علامہ اقبال اور عصری نظامِ تعلیم

ڈاکٹر محمود الحسن عارف

دورِ جدید کے جو مسائل مسلم امہ کی فوری توجہ کے منتظر ہیں ان میں مسلمانوں کے نظامِ تعلیم کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔ تعلیم کے مسئلے کی یہ اہمیت آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے ہے جب سے انگریزوں نے ہندوستان میں قدم رکھا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس گتھی کو سلجھانے اور اس مسئلے کے تصفیہ طلب حل کے لیے متعدد تعلیمی کمیشن نامزد کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے قدیم کمیشن لارڈ میکالے کی سربراہی میں ۱۸۳۴ء میں اس وقت بٹھایا گیا تھا جب انگریز مفتوحہ ملک ہندوستان میں انقلابی تبدیلی لانا چاہتا تھا۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور نامعلوم کب تک جاری رہے گا۔ مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ کوئی کمیشن اس مسئلے کا اطمینان بخش حل تلاش کرنے میں کامیاب و کامران نہیں ہو سکا ہے۔

اس مسئلے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ لارڈ میکالے کی وضع کردہ تعلیمی پالیسی ہے جس سے چھٹکارا پانے کی اب تک کوئی بھی وقیع اور سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ہر تعلیمی کمیشن کنویں سے ڈول نکالنے کی تو پُرزور سفارش کرتا ہے مگر اس تعلیمی کنویں سے لارڈ میکالے کا مار کر پھینکا ہوا مردہ چوہا باہر نکالنے کی کوئی بھی سفارش نہیں کرتا۔ جس کا نتیجہ ہے کہ کنواں بدستور گندا اور پلید ہے۔ بھلا اس قوم کے ذہن و فکر میں بالیدگی اور بالغ نظری کیسے پیدا ہو سکتی ہے جس قوم کی رگ رگ میں میکالے کی تعلیمی پالیسی کا زہر بھرا ہوا ہو۔ لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی پر اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب تبصرہ کیا تھا:

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

کالج، مدرسہ، یونیورسٹی اور اسکول کسی سنگ و حجر کی عمارت کا نام نہیں بلکہ ان کا نظامِ تعلیم یا ان میں رائج ان کا تعلیمی طور طریق (Educational system) ہوتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ ان عمارتوں کی پیشانی پر اتنے ماہ و سال گزر جانے کے باوجود آج بھی ’’لارڈ میکالے‘‘ کی یہ تعلیمی رپورٹ جلی حروف میں لکھی ہوئی ہے کہ

We must at present do our best to form a class who may be interpreters between us and the millions whom we govern. A class of persons; Indian in blood and colour but English in taste, in opinion, in motives and in intellect.

ترجمہ: ’’ہمیں لازماً اس وقت ایسی جماعت بنانی چاہیے جو ہم میں اور کروڑوں رعایا میں واسطہ ہو۔ اور یہ جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خون اور رنگت کے اعتبار سے ہندوستانی ہو مگر مذاق، رائے، اخلاق و کردار اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے انگریز ہو۔‘‘

ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہدِ حکومت میں جو ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی تک جاری رہا، تعلیمی منصوبہ بندی اور وسیع پیمانے پر عیسائی مشنز کی ہندوستان آمد وغیرہ کے واقعات اس بات کی علامت تھے کہ انگریزوں نے جس طرح عیاری سے ملک کے مختلف حصوں پر آہستہ آہستہ اپنا اثر و اقتدار قائم کر کے اہلِ ہند کی قوتِ مدافعت کو کمزور کر دیا تھا، اب اسی طرح نہایت چالاکی اور ہوشیاری سے افرادِ ملت کے قلب و ذہن کا آپریشن شروع ہونے والا ہے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی؎

توپ کھسکی پروفیسر پہونچے
جب بسولا ہٹا تو رندا ہے

حسبِ توقع یہ آپریشن ہوا اور اس دھوم دھام سے ہوا کہ پہلے ہلے میں ہی پورا ہندوستان نشتر کی چبھن سے بلبلا اٹھا۔ اس کے خلاف ۱۸۵۷ء میں بھی شدت سے ردعمل ہوا مگر انگریزوں نے جلد اپنے ہندوستانی نمک خواروں کی مدد سے آزادی کی اس آگ کو پوری قوت سے دبا دیا اور ہندوستان ’’ملکہ بارطانیہ‘‘ کے زیر تسلط آ گیا اور اس طرح مذکورہ بالا تعلیمی پالیسی پر عملدرآمد کی رفتار اور بھی تیز ہو گئی۔

سامراجی تعلیمی مقاصد اور قومی احساس و فکر میں تصادم و تخالف نے قدیم و جدید تعلیم یافتہ طبقوں کے درمیان ایک وسیع کشمکش پیدا کر دی جو دن بدن رو بہ ترقی رہی۔ اس تصادم کے نتیجے میں مسلمانوں میں کوئی بھی متحدہ قومی سوچ پیدا نہ ہو سکی اور مسلمانوں کی توانائیاں آپس کی اس جنگ کی نذر ہو گئیں۔ اس تفریق نے مسلمانوں میں واضح طور پر دو گروہ پیدا کر دیے:

  1. ایک مسلمانوں کے قدیم علوم و فنون کا دلدادہ مگر جدید علوم سے بے بہرہ تھا،
  2. دوسرا جدید علوم اور انگریزی تہذیب و ثقافت کا والہ و شیدا مگر قدیم علوم کی اہمیت سے نابلد تھا۔

دن بدن دونوں گروہوں میں اختلاف کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی، تاہم صالح فطرت انسان ہر جگہ ہوتے ہیں، یہ قدرت کا عجیب و غریب کرشمہ ہے کہ وہ بیگانوں سے اپنوں کا کام لیتی ہے۔ بقول اقبال ؎

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

اس جدید تعلیم اور نصابِ تعلیم کی قدیم علماء کی جانب سے جو مخالفت کی جاتی تھی، اسے رجعت پسندی اور دقیانوسی اندازِ فکر قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا تھا۔ اس لیے اللہ رب العزت نے ہندوستان میں اس تعلیمی پالیسی کے خلاف آواز بلند کرنے کا کام جدید تعلیم یافتہ لوگوں سے لیا۔ اس گروہ کے سرخیل اکبر الٰہ آبادی اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہیں جو دونوں ہی جدید تعلیم یافتہ بزرگ ہیں۔

شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے وقت کی بہترین جدید تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ بیک وقت انگلستان اور جرمنی کی تعلیم گاہوں سے فیض تعلیم یافتہ تھے۔ اور پھر تعلیم بھی اپنی نوعیت کے مشکل مضمون یعنی فلسفہ میں حاصل کی تھی جس کا گہرا مطالعہ انسان کو وادئ تشکیک میں لے جاتا ہے، مگر یہاں تو حالت ہی مختلف تھی۔ انہوں نے قیامِ ولایت میں ولایت کو نہایت قریب سے اور نہایت گہرائی سے دیکھا تھا۔ آپ کی نظر ایک عام شخص کی نظر نہ تھی، بلکہ ایک ایسے شخص کی نظر تھی جس کے دل میں قومی اور ملی درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے یورپ کو جب قریب سے دیکھا تو وہ اس سے حد درجہ متنفر ہو گئے۔ وہ تنفر سطحی اور عام نوعیت کا نہیں بلکہ نہایت گہرا اور پائیدار تھا۔

آپ نے یورپ اس زمانے میں دیکھا تھا جب اسے کسی عالمگیر جنگ (World war) کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ جب لندن اور پیرس کی تہذیب کی چمک دمک نگاہوں کو خیرہ کرتی تھی، انگریز قوم پوری طرح چوکنا اور بیدار تھی۔ مگر اس کے باوجود علامہ اقبال نے ان کی تہذیب و طرزِ معاشرت پر آئندہ پڑنے والی دراڑوں کو بڑی عمدگی اور گہرائی سے دیکھ لیا تھا۔ اور علامہ اقبال نے اسے دیکھ کر ہی اپنی یہ الہامی پیشگوئی فرمائی تھی ؎

دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا۔

علامہ اقبال صرف یورپی تہذیب و معاشرت کے ہی مخالف نہ تھے بلکہ آپ ان کے طرزِ تعلیم اور نصابِ تعلیم دونوں کے بھی یکسر خلاف تھے۔ کیونکہ اسی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں معاشرتی اور سماجی بگاڑ پیدا ہو رہا تھا اور اسی طرزِ تعلیم سے مسلمان اپنے مذہب اور اپنے دین سے دور ہی نہیں بلکہ اس سے بیزار ہو رہے تھے۔ اسی تعلیم نے مسلمانوں میں خوئے غلامی کو راسخ کر دیا تھا کہ وہ اپنی آقائی اور حکمرانی کا زمانہ بھول کر سات سمندر پار کی اس قوم کی مدح و ستائش کا دم بھرنے لگے تھے۔ اس طرزِ تعلیم نے مسلمانوں میں تنگ نظری اور جمود پیدا کر دیا تھا اور وہ کنویں کے مینڈک بن کر رہ گئے تھے۔ اسی نظامِ تعلیم کا یہ نتیجہ تھا کہ مسلمانوں میں اعلیٰ پائے کے مفکر، سائنسدان، ادیب اور دانشور پیدا ہونے کی بجائے محض دفتروں کے کلرک پیدا ہو رہے تھے جس پر اکبر الٰہ آبادی کو یہ کہنا پڑا ؎

چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا

اسی تعلیم کے یہ ثمرات تھے کہ قوم کی بہو بیٹیوں سے حجاب اور پردہ داری کی روایت ختم ہو رہی تھی، اور مخلوط تعلیم کی ’’برکات‘‘ کے نتیجے میں آزادانہ میل جول کے مواقع اب محدود اور شاذ نہ تھے، بلکہ یہ مواقع عام اور وسیع تھے جس پر علامہ اقبال کو یہ کہنا پڑا ؎

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کا کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان میخانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

اور یہ اسی طرزِ تعلیم کے ’’فوائد‘‘ تھے کہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں بے دینی اور الحاد بڑھ رہا تھا۔ پہلے جن چیزوں کو چھپ چھپا کر منہ لگایا جاتا تھا، اب انہیں دھڑلے سے پیا جاتا تھا، اور ایسے پینے والوں کو نہ تو محتسب کا ڈر رہا تھا اور نہ قاضی کی گرفت کا۔ الغرض اس تعلیم نے مسلمانوں کی نئی نسل کو طرح طرح کے مسائل سے دوچار کر دیا تھا۔ اور بعینہ یہی مسائل، قدیم و جدید کا یہ تفاوت، ذہنوں کی یہ تشکیک ابھی تک جوں کی توں باقی ہے، بلکہ اس میں کسی قدر اضافہ ہی ہوا ہے۔

انہی وجوہ کی بنا پر شاعرِ مشرق کو دوسرے شعبوں کے ساتھ تعلیم و تربیت کے اس شعبے کو اپنی توجہ اور فکر کا مرکز بنانا پڑا۔ علامہ اقبال چونکہ ان تمام حالات کے چشم دید گواہ تھے، اسی لیے ان سے بہتر ان حالات اور ان مقامات کے تجزیے کا اور کسے حق پہنچتا تھا۔ بہرحال علامہ اقبال نے اس طرزِ تعلیم کا تجربہ کیا اور نہایت عمدہ تجزیہ کیا۔ اور اس تجزیے اور نقد و تبصرہ کو اپنی اردو اور فارسی کی شاعری کا موضوع ٹھہرایا۔ اس بحث میں علامہ اقبال کی آواز جہاں اونچی اور گونجدار ہے وہاں اس میں کاٹ اور تیزی بھی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی ظریفانہ شاعری اور سنجیدہ شاعری دونوں میں اس عنوان پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ پہلے ملاحظہ ہوں علامہ اقبال کی مزاحیہ شاعری کے چند اشعار۔ لڑکیوں کی تعلیم پر آپ نے کیا خوبصورت تبصرہ فرمایا ہے ؎

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدِ نظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

تعلیمِ مغربی کے نتیجے میں طالب علموں میں جو لفاظی اور ’’تنگ آبی‘‘ پیدا ہو جاتی ہے اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے ؎

تعلیمِ مغربی ہے بہت جرأت آفریں
پہلا سبق ہے بیٹھ کے کالج میں مار ڈینگ
بستے ہیں ہند میں جو خریدار ہی فقط
آغا بھی لے کے آئے ہیں اپنے وطن سے ہینگ

اس تعلیم کے حصول کے لیے جس طرح ٹیوشن لینے کا سلسلہ چل نکلا تھا اور ابھی تک جاری ہے، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگر کوئی طالب علم ٹیوشن نہ پڑھے تو وہ عتاب کا شکار ہو جاتا ہے، اس پر یوں تعریض کرتے ہیں ؎

تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ؟
دفعِ مرض کے واسطے پل پیش کیجئے
تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجئے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ ’’بل‘‘ پیش کیجئے

اس ظریفانہ تلمیحات اور تعریضات کے ساتھ علامہ اقبال نے اپنی سنجیدہ شاعری اور نثر میں بھی اس مسئلے کو اپنا مرکزِ توجہ بنایا ہے۔

علامہ اقبال بجا طور پر مسلم ذہن و فکر رکھنے والے فلسفی شاعر تھے، اس بنا پر ان کا مسلمانوں کے نظریات سے متاثر ہونا بدیہی تھا۔ اس کے علاوہ علامہ نے جن لوگوں سے خاص طور پر استفادہ کیا ان میں الغزالی جیسے اکابر بھی شامل ہیں۔ شاعرِ مشرق کے کلام میں اکابرِ اسلام سے استفادہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ انہی تاثرات کے زیر اثر علامہ اقبال کا نظریۂ تعلیم اسلامی اصولوں پر استوار تھا۔ ان کے خیال میں صحیح اور بہتر تعلیم وہ ہے کہ جس میں جسمانی و ظاہری نشوونما کے ساتھ روحانی اور معنوی صحت و تندرستی کا بھی خیال رکھا جائے۔ علامہ کے خیال میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم ایسا ہونا چاہیے کہ جس کے ذریعے اسلامی عقائد و خیالات کو راسخ اور مستحکم کیا جائے۔ اس کے برعکس جس تعلیم و تربیت کے نتیجے میں مذہبِ اسلام سے طالب علموں کا تنفر بڑھے وہ تعلیم نہ مسلمانوں کو زیبا ہے اور نہ مسلم ممالک کو۔ بانگِ درا میں علامہ ’’مسلمان اور جدید تعلیم‘‘ کے عنوان سے فرماتے ہیں ؎

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ

مسلمانوں کے ممالک سے جو طالب علم فراغت حاصل کرتے ہیں ان سے بجا طور پر مسلمانوں کو توقعات اور امیدیں ہوتی ہیں، لیکن اگر تعلیم کے ذریعے ان کے باطن میں چھپے ہوئے ’’مردِ مومن‘‘ کو جاں بحق تسلیم کر لیا جائے تو پھر وہ توقعات کہاں سے اور کیونکر پوری ہوں گی، علامہ فرماتے ہیں ؎

گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ

علامہ اقبال کے نزدیک وہ مسلمان ہی کیا ہے جس کا سینہ گرمئ قرآن اور جس کا فکر نورِ ایمان سے منور نہ ہو۔ علامہ اقبال ’’جاوید نامہ‘‘ میں نئی نسل سے یوں خطاب فرماتے ہیں ؎

سینہ ہا از گرمی قرآن تہی
از چنیں مرداں چہ امید بہی
؎

گر خدا سازد ترا صاحب نظر
روز گارے را کہ می آید نگر
عقل ہا بے باک و دل ہا بے گداز
چشم ہا بے شرم و غرق اندر مجاز
علم و فن دین و سیاست عقل و دل
زوج زوج اندر طواف آب و گل
عقل و دین و دانش و ناموس و ننگ
بستۂ فتراکِ لُردانِ فرنگ
تا ختم پر عالم افکار او
بردریدم پردۂ اسرار او

علامہ اقبال کے نزدیک تعلیم سمیت مسلمانوں کے ہر شعبۂ حیات کا طرۂ امتیاز یہ ہونا چاہیے کہ اس کی منزلِ مقصود ذاتِ رسالتمآبؐ ہو ؎

مصطفٰیؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا کو قرآن حکیم کی جو عظیم نعمت ملی، علامہ اقبال تعلیم میں اسے بنیادی اور اساسی اہمیت دینے کے قائل تھے ؎

گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن

علامہ اقبال ایسی تعلیم و تربیت کے سخت مخالف تھے جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں عقائد کی تشکیک اور تذبذب جیسی مذموم و مسموم امراض پیدا ہوتی ہیں۔ ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں ؎

جب پیر فلک نے ورق ایام کا پلٹا
آئی یہ صدا پاؤ گے تعلیم سے اعزاز
آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل
دنیا تو ملی طائر دیں کر گیا پرواز
دیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی
فطرت ہے جوانوں کی زمیں گیر و زمیں تاز

علامہ اقبال مسلمان نوجوانوں میں سطحیت اور عمومیت کے بجائے ان کے علم و فکر میں گہرائی اور گیرائی دیکھنا چاہتے تھے۔ اور آپ اس بات کے متمنی تھے کہ مسلم نوجوان صرف ’’دفتروں کے کلرک‘‘ بننے پر قانع نہ ہوں بلکہ اپنے اسلاف کی وہ وراثت یعنی علم و فن حاصل کرنے کی تگ و دو کریں جو یورپ نے مسلمانوں سے ہتھیا لی تھی۔ علامہ ایک پُردرد نظم میں جوانانِ اسلام سے یوں ہمکلام ہوتے ہیں ؎

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلّم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

اس نظم کے اختتام پر اس شعر سے تضمین کی ہے ؎

غنی روز سیاہ پر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را

گویا مسلمانوں کی علمی میراث (یوسف) نے یورپ (زلیخا) کی آنکھ کو جا کر منور کیا ہے مگر اس کے حقیقی حقدار مسلمان اس سے محروم و درماندہ ہیں۔

علامہ اقبال مسلمان طالب علموں سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ مسلمانوں کی اس متاعِ گم گشتہ کو واپس لانے کی پوری کوشش کریں گے اور ان کی تعلیم ادھوری اور سطحی نہیں بلکہ علم و فن کی گہرائی اور تہہ تک پہنچنے والی ہو گی۔ شاعرِ مشرق مسلمان طالب علموں کو یوں دعائیہ انداز میں فہمائش کرتے ہیں ؎

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں

طالب علم کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت کا پہلو بھی علامہ کے مدنظر رہا ہے۔ علامہ مسلم اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ’’لعل بدخشاں‘‘ کی تربیت میں ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اندازِ بیان کی خوبی ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں ؎

مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

مسلمانوں کی تعلیم گاہیں، مدارس، یونیورسٹیاں اور کالج بھی مثالی ہونے چاہئیں۔ ان کی تعلیم ان کے ماحول اور اخلاق و رویے کا انداز ایسا خوش کن ہو کہ اس میں طالب علموں کی صحیح تربیت ہونا ممکن ہو سکے۔ علامہ کے خیال میں جن تعلیم گاہوں میں رٹے رٹائے الفاظ اور کتابیں پڑھا دی جاتی ہیں اور طالب علموں کو فطرت، مناظرِ فطرت اور مظاہرِ فطرت سے آشنا نہیں کیا جاتا وہ تعلیم گاہیں اپنے ’’مقصدِ حیات‘‘ سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔ انہیں وقت اور زمانے کا ساتھ دینا چاہیے، فرماتے ہیں ؎

عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکرِ معاش
اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بے گانہ کیا
جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش
مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو
خلوتِ کوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش

الغرض علامہ اقبال ہر اعتبار سے مسلمانوں کے نصابِ تعلیم، نظامِ تعلیم اور طریقۂ تعلیم کو خوب سے خوب تر بنانے کے قائل تھے۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کی تعلیم جیسے مسئلے کو ’’غیروں‘‘ کے ہاتھ میں دے دینا اپنی نسل اور ملت کے ساتھ دھوکا دینے کے مترادف ہے۔

حکومت کے لے لمحۂ فکریہ

اس مقام پر بے جا نہ ہو گا کہ اگر مملکتِ خداداد پاکستان کے نظامِ تعلیم پر ذرا ایک نظر ڈال لی جائے۔ مملکتِ خداداد پاکستان کو قائم ہوئے تقریباً ۴۳ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، اور یہ اتنا طویل عرصہ ہے کہ اس میں کسی بھی نظامِ تعلیم کو پرکھنے اور اس کے اثرات کے جائزے کا بخوبی موقع مل سکتا ہے۔ اس وقت دفتروں، تعلیم گاہوں اور حکومتی اداروں میں جو کھیپ کام کر رہی ہے، یہ خالصتاً پاکستانی تعلیم گاہوں کی تیار کردہ کھیپ ہے، مگر کیا وجہ ہے کہ ہر محکمے اور ہر شعبے کی کارکردگی ترقی پذیر ہونے کے بجائے روبہ زوال اور روبہ پستی ہے؟ تحقیق و تفتیش کے میدان سے لے کر علمی، فکری اور سیاسی سطح تک ’’مُسلم تشخص‘‘ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ محض اور محض یہ ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم ابھی تک مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر استوار نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ اس مروّجہ پالیسی کو بدلا جاتا، مگر بدلنے کے بجائے اسے دن بدن مستحکم اور مضبوط تر بنایا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں دوسروں سے پیچھے اور ان کے دست نگر ہیں۔

آخر میں بڑے افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری تعلیمی حالت آج بھی ویسی ہی ہے جو آزادی سے پہلے تھی۔ علامہ اقبال کے حسبِ ذیل قطعہ کو پڑھیے اور سر دھنیے ؎

کل ایک شوریدہ خواب گاہِ نبیؐ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بِنائے ملّت مِٹا رہے ہیں
یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
غضب ہیں یہ ’’مُرشدانِ خود‘‘ بیں، خُدا تری قوم کو بچائے!
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں
سُنے گا اقبالؔ کون ان کو، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پُرانی باتیں سنا رہے ہیں!

مجھے رہ رہ کر یہ رنج دہ تجربہ ہو رہا ہے کہ مسلمان طالب علم جو اپنی قوم کے عمرانی، اخلاقی اور سیاسی تصورات سے نابلد ہیں، روحانی طور پر بھی بمنزلہ ایک بے جان لاش کے ہیں۔


شخصیات

(نومبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter