’’اسلام کا مالیاتی نظام‘‘ کے موضوع پر وفاقی دارالحکومت میں سیمینار

پروفیسر حافظ منیر احمد

۵ مارچ ۲۰۰۳ء کو جامعہ المرکز اسلامی بنوں صوبہ سرحد کے رئیس مولانا سیّد نصیب علی شاہ ایم۔این۔اے نے جامع مسجد دارالسلام G-6/2 اسلام آباد میں دو روزہ ’’اسلام آباد فقہی سیمینار‘‘ بعنوان ’’اسلام کا مالیاتی نظام‘‘ کا اہتمام کیا جس میں ملک کے طول و عرض سے اس شعبہ سے وابستہ افراد کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی اور دور جدید میں پیش آمدہ مختلف موضوعات پر مدارس دینیہ سے تعلق رکھنے والے اہل علم اور جامعات سے وابستہ پروفیسر و ڈاکٹر حضرات نے مقالہ جات پیش کیے۔

فقہی سیمینار کا افتتاحی اجلاس مولانا مفتی نظام الدین شامزئی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ مولانا سیّد نصیب علی شاہ ایم۔این۔اے نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جس میں انہوں نے علما ، دانشوران ملت، اساتذہ مدارس، کالجز وجامعات، تاجر حضرات، ڈاکٹر صاحبان اور صحافی حضرات کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے علم اور تحقیق کے جذبہ کے تحت اس سیمینار میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام ایک ہمہ گیر نظام زندگی اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے آخری منشورِ حیات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ معاشرہ میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے نئے افق پیدا کیے ہیں۔ دنیا ایک چھوٹا سا گاؤں یعنی Globel village بن گئی ہے۔ معاشی اور اقتصادی امور میں نئی ترقیات نے نئے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ جو لوگ اسلام پر چلنا چاہتے ہیں اور شریعت کو اپنی تجارت،معاشرت اور زندگی کے دوسرے میدانوں میں معیار ہدایت قرار دے کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ان کے سامنے ایسے سینکڑوں سوالات پیدا ہو رہے ہیں جن کے بارے میں وہ علماے کرام اور اصحاب افتا کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان سے رہنمائی کے طالب ہیں۔ دوسری طرف ایسی جامع شخصیات کا فقدان ہو گیا ہے جو علم و تحقیق کی بنیاد پر ان مسائل کو حل کر سکیں اور جن کا فتویٰ مسلّم طور پر مسلم معاشرے میں قابل قبول ہو۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس سلسلہ میں اجتماعی فکر کی بنیاد ڈالی جائے اور علما و اصحابِ دانش باہمی تبادلہ خیال کے ذریعے ان مسائل کا ایسا حل نکالیں جو اصول شرع سے ہم آہنگ اور فکری شذوذ سے پاک ہو۔ یہی وہ مقصد تھا جس کے لیے اپریل ۱۹۹۶ء میں پہلی بنوں فقہی کانفرنس، اکتوبر ۱۹۹۸ء میں دوسری بنوں فقہی کانفرنس اور ستمبر ۲۰۰۱ء میں ایبٹ آباد فقہی سیمینار کا انعقاد عمل میں لایا گیا اور اسلام آباد فقہی سیمینار اُسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔

سیمینار کی پہلی نشست میں جن اہل علم نے اپنے مقالہ جات پیش کیے، ان میں جناب ڈاکٹر علی اصغر چشتی پروفیسر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد نے ’’بلا سود بنکاری میں دشواریاں اور ان کا حل‘‘، مولانا مفتی غلام قادر نعمانی نے ’’قسطوں پر خریدوفروخت کی شرعی حیثیت‘‘، مولانا مفتی تاج زریں مہتمم دارالعلوم عربیہ شیرگڑھ نے ’’موجودہ کرنسی نوٹ ثمن عرفی ہے یا سند حوالہ‘‘ اور مولانا مفتی محمد طاہر مسعود مہتمم مدرسہ مفتاح العلوم سرگودھا نے ’’حصص کی خریدوفروخت‘‘ کے موضوع پر مقالات پڑھے جبکہ جناب ڈاکٹر سیّد طاہر پروفیسر اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے ’’اسلام کے مالیاتی نظام کا خاکہ‘‘ پیش کیا اور اس سلسلہ میں درپیش ان رکاوٹوں کا بطور خاص ذکر کیا جو کہ ملک کے مالیاتی نظام کو سود سے پاک نہیں ہونے دے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ہمارا تمام اقتصادی ڈھانچہ آئی۔ایم۔ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے کنٹرول میں ہے، اس لیے ہماری تمام کاوشیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں حالانکہ اسلامی اقتصادیات کا سارا ڈھانچہ ہمارے پاس موجود ہے۔پاکستان کے بہت سے ادارے جن میں کراچی ، لاہور اور اسلام آباد کے ادارے قابل ذکر ہیں، بہت سا کام کر چکے ہیں مگر عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے سامنے بے بس ہیں۔

سیمینار کی دوسری نشست کی صدارت انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے کلیۃ اللغۃ العربیہ کے پروفیسر جناب ڈاکٹر فیضان الرحمان صاحب نے کی۔ اس نشست میں متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل اور جمعیۃ علماے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے پاکستان کے معاشی اور اقتصادی نظام کے حوالے سے ایک اہم مقالہ پڑھا جس میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ ہمارے اقتصادی ڈھانچہ پر چند متعین اداروں مثلاً آئی۔ایم۔ایف، ورلڈ بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک اور دیگر مالیاتی اداروں کا مکمل کنٹرول ہے۔ کسی قوم کو غلام بنانے کے لیے سب سے پہلے اس کی اعلٰی ترین سیاست پر قبضہ کیا جاتا ہے اور آج ہمارے ہاں یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے نظام کے خلاف بات کی جائے تو پھر وزیراعظم باہر سے بھیج دیا جاتا ہے جو شکل سے تو پاکستانی ہوتا ہے لیکن مقاصد عالمی استعمار کے پورے کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے تینوں اہم شعبے یعنی اقتصادیات، خارجہ امور اور عسکری امور ان کے کنٹرول میں ہیں جبکہ اقتصادی شعبہ میں تمام تقرریاں آئی۔ایم۔ایف کی منظوری سے ہوتی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آئی۔ایم۔ایف کے کنٹرول سے پہلے ہماری سالانہ ترقی گیارہ فیصد تھی مگر جب سے ہم نے ان اداروں کی غلامی اختیار کی ہے، ہماری سالانہ ترقی دو فیصد رہ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سامراجی استعمار بڑی مکاری اور چالاکی سے ہمیں یرغمال بنانے میں مصروف ہے مگر ہمیں بڑی ہوش مندی سے کام کرنا ہے۔ گردوپیش کے حالات و واقعات سے ہمیں باخبر رہنا ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ کلہاڑا مار کر تمام اداروں سے تعلقات منقطع کر لیے جائیں۔ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے مگر سامراجی قوتیں ہمارے سماج کے ساتھ وابستہ نظام ہمیں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس انقلابی اور عسکری قوت نہیں ہے لیکن ایک ووٹ کی قوت ہے۔ ہمارے اوپر ہمارے اپنوں کا، وفاق کا اور بین الاقوامی اداروں کا دباؤ ہے۔ متحدہ مجلس عمل ان شاء اللہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے عوام کے حقوق کی جنگ لڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ضرورت کے مطابق خرچ کرتے ہیں نہ کہ خواہشات کے مطابق۔ 

بنک آف خیبر کے نمائندے جناب عبدالحسیب نے کہا کہ خیبر بنک بنیادی طور پر صوبہ سرحد کی ترقی کے لیے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبہ سرحد میں ہماری تین ترجیحات ہیں: (۱) نفاذشریعت (۲) مفت تعلیم اور (۳) بلا سود بنکاری۔ ہمیں جو ٹاسک دیا گیا ہے، ہم ان شاء اللہ اسے نئے مالی سال کے اختتام سے پہلے مکمل کر دیں گے۔ یہ تین ماہ کا ٹارگٹ ہے اور یہ سارا کام سٹیٹ بنک آف پاکستان کی منظوری سے ہو رہا ہے۔ ہم صوبہ سرحد میں فی برانچ پانچ کروڑ روپے کے حصص رکھ کر چار برانچوں میں بلاسود اسلامی بنکاری کا نظام لا رہے ہیں۔ اس ڈھانچے میں صوبہ سرحد میں تین برانچیں اور کراچی میں ایک برانچ قائم کریں گے اور سٹیٹ بنک کے حوالہ سے ان برانچوں پر ایک ڈائریکٹر الشریعہ نگران ہوگا جو کسی بھی مرحلہ پر اسلامی معیشت سے متصادم کسی بھی شق کو حذف کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہوگا۔

کانفرنس کی تیسری نشست میں مولانا مفتی غلام الرحمان چیئرمین نظام شریعت کونسل صوبہ سرحد نے ’’نظام شریعت کے لیے اقدامات‘‘ کے حوالہ سے تفصیلی مقالہ پیش کیا اور کہا کہ ہم نے ایک ٹاسک فورس بنا لی ہے اور اس کے ساتھ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذ شریعت کے لیے بھی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کر لیا ہے جس کے لیے ہمیں تین ماہ کا ٹارگٹ دیا گیا ہے اور ہم ان شاء اللہ یہ کام مقررہ وقت میں کر کے سُرخرو ہوں گے۔ اس نشست میں مولانا محمد رحیم حقانی نمائندہ برائے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ صوبہ سرحد نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا جس میں صوبائی سطح پر ہونے والے معاملات کو بطور تفصیل سے بیان کیا گیا۔ 

سیمینار کی دوسرے دن کی نشستوں میں مجلس عمل کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈرحافظ حسین احمد اور سابق وفاقی مذہبی امور جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی نے خطاب کیا۔ حافظ حسین احمد نے کہا کہ ہم القاعدہ نہیں بلکہ باقاعدہ اس اسمبلی میں آئے ہیں۔ تمام دنیا کی اقتصادیات پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور یہ بات عالم اسلام کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل کی دینی جماعتوں کے اتحاد کا اعلامیہ میں نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ متحدہ مجلس عمل آئین کے آرٹیکل نمبر ۲۳۰ کے تحت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو پیش کرے گی اور ملک میں ان کے نفاذ کے لیے عملی جدوجہدکرے گی۔ پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کہا کہ ہمارے ملک کا بااثر طبقہ شریعت کے احکام سے بے خبر ہے۔ بلاسود بنکاری کا نظام مسلمانوں کے اجتماعی وجود کی ضمانت ہے۔ بلکہ جس طرح یورپ نے اپنا ایک سکہ یورو رائج کیا ہے، ہمیں بھی مہاتیر محمد کی یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ مسلمان اپنی اجتماعی اقتصادیات کے لیے سونے کے سکے کو اپنے معاشی نظام میں رائج کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین ساز اداروں نے چھ دفعہ سود کے خاتمہ کا اعلان کیا مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ سود سے پاک بنکاری نظام پاکستان کے مسلمانوں کی آرزو ہے۔ آج بنکوں کی معاشی پالیسیوں اور جدید بین الاقوامی تجارت کے ذریعے مسلمانوں کو غلامی کے شکنجے میں جکڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے علما سے کہا کہ وہ آگے آئیں اور خانقاہوں سے نکل کر اپنا اجتماعی کردار ادا کریں۔ انہوں نے مولانا سید نصیب علی شاہ کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ رائے عامہ بیدار کرنے کے لیے اس جیسے مزید فقہی سیمینار ہونے چاہییں۔

کانفرنس کی اختتامی نشست میں ڈاکٹر قبلہ ایاز نے قراردادیں پڑھ کر سنائیں جن میں کہا گیا کہ پاکستا ن میں بلا سود کام کرنے والوں سے تعاون کیا جائے اور پوری دنیا میں جاری تحریکوں کو دہشت گرد اور بنیاد پرست کہہ کر بدنام کرنے سے گریز کیا جائے۔ فقہی سیمینار کا اختتام مولانا مفتی نظام الدین شامزئی کی دعا پر ہوا۔

الشریعہ اکادمی میں ماہانہ فکری نشست

۱۰ / اپریل ۲۰۰۲ء کو الشریعہ اکادمی کنگنی والا گوجرانوالہ میں ’دینی مدارس میں عربی زبان کی تدریس کا منہج‘ کے موضوع پر ایک علمی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں عربی زبان کے معروف ماہر تعلیم مولانا محمد بشیر سیالکوٹی نے اساتذہ وطلبہ سے خطاب کیا۔ مولانا نے اپنی گفتگو میں کہا کہ دنیا کی کسی بھی زبان کو مکمل طور پر سیکھنے کے لیے اس کو بولنے، سننے، پڑھنے اور لکھنے کی چار مہارتوں کا حاصل کرنا ضروری ہے جبکہ دینی مدارس میں عربی کی تعلیم اس حوالے سے بالکل ناقص ہے کیونکہ اس میں بولنے، سننے اور لکھنے کی تو سرے سے مشق ہی نہیں ہوتی جبکہ پڑھنے کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ اس کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دینی مدارس میں عربی زبان کے قواعد اور لسانیات کے دقیق نکات ازبر کرانے پر تو بہت توجہ دی جاتی ہے لیکن ان قواعد کے عملی استعمال اور اجرا کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح اس نصاب میں عربی پڑھنے کے لیے جس مواد کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ دور قدیم کا اعلیٰ عربی ادب ہے جبکہ جدید نظم ونثر اور محاورات سے روشناس کرانے کے لیے کوئی کتاب شامل نصاب نہیں۔ مولانا نے مختلف عملی مثالوں سے اس نکتے کو واضح کیا کہ مواد کی تسہیل، مناسب درجہ بندی، زبان کے عملی استعمال اور جدید لسانی ذخیرہ کے حوالے سے عربی زبان کا موجودہ نصاب اور طریق تعلیم بالکل فرسودہ ہے اور اس کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے تجویز پیش کی کہ الشریعہ اکادمی میں عربی زبان کے اساتذہ کے لیے تربیتی کورسز کا اہتمام کیا جائے اور اس میں تعلیم اللغۃ کے جدید اسالیب کے ماہرین سے استفادہ کیا جائے۔

اخبار و آثار

(مئی و جون ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter