فیصل آباد سے شائع ہونے والے ایک جریدے کے سرورق کے اندرونی صفحہ پر ایک آزاد نظم بعنوان ’’پینل کوڈ ۳۷۷‘‘ شائع کی گئی ہے، نظم کا آخری حصہ یوں ہے:
میں نسلِ انسانی کا وہ راز ہوں جو کسی پر منکشف نہیں ہو سکا
اس لیے مجھے غیر فطری قرار دے کر
جرم دفعہ ۳۷۷ بنا دیا گیا
تم میرے فطری تقاضے کو غیر فطری کیوں کہتے ہو
یہ حق تمہیں کس نے دیا ہے
پاکستان پینل کوڈ ۳۷۷ یا تعزیراتِ پاکستان ۳۷۷ غیر فطری فعل کے خلاف ہے۔ یعنی ہم جنس پرستی، عورت سے غیر فطری فعل، اور جانور سے غیر فطری فعل قابلِ تعزیر جرم ہے۔ تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۳۷۷ ’’قوانین بائبل‘‘ یا حکمِ الٰہی کے عین مطابق ہے۔ معاشرے سے شاعر نے پوچھا ہے کہ اس کے فطری تقاضے یعنی ہم جنس پرستی کے فعل کو غیر فطری کہنے کا حق ہمیں کس نے دیا ہے؟ یہ شاعر جس کا نام افتخار نسیم ہے اور جو شکاگو، امریکہ میں مقیم ہے، یہ نہیں جانتا کہ اس کے غیر فطری تقاضے جسے یہ سدوم اور عمورا کے لوگوں کی طرح فطری کہتا ہے، اس کو روکنے اور اس کے تحت سزا دینے کا حق مذہب، معاشرہ اور پاکستانی قانون دیتا ہے۔ اس کی سزا کم از کم ۷ برس اور زیادہ سے زیادہ عمر قید ہے اور اس کے ساتھ جرمانہ بھی ہو سکتا ہے، یا قید و جرمانہ دونوں سزائیں ایک ساتھ ہو سکتی ہیں (دیکھیے تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۳۷۷)
ایک مذہبی جریدے میں ایسی بے شرمی سے کیے ہوئے اقرارِ گناہ کی اشاعت ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ کیتھولک قیادت کو اس شرمناک نظم کی اشاعت سے گریز کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ چونکہ کیتھولک قیادت ملکی سیاست میں خود کو ملوث کیے ہوئے ہے، مذہب کی طرف دھیان ہی کہاں؟ بڑے افسوس کا مقام، دکھ اور شرم کی بات ہے۔
(بہ شکریہ مسیحی ماہنامہ کلامِ حق)