انسان کے پیدائش سے موت تک کے عرصہ کا احاطہ اطباء عظام نے چھ امور تک محدود کیا ہے، یعنی اگر زندگی میں ان چھ امور کو مدنظر رکھا جائے تو زندگی کے لمحات خوشگوار گزرتے جائیں گے، بصورت دیگر ان میں سے ایک بھی حد اعتدال سے کم و بیش ہو تو مرض کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے۔ طبی اصطلاح میں ستہ ضروریہ کے نام سے پکارا اور پڑھا جاتا ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں: (۱) ہوا (۲) ماکول و مشروب (کھانا پینا)۔ (۳) حرکت و سکون بدنی (۴) حرکت و سکون نفسانی (۵) نیند و بیداری (۶) استفراغ و احتباس۔
- ان میں پہلا درجہ ہوا کا ہے جو ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ روح کی تعدیل کے لیے تازہ ہوا کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے جو ہم سانس لے کر پوری کرتے ہیں۔ اطباء نے اسے رُوح کی غذا کہا ہے۔ جید ہوا وہ ہے جو صحت کی محافظ ہو۔ اگر آس پاس گندے پانی کے جوہڑ اور مردہ جانور، گلی سڑی ترکاریوں کے کھیت وغیرہ ہوں تو اس علاقہ کی ہوا ناقص صحت ہوگی۔
- ماکول و مشروب میں سر فہرست تازہ پانی ہی سے مراد ہے کیونکہ غذا کو رقیق اور سیال بناتا ہے۔ ۲۔ غذا کو پکانے اور تغیر پیدا کرنے کے لیے۔ ۳۔ بدنی حرارت کی حدت اور سوزش کو دور کرنے کے لیے۔ ۴۔ اعضاء کو تر رکھنے کے لیے۔ ۵۔ غذا کو اس قابل بنانے کے لیے کہ وہ باریک رگوں میں نفوذ کرنے کے قابل ہو جائے۔ (جس کی تشریح حسب مواقع ہو گی۔)
- حرکت و سکون بدنی: اس میں اعضاء حرکت کرتے ہیں۔ کبھی حرکت شدید، کبھی قلیل اور کمزور۔ اس حرکت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بدن کے مواد تحلیل ہو کر بذریعہ پسینہ و بول و براز خارج ہوتے رہیں۔ سکون غذا کے ہضم میں مدد کرتا ہے مگر زیادہ سکون سے رطوبات بدن میں جمع نہ ہونے پائیں۔
- غصہ، خوشی، لذت، ڈر، غم، شرمندگی کو حرکات نفسانی کہتے ہیں کیونکہ یہ حالتیں نفس میں پیدا ہوتی ہیں۔
- نیند و بیداری۔ یہ دونوں فعل زندگی کے قیام و بقا کے لیے ضروری ہیں۔ زندگی کے مشاغل کے لیے اگر بیداری ضروری ہے تو پھر آرام و راحت کے لیے نیند اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ نیند نہ کرنے سے قویٰ کمزور ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ موت ہے۔ نیند کو سکون اور بیداری کو حرکت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ نیند میں تمام اعضاء ساکن ہو کر روح اندر کی طرف چلی جاتی ہے جس سے ہضم کا فعل اچھا ہو جاتا ہے۔ مگر بیداری میں روح باہر کی طرف رہنے سے تمام اعضاء میں حرکت جاری رہتی ہے یا انسان حرکت کرنے کے قابل ہوتا رہتا ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ دن کا سونا بُرا ہے۔ اس سے بدن کی رنگت خراب ہوتی ہے، تلی کو نقصان پہنچتا ہے، منہ میں گندگی پیدا ہوتی ہے، دماضی قوتوں کو کمزور اور بدن کو سست کرتا ہے، مگر قیلولہ کرنا ضروری ہے۔
- استفراغ سے مراد بدن سے مواد کا خارج کرنا یعنی پیشاب، پاخانہ، قے، پسینہ وغیرہ۔ مواد کو روکنا احتباس کہلاتا ہے۔ ان دونوں کا اوسط درجہ پر ہونا ہی صحت کی علامت ہے۔ استفراغ کی زیادتی سے بدن میں خشکی اور ٹھنڈک پیدا ہوتی ہے اور احتباس سے سدے اور اخلاط میں عفونت اور گرانی پیدا ہوتی ہے۔