اسلامی نظام تعلیم ایک ہمہ جہت تعمیری وانقلابی تعلیم کا خواہاں ہے جس کے جلو میں نہ صرف سیاسی ہنگامہ خیزی اور فکری آزاد روی پروان چڑھتی ہے بلکہ جو ہمہ نوع وہمہ جہت مثبت وتعمیری تبدیلیوں کا سبب وذریعہ بنتی ہے۔ اس کے بنیادی خدوخال پیش کرنا خود ایک طویل مقالے کا موضوع ہے۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ اس کے چند اہم نکات پیش کیے جاتے ہیں:
لازمی و جبری تعلیم
اسلا م میں تعلیم لازمی ہے۔ تعلیم کی ہمہ جہت اہمیت کے پیش نظر اختیاری تعلیم کا اسلام کے ہاں کوئی تصور نہیں۔ تعلیم ہر ایک کے لیے ہے اور لازمی ہے۔ خواندگی ایسی چیز نہیں ہے جسے عوام کی مرضی پر چھوڑا جا سکے کیونکہ ناخواندہ افراد تو علم رکھتے ہی نہیں‘ ان سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ سب علم کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہوں گے۔ یہ فریضہ تو حکومت کا ہے کہ وہ ان کے سامنے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرے اور انہیں حصول علم پر آمادہ کرے۔ خصوصاً کسی اسلامی معاشرے میں ناخواندہ افراد قطعاً قابل قبول نہیں ہو سکتے (۱) اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’علم کا حصول ہر ایک پر فرض ہے‘‘ (۲) آپ ﷺ کے عہد مبارک میں ہر نومسلم کے لیے مختلف علوم کا جاننا ضروری تھاجس کے لیے مختلف افراد اور تعلیمی ادارے سرگرم تھے۔ (۳) اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاص طور پر خانہ بدوش بدوؤں کے لیے قرآن مجید کی جبری تعلیم کا نظام قائم کیا تھا اور اس کے لیے گشتی ٹیمیں مقرر کی تھیں۔ (۴) نیز ایسے گشتی تعلیمی دستے مقرر تھے جو لوگوں کی تعلیمی صلاحیت کا جائزہ لیتے تھے اور ضرورت کے مطابق ایسے افراد کو اساتذہ کے سپرد کرتے تھے۔ (۵)
مفت تعلیم
اسلام مفت تعلیم کا قائل ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں تعلیم مفت تھی۔ آپ ﷺ نے ہر مسلمان عالم پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ دوسروں تک علم پہنچائے۔ (۶) اس لیے کتمان علم پر شدید وعید بیان فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس سے علم کے متعلق کوئی سوال ہوا اور اس نے چھپایا تو اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت آگ کی لگام پہنائے گا۔‘‘ (۷) بعد کے دور میں بھی تعلیم مفت رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں نومسلموں کی تعلیم وتربیت کے لیے مختلف مکاتب قائم کیے جن کے معلمین کی تنخواہیں بیت المال سے ادا کی جاتی تھیں۔ اس دور میں سرکاری انتظام میں قرآن کریم کے علاوہ احادیث‘ سیرت وغزوات‘ فقہ‘ ادب عربی‘ علم الانساب اور کتابت وغیرہ کی تعلیم مفت ہوتی تھی اور قرآن کریم کی تعلیم پانے والے طلبا کے لیے وظائف کا بھی انتظام تھا۔ (۸) حکومتی اہتمام کے علاوہ نجی طور پر اساتذہ بھی تنخواہ لینے سے گریز کرتے تھے اور عام طور پر معاوضے قبول نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؓ نے یزید بن ابی مالک اور حارث بن ابی محمد اشعری کو گشتی معلم مقرر کر کے ان کی تنخواہ مقرر کر دی۔ یزید نے تنخواہ قبول کر لی‘ حارث نے نہ کی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یزید نے جو کچھ کیا‘ اس میں کوئی خرابی نہیں البتہ اللہ تعالیٰ حارث جیسے افراد کثرت سے پیدا کرے۔ (۹)
