میڈیا کے ذریعے اسلامی دعوت

محمد ارشد امان اللہ

بنیادی طور پر میڈیا کی دو قسمیں ہیں۔ پیپر میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا۔ میڈیا کا جدید ترین اور سب سے مؤثر وسیلہ انٹرنیٹ ہے۔ ذیل میں اسی انٹرنیٹ کے بارے میں کچھ عرض کیا گیا ہے۔

انٹرنیٹ کیا ہے؟

انٹرنیٹ دراصل کئی چھوٹے چھوٹے کمپیوٹر نیٹ ورک اور مواصلاتی نظام کا مجموعہ ہے۔ اس کے ذریعے لمحوں میں دنیا بھر کی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں اور اس نظام سے منسلک ہر کمپیوٹر والے سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ انٹرنیٹ دنیا کا سب سے بڑا کمپیوٹر نیٹ ورک ہے جس سے تقریباً ۱۶۰ ملکوں کے ۵۰ ملین افراد براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔

انٹرنیٹ مختلف نظاموں سے مربوط کرنے والا محض ایک مواصلاتی نظام ہی نہیں بلکہ اس کے ذریعے اپنے افکار و خیالات کی نشر و اشاعت عالمی پیمانے پر کی جا سکتی ہے، اپنے پیام کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچایا جا سکتا ہے، دوسروں کی فکر پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے اور ان کی ذہن سازی کی جا سکتی ہے۔ سائنس کے اس کرشمے نے جغرافیائی حدود کو بے معنی اور پوری دنیا کو گھر کا آنگن بنا دیا ہے۔ یہ نظام درحقیقت ایک ایسے نظام کا پیش خیمہ ہے جو انسان کے طرزِ معاشرت کو ہی بدل کر رکھ دے گا۔

دعوت کے میدان میں انٹرنیٹ کا استعمال

لگتا ہے کہ اکیسویں صدی انٹرنیٹ کی صدی ہو گی۔ انفارمیشن سپر ہائی وے (Information Super Highway) کے اس دور میں دعوتِ حق کے لیے اس کا منظم استعمال ناگزیر ہے۔ اس کے لیے درج ذیل طریقے اپنائے جا سکتے ہیں:

عالمی نیٹ ورک (Wrold Wide Web)

انٹرنیٹ کی مشہور ترین اور سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی سروس ہے، اس کے ذریعے معلومات نشر کرنے کے لیے ہوم پیج (Web page) کام میں لایا جاتا ہے جن میں آڈیو، ویڈیو اور گرافکس کی شکل میں معلومات بھر دی جاتی ہیں۔ ہوم پیج پڑھنے کے لیے ایک خاص قسم کا پتہ (Address) ہوتا ہے جس کو کمپیوٹر میں دیتے ہی تمام معلومات اس کمپیوٹر میں آ جاتی ہیں۔ ایسے ہوم پیج بھی بنائے جا سکتے ہیں جن کے مخصوص حصے پر ان کا آپریٹر اپنے ملاحظات و سوالات لکھ سکتا ہے۔

دعوت کے میدان میں سرگرم افراد اور تنظیمیں اس سروس کا استعمال یوں کر سکتی ہیں:

  1. ہر زندہ زبان میں ایسے ویب پیجز (Web pages) تیار کیے جائیں جن میں عقائد، عبادات، جدید ذہن میں اسلام کے تعلق سے جنم لینے والے شبہات اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات کا تشفی بخش جواب، عالم اسلام کو درپیش خطرات کے بارے میں مفصل معلومات ڈال دی جائیں۔
  2. ایسے ویب پیجز تیار کیے جائیں جن میں لوگوں کے ذہن میں اسلام کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالوں کو حاصل کرنے کا خاص انتظام ہو تاکہ ماہر و تجربہ کار علماء کے پاس بھیج کر کتاب و سنت کی روشنی میں ان کا جواب معلوم کیا جا سکے۔
  3. حجرہ ہائے مذاکرہ (Studios) پر مشتمل ایسے ویب پیجز تیار کیے جائیں جن میں فوری مذاکرے (Chat shows) کرانے کا اہتمام ہو۔

انٹرنیٹ پر اسلام مخالف محاذ

عصر حاضر میں اسلام کی دعوت پیش کرنے کے لیے اسلام کی جانکاری کے ساتھ ساتھ دور حاضر کے تقاضوں سے مکمل آگاہی بھی ناگزیر ہے۔ چونکہ انٹرنیٹ کی حیثیت اب ’’لسان العصر‘‘ کی سی ہو گئی ہے اس لیے دعوت کے میدان میں انٹرنیٹ کا منصوبہ بند اور دانش مندانہ استعمال اس وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ اگر ہم نے یہ ضرورت نہ پوری کی تو اس کے بھیانک نتائج ہمیں صدیوں بھگتنے ہوں گے، خصوصاً اس لیے بھی کہ باطل نے بڑی ہوشیاری سے انٹرنیٹ پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چھیڑ رکھی ہے۔ الازہر کے سنٹر فار اسلامک اکانومی کے ڈائریکٹر جنرل کا بیان ہے کہ اب تک انٹرنیٹ پر آنے والے ۲۷ ایسے پروگراموں کا پتہ چل چکا ہے جو اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں۔ اس نفرت انگیز مہم کے حجم اور ابعاد (Dimensions) کا اندازہ ذیل کی مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

  1. اگست ۱۹۹۷ء میں امریکہ میں متعصب عیسائیوں نے ایک فورم تشکیل دیا، اس کا نام ’’تلوار کے مقابلے میں قلم‘‘ رکھا۔ یہ فورم ’’اسلام کے بارے میں انکشافِ حقائق‘‘ کے عنوان سے عربی، انگریزی، فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں میں انٹرنیٹ پر اپنا پروگرام پیش کرتا ہے۔ پروگرام کے عنادین کچھ یوں ہوتے ہیں:
    • اسلام کے مخفی چہرے کی نقاب کشائی،
    • اسلام کے بارے میں حقائق اور جعل سازیاں،
    • حقائقِ حیات قرآن کی نظر میں،
    • ہیبت ناک تعلیمات،
    • کیا آپ کسی مسلمان کی بیوی بننا پسند کریں گی؟ وغیرہ
  1. امریکہ آن لائن (America Online) انٹرنیٹ پر اپنی خدمات پیش کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے، اس کے چینل پر ۲۵ ستمبر ۱۹۹۷ء سے دو اسلام مخالف پروگرام شروع کیے گئے، ان میں سے ایک کا آغاز تو آیت کریمہ ’’و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ‘‘ ’’(قرآن کی شکل میں) جو کچھ ہم نے اپنے بندے (محمدؐ) پر نازل کیا ہے، اگر اس (کے منزل من اللہ ہونے) میں تمہیں شک ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ‘‘ کے انگریزی ترجمے سے ہوتا تھا۔ اس کے بعد قرآنی آیات کے وزن پر نصرانی الفاظ سے بنی چار سورتیں پیش کی جاتی تھیں۔ مقصد یہ باور کرانا ہوتا تھا کہ ان جعلی سورتوں کے ذریعے قرآن کے اس چیلنج کو قبول کر لیا گیا۔ ان سورتوں کے نام یہ ہیں: الایمان، التجسد، المسلمین، الوصایا۔

مسلمانوں نے احتجاجی خطوط لکھے تو کمپنی نے یہ دونوں پروگرام بند کر دیے مگر ’’جیو سٹیز‘‘ اور ’’ٹرائی‘‘ نامی کمپنیوں کے چینلوں پر مجرم نے پھر وہی حرکت کی۔ دوبارہ احتجاج کیا گیا تو ٹرائی بورڈ نے اپنے چینل پر نشر ہونے والے پروگرام کو بند کر دیا لیکن جیو سٹیز نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

عالمِ اسلام کیا کرے؟

مسئلے کی نزاکت سمجھنے کے لیے یہ دونوں مثالیں کافی ہیں۔ دعوت کے میدان میں اگر جلد ہی انٹرنیٹ کا منصوبہ بند استعمال نہ کیا گیا تو مسلمانانِ عالم کو اپنے دین و ایمان اور ملی تشخص کی خیر منانی پڑے گی۔ کیونکہ انفارمیشن سپر ہائی وے کے اس دور میں اس میڈیائی طوفان کا مقابلہ روایتی ذرائع ابلاغ سے ناممکن ہے۔ یہاں تو نا معلوم فرد یا گروہ کا سامنا ہے، اگر ہم ایک پروگرام بند کراتے ہیں تو کئی دوسرے پروگرام شروع کر دیے جاتے ہیں۔ اس لیے مثبت خطوط پر سوچنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ

  1. دعوتِ دین کے لیے انٹرنیٹ کے منصوبہ بند طرزِ استعمال کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں اور انٹرنیٹ پر اپنے پروگرام پیش کریں۔
  2. تمام دعوتی مراکز کو انٹرنیٹ سے جوڑنے کی کوشش کریں۔
  3. اس کے لیے باضابطہ کمپنیاں اور تنظیمیں بنائیں بلکہ حکومتوں کو اس جانب متوجہ کریں کیونکہ یہ کسی فردِ واحد کے بس کی بات نہیں۔

لائقِ تحسین اقدام

انٹرنیٹ پر آنے والے اسلام مخالف مذکورہ پروگرام کا اتنا فائدہ تو ضرور ہوا کہ انٹرنیٹ کی افادیت اور بے پناہ تاثیر سے مسلمانانِ عالم بخوبی واقف ہو گئے۔ خوشی کی بات ہے کہ بعض اسلامی تنظیموں اور حکومتوں نے اس سمت میں پیش قدمی شروع کر دی۔

  • اس میدان میں پہل کرنے کا شرف سعودی عرب کو حاصل ہے۔ گزشتہ حج سے پہلے ہی ٹیلی ویژن کمپنی سی این این (Cable News Network) اور بی بی سی لندن کے اسٹار ٹی وی سے سعودی حکومت نے یہ معاہدہ کیا کہ تجربے کے طور پر حج کے تمام مناظر کو پوری دنیا میں ٹی وی پر دکھایا جائے۔ بعد میں رفتہ رفتہ اس کی مدت بڑھا دی جائے۔
  • اسی طرح قطر میں ’’خدمت الاسلام علیٰ انترنت‘‘ نامی ایک پراجیکٹ ڈاکٹر حامد الانصاری کی نگرانی میں شروع ہو رہا ہے۔ یہ پراجیکٹ پہلے عربی، انگریزی، ملاوی اور پھر تمام زندہ زبانوں میں انٹرنیٹ پر اپنے پروگرام پیش کرے گا۔ اس میں غیر مسلموں، نو مسلموں اور فتاویٰ کے لیے الگ الگ چینل قائم کیے جائیں گے۔ مؤثر اسلوب میں جاذب معلومات کی تیاری کے لیے متخصصین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
  • ڈاکٹر محمد عبدہ یمانی کی صدارت میں ’’اقرا‘‘ نامی ایک فلاحی ادارے نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر ’’اعلام الاسلام‘‘ (مشاہیر اسلام) کے نام سے ایک پروگرام پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس کا ہیڈ کوارٹر شکاگو میں ہے۔
  • انٹرنیٹ پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے ترکی کی ایک اسلامی تنظیم ’’موسسۃ الموسوعۃ الاسلامیۃ‘‘ کے تعاون سے ایک پراجیکٹ شروع کرنے جا رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ ان تنظیموں کو اپنے مقصد میں کامیاب کرے، آمین۔

(بہ شکریہ ’’تعمیرِ حیات‘‘ لکھنؤ)

اسلام اور عصر حاضر

(نومبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter