اسلام کے راستے میں ظاہری رکاوٹوں کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ ایک رکاوٹ تو ظاہری ہے کہ جہاں پر کفر کا غلبہ ہو وہاں اہلِ ایمان کو شعائرِ دین پر عمل کرنے سے روک دیا جائے۔ جیسے پوری تاریخ انبیاء میں اس قسم کے واقعات ملتے ہیں کہ انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو خدا کی عبادت کرنے اور دین کی تبلیغ کرنے سے جبراً روک دیا گیا۔
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کا ذکر سورۃ الشعراء میں موجود ہے۔ ’’قالوا لئن لم تنتہ یا نوح لتکونن من المرجومین‘‘ (آیت ۱۱۶) ’’اے نوح! اگر تم نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنا نہ چھوڑا تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی آپ کے باپ نے یہی کہا کہ اے ابراہیم! تو ہمیں ہمارے معبودوں سے دور کرنا چاہتا ہے، اگر تو ان حرکات سے باز نہ آیا ’’لارجمنک واھجرنی ملیا‘‘ (مریم ۴۶) ’’تو میں تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دوں گا، لہٰذا میری نظروں سے دور ہو جا۔‘‘
جب حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو ہم جنسی سے منع کیا تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے ’’اخرجوھم من قریتکم انھم اناس یتطھرون‘‘ (الاعراف ۸۲) کہ ’’لوط علیہ السلام اور اس کے چند پیروکار بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں، ان کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو۔‘‘
شعیب علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو ماپ تول میں کمی بیشی سے منع فرمایا۔ نیز انہیں راستوں میں بیٹھ کر لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے سے منع کیا تو قوم کے سرکردہ لوگ کہنے لگے کہ اے شعیب! ہم تمہیں اور تمہارے پیروکاروں کو اپنی بستیوں سے نکال دیں گے ’’او لتعودن فی ملتنا‘‘ (الاعراف ۸۸) ’’اگر یہاں رہنا ہے تو اپنا دین چھوڑ کر ہمارے دین میں واپس آ جاؤ‘‘۔
خود حضور علیہ السلام کی تبلیغ کے راستے میں ہر قسم کے روڑے اٹکائے گئے۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو طرح طرح کی تکالیف پہنچائی گئیں۔ آپ کو لالچ دیا گیا کہ ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیتے ہیں۔ مال و دولت آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ہیں۔ خوبصورت ترین عورت نکاح میں دے دیتے ہیں۔ آپ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں۔ مگر اللہ کے مقرب انبیاء دشمنان کے کسی رعب اور لالچ میں نہ آئے اور اپنا مشن جاری رکھا۔
راہ حق میں روکنے کا دوسرا طریقہ سازشوں کا جال ہے، جس کے ذریعے اہل ایمان کو اس دینِ حق سے بدظن کیا جاتا ہے اور نئے آنے والوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے اسلام قبول کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ماضی قریب میں روسیوں کا کردار ہے جنہوں نے کسی بھی مذہبی تبلیغ پر سخت پابندی عائد کر رکھی تھی۔ ان کے آئین کے مطابق مذہب کے خلاف تو پراپیگنڈا کیا جا سکتا ہے مگر مذہب کے حق میں کوئی زبانی یا عملی تحریک جائز نہیں۔ اس آڑ میں کتنے ہی بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ یہودی اور عیسائی مشنریاں دین حق سے روکنے کے سلسلے میں زیادہ پیش پیش ہیں۔ وہ کبھی سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کر کے اور ایڈ دے کر لوگوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ افریقہ اور جنوبی ایشیا کے پسماندہ ممالک میں یہی حربہ استعمال کر کے لاکھوں لوگوں کو عیسائی بنایا جا چکا ہے۔
کبھی زمانہ تھا کہ خود مسلمان دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا صحیح سلوک کیا کرتے تھے، مگر آج دیگر اقوام ہیں جو نام نہاد ہمدردی کے جال میں پھنسا کر لوگوں کو بے دین بنا رہی ہیں۔ ساتویں صدی میں مسلمانوں پر زوال آنا شروع ہوا اور پھر ان کے قدم نہیں سنبھل سکے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ پچاس سے زیادہ مسلمان حکومتوں کے باوجود دنیا میں مسلمانوں کو کوئی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ یہ دوسروں کے دستِ نگر بنے ہوئے ہیں۔ مغربی ممالک سازش کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں اور پھر ان کی مدد کی آڑ میں بندر بانٹ شروع کر دیتے ہیں۔ آج مسلمانوں کی نہ کوئی اپنی سوچ ہے اور نہ کوئی نظریہ، جس پر چل کر وہ ترقی کی منازل طے کر سکیں۔
ایک امریکی مصنف نے پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر مسلمانوں کے حالات پر مبنی ایک کتاب The New World of Islam (جدید دنیائے اسلام) لکھی۔ یہ کتاب امیر شکیب ارسلان (المتوفی ۱۹۴۶ء) کے پاس بھیجی گئی۔ اس کا عربی ترجمہ ’’حاضر العالم الاسلامی‘‘ کے نام سے پروفیسر عجاب نویہض نے کیا۔ اس پر تین ضخیم جلدوں میں مقدمہ اور تقریظ امیر شکیبؒ نے لکھی جس میں مسلمانوں کے زوال کی وجوہات درج کیں۔ آپ شام کے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ترکی میں ہسپتالوں کے انچارج رہے، خود بالفعل انگریزوں اور اٹلی والوں کے خلاف جنگ میں شریک رہے، اور آخر میں بے کسی کے عالم میں شام میں وفات پائی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ عیسائی اور یہودی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کی اس قدر دشمن ہیں کہ وہ دین اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن کے خلاف چھ لاکھ کتابیں اور پمفلٹ شائع کر چکے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح مسلمان دینِ حق سے بیزار ہو جائیں، قرآن کا دامن چھوڑ دیں اور پھر سے کفر و الحاد کی بھول بھلیاں میں بھٹکتے پھریں۔