بچوں کی تعلیم
بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم کا انتظام کرنا درحقیقت خود اپنے مستقبل کو سنوارنا ہے۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ کا قول ہے: ’’تم علم حاصل کرو۔ اگر تم قوم میں سب سے چھوٹے ہو تو کل دوسرے لوگوں میں (علم کی وجہ سے) تم بزرگ بن جاؤ گے۔‘‘ (۱۰) اس لیے حضور اکرم ﷺ نے اس کی بھی بڑی تلقین فرمائی ہے۔ نیز بچپن میں حافظہ قوی ہوتا ہے اسی لیے حضرت حسن بصریؒ کا قول ہے: ’’بچپن میں تعلیم حاصل کرنا ایسے ہے جیسے پتھر پر نقش اور بڑھاپے میں تعلیم حاصل کرنا ایسے ہے جیسے نقش بر آب۔‘‘ (۱۱) آپ ﷺ نے والدین کو بچوں کی تعلیم کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’کوئی والد اپنے بچے کو اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم دے۔ (۱۲)اور فرمایا: ’’آدمی کا اپنے بیٹے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔‘‘ (۱۳)
معذوروں کی تعلیم
اسلام کی نظر میں کسی قسم کی کمی یا کمزوری کسی کے فرائض کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ ہاں کسی پر بھی اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ تعلیم کے معاملے میں بھی اسلام کا یہ اختصاص وامتیاز ہے کہ اس نے جسمانی کمزوریوں کو حسن عمل وجہد مسلسل کی دولت سے چھپا دیا اور معذوروں سے وہ کارہائے نمایاں لیے کہ صحت مند افراد رشک کر اٹھے۔ اس کی سب سے اہم مثال حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی ہے جنہیں یہ فخر وشرف حاصل ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں اپنی غیر موجودگی میں مدینہ منورہ جیسی اسلامی ریاست کے لیے اپنا قائم مقام مقرر کیا اور انہیں یہ شرف دس بار حاصل ہوا۔ (۱۴) جبکہ دیگر جلیل القدر صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو یہ اعزاز نہ مل سکا۔ ایک نابینا صحابی اور حضور اکرم ﷺ کی نیابت کا فریضہ‘ تعلیم وتربیت میں اعلیٰ مدارج طے کیے بغیر یہ مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ اسلام میں معذوروں کی قدر ومنزلت کا یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہر دور میں اور ہر فن میں بڑے بڑے جلیل القدر علما نابینا وغیرہ گزرے ہیں۔ (۱۵) آج بھی معذوروں اور کئی وجہ سے عام جسمانی صلاحیتوں سے محروم افراد کی تعلیم کا خاص اہتمام ناگزیر ہے۔
خواتین کی تعلیم
خواتین کے لیے ایسا انتظام ضروری ہے کہ جس کے تحت وہ اپنی بنیادی ضروریات کی تعلیم‘ خواہ وہ دینی ہوں یا دنیاوی‘ بسہولت حاصل کر سکیں اور ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور خواتین کی تعلیم کا سلسلہ خالص اسلامی ماحول میں اسلامی تعلیمات کی ادنیٰ مخالفت اور ان سے معمولی رو گردانی کے بغیر بھی جاری رہے۔ آپ ﷺ نے انہی مقاصد کے پیش نظر خواتین کی تعلیم کے لیے علیحدہ دن اور علیحدہ مقام متعین فرمایا۔ (۱۶) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس سلسلے کو مزید وسعت ہوئی اور خواتین کے باقاعدہ الگ مدرسے قائم ہوئے۔ (۱۷) ان کے دور میں خواتین کی بھی جبری تعلیم رائج ہو گئی تھی۔ (۱۸)
