تعلیم کی سیکولرائزیشن

غطریف شہباز ندوی

اقبال نے کہا تھا ؎

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

تعلیم ایک با مقصد سماجی عمل ہے، اس کے ذریعے نئی نسل کو معاشرہ میں مقبول افکار و اطوار سکھائے جاتے ہیں جو معاشرہ میں پہلے سے موجود اور رائج ہوتے ہیں اور اساتذہ کے ذہنوں میں راسخ ہوتے ہیں۔ انہیں افکار و خیالات اور روایات کے مجموعہ سے اس معاشرہ کے تعلیمی اقدار کی تشکیل ہوتی ہے۔ پورا درسی نظام انہی اقدار پر مبنی ہوتا ہے۔ ماہرینِ تعلیم، اساتذہ، درسی لٹریچر وغیرہ سب اسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ اقدار ہر نظامِ تعلیم میں پائے جاتے ہیں۔ معاشرہ کی مخصوص فضا و ماحول نیز روایات کے اعتبار سے ان میں باہم فرق ہوا کرتا ہے۔

دیکھا جاتا ہے کہ مغرب کے تعلیمی اقدار مشرق سے مختلف ہیں اور مشرق کی سماجی و اخلاقی روایات مغربی ذہن و فضا سے یکسر الگ۔ پھر چونکہ کوئی معاشرہ مشرقی ہو یا مغربی، اسلامی ہو یا غیر اسلامی، صرف انسانی بھیڑ کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک جسم نامی (Organism) ہوا کرتا ہے، جس کے لیے ایک مرکزی خیال کا ہونا ضروری ہے جو اس کے لیے روح کا کام کرے، جس سے اس کے تمام اعضاء جوارح غذا پائیں۔ مثلاً اسلامی معاشرہ میں وہ بالعموم انسانی زندگی کے بنیادی حقائق (انسان، کائنات، خدا اور آخرت) کے بارے میں فکر و تخیل کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہی مجموعۂ فکر و خیال آئیڈیالوجی (Ideology) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہی آئیڈیالوجی دراصل معاشرے کی روح اور اس کی ترجمان ہوتی ہے۔ اور چونکہ کوئی بھی نظامِ تعلیم باہر سے تھوپی جانے والی چیز نہیں ہوتی، اس لیے کسی بھی معاشرہ میں وہی نظامِ تعلیم فروغ پا سکتا ہے جو اس آئیڈیالوجی سے ہم آہنگ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ غیر اسلامی اقدار و مقاصد پر مبنی نظامِ تعلیم، چاہے مغربی برانڈ کا ہو یا مشرقی ٹرینڈ رکھتا ہو، کسی مسلم معاشرہ کے لیے نہ عملاً مفید ہو سکتا ہے نہ وہاں پنپ سکتا ہے، کہ غیر اسلامی نظام کے مسلّمہ تعلیمی اقدار بالکل الگ ہیں اور اسلامی نظامِ تعلیم کے اصول ان سے یکسر مختلف۔ غیر اسلامی تناظر میں اس کے مقاصد کچھ اور ہوں گے، اسلامی تناظر میں کچھ اور۔

غیر اسلامی نظامِ تعلیم نے اپنے مقاصد اس طرح متعین کیے ہیں:

  • فلاحِ عام،
  • مسرت کا حصول،
  • افادیت پرستی،
  • زیادہ سے زیادہ لذت و آسائش کا حصول۔

اس کے برخلاف اسلامی نظامِ تعلیم کے مقاصد میں:

  • انسان کو دنیا و آخرت میں کامیاب بنانا،
  • اس کا مادی و روحانی ارتقاء،
  • اس کے نفس کا تزکیہ اور اخلاق و معاملات کی تربیت،
  • اسی کے ساتھ وہ انسان کو مادی ترقی سے بھی نہیں روکتا بلکہ سائنٹیفک مزاج کو بڑھاوا دیتا ہے۔

چنانچہ تاریخ کی شہادت ہے کہ اسلامی تہذیب کے دورِ عروج میں تعلیم بہت زیادہ عام رہی اور ہر طرح کی سائنسی، عقلی اور تہذیبی و علمی ترقیاں بھی ہوئیں۔ تاہم اس کا بڑا امتیاز یہ تھا کہ اس عہد میں انسان کا رابطہ خدا سے نہیں ٹوٹا۔ جبکہ آج مغربی نظامِ تعلیم کے غالب ہو جانے کے بعد ہر طرف خدا بیزاری اور مذہب سے لاتعلقی کا رجحان پایا گیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب ہے نظامِ تعلیم کا سیکولر بنیادوں پر قائم ہو جانا، جس کے لیے باطل قوتیں گزشتہ تین صدیوں سے کام کر رہی ہیں، اور بالآخر وہ تعلیم کو سیکولرائز کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ مغربی دنیا اور عالمِ اسلام کے کامیاب تجربوں کے بعد اب وہ اسی تجربہ کو ہندوستان میں بھی دوہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ یہاں تعلیم کو سیکولرائز کرنے کی زبردست کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس کے خاص پیٹرن ہیں:

  1. تعلیم کو ہندوانہ بنانا (Hinduisation)،
  2. اور تعلیم کو قومی یا انڈین بنانا (Indianisation)۔

جہاں تک تعلیم کے سیکولرائزیشن کی بات ہے تو اس سلسلے میں پہلے سیکولرازم اور سیکولرائزیشن کے بارے میں چند بنیادی حقائق سامنے لانا ضروری ہے۔ سیکولرازم کی مختلف تعبیریں کی جاتی ہیں۔ مغرب میں اس کو دوسرے انداز سے ڈیفائن کیا جاتا ہے، مشرق میں اس کی تعریف دوسری ہے۔ بالخصوص ہندوستان کے تناظر میں اس کی مختلف تشریحات کی جاتی ہیں۔ ایک تشریح وہ ہے جو کانگریس کرتی ہے، دوسری تعبیر مارکس وادی اور سوشلسٹ عناصر کرتے ہیں، ان سب سے مختلف تعبیر سنگھ پریوار پیش کرتا ہے۔ ان میں کوئی مذہب مخالف ہے، کوئی غیر جانبدار اور مذہب کو فرد کی زندگی تک محدود کرتے ہیں، تاہم یہ حقیقت واضح ہے کہ یہ ساری تعبیریں بظاہر متضاد اور مختلف نظر آتی ہیں، لیکن اپنی حقیقت اور روح کے اعتبار سے تقریباً سب یکساں ہیں۔ جو اختلافات ہیں وہ بس لفظی اور شکلی اختلاف ہے، یا حکمتِ عملی اور طریقہ کار کا اختلاف ہے۔

سیکولرازم دراصل ریگولرازم (ضابطہ و شریعت کی پابندی) کے خلاف ہے۔ بعض جگہوں پر سیکولرازم کا وہ ایڈیشن بھی ملتا ہے جو مذہب کو تسلیم کرتا ہے، مثلاً ہندوستانی سیکولرازم، لیکن یہ ایڈیشن بھی معاشرہ کی شدید مذہبی وابستگی کو دیکھ کر ایک اسٹریٹیجی کے طور پر اپنایا گیا ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ سیکولر کا مطلب ہوا ریگولر کی ضد یعنی متشرع کا ضد۔ گویا وہ بنیادی طور پر خدا اور مذہب کے خلاف ہے۔ انسانی زندگی کے سبھی شعبوں کو لامذہبی بنیاد پر کھڑا کر دینا اور اس کے مطابق ڈھال دینے کی کوشش کو سیکولرائزیشن کہا جاتا ہے، جس کا عمل دنیا میں صدیوں سے جاری ہے اور جس نے پوری دنیا پر بالعموم اور عالمِ اسلام پر بالخصوص گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ یہ لادینی نظریہ ایک دو دن میں نہیں پنپ گیا تھا بلکہ اس کے پیچھے صدیوں جاری رہنے والی تحریکات تھیں۔ ماسوئیت نے اسے آگے بڑھایا، میومنزم اور ریشنلزم کے فلسفوں نے اس کو عقلی بنیادیں فراہم کیں، یونانی علوم کی طرف رجعت نے اسے مہمیز دی، اس نظریہ کے علمبرداروں نے زندگی کے ہر میدان میں بے پناہ عقلی و فکری کاوشیں کیں اور اس کے فروغ میں نمایاں رول ادا کیا۔ جن میں خاص ہیں بوکاشیو (Boccaccio)، پیتراکو، رینزو (Renzo)، میڈیسی (Medici)، دیکاٹ زونگلی (Zongli)، روسو (Rousseau)، کانٹ (Cant)، ہیگل (Hegal)، میکیاولی اور آدم اسمتھ ولی ارون انس کی جدوجہد سے مغربی نشاۃ ثانیہ کی داغ بیل پڑی۔ (ملاحظہ ہو ص ۶۷، اسرار عالم، عالمِ اسلام کی اخلاقی صورتحال)

ڈیکارٹ (Decartes) نے روح کو مادی اجزاء سے اور ذہن کو جسم سے الگ قرار دیا، اور بلا کسی تحقیق کے مادہ و جسم کو اصل اہمیت دے دی۔ اسی طرح لوائے زر (Lavoisier) نے دعویٰ کیا کہ مادہ شکلیں بدلتا ہے، فنا نہیں ہوتا۔ اور اس سے منفی طور پر یہ نتیجہ نکالا کہ یہ دنیا غیر فانی ہے، لہٰذا مذہب کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ کائنات فانی ہے۔ اسحاق نیوٹن (Isaac Newton) کی تحقیقات نے ثابت کیا کہ دنیا چند قوانین کے تحت وجود میں آئی ہے، انہیں کی بنیاد پر چل رہی ہے، لہٰذا اسے خالق و صانع کی ضرورت نہیں ہے۔ ان خیالات نے جدید سائنٹیفک نظریہ کو جنم دیا۔ یہودیوں کی آلہ کار مغربی قوتوں نے مذہب و کلیسا پر کاری ضرب لگانے اور نئی نسلوں کو لامذہب بنانے کے لیے سب سے زیادہ کلچر اور تعلیم کا استعمال کیا۔ بطور خاص تعلیم ان کے لیے ایک بے انتہا کار آدم ذریعہ ثابت ہوا اور اس میدان میں اس نظریے نے بڑے دور رس اور خطرناک اثرات پیدا کیے کہ ؏

دل بدل جائیں گے تعلیم کے بدل جانے سے

جن قوموں، علاقوں اور تہذیبوں کو سیاسی اور فوجی محاذوں پر شکست نہ دی جا سکی اور انہوں نے استعمار کے آگے سخت مزاحمت (Resistance) سے کام لیا، انہیں تعلیم کے ذریعے سے بہت آسانی سے شکار کر لیا گیا۔ اب تک پوری دنیا میں مختلف قوموں اور ملکوں میں تعلیم کو تہذیبِ نفس اور تطہیرِ فکر کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ اور اس رجحان کو اسلام نے خصوصی طور پر تقویت دی اور اسے اتنا ارتقاء دیا کہ اس سے زیادہ ممکن نہ تھا، اس کے تہذیبی ارتقاء کے دور میں سارا تعلیمی نظام اسی نکتہ پر چلتا رہا۔

لیکن جدید دور میں صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی۔ جدید تعلیم کے ایک اہم ستون بیکن (Francis Bacon) نے تعلیم کو فضائل سے آراستہ کرنے کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے مادی غلبہ کے حصول کا ذریعہ بتایا۔ روسو جدید تعلیم کا امام ہے، اس کا کہنا تھا کہ تعلیم واقعی اور مثبت ہونی چاہیے، جس کا مقصد بچہ کی ذہنی قوتوں کی پرورش ہو نہ کہ باہر سے تھوپی جانے والی مذہبی و اخلاقی تعلیم۔ آدم اسمتھ جدید معاشیات میں ایک بڑا نام ہے، اس نے تعلیم کا مقصد ملکی پیداوار میں اضافہ قرار دیا۔ اس نظریہ کا حاصل تھا کہ ’’انسان دنیا کے لیے، نہ کہ دنیا انسان کے لیے‘‘۔ نتیجتاً تعلیم انتہائی شکل میں معاش سے وابستہ کر دی گئی۔

انیسویں صدی کے آخر میں پوری دنیا پر مغربی سامراجیت کا تسلط قائم ہو گیا، اور اب سرکاری زور کے ساتھ اس سیکولر نظامِ تعلیم کو پوری دنیا میں رائج کرنے کی کوشش ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پوری دنیا پر چھا گیا۔ مذکورہ بالا افکار کی روشنی میں مغربی نظامِ تعلیم نے اپنے تعلیمی اقدار اس طرح متعین کیے:

(۱) مذہب کا انکار

مذہب کا انکار اس نظام کی مسلّمہ قدر ٹھہری، ما بعد الطبیعات کے انکار کو یہاں اصولِ موضوعہ کی حیثیت حاصل ہو گئی، سرکاری سطح پر بھی مذہب کی تعلیم ممنوع قرار پائی۔ چنانچہ ۱۸۲۸ء میں امریکہ میں تعلیمی ایکٹ نافذ کیا گیا جس کی رو سے سرکاری تعلیم گاہوں میں مذہبی تعلیم کا داخلہ بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد انگلینڈ و فرانس نے بھی اسی طرح کے قدم اٹھائے۔ عالمِ اسلام میں ترکی نے اس میں سبقت لی اور اپنے سفید آقاؤں سے بھی بازی لے گیا، اذان عربی میں ممنوع ہو گئی، ترکی زبان کا رسم الخط بھی عربی زبان سے بدل کر لاطینی کر دیا گیا۔ ہندوستان میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ گاندھی کی تعلیمی اسکیم ’’واردھا اسکیم‘‘ بھی سیکولرائزیشن کی انہیں کوششوں کا ایک حصہ تھی جو اب بھی جاری ہے۔

(۲) غیر جانب داریت

مغرب کا کہنا ہے کہ ہر فرد کو مذہب و اخلاق کے بارے میں اپنی رائے خود وضع کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ کسی خاص مذہب یا کسی خاص شخصیت کا عقیدت مند بنانا ٹھیک نہیں ہے۔ تعلیم پورے طور پر غیر جانبدار ہو اور وہ طالب علم کو معروضی انداز میں محض معلومات دے دے، اس کے بعد اس کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ دیکھنے میں تو یہ خیال بڑا حسین اور خوشنما ہے، لیکن حقیقت میں بالکل بے بنیاد ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں غیر جانب داریت کا وجود کہیں نہیں پایا جاتا ہے۔ ہر انسان اپنے معاشرہ، ماحول اور زمانہ کی پیداوار ہوتا ہے اور ان تینوں عناصر سے وہ گہرا اثر قبول کرتا ہے۔ اس لیے مطلقاً غیر جانب داریت ایک وہم ہے۔

(۳) مطلق آزادی

آزادی انسان کا فطری حق ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی، عقیدہ کی آزادی وغیرہ کا اسلام نے زبردست احترام کیا ہے۔ حتٰی کہ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ

’’تم نے لوگوں کو کب غلام بنا لیا، جب کہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا ہے۔‘‘

یہ قول دراصل آزادئ فرد کے سلسلہ میں ٹھیٹھ اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی ہے۔ آج روسو کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ

’’انسان آزاد پیدا کیا گیا تھا لیکن وہ ہر جگہ زنجیروں میں بند ہے۔‘‘

وہ اصلاً حضرت عمرؓ کے قول سے ہی ماخوذ ہے۔ لیکن مغرب میں فرد کی آزادی کا تصور مطلق آزادی کا ہے۔ سماجی رسوم، روحانی قدروں، اخلاقی ضابطوں، سب سے آزادی ہونی چاہیے۔ اور اسی لیے وہ مذہب و اخلاق کا انکار ضروری سمجھتا ہے۔

(۴) فطرت پرستی

اس کا مطلب ہے مادر پدر آزادی۔ انسان کی خواہشات اور آرزوئیں ہی سب کچھ ہیں اور اسے انہیں پورا کرنے کی لامحدود چھوٹ ہونی چاہیے۔ اس قدر کے خلیے ڈارون، فرائڈ، ڈور کائم اور جان پال سارتر کے آراء و نظریات سے تیار ہوئے ہیں۔

(۵) زمانہ پرستی

اس کا مفہوم ہے کہ ہر نئی چیز اچھی ہے، ہر پرانی چیز ٹھکرائے جانے کے قابل ہے۔ اور دنیا میں ہر چیز تغیر پذیر ہے، مادیات میں بھی معنویات میں بھی۔ آج جو سچ ہے کل وہ جھوٹ ہو سکتا ہے۔ جو اخلاقی ہے وہ غیر اخلاقی ہو سکتا ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے ماحول کے مطابق بدلتے رہنا چاہیے۔ عقائد و اخلاق میں بھی ہمیشہ تبدیلی آتی رہتی ہے، گویا ؎

چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

(۶) افادیت پسندی

ہر وہ چیز جو انسان کو مادی نفع اور فائدہ پہنچائے خیر ہے، اور جو مادی نقصان پہنچائے وہ شر ہے۔ چنانچہ زر اس کے لیے قابلِ قدر ہے اور اس کا حصول ہی آج مغرب بلکہ پور دنیا کی غایت الغایات (Summum Bonum)  ہے۔ حقیقت میں یہ خود غرضی کا ہی ایک مہذب نام ہے۔ جس نے آج ایسے جملہ کو رواج دیا ہے کہ Money is God۔

(۷) قوم پرستی

اپنے وطن اور قوم سے محبت ہر ایک کو ہوتی ہے، اور یہ ایک فطری چیز ہے جسے اسلام تسلیم کرتا ہے۔ لیکن مغرب میں اس کی بنیاد نسل پرستی، وطن اور زبان کی یکسانیت پر رکھی گئی ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ ہر قوم اپنی شرافت اور بڑائی کے نعرے لگاتی اور دوسروں کی تحقیر کرتی ہے۔ یہ وہ دیوی ہے جس کی بھینٹ پوری تاریخِ انسانیت ہی نہیں بلکہ انیسویں اور بیسویں صدی میں کروڑوں معصوم انسان چڑھا دیے گئے اور انسانی خون کی ندیاں بہہ گئی ہیں۔

سیکولرائزیشن کے عمل کے ذریعے یہودی اور سامراجی قوتوں نے پورے مشرق اور بالخصوص عالمِ اسلام کو ہر سطح پر سیکولرائز کرنے کی کوشش کی۔ جس کے مختلف و متنوع حربے، طریقے اور پیٹرنز اپنائے گئے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں اسرار عالم، عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال، باب ۱۲ ص ۳۱۷ اور باب ۱۳ ص ۳۴۳)

تعلیم کے پورے عمل کو اپنے حق میں مفید بنانے کے لیے انہوں نے صحافت، اشتہارات، زبان و ادب سب کو سیکولرائز کیا۔ زبانوں میں ترکی رسم الخط کو لاطینی کر دیا گیا۔ عربی میں فصحی کی جگہ عامی کو رواج دینے کا ہنگامہ کیا۔ اردو کو اس کے رسم الخط سے محروم کرنے کی سازش ہوئی۔ عربی اور اردو کے جدید ادب میں فحاشی اور جنسیت، اباحیت اور غیر اسلامی اقدار کا سیلاب لا دیا گیا۔ اردو میں ترقی پسند ادب اور عربی میں ادب المھجر اسی آلودگی کی علامتیں ہیں۔ اردو میں ترقی پسند تحریک نے فحش لکھنے والوں مثلاً سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی کو پیدا کیا۔ تنقید کے جدید مکاتب فکر کے نام پر اسلامی قدروں اور اخلاقی و روحانی عناصر کو ایک ایک کر کے نکال پھینکا گیا۔ حتٰی کہ موجودہ اردو ادب پر پورے طور پر اباحیت پسند اور لادینی ٹولہ کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے۔

سیکولرائزیشن کا یہ عمل تعلیمی نظام کو مخصوص نہج اور محتویات کے ساتھ مرتب کر کے پورا کیا گیا۔ ان میں تین امور اہم ہیں: (الف) نصاب تعلیم (ب) محلِ تعلیم (ج) اضافی نصاب یعنی اکسٹرا کریکولر اشغال (Extra Curricular Activities)۔

نصابِ تعلیم اس طرح مرتب کیا گیا کہ وہ از خود تعلیمِ توحید، رسالت اور آخرت سے عاری بنا دے۔ اس کی گہرائی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سیکولر تعلیم کے ۸۰ فیصد پر مخلص مسلمان یقین نہیں کر سکتا۔ تعلیم کی یہ ترتیب بڑے دور رس نتائج پیدا کر رہی ہے۔ نصاب میں یہ عمل تقریباً تمام علوم و فنون کو محیط ہے۔ فلسفہ، جغرافیہ، عمرانیات، تاریخ، طبیعات، طب، کوئی اس سے خالی نہیں۔

محلِ تعلیم سے مراد تعلیم گاہ میں نشست و برخاست کا مخصوص نظم ہے۔ مخلوط تعلیم گاہ بنانا اور نیچے سے اعلیٰ ترین تعلیم گاہ تک مخلوط تعلیم پر اصرار کرنا ایسی چیز ہے جس نے اکثر جگہوں پر مسلمانوں کو ایک دوراہے پر ڈال دیا کہ یا تو دنیا کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے سیکولرائز ہونا پسند کر لیں یا مسلمان بن کر رہیں، لیکن زندگی کی دوڑ میں اعلیٰ صلاحیتوں کے استعمال سے دست کش ہو جائیں۔

اضافی نصاب سے مراد وہ تعلیمی سرگرمیاں ہیں جن کو نصابی تعلیم میں نہیں رکھا جاتا۔ ان سرگرمیوں میں لازماً ہر سرگرمی بری نہیں تھی۔ لیکن ان کا Orientation سیکولرائزیشن کے لیے کیا گیا۔ آج بھی یہ طریقہ عام ہے اور سیکولرائزیشن کے مؤثر طریقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

سیکولرائزیشن کے وسائل میں تین چیزوں کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔

  1. جدید و قدیم کا ہوّا کھڑا کیا گیا۔ پھر قدیم علوم اور ان کے حاملین کو رفتہ رفتہ زندگی کی دوڑ سے الگ کر دینے کی کوششیں ہوئیں۔ ان پر سرکاری نوکری کے دروازے بند کر دیے گئے۔ ان کے اوقاف ضبط کر لیے گئے اور آخر انہیں معاشرہ سے الگ تھلگ ہو جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی معاشی و تعلیمی اعتبار سے کمر توڑنے اور انہیں صدیوں سے دھکیلنے کے اس طریقہ کا استعمال انگریزی دور کی وحشیانہ پن اور بے رحمی کے ساتھ ہوا، وہ ہماری تاریخ کا ایک خوں چکاں باب ہے۔
  2. معروضی تحقیق اور غیر جانبدارانہ مطالعہ کے نام پر ہر چیز کو تنقید کے قابل بنا دیا گیا۔ چنانچہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی نقد کا نشانہ تھی اور صحابہ کرامؓ کی زندگیاں بھی۔ قرآنیات پر بھی حملے ہوئے، حدیث بھی ہدفِ ملامت بن گئی۔
  3. علومِ اسلامیہ پر اجارہ داری: دورِ زوال میں امت کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر مستشرقین کی فوجوں نے علومِ اسلامیہ کے قلعوں پر شب خون مارے اور یکے بعد دیگرے قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، لغت، ادب و تاریخ غرض یہ کہ ہر فن پر انہوں نے دست رس حاصل کی۔ نئے مخطوطے دریافت کیے، تحقیقات شائع کیں، انڈکس تیار کیے، فہارس اور مفاہم اور لغت ترتیب دیے۔ یورپ کے تقریباً ہر ملک میں اعلیٰ درجہ کی یونیورسٹیاں اور ریسرچ اکیڈمیاں اسلامی علوم پر تحقیق کے لیے قائم ہوئیں۔ یورپ کی حکومتیں ان کا ساتھ دے رہی تھیں۔ حتٰی کہ انیسویں صدی آنے تک ان کی اجارہ داری قائم ہو گئی اور عالمِ اسلام اپنے ہی ثقافتی و فکری سرمایہ کے لیے ان کا دست نگر بن گیا۔

مذکورہ مقاصد کو پانے کے لیے انہوں نے پروپیگنڈہ کے فن کا بھرپور استعمال کیا اور اس میں صحافت کے تینوں شعبوں مقروء (Rreadable)، منظور (Visible) اور مسموع (Audible) نے زبردست رول ادا کیا۔ یہ سازشیں اب بھی جاری ہیں اور اب ان میں مزید وسعت اور تنوع جدید مواصلاتی انقلاب اور انٹرنیٹ کی ایجاد نے بپا کر دیا ہے۔ اور اس طرح تعلیم کو سیکولر بنا کر معاشرہ کو بتدریج اسلامی تعلیمات سے دور کرنے اور ان سے اجنبی بنانے کا مقصد کامیابی کے ساتھ حاصل کر لیا گیا، اور جو نئی نسل کو مختلف سطحوں سے آج بھی سیکولرائز کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، بالخصوص اس لیے بھی کہ اس میں کسی ردعمل کا خطرہ بھی کم سے کم ہوتا ہے۔

(بہ شکریہ ماہنامہ ’’مِلی اتحاد‘‘ دہلی)


عالم اسلام اور مغرب

(نومبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter