ممتاز کشمیری دانشور پروفیسر سید بشیر حسین جعفری کا مکتوب گرامی

پروفیسر سید بشیر حسین جعفری

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

مولانا، میں شکرگزار ہوں کہ آپ نے الشریعہ کے دو شمارے اور ’’مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی دینی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے بروشر بذریعہ ڈاک بھجوایا۔ میں نے اس سارے لٹریچر کو اچھی طرح دیکھا۔ اگرچہ الشریعہ میں شائع ہونے والے مواد کو اوصاف کے صفحات پر بھی پڑھا مگر یہاں یک جا دیکھ کر یوں لگا کہ ریچھ کو یکبارگی شہد کا پورا چھتا ہاتھ لگ گیا ہو۔

الشریعہ میں آپ نے ہلکے پھلکے، دلچسپ، موزوں اور اہم مضامین، موضوعات کو گلدستہ میں پرویا ہے۔ بات وہی ہوتی ہے کہ بیان کرنے کا سلیقہ، طریقہ، اٹھان اور اندازِ بیان کسی موضوع میں جان ڈال دیتا ہے۔ تنوع کا بھی ایک مقام ہے۔ اکثر و بیشتر علماء عموماً ثقیل یا روایتی زبان لکھتے ہیں۔ جدید معلومات سے نابلد رہنے کے سبب ان کے بیان میں Information نہیں ہوتی۔ زیادہ زور محض احادیث کے Quotation سے سامنے آتا ہے۔ قرآن اور احادیث بے شک سرمایۂ ایمان ہے لیکن لوگوں کو ادھر لے جانے کے لیے علومِ حاضرہ سے کہانی ترتیب دینا پڑتی ہے۔ شاعری میں بھی اصل موضوع ’’محبت کا بیان‘‘ ہوتا ہے مگر شعراء کے ہاں ’’غزلوں‘‘ میں خیالات اور باریکیوں کا ایک انبوہ کثیر ہوتا ہے جس سے شعر لازوال ہو جاتا ہے۔ کشمیر کی خوبصورتی میں نے بھی دیکھی ہے بلکہ علامہ اقبالؒ سے زیادہ، مگر اقبالؒ کو الفاظ اور خیالات پر قدرت حاصل تھی اس لیے علامہ نے بیان کی ؎

پھول ہیں صحرا ہیں پریاں ہیں قطار اندر قطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن

یا خوشی محمد ناظر نے ’’جوگی‘‘ نام کی نظم میں لکھا ؎

کل صبح کے مطلع تاباں سے جب عالم بقعہ نور ہوا
سب چاند ستارے ماند ہوئے خورشید کا نور ظہور ہوا
ہر وادی، وادئ ایمن تھی، ہر کوہ پہ جلوہ طور ہوا

بھلا ان الفاظ کا شکوہ اور دبدبہ کوئی کہاں سے لائے۔ ما شاء اللہ آپ دل آویز زبان لکھتے ہیں، وسیع و جاری مطالعہ نے آپ کے خیالات کو جلا بخشی ہے، اللہ اور توفیق دے، آمین۔

مخلص سید بشیر حسین جعفری

۲۱ اگست ۲۰۰۰ء

مکاتیب

(نومبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter