مسلمانوں کی مرکزیت نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں ان کی حالت بہت کمزور ہے۔ ایک امید پیدا ہوئی تھی کہ پاکستان پوری دنیا کے لیے مرکز اسلام بن جاتا، مگر افسوس کہ اب تک مسند اقتدار پر آنے والے سربراہان میں سے کسی نے بھی اس کام کو اولیت نہیں دی۔ اسلام کا نام تو ہر آنے والے نے لیا، کیونکہ پاکستان کے پچانوے فی صد باشندے نسلی طور پر مسلمان ہیں اور اسلام کے دعویدار ہیں۔ تقسیم ملک کی وجہ سے مسلمان اس خطہ میں اکٹھے بھی ہو گئے ہیں۔ چنانچہ حکمران اسلام کا نام لینے پر اس لیے مجبور ہیں کہ عوام کی غالب اکثریت اسلام کے خلاف ایک لفظ تک سننا گوارا نہیں کرتی۔ مگر حاکمان وقت نے نفاذ اسلام کی ذمہ داری آج تک پوری نہیں کی۔ اب ہمارے افکار بھی مستعار ہیں، سیاست مغلوب ہے۔ کوئی اشتراکیت جیسے لعنتی نظام سے متاثر ہے اور کوئی امریکی اور برطانوی سرمایہ داری نظام کا گرویدہ ہے۔ یہ نظام بھی ملعون ہے کیونکہ اس نظام میں صرف دولت اکٹھی کی جاتی ہے، نہ تو ذرائع آمدنی کی حلت و حرمت کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ اخراجات پر کوئی پابندی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم انڈسٹری، کھیلوں کے فروغ اور عمارات کی تعمیر پر بے دریغ روپیہ صرف کیا جاتا ہے۔ فرعون نے بڑے بڑے مینار تعمیر کر کے سرمایہ داری کا اظہار کیا تھا اور آج ہم بڑے بڑے سیکریٹریٹ، قصر صدارت اور اسمبلی ہالوں پر کروڑوں روپے خرچ کر کے عوام کی غربت کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ اس نظام کو تو اللہ نے اپنے آخری نبیﷺ کے ذریعے ختم کیا تھا، مگر آج وہی نظام سرمایہ داری پھر عود کر آیا ہے۔
نزول قرآن کے زمانے میں دو بنیادی نظام ہائے معیشت رائج تھے۔ اس وقت قیصر و کسریٰ کی دو سپر طاقتوں میں سے کسریٰ ایشیا اور یورپ کے کچھ حصے پر مسلط تھا جب کہ قیصر کی ماتحتی میں یورپ کا اکثر حصہ اور مشرق وسطی کے علاقے تھے۔ اس زمانے میں نظام معیشت بھی دو طرح کے تھے۔ ایک امریکہ اور برطانیہ جیسا نظام سرمایہ داری تھا، جس کے ذریعے ہر جائز اور ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کر کے اسے من مانے طریقے پر خرچ کیا جاتا تھا۔ دوسری طرف اشتراکیت کا نظام تھا، جس میں خدا کا سرے سے انکار ہی کر دیا گیا تھا۔ آج بھی دین کا تمسخر اڑایا جاتا ہے اور اسے افیون سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس نظام میں شخصی ملکیت کو ختم کر کے تمام ذرائع پیداوار حکومت کی تحویل میں لے لیے جاتے ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت میں یہ بات تھی کہ ان دو نظاموں کو نبی عربیﷺ کے ذریعے ختم کر دیا جائے۔
شاہ صاحبؒ کی اصطلاح میں اباحیت یعنی حلال و حرام کا امتیاز دونوں نظاموں میں نہیں ہے۔ یہ صرف اسلامی نظام معیشت ہے جو حلال و حرام کی تمیز سکھاتا ہے، خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا صحیح تصور پیش کرتا ہے، انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کو واضح کرتا ہے۔ اشتراکیت کے برخلاف اسلام نے ذاتی ملکیت کو ختم نہیں کیا، کیونکہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ اسلام نے حق ملکیت کو تسلیم کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تفاوت درجات کو بھی مانا ہے۔ اسلام میں کسی مسلمان یا غیر مسلم کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ اسلام کا یہ زریں اصول ہے کہ ہر شخص کو مکان، لباس، خوراک، صحت اور تعلیم کے بنیادی سہولتیں ملنی چاہئیں۔ مگر یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب مسلمانوں کو دنیا میں کہیں اجتماعیت حاصل ہو۔ جب مسلمانوں کو اپنے وسائل پر مکمل کنٹرول نہ ہو اور انہیں استعمال کرنے کی استعداد نہ ہو، اسلامی فلاحی نظام کیسے قائم کیا جا سکتا ہے؟
آج تو حالت یہ ہے کہ ہمارے تمام ترقیاتی پروگرام بیرونی ماہرین تیار کرتے ہیں۔ کہیں کھیل تماشے کی ترقی کے لیے سکیمیں بن رہی ہیں تو کہیں فلم انڈسٹری کو ترقی دی جا رہی ہے۔ سیر و سیاحت کی وزارتیں بنتی ہیں اور پھر ان پر کروڑوں روپے کے پلان غیر ملکی ماہرین تیار کرتے ہیں۔ اس انحطاط کی وجہ یہ ہے کہ عرب و عجم میں کہیں بھی مسلمانوں کو مرکزیت حاصل نہیں۔ برسر اقتدار لوگوں کو اپنے اقتدار کی فکر رہتی ہے کہ وہ قائم رہنا چاہیے، نام نہاد جمہوریت کے نام پر ہو یا مارشل لاء کے ذریعے سے، اسلام کا نام لینے سے اقتدار ملتا ہو یا سوشلزم کا پرچار کرنے سے۔ اسلام بہرحال ایسے تمام باطل نظاموں کے خلاف ہے۔