(’الشریعہ‘ کے گزشتہ شمارے میں عہد حاضر میں اسلامی فکر کو درپیش سوالات اور چیلنجوں کے حوالے سے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ارشاد احمد حقانی اور مدیر ’الشریعہ‘ کی نگارشات شامل اشاعت کی گئی تھیں۔ اس شمارہ میں خورشید احمد صاحب ندیم اور جناب منظور الحسن کی تحریریں یہاں پیش کی جا رہی ہیں جن میں انہوں نے اس موضوع سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس اہم بحث کی تنقید وتمحیص کے سلسلے میں ہم اہل علم کو مزید اظہار خیال کی دعوت دیتے ہیں۔ مدیر)
موقر روزنامہ جنگ کی ۲۱ تا ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کی اشاعت میں ’’مسلمان معاشرے اور تعلیمات اسلام ---- فکری کنفیوژن کیوں؟‘‘ کے زیر عنوان ایک اہم مضمون شائع ہوا ہے۔ اس کے مولف ممتاز صحافی اور ماہر سیاسیات جناب ارشاد احمد صاحب حقانی ہیں۔ قومی وسیاسی امور کے بارے میں ان کے تجزیے سنجیدہ اور بے لاگ ہونے کے ساتھ نہایت حکمت ودانش پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رائے عامہ کی تشکیل اور ارباب حل وعقد کی رہنمائی میں غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں۔ مذکورہ مضمون میں فاضل مولف نے قومی تعمیر کے حوالے سے بعض اہم مباحث اٹھائے ہیں۔ ہمارے فہم کے مطابق ان کے نقطہ نظر کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اہل علم ودانش شریعت کے معاملے میں فکری الجھاؤ کا شکار ہیں۔ اس وقت وہ تین طبقات میں منقسم ہیں۔ ایک طبقہ روایتی علما پر مشتمل ہے جو فرسودہ نظام تعلیم کی پیداوار ہے اور جدید عمرانی علوم سے بے بہرہ ہے۔ یہ اپنے فہم شریعت کے قطعی ہونے پر مصر ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو جدید علوم سے بہرہ مند ہے، مگر اسلامی تعلیمات سے بالکل نابلد ہے۔ یہ نظام زندگی کی اساس اسلام کے فلسفہ وحکمت اور قانون وشریعت کے بجائے بعض غیر اسلامی افکار اور نظام ہائے زندگی پر استوار کرنے کا داعی ہے۔ تیسرے طبقے میں وہ اہل علم شامل ہیں جو اسلامی علوم پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ معاصر عمرانی علوم سے بھی آگاہ ہیں۔ یہ قرآن وسنت کو ماخذ رہنمائی قرار دیتے ہیں مگر ان کی شرح ووضاحت کے حوالے سے علماے سابق کی آرا کو محل نظر سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر یہ اس نقطہ نظر کے حامل ہیں کہ دین وشریعت کا اطلاق کرتے ہوئے عصر حاضر کی ضرورتوں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ صاحب مضمون کے نزدیک مسلمانوں کے روشن مستقبل کا انحصار اسی تیسرے طبقہ فکر پر ہے۔ آخر میں انہوں نے اسلام کی عمرانی تعلیمات کو عصری ترقیوں کی روشنی میں سمجھنے کی ترغیب دی ہے اور اس ضمن میں اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ صاحب مضمون کا اصل مقدمہ نہایت وقیع ہے۔ انہوں نے ایک ماہر نباض کی طرح مسلمانوں کے مرض کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی کی ہے اور اصلاح احوال کے لیے بالکل درست لائحہ عمل تجویز کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مسلمان علما کی غالب اکثریت تقلید جامد کو بطور اصول اختیار کیے ہوئے ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ احکام دینیہ کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے قدیم علما کا کام ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ موجودہ زمانے میں ان کے کام کی تفہیم اور شرح ووضاحت تو ہو سکتی ہے، مگر اس پر نظر ثانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دور اول کے فقہا نے جو اصول وقوانین مرتب کیے ہیں، وہ تغیرات زمانہ کے باوجود قابل عمل ہیں۔ اس ضمن میں تحقیق واجتہاد کی نہ ضرورت ہے اور نہ اس بات کا اب کوئی امکان ہے کہ کوئی شخص مجتہد کے منصب جلیلہ پر فائز ہو سکے۔ اس نقطہ نظر اور اس پر اصرار کے باوصف واقعہ یہ ہے کہ یہ اہل علم فکر اسلامی کے بارے میں پیدا ہونے والے متعدد شکوک وشبہات رفع کرنے اور نفاذ شریعت کے حوالے سے بعض سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایک طرف ایسے گروہ پیدا ہو رہے ہیں جو ان علما کے زیر اثر تقلید جامد کے اسیر ہیں اور دوسری طرف وہ نسل پروان چڑھ رہی ہے جو رد عمل کے طور پر اسلام کو ایک قصہ پارینہ قرار دے کر جدید فلاسفہ سے کسب فیض کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ ان کے درمیان میں کچھ ایسے لوگ بھی اگرچہ موجود ہیں جو اسلام کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات سے آگاہ ہیں اور ان کے شافی جوابات کی تلاش میں کوشاں ہیں، مگر واقعہ یہ ہے کہ ابھی تک ان کی کاوشیں بہت ابتدائی مراحل میں ہیں۔ اس وجہ سے مجموعی صورت حال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
غیر مسلم دنیا میں اسلام کے بارے میں سوالات اور شکوک وشبہات تو پہلے بھی موجود تھے مگر ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد یہ بہت نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں۔ ان میں اسلامی شریعت کے حوالے سے بعض سوالات بہت نمایاں ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا اسلام ایک شدت پسند مذہب ہے؟ کیا دنیا پر حکمرانی کا حق صرف مسلمانوں کو حاصل ہے؟ کیا اسلام میں رائے کی آزادی نہیں ہے؟ کیا اسلام چھوڑنے کی سزا موت ہے؟ کیا اسلام دہشت وبربریت کی اجازت دیتا ہے؟ کیا انسان صرف اس لیے موت کے حق دار ہو سکتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہیں؟ ان کے علاوہ جرائم کی سزائیں، معاشرے میں خواتین کا کردار، نظم سیاست، نظم معیشت اور فنون لطیفہ وغیرہ کے بارے میں بھی بے شمار سوالات ہیں جو آج کل دنیا بھر میں اسلام کے حوالے سے زیر بحث ہیں۔ صاحب مضمون نے بالکل ٹھیک توجہ دلائی ہے کہ اگر ان سوالات کا جواب نہیں دیا گیا اور اس کے برعکس وہی رویہ اختیار کیا گیا جو اب تک ہمارے علما کی اکثریت نے ظاہر کیا ہے تو پھر مسلمانوں کی ترقی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
مضمون کے بنیادی مقدمات سے پوری طرح اتفاق کے ساتھ اجتہاد کے مفہوم کے بارے میں ہم فاضل مصنف کی بات میں بعض اضافوں کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارا احساس یہ ہے کہ ان کی تحریر سے کم وبیش اسی تقریر کا تاثر ہوتا ہے جو موجودہ زمانے میں ہمارے اکثر دانش ور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ تقریر یہ ہے کہ علماے امت صدیوں سے تقلید کے طریقے پر گام زن ہیں۔ وہ ماضی بعید کے اہل علم کی تحقیقات اور آرا ہی کو حرف آخر سمجھتے اور قرآن وسنت پر ازسرنو غور کرنے کے خلاف ہیں مگر موجودہ زمانے میں تمدن کے ارتقا نے جو مسائل پیدا کر دیے ہیں، وہ ان سے صرف نظر کرتے ہوئے قدیم علما ہی کی دینی توضیحات کو اختیار کرنے پر مصر ہیں۔ چنانچہ اس امر کی ضرورت ہے کہ اجتہاد کے بند دروازے کو کھولا جائے اور اہل علم دور جدید کے تقاضوں کے پیش نظر قرآن وسنت کے احکام کی تعبیر وتشریح کریں۔ فاضل مصنف لکھتے ہیں:
’’جہاں تک اسلام کی عمرانی تعلیمات کا تعلق ہے، ان کے نئے نئے مفہوم اور مطالب اس میدان میں عصری ترقیوں کی روشنی میں واضح ہو سکتے ہیں۔ اب کوئی طبقہ زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق گزشتہ تیرہ چودہ سو سال میں سامنے آنے والی تشریحات اور مفاہیم کی لفظ بہ لفظ پیروی پر اصرار شروع کر دے تو وہ اپنے لیے اور ملت کے لیے لامحالہ طرح طرح کی مشکلات اور کجیاں پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد کی ضرورت کس قدر شدیدہے۔ اس کے بغیر ایک قدم آگے نہیں چلا جا سکتا۔‘‘ (روزنامہ جنگ ۲۳ جون ۲۰۰۲ء)
اس تصور کے تناظر میں یہ سوالات عام طور پر ذہن میں پیدا ہوتے ہیں کہ کیا قرآن وسنت کے احکام میں مرور زمانہ کے ساتھ ترمیم وتغیر ہو سکتا ہے؟ کیا ان معاملات میں بھی اجتہاد ہو سکتا ہے جن میں قرآن وسنت نے نہایت واضح احکام دیے ہیں؟ کیا قرآن وسنت کی شرح ووضاحت کے بارے میں ہم علما کی تحقیقات کو اجتہاد ہی سے تعبیر کریں گے؟ ان سوالات کے حوالے سے یہ مناسب ہے کہ یہاں مختصر طور پر ’اجتہاد‘ کا مفہوم اور اس کا دائرۂ کار بیان کر دیا جائے۔
’اجتہاد‘ کا لغوی مفہوم کسی کام کو پوری سعی وجہد کے ساتھ انجام دینا ہے۔ اس کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ جس معاملے میں قرآن وسنت خاموش ہیں، اس میں نہایت غورخوض کر کے دین کے منشا کو پانے کی جدوجہد کی جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے منسوب روایات کی روشنی میں اجتہاد کا دائرۂ کار حسب ذیل نکات کی صورت میں متعین کیا جا سکتا ہے:
۱۔ اجتہاد کا تعلق انہی معاملات سے ہے جو کسی نہ کسی پہلو سے دین وشریعت سے متعلق ہیں۔
۲۔ انسانوں کو انفرادی یا اجتماعی حوالے سے جب بھی قانون سازی کی ضرورت پیش آئے تو انہیں چاہیے کہ وہ سب سے پہلے قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں۔
۳۔ جن معاملات میں قرآن وسنت کی رہنمائی موجود ہے، ان میں قرآن وسنت کی پیروی لازم ہے۔
۴۔ جن معاملات میں قرآن وسنت خاموش ہیں، ان میں انسانوں کو چاہیے کہ اپنی عقل وبصیرت کو استعمال کرتے ہوئے آرا قائم کریں۔
ان نکات کی بنا پر یہ بات بطور اصول بیان کی جا سکتی ہے کہ شریعت محل اجتہاد نہیں ہے بلکہ محل اتباع ہے۔ محل اجتہاد صرف وہی امور ہیں جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے۔ چنانچہ اجتہادی قانون سازی کرتے ہوئے، مثال کے طور پر عبادات کے باب میں، یہ قانون نہیں بنایا جا سکتا کہ تمدن کی تبدیلی کی وجہ سے اب نماز فجر طلوع آفتاب کے بعد پڑھی جائے گی؛ معیشت کے دائرے میں یہ طے نہیں کیا جا سکتا کہ اب زکوٰۃ ڈھائی فیصد سے زیادہ ہوگی؛ سزاؤں کے ضمن میں یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ قتل کے بدلے میں قتل کے بجائے عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ گویا شریعت کے دائرے میں علما اور محققین کا کام صرف اور صرف یہی ہے کہ احکام کے مفہوم ومدعا کو اپنے علم واستدلال کے ذریعے سے متعین کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں ان کے لیے کسی تغیر وتبدیل کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ البتہ جس دائرے میں شریعت خاموش ہے، اس میں وہ دین ومذہب، تہذیب وتمدن اور عرف ورواج کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر طرح کی قانون سازی کر سکتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں جن معاملات کے حوالے سے اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے، ان میں خواتین کا پردہ، فنون لطیفہ اور اسلامی سزائیں بہت نمایاں ہیں۔ یہ اور اس نوعیت کے معاملات میں اصل بات وہی ہے جسے ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ یعنی قرآن وسنت کے احکام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، البتہ جہاں وہ خاموش ہیں، وہاں اپنی رائے سے اجتہاد کیا جا سکے گا۔
خواتین کے حجاب کے بارے میں قرآن وسنت خاموش نہیں ہیں۔ اس وجہ سے ہم اس باب میں اجتہاد نہیں کریں گے بلکہ قرآن وسنت کے منشا کو جاننے کی کوشش کریں گے۔ اس کوشش کے نتیجے میں کوئی صاحب علم اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ چہرے کا پردہ لازم ہے اور کوئی دوسرا عالم یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ چہرے کا پردہ لازم نہیں ہے۔ ہمیں انفرادی یا اجتماعی سطح پر جس رائے کے دلائل زیادہ قوی معلوم ہوں، اسے اختیار کر لینا چاہیے۔
فنون لطیفہ میں مثلاً تصویر اور موسیقی کے جواز یا عدم جواز کے معاملے میں بھی اجتہاد نہیں کیا جائے گا، کیونکہ ان معاملات میں دین خاموش نہیں ہے۔ یہ تحقیق کی جائے گی کہ اس بارے میں دین کیا چاہتا ہے۔ اگر دین ہمارے لیے ان چیزوں کو منع کرنا چاہتا ہے تو پھر کسی اجتہاد کے ذریعے سے ان کے جواز کا راستہ نہیں کھولا جا سکتا۔ اور اگر دین نے ان پر کوئی پابندی عائد نہیں کی تو ہم اپنے طور پر انہیں ناجائز قرار نہیں دے سکتے۔
اسلامی حدود وتعزیرات میں جرائم کی جو سزائیں اللہ اور اس کے رسول نے عمومی طور پر متعین کر دی ہیں، وہ ہمارے لیے واجب الاتباع ہیں۔ ہم ان میں کوئی ترمیم وتغیر نہیں کر سکتے۔ البتہ اگر کوئی ایسا جرم سامنے آتا ہے جس کی سزا کے بارے میں کوئی ہدایت ہم قرآن وسنت میں تلاش نہیں کر پائے تو اس کے متعلق اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔
اس باب میں جس طرز عمل کی اصلاح کی ضرورت ہے، وہ مخصوص علماے سابقین کی تحقیقات یا اجتہادات پر عمل درآمد کے لیے اصرار ہے۔ اس طرح کی کوئی پابندی اسلام نے عائد نہیں کی۔ اس نے ہر زمانے کے ہر شخص کو اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ تحقیق واجتہاد کی صلاحیت بہم پہنچانے کے بعد دینی احکام کے حوالے سے اپنی آرا پیش کرے اور ان کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرے۔
(ماہنامہ اشراق، اگست ۲۰۰۲ء)