مغربی تہذیب کا ارتقائی جائزہ

ادارہ

مغربی تہذیب کے بارے میں ہمارے ہاں عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ہر شے خراب ہے اور اس میں گندگی ہی گندگی ہے۔ اس کا صحیح تجزیہ (Analysis) وہ ہے جو علامہ اقبالؒ نے کیا ہے۔ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ اس تہذیب کا Inner core خالص قرآنی ہے۔ اس تہذیب کا آغاز اسلام کے عطا کردہ اصولوں پر ہوا۔ اسلام نے جو بنیادی اصول دیے تھے ان میں اولین اصول جسے اس تہذیب نے بنیاد بنایا، یہ ہے کہ اپنے موقف کی بنیاد توہمات پر نہ رکھو بلکہ علم پر رکھو۔

’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہیں۔ یقیناً آنکھ، کان اور دل ہی کی بازپرس ہونی ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل ۳۶)

اسی طرح استخراجی منطق (Deductive logic) کی تنگنائیوں میں بال کی کھال اتارتے رہنے کی بجائے کائنات کا وسیع تر مشاہدہ کرو۔

کھول آنکھ، زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

یقیناً آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کو ذرا دیکھ آنے میں، ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے، اور (اپنے اسی انتظام کی بدولت) زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، ان لوگوں کے لیے بے شمار نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ (البقرہ ۱۶۴)

گویا یہ وسیع تر صحیفۂ کائنات تمہارے سامنے ہے، اس میں آیاتِ الٰہی کا مشاہدہ کرو۔ اسے Induction (استقراء) کہتے ہیں۔ توہمات کی بیخ کنی اور Deduction (استخراج) کی بجائے Induction (استقراء) پر انسان کی سوچ کو استوار کرنا، یہ عالمِ انسانیت کے لیے اسلام کی دین ہے۔ اسی سے پھر سائنسی طریقہ کار کا آغاز ہوا۔ یعنی اشیاء کو دیکھ کر، مطالعہ کر کے نتیجہ نکالو۔ ان کے خواص (Properties) کیا ہیں، ان سے آپ کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، کیسے Exploit کر سکتے ہیں۔ یہ دنیا تمہارے لیے مسخر کی گئی ہے، ان میں سے کوئی شے دیوی یا دیوتا نہیں ہے، نہ سورج دیوتا ہے، نہ چاند دیوتا ہے، نہ جل دیوی ہے، نہ کوئی آگ دیوتا ہے، بلکہ یہ تمام چیزیں تو تمہارے لیے مسخر کی گئی ہیں، یہ تمہاری خدمت میں لگا دی گئی ہیں۔ اس بات کو سمجھو اور ان کا تجزیہ کرو۔ جو ان میں حقیقتیں مخفی ہیں ان کی تلاش کرو، جستجو کرو۔

پھر قرآن نے انسان کو یہ شعور دیا ہے کہ انسان پر انسان کی حاکمیت غلط ہے، بلکہ ان الحکم الا للہ ’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘‘۔ انسان کے لیے حاکمیت کا تصور نہیں ہے، اس لیے کہ تمام انسان پیدائشی اعتبار سے  مساوی ہیں۔ کوئی پیدائشی طور پر اونچا نہیں، کوئی نیچا نہیں، کوئی اعلیٰ نہیں، کوئی ادنیٰ نہیں، کوئی گھٹیا نہیں اور کوئی بڑھیا نہیں۔ یہ سارے تصورات درحقیقت اسلام نے دیے ہیں۔

پھر دورِ عباسی میں انہی تصورات کے نتیجے میں مسلمانوں نے یونان کی سائنس اور فلسفے کو ازسرنو زندہ کیا اور اس میں اضافے کیے۔ پھر مسلمانوں نے سائنسی عمل کا آغاز کیا اور بہت سی ایجادات کیں۔ پھر ہوا یہ کہ ہسپانیہ کی یونیورسٹیوں سے یہ علم یورپ کو منتقل ہوا۔ ہسپانیہ کے بالکل ساتھ تین سرحدی ملک ہیں۔ سب سے پہلے فرانس آتا ہے، پھر جرمنی ہے اور پھر نیچے اٹلی کی ٹانگ کی سی صورت بنتی ہے۔ یہ سمجھیے کہ سنٹرل روپ ہے، جہاں سے نوجوان ہسپانیہ کی یونیورسٹیوں میں یہ تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے- قرطبہ اور غرناطہ کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں وہ آ کر تعلیم حاصل کرتے تھے اور روشن خیالی لے کر جاتے تھے۔ اسی تعلیم اور روشن خیالی کے زیراثر یورپ میں احیاء العلوم (Renaissance) اور اصلاح مذہب (Reformation) کی تحریکیں چلیں۔ ان تحریکوں کا نقطۂ آغاز درحقیقت اسلام ہے، جس کو علامہ اقبالؒ قرآنی Inner core کہتے ہیں۔

البتہ دو عوامل ایسے تھے جن کے شدید ردعمل کے نتیجے میں انتہاپسندی پیدا ہو گئی۔ یورپ کے تاریک ادوار (Dark ages) میں وہاں دو طرح کا جبر تھا: ایک تو وہاں بادشاہوں کی حکومت تھی اور بادشاہوں کے حقوق کو خدائی حقوق (Divine rights) سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ یورپ اور کلیسا کا اختیار خدائی اختیار (Divine authority) مانا جاتا تھا۔ گناہوں کا معاف کرنا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔

’’اللہ کے سوا کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو؟‘‘ (آل عمران ۱۳۵)

لیکن یہ اختیار بھی پوپ کو حاصل تھا۔ وہ کوئی نذرانہ لیں گے اور لکھ کر دے دیں گے تو گناہ معاف ہو جائے گا۔ یہ پوپ کے پاس خدائی اختیار ہے۔ اسی طرح حلت و حرمت اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے، وہ طے کرتا ہے کہ حلال کیا ہے، حرام کیا ہے، لیکن

’’انہوں نے تو اپنے احبار و رہبان کو اللہ کے سوا رب بنا لیا‘‘ (التوبہ ۳۱)

بایں معنیٰ کہ جس شے کو وہ حرام کہہ دیں وہ ان کے ہاں حرام ہے اور جس شے کو وہ حلال کہہ دیں وہ ان کے نزدیک حلال ہے۔ حالانکہ تحلیل و تحریم تو اللہ کے اختیار میں ہے۔

یہ دو جبر تھے جس کے زیراثر واقعہ یہ ہے کہ پورا یورپ ایک عرصے سے تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اب اس تاریکی کے خلاف جب روشن خیالی آئی، جب علم پھیلا اور جدید نظریات نے انسانی شعور کو حیاتِ نو عطا کی، اور یہ نظریات جب ہسپانیہ سے ہو کر ان ممالک کے اندر پہنچے تو وہاں پر ایک شدید ردعمل پیدا ہو گیا اور مذہب اور پاپائیت کے خلاف بالعموم بغاوت پیدا ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ شہنشاہیت کے خلاف بھی نفرت کے جذبات پروان چڑھنے لگے۔ ظاہر بات ہے کہ جب ردعمل ہوتا ہے تو نیوٹن کے تیسرے قانونِ حرکت کی رو سے ہر عمل کا اس کے مساوی اور مخالف سمت میں ردعمل ہوتا ہے۔ چنانچہ وہاں جتنا جبر تھا اس کے خلاف اس کا ردعمل بھی اتنا ہی شدید تھا۔

اس ضمن میں یہ بات بہت اہم ہے، اس کو سمجھ لیجئے کہ ایک طرف تو عیسائی یورپ ردعمل کی طرف جا رہا تھا، دوسری طرف یہودیوں نے عیسائیوں کی پشت میں چھرا گھونپنے کے لیے ہسپانیہ کے ذریعے یورپ میں جو خیر جا رہا تھا اس میں شر کی آمیزش کر دی۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ مسلم ہسپانیہ میں یہودیوں کو بڑی مراعات حاصل تھیں اور اس دور کے بارے میں بن گوریان نے کہا ہے کہ

Muslims Span was the goldean era of our diaspora.

۷۰ء سے یہودیوں کا جلاوطنی اور انتشار کا دور شروع ہوا تھا کہ انہیں فلسطین سے نکال کر پوری دنیا میں منتشر کر دیا گیا تھا کہ جدھر تمہارے سینگ سمائیں چلے جاؤ۔ ان کا جو یہ Diaspora کا دور تھا یہ ۱۹۱۷ء میں بالفور ڈکلیریشن کے ذریعے ختم ہوا ہے۔ اس طرح اس انتشار کو تقریباً ۱۹۰۰ برس ہو گئے۔ اس کے بارے میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہودی عیسائیوں کے ہاتھوں شدید تشدد کا شکار تھے۔ یورپ کے عیسائیوں کی اکثریت ان سے شدید نفرت کرتی تھی۔ لہٰذا عیسائی انہیں بری طرح ستاتے تھے۔ انہیں پیٹتے تھے، ان پر تھوکتے تھے اور انہیں اپنے شہروں میں آنے نہیں دیتے تھے۔ اس شدید ظلم کے ردعمل میں یہودیوں نے مسلمان حملہ آور طارق بن زیاد کی مدد کی۔ اس پر مسلمانوں نے انہیں اپنا محسن سمجھتے ہوئے مسلم اسپین میں ان کی سرپرستی کی اور انہیں بہترین مراعات دیں اور انہوں نے وہاں بیٹھ کر عیسائیت کی پیٹھ میں چھرے گھونپے۔ وہ جو کسی نے بڑے خوبصورت الفاظ میں کہا ہے ’’کون سیاہی گھول رہا ہے وقت کے بہتے دریا میں‘‘۔ یہ جو علم، شعور اور آگہی کا دریا ہسپانیہ سے یورپ کی طرف رواں تھا ان یہودیوں نے اس میں سیاہی گھولنے کا کام بہت گہری سازش کے ساتھ کیا۔

چنانچہ آزادی کو انہوں نے مادر پدر آزادی بنا دیا کہ ہر شے کی آزادی اور ہر شے سے آزادی، حتیٰ کہ خدا اور مذہب سے بھی آزادی۔ چنانچہ اس آزادی نے ’’زندگی برائے زندگی‘‘ اور ’’بابر بہ عیش کوش کہ علام دوبارہ نیست‘‘ کی صورت اختیار کی۔ اسی طرح یہودیوں نے Protestants کے ذریعے سے سود کی اجازت حاصل کی اور بینک قائم کیے۔ ورنہ یورپ میں جب تک پوپ کا اختیار تھا تو بہت سی خرابیوں کے ساتھ ساتھ ایک بھلائی بھی تھی کہ سود کو حرام سمجھا جاتا تھا اور کسی بھی سطح پر سودی لین دین کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن ’’اصلاحِ مذہب‘‘ کی تحریک اور مذہبی بغاوت کے نتیجے میں جب پوپ کا اختیار ختم ہوا اور پروٹسٹنٹ مذہب فروغ پذیر ہوا تو تمام مذہبی پابندیوں کا خاتمہ ہو گیا۔ یہودیوں نے جس طرح حضرت عثمانؓ کے دور میں اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا، اسی طرح عیسائیت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اسے دولخت کر دیا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں ’’الفتنۃ الکبریٰ‘‘ یہودیوں ہی کا برپا کیا ہوا تھا۔ یہ عبد اللہ بن سبا یہودی کی سازش تھی اور آج تک اس زخم سے خون بہہ رہا ہے۔ اسلام میں شیعہ سنی تفرقے کا آغاز حقیقت میں اس وقت عبد اللہ بن سبا کے ذریعے سے ہی ہوا تھا۔ ایسے ہی یورپ میں یہودیوں نے عیسائیت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اسے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ میں تقسیم کر دیا۔ اور پروٹسٹنٹس کے ذریعے سے سود کی اجازت حاصل کر کے بینکنگ کا زبردست نظام قائم کر لیا۔ بینکنگ کے اس نظام پر علامہ اقبالؒ کے یہ دو شعر ملاحظہ ہوں ؎

ایں بنوک ایں فکر چالاک یہود
نور حق از سینہ آدم ربود
تا تہہ و بالا نہ گردد ایں نظام
دانش و تہذیب و دیں سودائے خام

یہ بینکنگ نظام کیا ہے؟ یہ یہودیوں کی چالاکی اور مکاری والے فکر کا مظہر ہے۔ ان بینکوں نے انسانوں کے سینوں سے نورِ حق یعنی روح ربانی (Divine spark) کو ختم کر دیا اور انسان کو بھیڑیا بنا کر رکھ دیا ہے۔ جب تک بینکوں کا یہ نظام تہہ و بالا نہیں ہوتا، اس کو بالکل نسیاً منسیاً نہیں کر دیا جاتا، دانش و تہذیب اور مذہب و اخلاق سب کہنے کی باتیں ہیں، یہ محض خام خیالی ہے۔ اس نظام کی موجودگی میں یہ چیزیں آ ہی نہیں سکتیں۔

پھر مساواتِ مرد و زن کا نظریہ دیا گیا کہ مرد اور عورت بالکل برابر ہیں۔ ان کے بالکل برابر کے حقوق ہیں اور انہیں کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہیے۔ جس نے آگے بڑھ کر مساواتِ نسواں (Feminism) کی تحریک کی صورت اختیار کی۔ جس سے واقعہ یہ ہے کہ عائلی نظام کا خاتمہ کر دیا کہ ان کا خاندانی نظام تباہ و برباد ہو گیا۔ اور بینکنگ کے نظام کے ذریعے ان کا معاشی استحصال کر کے ان کی گردن پر سوار ہو کر بیٹھ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبالؒ اس صدی کے آغاز میں یورپ جا کر یہ دیکھ آئے تھے کہ ؏

فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

یہ در حقیقت اس تہذیب کی انتہاپسندی کے دو اسباب ہیں۔ ورنہ اس کا آغاز اور اس کا Inner core خالص اسلامی تھا۔ اس کا آغاز مسلمانوں کے زیراثر ہسپانیہ کی یونیورسٹیوں سے ہوا ہے، اور اس تہذیب میں اگر کوئی خیر ہے تو وہ اسلام سے مستعار لیا گیا ہے۔ جیسے کہ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں ؎

ہر کجا بینی جہان رنگ و بو
آن کہ از خاکش بروید آرزو
یا زنور مصطفٰیؐ او را بہا است
یا ہنوز اندر تلاش مصطفٰیؐ است

یعنی اگر آج دنیا میں کوئی خیر موجود ہے تو وہ یا تو نورِ محمدیؐ سے مستعار لیا گیا ہے، یا یہ کہ ابھی انسان اس مقامِ محمدیؐ تک رسائی کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔


آراء و افکار

(نومبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter