مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اور فقہ اسلامی

مولانا عتیق احمد

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت بڑی ہمہ جہت اور ہشت پہل ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر کی اسلامی تاریخ پر ان کے اثرات اس قدر وسیع اور گہرے ہیں کہ ان کے تذکرے کے بغیر ہر تاریخ ادھوری رہے گی۔ خواہ فکرِ اسلامی کی تاریخ ہو یا ادبِ اسلامی کی یا علومِ اسلامی کی یا تحریکاتِ اسلامی کی۔ عالمِ اسلام کے ہر خطہ کو اور زندگی کے ہر میدان کو انہوں نے کم و بیش متاثر کیا۔ برصغیر ہند و پاک تو ان کا وطن تھا، وہ اسلامیانِ ہند کی آبرو اور ان کی زبان و ترجمان تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان میں اسلام کی جڑیں مستحکم کرنے اور تشخصِ اسلامی کی حفاظت میں ان کا بنیادی کردار رہا۔ بلادِ عربیہ اور بلادِ اسلامیہ میں ان کی دعوت دور دور تک پہنچی اور ان کے افکار و پیغام کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ عالمِ اسلام کی سیاسی، سماجی تبدیلیوں پر ان کی نظر بہت گہری تھی، خطرات کا احساس بہت پہلے کر لیا کرتے تھے، اور ’’نذیر عریاں‘‘ کی طرح صاف لفظوں میں خطرات سے آگاہ کرتے، ان سے تحفظ کی تدبیر بتاتے۔ دنیا میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں (خواہ یورپ ہو، امریکہ، آسٹریلیا ہو یا افریقہ) حضرت مولانا علی میاںؒ کی تصنیفات و افکار کی خوشگوار روشنی وہاں تک پہنچی ہے اور ہر ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ کے دل و دماغ پر مولانا محروم نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

حضرت مولاناؒ کی شخصیت کی شاہ کلید

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کیا کچھ نہیں تھے؟ آپ بلند پایہ مفکر، زبردست داعی الی اللہ، شہرۂ آفاق مصنف، مؤرخ، مفسر، ادیب و انشاء پرداز، سحر بیان مقرر و خطیب اور ممتاز ترین مربی و عالمِ ربانی تھے۔ لیکن میری نظر میں ان کی شخصیت کی شاہ کلید دعوت الی اللہ ہے۔ ان کا دعوتی پہلو تمام دوسرے پہلوؤں پر حاوی اور غالب ہے۔ جب وہ سیرت نگاری کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو تاریخ اسلامی کی ان شخصیات کا انتخاب کرتے ہیں جن کی حیات اور کارناموں میں دعوت و عزیمت کا پہلو بہت نمایاں ہے۔

’’السیرۃ النبویہ‘‘ میں لکھتے ہیں تو حیاتِ نبویؐ کے دعوتی پہلو سب سے زیادہ اجاگر کرتے ہیں، نصابی کتابیں مرتب کرنے میں انبیاء کرامؑ کے ایمان افروز قصوں کو اپنی توجہات کا مرکز بناتے ہیں اور ’’قصص النبیین‘‘ جیسی البیلی کتاب وجود میں آتی ہے جس کی سطر سطر میں ادب کی چاشنی اور دعوت کی تڑپ ہے۔ مختارات میں ادبِ عالی کا انتخاب کرنے بیٹھتے ہیں تو عربی ادبیات سے ایسے شہ پارے تلاش کر کے لاتے ہیں جن میں دعوتی برق و رعد پنہاں ہیں۔ ’’ماذا خسر العالم‘‘ میں امتِ مسلمہ کے عروج و زوال کی داستان سناتے ہیں تو امت ِمسلمہ کو اس کا کھویا ہوا داعیانہ و قائدانہ مقام یاد دلاتے ہیں۔ ہندوستان کے مقامی حالات میں ان کا داعیانہ ذہن ’’پیامِ انسانیت‘‘ کے نام سے ایک نیا عنوان تراشتا ہے اور پیامِ انسانیت کے غلاف میں اسلام کی دعوت برادرانِ وطن تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرضیکہ ان کی تمام تحریروں اور تحریکوں میں دعوت کی روح رچی بسی ہوئی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں حضرت مولانا علی میاںؒ سب سے اول اور سب سے آخر میں جلیل القدر عالم ربانی اور داعی الی اللہ تھے۔ ان کے سارے کاموں اور کارناموں کو اگر ہم ایک لفظ میں کشید کر لینا چاہیں تو وہ لفظ ’’دعوت‘‘ ہے۔

داعی کا لفظ اس دور میں بڑا ہلکا اور پامال سا ہو گیا ہے حالانکہ یہ لفظ بڑا پُر عظمت ہے۔ انبیاء کرامؑ کی کوششوں کا سر عنوان دعوت الی اللہ ہے۔ صحابہ کرامؓ کی دینی جدوجہد کا خلاصہ دعوت الی اللہ ہے۔ داعی انبیاء کرامؑ کا وارث و امین ہوتا ہے۔ اس کے دل میں انبیاءؑ والا سوز و گداز ہوتا ہے۔ اس کے دل و دماغ میں تمام انسانیت کے لیے خلوص و محبت، فکر مندی و دل سوزی کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ داعی الی اللہ بڑا حساس و زیرک ہوتا ہے۔ زمانہ کی حرکت و رفتار کا نباض، حقیقت آگاہ اور حق آشنا ہوتا ہے۔ خلوص و محبت کے ساتھ حکمت و دانائی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ اس کی لغت میں مایوسی اور پست ہمتی کے الفاظ نہیں ہوتے، وہ نا امیدوں میں امید کے چراغ جلاتا ہے۔ ایک بلند پایہ داعی مفکر بھی ہوتا ہے۔ اپنے دور کی فکری گتھیوں کو اسلامی بنیادوں پر سلجھاتا ہے۔ امت کی ذہنی و فکری رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے علومِ اسلامیہ سے وابستہ معرکہ الآراء فکری مسائل میں بھی اسے اپنا موقف واضح کرنا ہوتا ہے۔

مولانا علی میاںؒ اور علومِ اسلامیہ

علومِ اسلامیہ میں حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کو سب سے زیادہ دلچسپی قرآن سے تھی۔ تفسیرِ قرآن سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے انہوں نے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے درسِ قرآن میں شرکت کی اور امتیازی کامیابی حاصل کی۔ حضرت مولانا مرحوم نے ایک مدت تک بڑے ذوق و شوق سے تفسیرِ قرآن کا درس دیا۔ قرآن کی تلاوت اور قرآن میں تفکر و تدبر آخری عمر تک ان کا محبوب ترین مشغلہ رہا۔ ایک بار میں نے ان سے بذریعہ خط مشورہ چاہا کہ کن تفسیروں کو مطالعہ میں رکھا جائے، تو انہوں نے تحریر فرمایا:

’’تفسیر کے سلسلے میں میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ متن ِقرآن زیادہ سے زیادہ پڑھیں اور اس سے ذاتی ربط پیدا کریں۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کا رسالہ ’’الفوز الکبیر‘‘ ضرور مطالعہ میں رکھیں، باقی کسی ایک تفسیر کا مشورہ دینا بہت مشکل ہے۔‘‘

ان کی تحریروں اور تقریروں کا سب سے بڑا سرچشمہ قرآن کریم تھا۔ آیاتِ قرآنی سے تذکیر و استنباط میں ان کا ذہن اخاذ اور رسا تھا۔ اپنی برجستہ تقریروں میں انہوں نے آیاتِ قرآنی اور مضامینِ قرآنی کا جس کثیر اور لیاقت کے ساتھ استعمال کیا ہے اس سے ان کے تبحرِ علمی، دقیقہ سنجی اور نکتہ رسی کا اندازہ ہوتا ہے۔

احادیثِ نبویہؐ سے انہیں بہت مناسبت تھی۔ فنِ حدیث انہوں نے بڑے جلیل القدر اساتذہ سے سیکھا۔ ان میں نمایاں ترین نام حضرت مولانا حیدر حسن خان صاحبؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے ہیں۔ کچھ دنوں انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں صحیح بخاری اور دیگر کتبِ حدیث کا درس بھی دیا۔

علمِ فقہ کی تحصیل بھی انہوں نے ماہر فنِ اساتذہ سے کی ،لیکن اس علم سے تدریسی اشتغال کا انہیں زیادہ موقع نہیں ملا۔ اس لیے مسئلہ بتانے اور فتویٰ دینے سے وہ ہمیشہ گریز فرماتے تھے۔ کوئی اگر مسئلہ پوچھتا تو مفتی صاحب ندوۃ العلماء یا کسی دوسرے استاذِ فقہ کے پاس بھیج دیتے۔ استفتاء پر مشتمل خطوط دارالافتاء، ندوۃ العلماء یا مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ کو بھجوا دیتے۔

ائمہ مجتہدین اور فقہ اسلامی مولاناؒ کی نظر میں

بیسویں صدی میں متجددین کا ایک طبقہ پوری اسلامی فقہ کو ائمہ مجتہدین کی ذاتی رائے قرار دے کر مسترد کر دینے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ شریعت کا جوا کندھے سے اتار پھینکا جائے۔ یہ طبقہ فقہائے مجتہدین کے کارناموں کا استخفاف کر رہا تھا اور ان کے خلاف زبانِ طعن دراز کر رہا تھا۔ اس پس منظر میں حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے فقہ اسلامی اور فقہائے اسلام کا زبردست دفاع کیا۔ اپنی متعدد تحریروں میں فقہائے مجتہدین کے کارناموں کو خراجِ تحسین پیش کیا اور نئی نسل کے دل و دماغ میں فقہ اسلامی اور فقہاء کے اجتہادی کارناموں کی اہمیت جاگزیں کر دینے کی کوشش کی۔ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ تحریر فرماتے ہیں:

’’اسلام جزیرۃ العرب سے (جہاں زندگی سادہ اور تمدن انتہائی محدود تھا) نکل کر مصر و شام، عراق و ایران اور دوسرے وسیع، زرخیز اور سرسبز و شاداب خطوں میں پہنچ گیا تھا۔ جہاں کا انتظامِ تمدن و معیشت، تجارت، انتظامِ ملکی سب بہت وسیع اور پیچیدہ شکلیں اختیار کر گئے تھے۔ اس وقت ان نئے حالات و مسائل میں اسلام کے اصول کی تطبیق کے لیے بڑی اعلیٰ ذہانت، معاملہ فہمی، باریک بینی، زندگی اور سوسائٹی سے وسیع واقفیت، انسانی نفسیات اور اس کی کمزوری سے باخبری، قوم کے طبقات اور زندگی کے مختلف شعبوں کی اطلاع، اور اس سے پیشتر اسلام کی تاریخ، روایات اور روحِ شریعت سے گہری واقفیت، عہدِ رسالت اور زمانۂ صحابہؓ کے حالات سے پوری آگاہی، اور اسلام کے پورے علمی ذخیرہ (قرآن و حدیث اور سنت و قواعد) پر کامل عبور کی ضرورت تھی۔ 

یہ اللہ کا بڑا فضل تھا اور اس امت کی اقبال مندی کہ اس کارِ عظیم کے لیے ایسے لوگ میدان میں آئے جو اپنی ذہانت، دیانت، اخلاص اور علم میں تاریخ کے ممتاز ترین افراد ہیں۔ پھر ان میں سے چار شخصیتیں امام ابوحنیفہ (م۱۵۰ھ)، امام مالک (م۱۷۹ھ)، امام شافعی (م۲۰۴ھ)، امام احمد بن حنبل (م۲۴۱ھ) جو فقہ کے چار دبستان فکر کے امام ہیں، اور جن کی فقہ اس وقت تک عالمِ اسلام میں زندہ اور مقبول ہے، اپنے تعلق باللہ، للّٰہیت، قانونی فہم، علمی انہماک اور جذبۂ خدمت میں خاص طور پر ممتاز ہیں۔ ان حضرات نے اپنی پوری زندگی اور اپنی ساری قابلیتیں اس بلند مقصد اور اس اہم خدمت کے لیے وقف کر دی تھیں۔ انہوں نے دنیا کے کسی جاہ و اعزاز اور کسی لذت و راحت سے سروکار نہیں رکھا تھا۔

امام ابوحنیفہ کو دو بار عہدہ قضاء پیش کیا گیا اور انہوں نے انکار کیا، یہاں تک کہ قید خانہ میں ہی آپ کا انتقال ہوا۔ امام مالکؒ نے ایک مسئلہ کے اظہار میں کوڑے کھائے اور ان کے شانے اتر گئے۔ امام شافعیؒ نے زندگی کا بڑا حصہ عسرت میں گزارا اور اپنی صحت قربان کر دی۔ امام احمدؒ نے تن تنہا حکومتِ وقت کے رجحان اور اس کے ’’سرکاری مسلک‘‘ کا مقابلہ کیا اور اپنے مسلک اور اہلِ سنت کے طریقہ پر پہاڑ کی طرح جمے رہے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے موضوع پر تن تنہا کام کیا اور مسائل و تحقیقات کا اتنا بڑا ذخیرہ پیدا کر دیا جو بڑی بڑی منظم جماعتیں اور علمی ادارے بھی آسانی سے نہیں پیدا کر سکتے۔

اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ان ائمہ فن اور صاحبِ اجتہاد علماء کا پیدا ہو جانا اس دین کی زندگی اور اس امت کی کارکردگی کی صلاحیت کی دلیل تھی۔ ان کی کوششوں اور ذہانتوں سے اس امت کی عملی معاملاتی زندگی میں ایک نظم اور وحدت پیدا ہو گئی، اور امت اس ذہنی انتشار اور معاشرتی بے نظمی اور ابتری سے محفوظ ہو گئی جس کی دوسری قومیں اپنے ابتدائی عہد میں شکار ہو چکی ہیں اور وہ تدریجی طور پر ایسے لا دینی راستے پر پڑ گئیں کہ ان کے لیے لا دینی نظامِ زندگی اختیار کرنا ضروری ہو گیا۔ یا پھر ایسے غیر اسلامی قوانین کو انہیں اختیار کرنا پڑتا جو اس کی دینی روح اور اصول و مبادی سے متصادم ہوں۔ اور وہ مسیحی یورپ کے نظریۂ دین و سیاست کی تفریق کے ان اصولوں کو اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے جو خاص حالات و ماحول اور مسیحی مذہب کی مخصوص وضع اور ساخت کا نتیجہ تھا۔

اگر خدانخواستہ علمائے متقدمین فقہی اجتہاد، احکام اور مسائل کے استنباط و استخراج میں کسلمندی اور سستی اور ڈھیل سے کام لیتے اور جدوجہد کے بجائے راحت و آرام کو اختیار کرتے، یا ان کے علمی کارنامے اہمیت کے حامل نہ ہوتے اور ان کے فطری ملکہ اور صلاحیت میں جمود و تعطل پیدا ہو جاتا، تو اس وقت کی حکومت عملی زندگی اور وقت کے مطالبات و تقاضوں سے مجبور ہو کر رومی اور ایرانی قوانین کو اسلامی دنیا پر منطبق نہ کر دیتی؟ اس لیے کہ نئے حالات و مسائل سے مسلمانوں کا مقابلہ تھا، تجارت و زراعت، جزیہ و خراج، محکومین اور مفتوحہ ممالک کے نئے نئے مسائل درپیش تھے۔ قدیم عادات و رواج کا بہت بڑا ذخیرہ اور نئی نئی ضروریات تھیں جو مسلمانوں کی قوتِ فیصلہ اور اسلامی احکام کی منتظر تھیں۔ ان میں سے نہ کسی ضرورت کو ٹالا جا سکتا تھا اور نہ سرسری طور پر ان سے گزرا جا سکتا تھا۔ حکومت مفصل و مکمل آئین و قانونِ سلطنت کی طالب تھی، حکومت کی انتظامی مشین کو روکا نہیں جا سکتا تھا۔ اور قانونِ اسلامی کی ترتیب میں تاخیر ہوتی تو وہ رومی یا ایرانی قانون کو اختیار کرنے پر مجبور تھیں۔ جس کا نتیجہ وہ ہوتا جو اس وقت نام نہاد اسلامی سلطنتوں کا ہوا ہے۔ علماء کی ذرا سی غفلت اور محافظینِ سنت کی دماغی کاہلی اور راحت پسندی اس امت کو ہزاروں برس کے لیے اسلامی معاشرت اور اس کے اجتماعی قوانین کی برکت سے محروم کر دیتی۔

؏  یک لحظہ بودم و صد سالہ را ہم دو رشد

اور مساجد میں تھوڑے وقت اور محدود وقت کے لیے دینداری کی زندگی گزارنا اور اپنے گھروں، بازاروں اور عدالتوں میں زیادہ وقت جاہلی یا لادینی زندگی گزارنا اس کے لیے نوشتۂ تقدیر بن جاتا۔ جیسا کہ اس وقت ان ملکوں اور حکومتوں کا حال ہے جس کا سرکاری مذہب تو عیسائیت ہے لیکن ان کے پاس مسیحی قانونِ شریعت موجود نہیں۔ یا جیسا کہ (انتہائی شرمندگی اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے) ان ملکوں اور حکومتوں کا حال ہے جو عقیدے اور عبادات کی حد تک تو مسلمان کہلاتی ہیں لیکن اسلام کو قانونِ شریعت کے طور پر قبول نہیں کرتیں۔ اگر یہ بات اس مسیحیت کے لیے قابلِ قبول اور گوارا ہے جو دستور اور قانون سازی کے سرچشہ سے محروم ہے، اور دین کو زندگی پر منطبق کرنے پر اس کو اصرار بھی نہیں، لیکن یہ کسی طرح بھی اس اسلام کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتا جو دین و دنیا اور عبادت و سیاست کا جامع ہے۔

چنانچہ امتِ اسلامیہ اپنی زندگی کے انتہائی سنگین مرحلہ سے گزر رہی تھی بلکہ وہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑی تھی جہاں ایک غلطی یا معمولی لغزش بھی اس کے رشتۂ حیات کو اسلامی نظام اور قانون سے کاٹ کر رکھ دیتی، اور آنے والی نسلوں کو ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتی جس میں دین و مذہب کی ہلکی سے ہلکی پرچھائیں بھی نہ پائی جاتی۔

اسی طرح اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ عبادات کے احکام و مسائل بیان کیے جائیں تاکہ سہو و نسیان اور انسانی بھول چوک اور شریعت کی ناواقفیت کی وجہ سے جو باتیں پیش آتی ہیں ان کو حل کیا جائے۔ جو لوگ نئے نئے اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے ہیں ان کے مسائل کا حل، نماز میں بھول چوک، رکعات میں کمی زیادتی، روزہ دار کے احکام و مسائل، زکوٰۃ کب اور کن چیزوں پر کتنی مقدار میں فرض ہے، اسی طرح حج جیسی عبادت جس کی ادائیگی میں خاصا وقت صرف ہوتا ہے اور ایک بڑے رقبہ میں حاجی کو شعائرِ حج ادا کرنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور قدم قدم پر سنت اور اسوۂ نبویؐ کا لحاظ اس کو رکھنا پڑتا ہے۔ ان تمام امور میں فوری احکام اور بروقت فیصلہ کی ضرورت تھی۔ کسی ادنیٰ تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں تھی، اور نہ ہی اس بات کی ضرورت کہ ہر کس و ناکس کو قرآن و سنت سے براہ راست رجوع کر کے مسائل اخذ کرنے کا مشورہ دیا جائے۔

اس لیے ضروری تھا کہ احکام و جزئیات کا وجود ہو اور فقہی ذخیرہ آسانی کے ساتھ ہر ایک کو میسر آ سکے۔ ایسے سرآمد روزگار علماء اور ماہرینِ شریعت کی موجودگی بھی ضروری تھی جو عوام کی رہنمائی کے لیے ہر وقت مستعد ہوں۔ اسی بنا پر اسلام دیگر مذاہب کی طرح تاریخی یادگاروں کا ایسا میوزیم بننے سے محفوظ ہو گیا جہاں ہر طرح کی عبادات اور طرح طرح کی حرکات و سکنات پائی جاتی ہیں۔ اس کا مشاہدہ ہمیں ان مذاہب کے ماہانہ یا سالانہ تہواروں میں اچھی طرح ہو جاتا ہے جن کے ماننے والوں میں عملی وحدت اور یکجہتی کا فقدان ہوتا ہے اور نہ ہی ان میں روحانی اخلاقی و دینی رنگ پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی مساجد، حج کے مقامات اور شعائر کی ادائیگی، سب میں یکسانیت، نظم و وحدت، ہم آہنگی اور باہمی ربط و اتحاد پایا جاتا ہے۔ ان میں عقیدے اور عبادات کی وحدت ہوتی ہے کہ ایک ہی شریعت کے آگے سب سرنگوں ہوتے ہیں۔ اس کے دو بنیادی اسباب ہیں: ایک تو یہ کہ دینی تعلیمات میں حیرت انگیز وحدت و اصالت ہے۔ دوسرے محدثین اور فقہاء کا کمال اور ان کا عظیم احسان ہے کہ انہوں نے اپنی غیر معمولی جدوجہد سے اسلامی شریعت کے ذخیرہ کو نہ صرف محفوظ اور باقی رکھا بلکہ قرآن و سنت اور یکساں دینی نظام سے اس کو مربوط کر دیا۔

اسلامی فقہ کی تدوین و ترتیب اور شرعی احکام و مسائل کے استنباط میں جس اجتہادی بصیرت کا ثبوت دیا گیا وہ انتہائی بروقت، مناسب اور برمحل تھا، اور فطری و منطقی تقاضوں اور اس انسانی، عالمی اور ابدی دین کی خصوصیات کے عین مطابق ۔۔۔ جس طرح صرف و نحو عربی زبان و بیان کے قواعد کی بنیاد قرآن مجید، عربی اشعار اور اولین عرب کے کلام پر رکھی گئی اور ان کا تدریجی ارتقاء ہوا، اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ فقہ کی تدوین انتہائی ضروری تھی کہ عرب و عجم پر دین حاوی تھا اور اس کے دائرے میں داخل ہونے والا ہر مسلمان اس کا مکلف ہے۔ اس لیے بھی کہ فقہ کا تعلق مسلمان کی پوری زندگی سے ہوتا ہے اور عقیدہ و عبادت سے اس کا غیر معمول ربط و تعلق اور اُخروی عذاب و ثواب، نجات و ہلاکت اور سعادت و شقاوت کا دارومدار ان فقہی احکام پر ہی ہے۔‘‘ 1

دورِ حاضر اور اجتہاد

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اجتہاد و تقلید کے معرکۃ الآراء مسئلہ میں بھی نقطۂ اعتدال کی طرف امت کی رہبری کی۔ اپنے اپنے حدود و قیود میں دنوں کو ضروری قرار دیا۔ دور ِحاضر میں اجتہاد کی ضرورت و اہمیت تسلیم کرنے کے ساتھ وہ اس طبقہ پر سخت نکیر کرتے ہیں جو اجتہاد کے نام پر شریعتِ اسلامی کے حقائقِ ثابتہ سے کھلواڑ کرنا چاہتا ہے۔ ایک جگہ حضرت مولانا تحریر فرماتے ہیں:

’’اس دور میں اجتہاد کی باتیں بہت ہو رہی ہیں اور یہ نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ اس زمانہ میں اجتہاد کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اجتہاد کا نعرہ لگانا ایک طرح سے ترقی پسندی کی علامت بن گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اجتہاد اس زمانہ کی حاجت اور اس دین کی ضرورت ہے جو زندگی کے قافلے کی رہنمائی اور قیادت کرتا ہے۔ خصوصاً اس زمانہ میں اور بھی اس کی ضرورت ہے جب کہ تمدن اور صنعت و تجارت نے ایسی غیر معمولی اور حیرت انگیز ترقی کر لی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جدید تجارتی معاملات اور معاہدوں میں ایسے فقہی احکام اور فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اسلامی فقہ کے اصولوں اور شریعت ِاسلامی کے مقاصد سے ہم آہنگ ہوں۔

لیکن شرعی مسائل اور جدید عصری ایجادات کے بارے میں جو لوگ اجتہاد کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں وہ اسلامی دنیا کے وہ قائدین و مفکرین اور مغربی دانشگاہوں کے فضلاء ہیں جنہوں نے خود مغربی تہذیب و تمدن کا سامنا پورے عزم و ارادے اور ایمان و یقین سے کرنے میں اپنی مہارت اور ذہانت و ذکاوت کا ثبوت نہیں دیا ہے۔ حالانکہ ان کا فرض تھا کہ مغربی تہذیب و تمدن اور اس کی سائنسی ایجادات اور ترقی، اس کی خوبیوں اور خامیوں کے درمیان تمیز کر کے وہی چیزیں لیتے جو مشرقی قوموں اور ان کے دین و مذہب اور تہذیب و مزاج سے میل کھائیں اور ان قوموں کو بھی روشنی دکھاتے جو مادیت کا شکار ہو چکی ہیں۔ وہ مغرب سے جو کچھ حاصل کرتے پہلے اس سے اس غبار کو جھاڑ دیتے جو قرونِ مظلمہ ہی سے ان کا جز بن گئی ہیں، اور اب بھی اس کی وجہ سے نفسیاتی کشمکش اور اعصابی تناؤ میں مبتلا ہیں۔ مغربی دانشگاہوں کے ان فضلاء کو اس کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس دور میں وہ ان علوم سے فائدہ اٹھائیں۔ اس لیے کہ جن میدانوں میں انہوں نے تخصص کیا ہے اور جو ان کا خاص موضوع رہا ہے اس میں بھی انہوں نے اپنے رول کو ادا نہیں کیا۔ اور نہ ہی نظامِ تعلیم و تربیت کو آزاد اسلامی نظامِ تعلیم کے سانچے میں انہوں نے ڈھالنے کی کوشش کی۔ حالانکہ یہ کام بھی اجتہاد ہی کی طرح ہے۔ لیکن انسان کی ہمیشہ سے یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ خود کچھ نہیں کر پاتا تو دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور اس سے مطالبہ کر بیٹھتا ہے۔

اس گرفت اور احتساب کے باوجود یہ بات بہرحال اپنی جگہ صحیح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اجتہاد کی ضرورت اپنی جگہ پر ہے، اس مسئلہ پر کوئی اختلاف نہیں۔ جو لوگ علومِ شریعت میں بصیرت اور اس پر دسترس رکھتے ہیں وہ اس میدان میں اپنا قائدانہ کردار ادا کریں، اور اصولِ فقہ جیسے قیمتی خزانہ سے، جس کی کوئی نظیر قوموں اور ملکوں میں نہیں ملتی، احکام و مسائل کے استنباط میں فائدہ اٹھائیں۔ فقہ کا یہ ذخیرہ عرصہ سے صرف تاریخ بن کر رہ گیا ہے، جس سے ہمیں صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دور کے مجتہدین کس طرح احکام و مسائل کا استنباط کیا کرتے تھے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیکن وقت کی گھڑی کو نہ تو اپنی جگہ روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو معطل کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اسلام ایسی قوموں اور معاشرہ کا دین ہے جو ان مسائل و مشکلات کے ساتھ ساتھ چلتا ہے بلکہ ان کا سامنا کرتا ہے۔

اجتہاد کے معطل ہونے کی وجہ

مختلف ادوار، ملکوں اور شہروں میں امت نے اجتہاد کو اختیار کیا اور علماء اس پر گامزن رہے، مذاہبِ اربعہ کی کتابیں ان مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ لیکن تاتاری حملہ کے بعد مذاہبِ اربعہ (جدید مفہوم میں ہم اس کو علمی اکیڈمی یا ادارے سے تعبیر کرتے ہیں) پر کسی قدر پژمردگی اور کمزوری چھا گئی، اس لیے کہ تاتاری حملے نے خوداعتمادی اور ذہانت کے سوتوں کو خشک کر دیا تھا۔

جو قومیں تاتاری قوموں کے ماتحت ہوئیں ان کے اندر مسلح اور غیر مسلح لشکر کے مقابلے کی جرأت ختم ہو کر رہ گئی۔ چنانچہ اسلامی دنیا کے مشرقی حصے کے علماء نے اس خاص وقفہ میں اجتہاد کی سرگرمیوں پر کسی حد تک پابندی لگانے ہی میں عافیت سمجھی۔ اس لیے کہ انہیں اندیشہ ہونے لگا کہ اگر اجتہاد کی اجازت دے دی گئی تو حکّام اور والیان ِسلطنت کے سیاسی اور انفرادی مصالح کا اس میں خیال رکھا جائے گا اور اس سے نفع کے بجائے نقصان زیادہ ہو گا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ دین میں تحریف کا سبب انفرادی اجتہاد بن جائے، یا اس امت کی رفتار میں انحراف اور کجی پیدا ہو جائے۔ اگرچہ ان علماء کا یہ خیال وقتی طور پر پابندی کے لیے تھا جس کی بنیاد فقہ کے اس اصول پر رکھی گئی تھی کہ جلبِ منفعت پر دفعِ ضرر کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ 

اب اگر اجتہاد کا دروازہ کھولنا ہی ضروری ہے تو ضرور کھولا جائے، لیکن اصولِ فقہ کی کتابوں میں اس کے لیے جو شرائط بیان کی گئی ہیں ان کا لحاظ ضروری ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ انفرادی طور پر اجتہاد کے بجائے اجتماعی طور پر اجتہاد کیا جائے۔ وہ اس طرح کہ شریعت کے ماہرین کی ایک اکیڈمی ہو جس میں کسی مسئلہ پر طویل غور و فکر، بحث و مباحثہ اور تبادلۂ آراء اور قرآن و سنت اور فقہ و اصولِ فقہ کے پورے ذخیرے کے بھرپور جائزے کے بعد فیصلہ کیا جائے تاکہ کسی سازش یا کسی سیاسی قوت یا استبدادی حکومت کا عکس نہ پڑنے پائے۔

اجتہاد کے حدود اور اس کا میدان

جدید طبقہ کے لوگ اجتہاد کی دعوت دیتے ہیں۔ خصوصاً عصری دانشگاہوں کے پُرجوش جذباتی نوجوان اور اسلامی ملکوں کے بعض سربراہ۔ ان کی اس دعوت سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ ہر مسئلہ میں اجتہادِ مطلق کی دعوت دے رہے ہیں۔ وہ مغربی اقدار و قیم اور عصری پیمانوں کو جوں کا توں لینے پر مُصر ہیں، گویا کہ زمانہ پہلے اسلامی دور کی طرح ہو گیا ہے جب اسلام نیا نیا آیا تھا اور انسانی سوسائٹی مکمل طور پر انقلاب سے دوچار ہو چکی تھی، اور گزشتہ دور میں فقہاء اور مجتہدین نے جو نتائج نکالے اور علم و تحقیق اور مطالعہ کے بعد جو اصول انہوں نے بنائے تھے، وہ اپنی قیمت اور اہمیت کھو چکے ہیں، اور اب موجودہ زمانہ اور قوم کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں۔

اس میں زیادہ سطحیت، لاپروائی، نام نہاد ترقی پسندانہ ادب کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کا اثر ہے۔ اس ادب نے نوجوانوں کے سامنے زمانہ کی ایسی تصویر کھینچی ہے جیسے یہ دور بالکل نیا ہے اور گزشتہ زمانہ سے یہ دور کسی طرح بھی ہم آہنگ نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ تصویر تخیلات پر مبنی ہے اور اس میں ذرہ برابر حقیقت نہیں، واقعیت و منطقیت سے زیادہ اس میں جذباتیت سے کام لیا گیا ہے۔

اسلام ایک تغیر پذیر دنیا میں

یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقالہ کا اختتام اس تقریر کے اقتباس پر کروں جو میں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک سیمینار بہ عنوان ’’اسلام ایک تغیر پذیر دنیا میں‘‘ کی تھی۔

’’زمانہ اپنی تغیر پذیری اور زیادہ صحیح الفاظ میں تغیر پرستی، یا اقبال کے الفاظ ’’تازہ پسندی‘‘ کے لیے بدنام زیادہ ہے اور بد کم ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زمانہ تغیر پذیری ہی کا نام ہے۔ زمانہ ثبات اور تغیر کے متوازن مرکب اور مجموعے کا نام ہے۔ اور جب کبھی اس کا تناسب بگڑے گا یعنی ٹھہراؤ تغیر پر غالب آجائے گا، یا تغیر ٹھہراؤ پر غالب آجائے گا تو زمانے، سوسائٹی اور تہذیب کا قوام بگڑ جائے گا۔ ان دونوں کے تناسب کا معاملہ کیمیاوی اجزاء کے تناسب سے بھی کہیں زیادہ نازک ہے۔ زمانہ جہاں تغیر کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کو بدلنا چاہیے، اس لیے کہ بدلنا زندگی کی کوئی کمزوری، کمی یا عیب نہیں، وہ زندگی کا عین مزاج ہے، اور زندگی کی تعریف ہے ؏

جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی

وہ زندگی، زندگی کہلانے کی مستحق نہیں جس میں نمو کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہو، وہ درخت شاداب اور پُر ثمر نہیں کہلایا جا سکتا جو اپنی نمو کی صلاحیت کھو دے۔

تغیر پذیری یا اس کے بجائے اگر آپ اس کو نمو یا ترقی کا نام دیں تو میرے خیال میں آپ اس کے ساتھ زیادہ انصاف کر سکیں گے۔ زمانہ تغیر قبول کرنے کے ساتھ مقابلہ کی بھی ایک طاقت رکھتا ہے۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ زمانہ کتنا بدل گیا اور اس تبدیلی کے مظاہر بھی ہم کو صاف نظر آتے ہیں۔ لیکن زمانے نے اپنی اندرونی صلاحیتوں کو باقی رکھنے اور اپنے صالح اجزا و عناصر کو محفوظ رکھنے کے لیے کتنی کشمکش کی اور کس قوتِ مقابلہ سے کام لیا، عام حالات میں ہم اس کو نہیں دیکھ پاتے۔ اس کے لیے ایک خاص طرح کی خوردبین کی ضرورت ہے۔

ایک دریا ہی کو آپ لے لیں جو روانی اور حرکت کے لیے سب سے بہتر مثال ہو سکتا ہے۔ دریا کی کوئی موج اپنی پہلی موج کے بالکل عین اور مماثل نہیں ہوتی۔ لیکن دریا اپنی گزرتی ہوئی موجوں کے باوجود اپنے نام کے ساتھ، اپنے حدود کے ساتھ، اپنی بہت سی خصوصیات کے ساتھ ہزاروں برس سے قائم ہے۔ دجلہ و فرات آج بھی دجلہ و فرات کہلائیں گے اور گنگ و جمن آج بھی گنگ و جمن کہلاتے ہیں۔

زمانے کا اندر ٹھہراؤ بھی ہے اور بہاؤ بھی۔ اگر زمانہ ان دونوں خصوصیتوں اور صلاحیتوں میں سے کسی ایک سے محروم ہو جائے تو وہ اپنی افادیت کھو دے گا۔ اسی طرح کائنات میں جتنے بھی وجود، شخصیتیں اور ہستیاں ہیں، سب کے اندر مثبت اور منفی لہریں برابر اپنا کام کرتی رہتی ہیں۔ اور دونوں لہروں کے ملنے سے وہ فریضہ ادا ہو جاتا ہے اور وہ منصب پورا ہوتا ہے جو ان کے سپرد کیا گیا ہے۔

مذہب زندگی کا نگراں ہے

جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، مذہب کے ایک پیرو اور طالب علم کی حیثیت سے میں مذہب کے لیے یہ پوزیشن قبول نہیں کر سکتا، اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ حضرات بھی مذہب کے لیے یہ پوزیشن پسند نہیں کریں گے کہ مذہب ہر تغیر کا ساتھ دے۔ یہ کسی تھرمامیٹر کی تعریف تو ہو سکتی ہے کہ وہ درجہ حرارت و برودت بتلائے، یہ مرغ بادنما (Weathercock) کی بھی تعریف ہو سکتی ہے جو کسی اونچی عمارت یا ہوائی اڈے پر لگایا گیا ہے، صرف یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ہوا کس طرف کی چل رہی ہے، لیکن مذہب کی تعریف یہ نہیں ہو سکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ حضرات میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا کہ مذہب کو اس کے بلند مقام سے اتار کر تھرمامیٹر یا مرغ بادنما کا مقام دینا چاہتا ہو کہ مذہب کا کام یہ ہے کہ وہ صرف زمانے کی تبدیلیوں کی رسید دیتا ہے، اکنالج (Acknowledge) کرتا رہے یا اس کی عکاسی کرتا رہے۔

صحیح آسمانی مذہب کے تو کیا کسی نام نہاد مذہب کے پیرو یا اس کے نمائندے بھی اس پوزیشن کو قبول کر لینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔

مذہب تغیر کو ایک حقیقت مانتا ہے اور اس کے لیے وہ ساری گنجائشیں رکھتا ہے جو ایک صالح، صحیح، فطری اور جائز تغیر کے لیے ضروری ہوں۔ مذہب زندگی کا ساتھ دیتا ہے، لیکن یہ محض ساتھ دینا یا محض رفاقت اور پیروی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مذہب کا فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ اس کا فرق کرے کہ یہ صالح تغیر ہے یا غیر صالح تغیر ہے، یہ تخریبی رجحان ہے اور یہ غیر تخریبی رجحان ہے۔ اس کا نتیجہ انسانیت کے حق میں یا کم از کم اس مذہب کے پیروؤں کے حق میں کیا ہو گا۔ مذہب جہاں رواں دواں زندگی کا ساتھ دینے والا ہے وہاں وہ زندگی کا محتسب نگران، گارڈین (Guardian) اور زندگی کا اتالیق بھی ہے۔

گارڈین کا کام یہ نہیں ہے کہ جو ہستی اس کی اتالیقی میں ہے اس کے ہر صحیح و غلط رجحان کا ساتھ دے اور اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دے۔ مذہب ایسا سسٹم نہیں ہے کہ جہاں ایک قسم کی مہر رکھی ہوئی ہے، ایک ہی طرح کی روشنائی ہے اور ایک ہی طرح کا ہاتھ ہے، جو دستاویز اور تحریر آئے، مذہب کا کام یہ ہے کہ وہ اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دے۔ مذہب پہلے اس کا جائزہ لے گا اور پھر اس پر اپنا فیصلہ صادر کرے گا، اور ترغیب اور بعض اوقات مجبوراً ترہیب کے ذریعے اس سے باز رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اور اگر کوئی غلط دستاویز اس کے سامنے آتی ہے جس سے اس کو اتفاق نہیں، یا جس کو وہ انسانیت کے حق میں مہلک اور تباہ کن سمجھتا ہے، تو نہ صرف یہ کہ وہ اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے سے انکار کرے گا بلکہ اس کی بھی کوشش کرے گا کہ وہ اس کی راہ میں مزاحم ہو۔

یہاں اخلاقیات اور مذہب میں ایک فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ مذہب اپنی ذمہ داری اور فرض سمجھتا ہے کہ غلط رجحان کو روکے۔ ماہرِ اخلاقیات و نفسیات کی ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ وہ غلط رجحانات کی نشاندہی کرے یا اپنا نقطۂ نظر ظاہر کر دے۔ لیکن مذہب اس کی کوشش کرے گا کہ وہ اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو جائے۔

اگر ہم نے اس باریک بینی، گہرائی و گیرائی، امانت و احساسِ ذمہ داری، اس دین کے مزاج اور اس کے پیغام سے گہری واقفیت کا ثبوت دیا، اور اسی کے ساتھ ہم نے موجودہ زمانہ کے مزاج و خصوصیات کو سمجھا، جس میں نمو اور تغیر کی صلاحیت ہے اور ثبات و استقامت بھی، اور اس نے قدیم صالح عناصر کو باقی بھی رکھا ہے۔ اگر ہم نے ان خصوصیات کو اچھی طرح سمجھ لیا تو فقہ اسلامی کی ضرورت (وسیع معنوں میں) کو ہم پوری کر سکتے ہیں، اور ہم اسلامی سوسائٹی کی بھی ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہیں، اور اسلامی احکام اور دینی تعلیمات پر ہم اس مہذب اور ترقی یافتہ زمانہ میں بھی عمل کر کے دکھا سکتے ہیں، اور اس زندگی کا بھی ساتھ دے سکتے ہیں جو تیزی اور انتہائی سرعت کے ساتھ ترقی کرتی جا رہی ہے۔‘‘2

تقلید کے بارے میں مولاناؒ کا نقطۂ نظر

تقلید کے مسئلہ میں بھی حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ بہت معتدل نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ اس سلسلہ میں ان کا نقطۂ نگاہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے نقطۂ نگاہ سے ہم آہنگ تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے نقطۂ نظر کو حضرت مولانا علی میاںؒ نے بہت تفصیل کے ساتھ تحسین و استحسان کے انداز میں بیان فرمایا ہے۔ مولانا مرحوم رقم طراز ہیں:

’’شاہ صاحب غایتِ انصاف اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ایسے شخص کو تقلید کے بارے میں معذور سمجھتے ہیں جو کسی مذہبِ فقہی یا معیّن امام کا مقلّد تو ضرور ہے لیکن اس کی نیت محض صاحبِ شریعت کی پیروی اور اتباعِ نبویؐ ہے۔ لیکن وہ اپنے اندر اس کی اہلیت نہیں پاتا کہ وہ حکمِ شرعی اور جو چیز کتاب و سنت سے ثابت ہے اس تک براہِ راست پہنچ جائے۔ اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ مثلاً وہ عامی شخص ہے، یا اس کے پاس براہ راست تحقیق کرنے کے لیے وقت اور فرصت نہیں، یا ایسے وسائل (علم و تحقیق) حاصل نہیں جن سے وہ نصوص کا خود پتہ چلائے، یا ان سے مسئلہ استنباط کرے۔ شاہ صاحبؒ علامہ ابن حزمؒ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد کہ تقلید حرام ہے اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے قول کو بلا دلیل قبول کر لے، تحریر فرماتے ہیں:

’’ابن حزم کے قول کے مصداق وہ شخص نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے علاوہ کسی کو اپنے لیے واجب الطاعت نہیں سمجھتا۔ وہ حلال اسی کو گردانتا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے حلال کیا، اور حرام اسی کو مانتا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا، لیکن چونکہ اس کو براہ راست آنحضرتؐ (کے قول و احوال) کا علم حاصل نہیں، اور وہ آپ کے مختلف اقوال میں تطبیق دینے کی صلاحیت اور آپ کے کلام سے مسائل استنباط کرنے کی قدرت نہیں رکھتا، وہ کسی خدا ترس عالم کا دامن پکڑ لیتا ہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ صحیح بات کہتا ہے، اور اگر مسئلہ بیان کرتا ہے تو اس میں وہ محض سنتِ نبویؐ کا پیرو اور ترجمان ہوتا ہے۔ جیسے ہی اس کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ خیال صحیح نہیں تھا، اسی وقت وہ بغیر کسی بحث و اصرار کے اس کا دامن چھوڑ دیتا ہے، بھلا ایسے آدمی کو کوئی کیسے مطعون کرے اور اس کو سنت و شریعت کا مخالف قرار دے گا؟

سب کو معلوم ہے کہ استفتاء اور افتاء کا سلسلہ عہدِ نبویؐ سے لے کر برابر چلتا رہا ہے، اور دونوں میں فرق ہے کہ آدم ہمیشہ ایک سے فتویٰ لیتا ہے، یا کبھی ایک سے فتویٰ لیتا ہے کبھی دوسرے سے۔ ایسی حالت میں کہ اس کا ذہن صاف ہے، اس کی نیت سلیم ہے، اور وہ صرف اتباعِ شریعت چاہتا ہے، یہ بات کیسے جائز نہیں؟ جب کہ کسی فقیہ کے بارے میں ہمارا یہ ایمان نہیں ہے کہ اللہ نے اس پر آسمان سے فقہ اتاری اور ہم پر اس کی اطاعت فرض ہے۔‘‘3

ایک دوسری جگہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اجتہاد و تقلید کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے معتدل نقطۂ نظر کی تمہید بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’حضرت شاہ صاحب کے ان وہبی کمالات اور تجدیدی امتیازات میں سے جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص طور پر نوازا تھا، وہ متوازن اور معتدل مسلک اور وہ نقطۂ اعتدال ہے جو انہوں نے اجتہاد و تقلید کے درمیان اختیار کیا۔ اور جو ان کے طبع سلیم، ذوقِ صحیح اور حقیقت پسندی کا بہترین مظہر ہے۔

ایک طرف وہ لوگ تھے جو ہر مسلمان کو خواہ وہ عام ہو یا خاص، براہ راست کتاب و سنت پر عمل کرنے اور ہر معاملہ میں وہیں سے احکام حاصل کرنے کا مکلف قرار دیتے تھے اور تقلید کی مطلق حرمت کے قائل تھے۔ اگر ان کے کلام میں اس کی صراحت نہیں ملتی تو ان کے طرز عمل اور ان کی تحریروں سے قدرتی طور پر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔ اس گروہ میں متقدمین میں علامہ ابن حزم پیش پیش نظر آتے ہیں، لیکن یہ بالکل ایک غیر عملی بات ہے، اور اس کا ہر مسلمان کو مکلف قرار دینا تکلیف مالایُطاق ہے۔

دوسری طرف وہ گروہ تھا جو تقلید کو اسی طرح ہر مسلمان پر واجب قرار دیتا تھا اور اس کے تارک کو سخت فقہی احکام ’’فاسق‘‘ اور ’’ضال‘‘ سے یاد کرتا تھا، جیسا کہ پہلا گروہ مقلدین اور کسی خاص مذہبِ فقہی کے متبعین کو۔ یہ گروہ اس حقیقت کو بھول جاتا ہے کہ تقلید عوام کو نفسانیت اور خودرائی سے بچانے، مسلم معاشرہ کو انتشار و فوضویت (انارکی) سے محفوظ رکھنے، دینی زندگی میں وحدت و نظم پیدا کرنے، اور احکامِ شریعت پر بسہولت عمل کرنے کا موقع دینے کی ایک انتظامی تدبیر ہے۔ لیکن انہوں نے اس انتظامی عمل کو تشریعی عمل کا درجہ دے دیا اور اس پر اس شدت سے اصرار کیا جس نے اس کو ایک مذہبِ فقہی اور مسئلہ اجتہادی کے بجائے منصوص اور قطعی عمل اور مستقل دین کا درجہ دے دیا۔‘‘4

حضرت مولانا علی میاںؒ جس طرح اجتہاد کے نام پر شریعت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے بارے میں سخت ترین نکیر کرتے ہیں، اسی طرح تقلید میں غلو و انحراف کا سختی کے ساتھ نوٹس لیتے ہیں، تقلید کی جائز اور فطری شکل کی وضاحت کرنے کے بعد اس میں غلو و انحراف کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’رفتہ رفتہ عوام میں جہالت نے اثر کیا اور کہیں کہیں ائمہ کی حیثیت وسائط اور وسائل کے بجائے مقصود، اور ایک طرح سے شارع و مطاع کی پیدا ہو گئی۔ لوگوں کو ان مذاہب سے بالذات دلچسپی اور ان کی اس درجہ عصبیت پیدا ہو گئی کہ وہ کسی حال میں ان کے ایک شوشہ یا نقطہ سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس سلسلے میں عوام تو زیادہ قابلِ الزام نہیں ہیں کہ انہوں نے ان مذاہب کو سنت کی پیروی سمجھ کر اختیار کیا تھا، اور ان کے مطابق ترکِ مذہب یا ایک مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف انتقال مشکل بھی تھا اور خطرناک بھی۔ لیکن بہت سے علماء کی یہ حالت تھی کہ ان کو اگر اپنے امام یا مذہب کے کسی مسئلہ کا حدیث و سنت کے خلاف ہونا ثابت ہو جائے، اور اس کا قطعی علم حاصل ہو جائے کہ اس مسئلہ میں اپنے امام کا مسئلہ مرجوح اور دوسرے امام یا مذہب کا مسئلہ راجح اور حدیث و سنت کے مطابق ہے، اور اپنے مذہب اور عمل کے خلاف کیسی ہی صحیح و صریح احادیث ملیں، تب بھی وہ اس مسئلہ کو ترک کرنے اور احادیث پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ان کی طبیعت اس کے لیے منشرح نہیں ہوتی۔‘‘5

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اس بات کے داعی تھے کہ تمام فقہی مسالک کو امتِ مسلمہ کا مشترکہ سرمایہ تصور کیا جائے، تمام ائمہ فقہ کا احترام کیا جائے، بیجا تعصب و تشدد سے گریز کیا جائے اور نئے مسائل کے حل میں کتاب و سنت کے ساتھ تمام فقہی مسالک سے استفادہ کیا جائے۔

فقہ اسلامی پر حضرت مولانا علی میاںؒ کی تحریریں مختصر ہیں لیکن جتنی بھی ہیں بڑی پُرمغز اور فکر انگیز ہیں۔ آپ کی کتاب ’’ارکانِ اربعہ‘‘ احکامِ شریعت کے اسرار و حکم پر لاثانی کتاب ہے۔ اس موضوع پر امام غزالیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے جو کارنامہ انجام دیا تھا، اس کتاب کے ذریعے اس کام کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اجتہاد کے موضوع پر حضرت مولاناؒ کا ایک مختصر رسالہ ہے۔ ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ کی جلد اول، دوم، پنجم میں فقہ اسلامی کی وکالت و ترجمانی میں طاقتور تحریریں ہیں۔ نئے مسائل کے حل کے لیے حضرت مولاناؒ نے ’’مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ‘‘ قائم فرمائی۔ اس ادارہ نے نئے مسائل کے حل میں خاصی پیشرفت کی۔ حضرت مولانا ’’مجمع الفقہ الاسلامی ( مکہ مکرمہ)‘‘ کے رکن اور ’’مجمع الفقہ الاسلامی (الہند)‘‘ کے سرپرست تھے۔ مجمع الفقہ الاسلامی ہند کے متعدد سیمیناروں میں موصوف نے گراں قدر خطبات پیش فرمائے جنہیں ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ کے نام سے شائع کر دیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی تربت کو انوار سے بھر دے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔



حوالہ جات

  1. مجلہ بحث و نظر فقہی سیمینار جلد نمبر ۲ شمارہ ۶ ص ۵۰ تا ۵۴
  2. ایضاً ص ۵۹ تا ۶۵
  3. تاریخِ دعوت و عزیمت ج ۵ ص ۲۰۸، ۲۰۹
  4. ص ۲۰۴، ۲۰۵
  5. ایضاً ج ۲ ص ۳۳۷، ۳۳۸

شخصیات

(نومبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter