ میں نے اپنے پیچھے کسی شخص کو نہیں چھوڑا جس سے میں نے اسلام پر بیعت نہ لے لی ہو اور وہ آپ ﷺپر ایمان نہ لایا ہو سوائے قبیلہ کے خاندان بنی جون کی ایک ضعیفہ یعنی میری والدہ کے،رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ارفق بھا (ان کے ساتھ نرمی کرو)۔ (۵۷)
قیسؓ بن نشیہ کی بنی سلیم کو دعوتِ اسلام
حضرت قیس بن نشیہؓ قبولِ اسلام کے بعد اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے اور ان کو اسلام کی طرف بلاتے ہوئے فرمایا:
یابنی سیلم! سمعت ترجمۃ الروم وفارس واشعار العرب والکھان ومقاول حمیر وماکلام محمدؐ یشبہ شیئًا من کلامھم فاطیعونی فی محمد فانکم اخوالہ۔ (۵۸)
’’اے بنو سلیم! میں نے روم وفارس کے تراجم اور عرب، کہان اور حمیر کے بہادروں کے اشعار سنے ہیں لیکن محمدﷺ کا کلام ان سب سے الگ ہے، پس محمد کے معاملے میں میری اطاعت کرو،کیونکہ تم ان کے ماموں ہو‘‘۔
ابنِ اثیر کی روایت کے مطابق حضرت قیس بن غزیہؓ نے بھی اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلایا تھا۔ (۵۹)
مالکؓ بن احمر کی اہلِ فدک کو دعوتِ اسلام
جب رسول اللہﷺ تبوک کے مقام پر تشریف لائے تو مالکؓ بن احمر بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوکر اسلام لے آئے اور عرض کیا کہ انہیں تبلیغِ دین کے بارے میں ایک اجازت لکھ دیں جس کے ذریعہ وہ اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلائیں ،چنانچہ رسول اللہﷺ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر ان کو تحریر لکھ دی۔ (۶۰)
محیصہؓ بن مسعودکی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
حضرت محیصہؓ بن مسعود کورسول اللہﷺ نے اہلِ فدک کے پاس ارشاد وہدایت کے لیے روانہ فرمایا، محیصہؓ بن مسعودجوان کے بڑے بھائی تھے وہ ان ہی کی کوششوں سے مسلمان ہوئے۔ (۶۱)
مسعودؓ بن وائل کی بنی سلیم کو دعوتِ اسلام
حضرت مسعودؓ بن وائل مشرف بہ اسلام ہوئے تو درخواست کی:
یارسول اللّٰہ ﷺ! انی احب ان تبعث الی قومی رجلا یدعوھم الی الاسلام۔
’’یارسول اللہ ﷺ! آپؐ میری قوم کی طرف کسی آدمی کو روانہ کریں جو ان میں اسلام کی تبلیغ کرے‘‘۔
رسول اللہﷺنے انہیں ایک فرمان لکھ کر دیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ خود اپنے قبیلے میں دعوت کاکام کریں۔ (۶۲)
عبداللہؓ بن عوسجہ کی قبیلہ حارثہ بن عمروکو دعوتِ اسلام
حضرت عبداللہؓ بن عوسجہ البجلی کو رسول اللہ ﷺنے اپنا خط دے کر قبیلہ حارثہ بن عمرو بن قریط کے پاس تبلیغ وہدایت کے لیے بھیجا،چنانچہ انہوں نے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی ،لیکن یہ لوگ اسلام سے محروم رہے۔ (۶۳)
قیسؓ بن یزید کی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
اسی طرح ابن اثیر قیسؓ بن یزید کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے بھی اپنی قوم کواسلام کی دعوت دی:’’فدعا قومہ الی الاسلام فاسلموا‘‘ (۶۴)
عمروؓ بن حزم کا بنو حارث بن کعب کی طرف بطور مبلغ تقرر
ربیع الاول ۱۰ھ میں رسول اللہﷺ نے خالدؓبن ولید کو بنو حارث بن کعب کے پاس نجران دعوت وتبلیغ کی خاطر روانہ فرمایا ۔ بنو حارث نے اسلام قبول کرلیا ،تو خالد بن ولید نے بذریعہ خط کامیابی کی اطلاع بارگاہِ رسالت میں بھیجی تو رسول اللہ ﷺنے جوابی خط میں ان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے ساتھ بنو حارث کا وفد لے کر واپس آجائیں ،چنانچہ حضرت خالدؓ بنو حارث کے وفد سمیت مدینہ حاضر ہوگئے۔ چشمہء نبوت سے براہِ راست فیض یاب ہونے کے بعد جب یہ وفد واپس جانے لگا تو آپﷺنے بنوحارث بن کعب پر قیسؓ بن حصن کو امیر مقرر فرمایا اور ان لوگوں کے جانے کے بعد آپﷺنے عمروؓ بن حزم کو ان کی طرف روانہ فرمایا۔ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ان سے صدقات وغیرہ وصول کریں ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد تھی۔ ابن ہشام لکھتے ہیں:
وقد کان رسول اللّٰہﷺ قد بعث الیہم بعد ان ولی وفدھم عمروؓ بن حزم، لیفقّھھم فی الدین، ویعلّمھم السنۃ ومعالم الاسلام۔ (۶۵)
’’رسول اللہﷺنے عمروؓ بن حزم کو بنو حارث بن کعب کی طرف بھیجا تاکہ وہاں جاکر ان میں دین کا فہم پیدا کریں اور انہیں سنتِ رسول ﷺاور اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرائیں‘‘۔
رسول اللہﷺنے معاذؓ بن جبل کو یمن کے ایک حصہ کا عامل اور قاضی بنا کر بھیجا تو ان کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ لوگوں میں اسلامی شعور پیدا کریں اور ان کو قرآن کی تعلیم دیں ۔ابنِ عبدالبر لکھتے ہیں:
بعثہ رسول اللّٰہﷺ قاضیا الی الجند من الیمن یعلّم الناس القرآن وشرائع الاسلام۔ (۶۶)
’’رسول اللہ ﷺنے ان کو یمن کے ایک حصہ کا قاضی مقرر فرماکر بھیجا کہ وہاں کے لوگوں کو قرآن مجید اور احکامِ دین کی تعلیم دیں‘‘۔
خلاصۂ بحث
قبائل عرب میں کوئی قبیلہ ایسا نہیں جس کو رسول اللہﷺنے براہِ راست اللہ تعالیٰ کا پیغام نہ سنایا ہو۔ بالخصوص مکی عہدِ نبوت میں جب قبائل عرب ایامِ حج میں مکہ آتے تو آپﷺایک ایک قبیلہ اور خاندان کے پاس خود جاکر ان کو اسلام کی دعوت پیش فرماتے ،تاہم وہ لوگ جن کو آپؐ ﷺبراہِ راست دعوتِ اسلام نہ دے سکے آپﷺنے ان کی طرف اپنے صحابہؓ کو بطور مبلغ روانہ فرمایا۔
مدنی عہدِ نبوت میں آپﷺنے کثرت کے ساتھ قبائل عرب کی طرف دعوتی وتبلیغی مہمات روانہ فرمائیں اور صحابہ کرامؓ کو دعوتِ اسلام کی ذمہ داری سونپی۔اگرچہ ہرقبیلہ کی طرف بھیجے جانے والے مبلیغین اور ان کی سرگرمیو ں کا ہمیں تفصیلی ذکر نہیں ملتا تاہم مدنی دور میں جس تیزی سے اسلام پھیلا وہ بذاتِ خود آپﷺ کے ان گم نام مبلغین کی انتھک کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جن کے بارے میں ماخذ یا تو بالکل خاموش ہے یا ان کے بارے میں چند اشارے اور منتشر معلومات ملتی ہیں، ایسے ہی ایک گمنام مبلغ کے بارے میں حضرت احنفؓ بن قیس کے اس بیان سے پتہ چلتا ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’میں حضرت عثمانؓ کے زمانے میں بیت اللہ کا طواف کررہاتھا کہ اتنے میں بنو لیث کے ایک آدمی نے میرا ہاتھ پکڑکر کہا میں تم کو ایک خوشخبری نہ سنادوں؟ میں نے کہا ضرور۔اس نے کہا کیاتمہیں یا دہے کہ مجھے رسول اللہﷺنے تمہاری قوم کے پاس بھیجا تھا ۔میں ان پر اسلام کوپیش کرنے لگا اور ان کو اسلام کی دعوت دینے لگا تو تم نے کہاتھا کہ تم ہمیں بھلائی کی دعوت دے رہے ہواور بھلی با ت کا حکم کررہے ہواور وہ (رسول اللہﷺ)بھلائی کی دعوت دے رہے ہیں۔ رسول اللہﷺکو جب تمہاری بات پہنچی تو آپﷺنے فرمایا: اللّٰھم! اغفر للاحنفؓ ’’اے اللہ! احنفؓ کی مغفرت فرما‘‘۔ حضرت احنفؓ فرمایاکرتے تھے کہ میرے پاس ایسا کوئی عمل نہیں ہے جس پر مجھے رسول اللہﷺ کی اس دعا سے زیادہ امید ہو۔‘‘ (۶۷)
اسی نوعیت کا ایک واقعہ عبد خیرؓ ابنِ یزید بیان کرتے ہیں:
’’میں ملکِ یمن میں تھا وہاں لوگوں کے پاس رسول اللہﷺ کا خط پہنچا جس میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔ اس وقت میرے والد کہیں باہرگئے ہوئے تھے اور میر ی عمر ابھی کم تھی، جب میرے والد واپس آئے تو میری والدہ سے کہا کہ دیگ کو کتوں کے سامنے بہادو اس لیے کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں، پس اس وقت میں اسلام لے آیا۔ دیگ کے بہانے کاحکم اس لیے دیاتھا کہ اس میں مردار پکا ہواتھا‘‘۔(۶۸)
بنو لیث سے تعلق رکھنے والے یہ مبلغ صحابی کون تھے؟ جن کو رسول اللہﷺنے حضرت احنفؓ بن قیس کی قوم میں دعوت وتبلیغ کے لیے بھیجا تھا اس بارے میں ہمارے پاس کوئی ذریعہ معلومات نہیں ہے ۔ اسی طرح ملک یمن میں رسول اللہ ﷺ کا دعوتی خط لے کر جانے والے صحابی کون تھے؟جن کی سرگرمیوں کااشارہ حضرت عبد خیرؓ بن یزید کے بیان سے ملتا ہے ۔تاہم اس قسم کی روایا ت سے یہ رائے ضرور قائم کی جاسکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے بلا تخصیص تما م قبائل عرب کی طرف صحابہ کرامؓ کودعوت و تبلیغ کے لیے روانہ فرمایا،اگرچہ ان کی دعوتی سرگرمیوں کے بارے میں کتب سیروتاریخ خاموش ہیں۔
اسی طرح وفود عرب بھی مدنی دور میں دعوت وتبلیغ کا انتہائی موثر ذریعہ ثابت ہوئے ۔وفود عرب ،جو عام طور پرقبائلی رؤسا اور سردارانِ قوم پر مشتمل ہوتے تھے،کو رسول اللہ ﷺ مناسب تعلیم وتربیت کے ساتھ ان کے اپنے ہی قبائل میں دعوت وتبلیغ کے لیے بھیج دیتے۔ رسول اللہ ﷺکی یہ حکمتِ عملی انتہائی کامیاب رہی اور اس کے نتائج انتہائی حوصلہ افزا رہے۔
عرب کے مخصوص قبائلی اور معاشرتی ماحول میں جہاں سردارِ قوم کا مذہب ہی پورے قبیلے اور خاندان کامذہب اور دین ہوتا تھا ،نومسلم سرداروں نے اشاعتِ اسلام میں اہم کردار ادا کیا، چنانچہ قبائلی رؤسا کو اپنے قبائل میں جو شخصی اثرورسوخ اور وجاہت حاصل تھی اس کی بناء پر کثیر لوگوں نے اسلام قبول کیا اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ فردِ واحد کی دعوت پر پورے قبیلے نے اسلام قبول کرلیا،چنانچہ حضرت سعدؓ بن معاذ،ابوثعلبہؓ،زیادؓ بن حارث ،ضمامؓ بن ثعلبہ کی دعوت پر ان کے پورے قبیلے نے اسلام قبول کرلیا۔اسی طرح حضرت ضمادؓ ازدی نے قبولِ اسلام کے بعد اپنی قوم کی طرف سے بھی اسلام کی بیعت کی۔
حواشی
(*۱) امام بخاری نے ان اصحاب کی تعداد دس بیان کی ہے ۔(صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب غزوۃالرجیع ، ح:۴۰۸۶) امام سہیلی نے بھی دس کے قول کو ہی ترجیح دی ہے جن میں سے چھ مہاجر اور چار انصار صحابہ تھے ۔ (الروض الانف ، ذکر یوم الرجیع ،۲/۱۶۷) جب کہ ابن الاثیر نے ان مبلغین کی تعداد چھ بیان کی ہے ۔(اسد الغابہ ، تذکرہ عبداللہؓ بن طارق ، ۵/۲۵۸)
(*۲) وفد بنی تمیم ستر یا اسی افراد پر مشتمل تھا (الاستیعاب ، تذکرہ عمر وؓ بن اہتم ، ۳/۱۱۶۳) جبکہ وفد بجیلہ میں شامل افراد کی تعدا د ایک سو پچاس بیان کی جاتی ہے۔ (ابن سعد ، ۱/۳۴۷)
حوالہ جات
(۱) صحیح البخاری، کتاب الادب ،باب رحمۃ الناس والبھائم ،ح:۶۰۰۸،ص:۱۰۵۱۔ ایضاً،کتاب الاذان،باب الاذان للمسافرین.....ح:۶۳۱،ص:۱۰۴۔ صحیح مسلم ،کتاب المساجد،باب من احق بالامامۃ؟ح:۱۵۳۵،ص:۲۷۲۔ سننِ نسائی ، کتاب الاذان ،باب اجتزاء المرء باذان غیرہ فی الحضر،ح:۶۳۶،ص:۸۸
(۲) صحیح البخاری ، کتاب العلم ، باب تحریص النبی ﷺ وفد عبدالقیس علی ان یحفظو االایمان .............ح:۸۷، ص:۲۰۔ ایضاً،کتاب الایمان،باب اداء الخمس من الایمان ، ح:۵۳،ص:۱۳
(۳) سنن ابن ماجہ ، المقدمہ ، باب فضل العلماء و الحث الی طلب العلم ، ح:۲۲۹،ص:۳۵۔ سنن الدارمی ، المقدمہ ، باب فی فضل العلم والعالم ، ح :۳۵۵، ۱/۱۰۵
(۴) ابو نعیم الاصفہانی،’’حلےۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء‘‘ ، ذکر اہل الصفۃ،۱/۴۱۹،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،۱۹۹۷ء
(۵) کتانی ، عبدالحء، علامہ ، ’’نظام الحکومۃ النبوےۃ‘‘، (مترجم ، مولانا معظم الحق )ص:۳۲۷
(۶) سنن ابی داؤد ، کتاب البیوع ، باب کسب المعلم ، ح :۳۴۱۶، ص:۴۹۵۔المسند ،حدیث عبادہؓ بن صامت ح:۲۲۱۸۱، ۶/۴۲۹
(۷) اسد الغابہ ، تذکرہ عبداللہؓ بن سعید بن العاص ، ۳/ ۱۷۵۔الاستیعاب ، تذکرہ عبداللہؓ بن العاص،۳/۳۹۰
(۸) جمع الفوائد ،کتاب العلم، ۱/۴۸
(۹) المسند ، حدیث جابرؓ بن سمرہ،ح :۲۰۲۳۳۳، ۶/۹۵۔۹۶
(۱۰) المسند، مسند انسؓ بن مالک ،ح :۱۱۹۹۴، ۳/۵۹۸
(۱۱) صحیح مسلم ،کتاب فضائل الصحابہ ، باب فضائل ابی ہریرہؓ ، ح :۲۴۹۲، ص:۱۰۹۷۔ صحیح البخاری ، کتاب العلم ، باب حفظ العلم ، ح:۱۱۸، ص:۲۵
(۱۲) صحیح البخاری ، کتاب العلم ، باب التناوب فی العلم ، ح:۸۹، ص:۲۱
(۱۳) سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، باب فی التحلق، ح:۴۸۲۳، ص:۶۸۲
(۱۴) صحیح البخاری ، کتاب العلم ،باب من اعاد الحدیث ثلاثا لیفہم عنہ ، ح:۹۵،ص:۲۲
(۱۵) سنن ابی داؤد ،کتاب العلم ، باب فی سرد الحدیث ،ح:۳۶۵۵،ص:۵۲۴
(۱۶) ایضاً
(۱۷) صحیح مسلم ، کتاب المساجد ، باب تحریم الکلام فی الصلوۃ ، ح:۱۱۹۹،ص:۲۱۸
(۱۸) سنن ابی داؤد ، کتاب العلم ، باب فی القصص ، ح :۳۶۶۶،ص:۵۲۶
(۱۹) آل عمران ، ۳:۱۱۰
(۲۰) صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ ، باب ثبوت الجنۃ للشہید، ح:۴۹۱۷، ص:۸۵۱۔ المسند ، مسند انسؓ بن مالک ، ح:۱۱۹۹۴، ۳/۵۹۸
(۲۱) ابن ہشام ، ذکر یوم الرجیع ، ۳/۱۸۷۔۳۰۳، تاریخ الامم والملوک ، ۳/۲۹-۳۱(واقعات ۴ھ)
(۲۲) صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ ، باب ثبوت الجنۃ للشہید، ح:۴۹۱۷، ص:۸۵۱
(۲۳) ابن ہشام ، حدیث بئرمعونۃ ، ۳/۲۰۴۔۲۱۰۔ اسد الغابہ ، تذکرہ منذرؓ بن عمرو، ۴/۴۱۸
(۲۴) فتح الباری ، ۱۰/۲۵۲
(۲۵) سنن ابی داؤد ، کتاب الجہاد ، باب فی دعاء المشرکین ، ح:۲۶۱۲، ص:۳۷۷۔ سنن ابن ماجہ ، ابواب الجہاد ، باب وصےۃ الامام ، ح:۲۸۵۸، ص:۴۱۲۔ المسند ، حدیث بریدہؓ الاسلمی ، ح:۲۲۵۲۱، ۶/۴۹۲
(۲۶) المسند ، مسند صفوانؓ بن امیہ ، ح:۱۴۸۸۲، ۴/۴۰۱
(۲۷) صحیح البخاری ، کتاب الادب ، باب رحمۃ الناس وا لبہائم ، ح:۶۰۰۸، ص:۱۰۵۱
(۲۸) صحیح البخاری ، کتاب التمنی ، ص:۱۲۵۰
(۲۹) ابن ہشام ، اسلام بنی الحارث بن کعب ........... ۴/۲۴۹
(۳۰) تفسیر خازن ، تفسیر سورۃ التوبہ، آیت ما کان المؤمنون لینفروا..........۲/۴۲۱
(۳۱) المسند ،حدیث عبادہؓ بن صامت ، ح :۲۲۲۶۰، ۶/۴۴۳
(۳۲) الاصابہ ، تذکرہ وردانؓ جدالفرات ، ۳/۲۳۳
(۳۳) المسند ، حدیث و فد عبدالقیس ، ح:۱۵۱۳۱ ، ۴/۴۵۲۔ ایضاً،ح:۱۷۳۷۶، ۵/۲۳۵
(۳۴) الاصابہ ، تذکرہ عمیرؓ بن وہب ، ۴/۱۵۰
(۳۵) اسدالغابہ ، تذکرہ عمیرؓ بن وہب ، ۴/۱۵۰
(۳۶) ابن سعد ، وفدِ کلاب،۱/۳۰۰
(۳۷) المستدرک ، ذکر ابی امامۃؓ الباہلی ، ۳/۶۴۱۔الاصابۃ ، تذکرہ صدیؓ بن عجلان ، ۲/۱۸۲
(۳۸) سنن الدارمی،المقدمہ ،باب البلاغ عن رسول اللہ ﷺوتعلیم السنن،ح:۵۵۰،۱ /۱۴۳
(۳۹) اسد الغابہ ، تذکرہ صدیؓ بن عجلان ، ۳/۱۶۔۱۷
(۴۰) الاصابہ ، ۵/۱۲
(۴۱) البدایۃ،۵/۱۲۔ کنزالعمال،۷/۶۴
(۴۲) البداےۃ ، ۵/۱۲۔ کنز العمال، ۷/۶۴
(۴۳) ابن ہشام ، قدوم رفاعۃؓ بن زیدجزامی ، ۴/۲۵۲۔اسدالغابہ،تذکرہ رفاعۃؓ بن زید،۲/۱۸۱
(۴۴) ایضاً
(۴۵) ابن ہشام ، امر وفد ثقیف و اسلامھا............ ۴/۹۴۔ تاریخ الامم و الملوک ، ۳/۱۴۱ ( واقعات ۹ھ)
(۴۶) الاستیعاب ، تذکرہ عمر وؓ بن اہتم ، ۳/۱۱۶۴
(۴۷) ابن ہشام ، قدوم وفد بنی تمیم، ۴/۲۲۱
(۴۸) ابن ہشام ، قدوم ، ضمامؓ بن ثعلبۃ وافداًعن بنی سعد بن بکر ، ۴ /۲۲۹ ۔ المسند ، مسند عبداللہ بن عباسؓ ، ح:۲۲۵۴، ۱/۴۱۴۔ صحیح البخاری ، کتاب العلم ، باب القرأۃوالعرض علی المحدث ، ح:۶۳،ص:۱۵۔ الموطأ کتاب قصر الصلوۃ فی السفر ، ح :۱۹۷،ص:۱۳۰
(۴۹) ابن ہشام ، قدوم ضمامؓ بن ثعلبہ وافد اًبنی سعد بن بکر ،۴/۲۲۹۔ المسند مسند عبداللہ بن عباسؓ ، ح:۲۳۷۶، ۱/۴۳۷۔ اسد الغابہ ، تذکرہ ضمامؓ بن ثعلبہ، ۳/۴۳۔المستدرک ، رجوع ضمامؓ بن ثعلبہ علی قومہ ، ۳/۵۴
(۵۰) اسد الغابہ تذکرہ اکثمؓ بن صیفی ، ۱/۱۱۲
(۵۱) الاصابہ، تذکرہ زیادؓ بن حارث ، ۱/۵۵۷۔ البدایہ ، ۵/۸۳
(۵۲) اسد الغابہ ، تذکرہ فروہؓ ابن مسیک ، ۴/۱۸۱
(۵۳) اسد الغابہ ، تذکرہ جرثومؓ بن ناشب ، ۱/۲۷۷
(۵۴) الاستیعاب، تذکرہ ابو ثعلبہؓ الخشنی ، ۴/۱۶۱۸
(۵۵) اسد الغابہ ، تذکرہ عامرؓ بن شہر ہمدانی ، ۳/۸۳
(۵۶) ایضاً، تذکرہ حارثؓ بن ضرار ، ۱/ ۳۳۴
(۵۷) ایضاً، تذکرہ سنبر الابراشیؓ ، ۲/۳۶۰
(۵۸) ایضاً، تذکرہ قیسؓ بن نشیہ ، ۴/۲۲۸
(۵۹) اسد الغابہ ، تذکرہ قیسؓ بن غزیہ ، ۴/۲۲۳
(۶۰) ایضاً، تذکرہ مالکؓ بن احمر ، ۴/۳۷۱
(۶۱) ایضاً، تذکرہ محیصہؓ بن مسعود ،۴/۳۳۴
(۶۲) ایضاً، مسعودؓ بن وائل ، ۴/۳۶۰
(۶۳) ایضاً ، تذکرہ عبداللہؓ بن عوسجہ ،۳/۲۳۹
(۶۴) ایضاً، تذکرہ قیسؓ بن یزید، ۴/۲۲۹
(۶۵) ابن ہشام ، اسلام بنی الحارث بن کعب ، ۴/۲۵۰۔ تاریخ الامم و الملوک ، ۳/۱۵۷(واقعات ۱۰ھ)
(۶۶) الاستیعاب ، تذکرہ معا ذ بن جبل
(۶۷) اسد الغابہ ، تذکرہ احنفؓ بن قیس، ۱ / ۵۵۔ الاصابہ ، تذکرہ احنفؓ بن قیس ، ۱/۱۰۰۔ المستدرک، ذکر احنفؓ بن قیس ، ۳/۶۱۴
(۶۸) اسد الغابہ ، تذکرہ عبد خیرؓ ابن یزید ، ۳/۲۷۷