آج بھی اس سلسلے میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے ہمارے ہاں خواتین کی علیحدہ یونیورسٹی کا مسئلہ اٹھتا رہتا ہے۔ یہ مطالبہ اپنی جگہ درست ہونے کے باوجود بھی نامکمل ہے۔ اس مطالبے کا اصل جواز اسلام میں مخلوط تعلیم کی ممانعت ہے۔ یہ امر اس کا متقاضی ہے کہ صرف جامعات کی سطح پر نہیں بلکہ پرائمری کے بعد ہر درجے اور مرحلے میں طلبا کے ادارے الگ اور طالبات کے ادارے الگ ہونے چاہییں جن میں صرف طلبا وطالبات ہی الگ الگ نہ ہوں‘ اساتذہ بھی علی الترتیب مرد اور خواتین ہوں۔ اور یہ مطالبہ کوئی نئی چیز نہیں‘ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان نے ایک موقع پر اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا:
’’ان واہی باتوں کو مسلمان سننا بھی گوارا نہیں کرتے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ تعلیم ہو۔ آج تک مشترکہ تعلیم کا کوئی ایسا فائدہ کسی نے بیان نہیں کیا ہے جو دل نشین ہو۔ .... ممکن ہے کہ مسلمانوں میں بعض افراد ایسے ہوں جو مخلوط تعلیم کے موید ہوں مگر مسلمانوں کی ساری قوم اس کے خلاف ہے۔‘‘ (۱۹)
تعلیم بالغاں
تعلیم بالغاں کی اہمیت مسلم ہے۔ بڑی عمر کے بہت سے افراد محض اس سبب سے حصول علوم سے رہ جاتے ہیں کہ بچپن میں کسی مجبوری‘ عدم توجہی یا عدم وسائل کے سبب سے وہ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ اسلام تعلیم کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ میں ایسے صحابہ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جنہوں نے نہ صرف بڑی عمر میں تحصیل علم کیا بلکہ مرتبہ کمال کو پہنچے۔ یہ سلسلہ بعد کے زمانے میں بھی جاری رہا بلکہ قرآن کریم کو بڑی عمر میں حفظ کرنے کا سلسلہ تو آج بھی جاری ہے اور یہ قرآن کریم کی برکت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’تم لوگ سردار بنائے جانے سے قبل علم حاصل کرو۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ نے تو بڑی عمر میں علم حاصل کیا ہے۔‘‘ (۲۰) اس لیے ہمارے ہاں بھی تعلیم بالغاں کے حلقے قائم ہونے چاہییں جہاں بڑی عمر کے ناخواندہ افراد دینی معلومات اور دنیاوی ضروریات کا علم اپنی ضرورت کے مطابق بہ سہولت حاصل کر سکیں۔
غیر مسلموں کی تعلیم
ایک اسلامی ریاست میں اسلامی نظام تعلیم کی موجودگی میں کسی غیر مسلم کو یہ اندیشہ لامحالہ ہو سکتا ہے کہ اس کی تعلیمی ضروریات کا کون کفیل ہوگا۔ لیکن یہ اندیشہ بے جا ہے۔ ایک تعلیمی نظام کیا‘اسلامی ریاست کے تو تمام امور ہی اسلامی نظام کے تحت چلتے ہیں مگر خود یہ نظام تمام غیر مسلموں کو ان کے مذہبی وتعلیمی معاملات میں مکمل آزادی دیتا ہے اور اس کی ضمانت خود آنحضرت ﷺ نے اپنے پہلے معاہدے میثاق مدینہ میں غیر مسلموں کو دی ہے۔ (۲۱) اس لیے اسلامی نظام میں ان کے حقوق اور تعلیمی ضرورتوں کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔
تخصصات
عام تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم اور خاص موضوعات پر تخصصات (Specialization) کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ خود قرآن حکیم نے اس کی اہمیت کی جانب توجہ دلائی ہے۔ مثلاً فرمایا:
فلولا نفر من کل فرقۃ منہم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین (۲۲)
’’سو کیوں نہ نکلے ان کے ہرگروہ میں سے کچھ لوگ تاکہ دین کی سمجھ پیدا کریں۔‘‘
اس آیت میں تخصص فی الفقہ کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ ایک اور مقام پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کے لیے متخصصین کی تیاری کی تاکید ہے۔فرمایا:
ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینہون عن المنکر (۲۳)
’’تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے‘ نیکی کی دعوت دے اور برائی سے روکے۔‘‘
اور عہد نبوی علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام میں بھی آپ ﷺ کی زیر تربیت بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مختلف مضامین میں تخصص وامتیاز حاصل کر لیا تھا جن میں سے بعض خوش نصیب ایسے تھے جنہیں اس اختصاص کی سند خود زبان نبوت سے ملی۔ مثال کے طور پر حضرت ابیؓ بن کعب کو قراء ت وتجوید میں اختصاص حاصل تھا۔ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔ (۲۴) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قضاۃ میں امتیاز حاصل تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ہمارے سب سے بڑے قاضی حضرت علیؓ اور سب سے بڑے قاری ابیؓ ہیں۔ (۲۵) اسی طرح علوم قرآنی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما امتیاز کے حامل تھے۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ ابن عباسؓ صحابہ میں سب سے زیادہ علم قرآن رکھتے تھے۔ (۲۶) اور علم تفسیر فقہ میں ابن مسعود کو شہرت ملی۔ خود آپ ﷺ نے یہ فرما کر انہیں سند عطا کی کہ تم تعلیم یافتہ لڑکے ہو۔ (۲۷) علم الفرائض میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ممتاز ہوئے۔ آپ ﷺ کا قول مبارک ہے کہ ’’میری امت میں علم فرائض سب سے زیادہ زید بن ثابت جانتا ہے۔‘‘ (۲۸) اور حلال وحرام کے علم میں معاذ بن جبلؓ درجہ امتیاز کے حامل تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں حلال وحرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا شخص معاذ بن جبلؓ ہے۔ (۲۹)
عصر حاضر میں بھی ہمیں ان خصوصیات کو زندہ رکھتے ہوئے آج کی ضرورت کے مطابق مختلف علوم وفنون کے ماہر تیار کرنا ہوں گے۔
حوالہ جات
۱۔ سید عزیز الرحمن /استحکام پاکستان، سیرت طیبہ کی روشنی میں/ زوار پبلی کیشنز کراچی، ۹۷ء/ ص ۲۴
۲۔ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم : ابن ماجہ / السنن / دار المعرفۃ، بیروت / ج ۱، ص ۹۷، رقم ۲۲۴۔
ہیثمی / مجمع الزوائد/ ج ۱، ص ۳۳۲، رقم ۴۷۲، ۴۷۳، ۴۷۴
۳۔ ملاحظہ کیجیے :مولانا قاضی اطہر مبارک پوری/ خیر القرون کی درس گاہیں/ ادارہ اسلامیات، لاہور، ۲۰۰۰ء ۔ محمد یاسین شیخ/ عہد نبوی ﷺ کا تعلیمی نظام/ غضنفر اکیڈمی پاکستان، کراچی ۸۹ء۔ پروفیسر رب نواز / آنحضور ﷺ کی تعلیمی جدوجہد/ ادارہ تعلیمی تحقیق، لاہور، ۲۰۰۱ء۔ مولانا محمد عبد المعبود/ عہد نبوی ﷺ میں نظام تعلیم/ مکتبہ رحمانیہ، لاہور، ۲۰۰۱ء۔ پروفیسر سید محمد سلیم/ اسلام کا نظام تعلیم/ ادارہ تعلیمی تحقیق، لاہور، ۹۳ء
۴۔ شبلی نعمانی/ الفاروق/ مکتبہ صدیقیہ، ملتان ۱۹۵۲ء/ ج ۲، ص ۴۴۲
۵۔ پروفیسر سید محمد سلیم/ اسلام کا نظام تعلیم/ ص ۸۶
۶۔ احمد، ابو عبد اللہ محمد بن حنبل الشیبانی/ المسند / دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۹۳ء/ ج ۲، ص ۳۴۱، رقم ۶۵۰۔ ترمذی/ ج ۴، ص ۳۰۵، رقم ۲۶۷۸۔ بخاری فی احادیث الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل
۷۔ احمد/ ج ۲، ص ۵۱۷، رقم ۷۵۱۷۔ مجمع الزوائد/ ج ۱، ص ۴۰۱، رقم ۷۴۱۔ طبرانی / المعجم الکبیر/ رقم ۱۱۳۱۰
۸۔ الفاروق / ص ۴۴۲، ۴۵۰
۹۔ مجلہ تعلیم/ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد/ شمارہ ۷، پاکستان میں تعلیم اور نجی شعبہ/ مضمون: پروفیسر سید محمد سلیم/ تعلیم فی سبیل اللہ کا احیا/ ص ۸۸
۱۰۔ ابن قتیبہ / عیون الاخبار/ بیروت/ ج ۲، ص ۱۲۳
۱۱۔ ایضاً/ ص ۱۶۴
۱۲۔ بیہقی/ شعب الایمان/ ج ۲، ص ۲۵۶۔ ترمذی/ ج ۳، ص ۳۸۳، رقم ۱۹۵۹
۱۳۔ ترمذی/ ایضاً/ رقم ۱۹۵۸
۱۴۔ یہ واقعات ذیل کے غزوات واسفار میں آپ ﷺ کی مدینہ منورہ سے غیر موجودگی میں پیش آئے:
ملاحظہ کیجیے ابن سعد/ الطبقات الکبریٰ/ دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۹۷ء/ ج ۲
(۱) غزوہ قرقرۃ الکدر/ ص ۲۳ (۲) غزوہ بنی سلیم/ ص ۲۷ (۳) غزوۂ احد/ ص ۲۹ (۴) غزوہ بنی نضیر/ ص ۲۴ (۵) غزوہ احزاب/ ص ۵۱ (۶) غزوۂ بنی قریظہ/ ص ۵۷ (۷) غزوۂ بنی لحیان/ ص ۶۰ (۸)غزوۂ الغابہ/ ص ۶۲ (۹) صلح حدیبیہ/ ص ۷۳ (۱۰) فتح مکہ/ ص ۱۰۲
اس کے علاوہ آپ ﷺ نے ابن ام مکتومؓ کو غزوۂ بدر میں صرف نمازوں کی امامت کے لیے اپنا قائم مقام مقرر فرمایا تھا: دیکھیے طبقات، ص ۸، ج ۲
۱۵۔ دیکھیے مولانا حبیب الرحمن خان شروانی/ نابینا علما/ مجلس نشریات اسلام، کراچی
۱۶۔ بخاری، کتاب العلم وکتاب الاعتصام بالسنۃ، باب تعلیم النبی ﷺ امۃ من الرجال والنساء
۱۷۔ اسلام کا نظام تعلیم/ ص ۹۰
۱۸۔ ایضاً
۱۹۔ سید مصطفی علی بریلوی/ شہید ملت لیاقت علی خان/ آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس، کراچی، ۲۰۰۱ء/ ص ۶۳
۲۰۔ بخاری/ کتاب العلم
۲۱۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ/ الوثائق السیاسیۃ/ دار النفائس، بیروت، ۸۵ء/ ص ۵۹
۲۲۔ القرآن/ سورۂ توبہ/ آیت ۱۲۲
۲۳۔ القرآن/ سورۂ آل عمران/ آیت ۱۰۴
۲۴۔ شمس الدین ابی عبد اللہ محمد بن احمد/ معرفۃ القراء الکبار/ ج ۱، ص ۲۹
۲۵۔ ابن حجر عسقلانی/ تہذیب التہذیب، بیروت/ ج ۷، ص ۳۳۷
۲۶۔ الصابونی، محمد علی/ التبیان فی علوم القرآن/ عالم الکتب، بیروت، ۸۵ء/ ج ۷، ص ۶۸
۲۷۔ احمد/ ج ۱، ص ۶۲۶، رقم ۳۵۵۸
۲۸۔ کنز العمال/ رقم ۳۳۳۰۴
۲۹۔ ڈاکٹر، احمد امین/ فجر الاسلام/ مصر/ ج ۲، ص ۱۷۱