خصائصِ نبوت

خصائصِ نبوت سے مراد وہ امتیازی خصوصیات ہیں جو اللہ رب العزت نے ختم الرسل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور خاص مرحمت فرمائی ہیں۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو آپ کو سابقہ انبیاءؑ سے ممیز کرتی ہیں اور بعض وہ جو آپ کو امت مسلمہ سے ممتاز کرتی ہیں۔ مختلف احادیث صحیحہ میں ان کا ذکر موجود ہے۔ ہم اجمالاً ان کو بیان کرتے ہیں:

★صحیحین میں ایک روایت حضرت انسؓ سے مروی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”اقیموا صفوفکم و تراصوا فانی ارکم من وراء ظهری“
”اپنی صفوں کو سیدھا کرو اور قریب ہو کر کھڑے ہوا کرو۔ بے شک میں تم کو اپنی پشت کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔“

★ بخاری ومسلم میں ایک اور روایت بھی حضرت انسؓ سے مروی ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”رکوع اور سجود کو قائم کرو، یعنی صحیح ادا کرو۔ پس اللہ کی قسم ہے میں تم کو اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔“

★ ایک روایت میں آنحضرت ﷺ نے تواصل (مسلسل نفلی روزے بغیر افطاری کے رکھنا) سے منع فرمایا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ خود تو ایسے مسلسل روزے رکھتے ہیں تو ارشاد فرمایا:

”ایکم مثلی ابیت عند ربی ھو یطعمنی و یسقین“
”تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہے؟ میں اپنی راتوں کو اپنے رب کے پاس گزارتا ہوں۔ وہ مجھے کھلاتے بھی ہیں اور پلاتے بھی۔“

★ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پانچ فضیلتیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں:

(۱) ایک ماہ کی مسافت سے رعب کے ساتھ مدد کیا گیا ہوں۔

(۲) میرے لیے ساری زمین مسجد اور پاکیزہ بنادی گئی ہے۔ میری امت میں سے جس پر نماز کا وقت آجائے وہ نماز پڑھ لے۔

(۳) میرے لیے غنائم (مال غنیمت) حلال کر دی گئیں، مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوئی۔

(۴) مجھے حقِ شفاعت عطا کیا گیا ہے۔

(۵) پہلے نبی کسی خاص ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے اور میں سب لوگوں کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔

(۶) مسلم کی ایک روایت میں جوامع الکلم کا ذکر بھی موجود ہے، یعنی اللہ رب العزت نے مجھے مختصر مگر جامع بات کہنے کی استعداد نصیب فرمائی ہے۔

★ ترمذی اور دارمی میں ایک روایت ابن عباسؓ سے مروی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”خبردار! میں اللہ کا حبیب ہوں، فخر سے نہیں کہتا۔ قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور فخر سے نہیں۔ آدمؑ اور دوسرے نبیؑ اس کے نیچے ہوں گے اور میں پہلا سفارش کرنے والا ہوں اور پہلا ہوں جس کی سفارش قبول کی گئی ہے اور فخر سے نہیں کہتا۔ اور میں پہلا ہوں جو جنت کے حلقے ہلاؤں گا، میرے لیے وہ کھولے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس میں داخل فرمائیں گے۔ میرے ساتھ فقراء مومن ہوں گے، میں فخر سے نہیں کہتا۔ میں اگلوں اور پچھلوں سے اللہ کے نزدیک معزز ترین ہوں، فخر سے نہیں کہتا۔“

★ بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں ہے جس کے راوی حضرت ابو ہریرہؓ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”نبیوں میں سے کوئی نبی ایسا نہیں مگر اس کو اسی قدر معجزات عطا کیے گئے ہیں جس قدر لوگ اس پر ایمان لائے ہیں۔ میں جو دیا گیا ہوں وہ وحی ہے جو اللہ تعالیٰ نے میری طرف کی ہے۔ میں امیدوار کرتا ہوں کہ قیامت کے دن سب نبیوں سے زیادہ میرے تابعدار ہوں گے۔“

★ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

”میری اور انبیاء کی مثال اس طرح سمجھو کہ ایک محل ہے، جس کی تعمیر نہایت عمدہ ہے۔ ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی ہے۔ دیکھنے والے اس کے گرد گھومتے ہیں۔ اس کی عمدہ تعمیر سے متعجب ہوتے ہیں۔ مگر اس ایک اینٹ کی جگہ کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ میں نے اس اینٹ کی جگہ پُر کر دی ہے۔ میرے ساتھ عمارت مکمل کر دی گئی ہے اور میرے ساتھ رسول ختم کر دیے گئے ہیں۔“ ایک روایت میں ہے کہ وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔“

★ اللہ رب العزت اپنے خاص لطف وکرم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت کا سب سے اعلیٰ مقام یعنی مقام محمود عطا فرما دیں گے۔ یہ بات بھی خصائصِ نبوت میں سے ہے۔ اس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی ہے:

”ومن اللیل فتھجد بہ نافلۃ لک عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا“

اذان کے بعد دعا میں بھی اللہ رب العزت کے اس وعدے کا ذکر موجود ہے۔ ”وابعثہ مقاما محمود ن الذی وعدتہ“ یعنی اے اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کو وہ مقام محمود عطا فرما جس کا آپ نے ان سے وعدہ کیا ہے۔

★ ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

”جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، اس لیے کہ جمعہ کا دن … کیا گیا ہے۔ اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو شخص بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ اس سے فارغ ہوتا ہے۔“ ابو درداءؓ کہتے ہیں کہ میں نے سوال کیا کہ کیا فوت ہونے کے بعد بھی آپ پر درود پیش کیا جاتا ہے؟ فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پرحرام کیا ہے کہ وہ انبیاءؑ کے اجسام کو کھائے۔ اللہ کے نبی زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے۔“

★ آپﷺ کا یہ فرمان بھی خصائص نبوت میں سے ہے:

”نحن الاٰخرون من اھل الدنیا والاولون یوم القیامۃ“
”یعنی ہم اہل دنیا میں سے آخری اور قیامت کے دن اول ہوں گے۔“

★ واقعۂ معراج بھی خصائصِ نبوت میں سے ہے۔ رات کے مختصر سے حصے میں مکہ سے مدینہ، مدینہ سے طور سینا اور طور سینا سے بیت اللحم جملہ انبیاء علیہم السلام کی جماعت، پھر سیڑھی کے ذریعہ آسمانوں کی طرف روانگی، آسمان اول مشاہدات کا مرکز بنا، برزخی زندگی کی کیفیات اور جہنم کا مشاہدہ، آدمؑ سے ملاقات، اسی طرح مختلف آسمانوں پر مختلف انبیاءؑ سے ملاقاتیں، ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات اور جنت کا مشاہدہ اور بیت المعمور پر فرشتوں کے طواف اور عبادت کا منظر، دیدارِ الٰہی، پھر شرف ہم کلامی، نمازوں کا تحفہ اور واپسی اور واقعات کی تصدیق بزبان ابو بکرؓ وغیرہ۔

★ حوض کوثر کا بیان بھی خصائص نبوت میں سے ہے۔ بخاری شریف میں ہے، حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ: 

”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک مرتبہ میں جنت سے گزرا۔ اچانک میرا گزر ایک نہر پر ہوا، جس کے کنارے اندر سے خالی موتیوں سے بنے ہوئے تھے۔ میں نے کہا: اے جبرائیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ حوض کوثر ہے، جو آپ کے رب نے آپ کو عطا کیا ہے۔ اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبو دار ہے۔“

ایک اور روایت میں ہے، فرمایا: 

”میرا حوض ایک مہینہ کی سیر کی مسافت ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے۔ اس کی خوشبو مشک سے زیادہ ہے۔ اس کے آبخورے آسمان کے ستاروں کی مانند ہیں۔ اس میں سے جو ایک مرتبہ پیے گا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔“

ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: ”اے اللہ کے رسول! اس روز آپ ہم کو پہچان لیں گے؟“ فرمایا: ”ہاں، تمہاری ایسی علامت ہوگی جو کسی امت کی نہیں ہو گی۔ تم میرے پاس سفید پیشانی اور سفید ہاتھ لے کر آؤ گے جو وضو کی نورانیت کے سبب ہوگا۔“

★ بخاری اور مسلم کی ایک طویل حدیث جو باب الشفاعۃ سے متعلق ہے، اس کے ابتدائی حصے کا تعلق بھی خصائص نبوت سے ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ 

”دوزخ کے درمیان پل صراط قائم کر دی جائے گی۔ رسولوں میں سے سب سے پہلے میں اپنی امت کو لے کر پل صراط کو عبور کروں گا۔“

حدیث مبارکہ میں ہے کہ قیامت کے دن ہر نبی کی زبان پر ”اللہم سلم سلم“ کے الفاظ ہوں گے، جبکہ آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک پر ”یا رب امتی امتی“ کے الفاظ ہوں گے۔

★ قرآن حکیم کی وہ آیت بھی خصائص نبوت میں ہے جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ ہم نے تمام سابقہ انبیاء سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ اگر تم میں سے کسی کی زندگی میں میرے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰﷺ تشریف لے آئیں تو تمہیں ان کی تصدیق کرنی ہوگی، ان پر ایمان لانا ہوگا اور ان کی مدد کرنی ہوگی۔

سیرت و تاریخ

(الشریعہ — دسمبر ۱۹۹۱ء)

الشریعہ — دسمبر ۱۹۹۱ء

جلد ۳ ۔ شمارہ ۱۲

برسرِ عام پھانسی اور سپریم کورٹ آف پاکستان
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قرآن و سنت کے دو محافظ طبقے: فقہاء اور محدثین
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

مرکزیت، عالم سلام کی بنیادی ضرورت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتی

امام ولی الله دہلوىؒ
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

خصائصِ نبوت
پروفیسر عبد الرحیم ریحانی

ملک کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ اور نفاذِ شریعت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پروفیسر یوسف جلیل کی دنیائے نحو و منطق
مولانا رشید احمد

ربوٰا کی تمام صورتیں حرام ہیں: وفاقی شرعی عدالت کا ایک اہم فیصلہ
روزنامہ جنگ

رسول اکرمﷺ کی تعلیمات
شری راج گوپال اچاریہ

آپ نے پوچھا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آؤ طب پڑھیں
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اقتباسات
ادارہ

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter