آپ نے پوچھا

بغداد کا مدرسہ نظامیہ کب قائم ہوا؟

سوال: بغداد کا مدرسہ نظامیہ کا ذکر تاریخ میں آتا ہے۔ یہ کب قائم ہوا اور کس نے قائم کیا؟ (عبد الرحمٰن راولپنڈی)

جواب: نظام الملک طوسیؒ سلجوقی حکومت کا وزیر تھا۔ اس نے بغداد میں مدرسہ نظامیہ قائم کیا، جس کی تعمیر کا آغاز ذی قعدہ ۴۵۷ ء میں ہوا اور دو سال میں مدرسہ مکمل ہوا ۔ طوسیؒ نے اس مدرسہ کے اخراجات کے لیے چھ لاکھ دینار اور اپنی جاگیروں کا دسواں حصہ وقف کیا تھا۔ اس مدرسہ سے ہزاروں علماء نے فیض حاصل کیا، جن میں امام غزالیؒ، امام راغب اصفہانیؒ، علامہ زمحشریؒ اور علامہ شہرستانیؒ  جیسے سرکردہ بزرگ بھی شامل ہیں۔ شیخ سعدیؒ بھی اسی مدرسہ کے طالب علم رہے ہیں۔ کم و بیش چار سو سال تک اس ادارہ نے مسلمانوں کی دینی و علمی خدمات سر انجام دیں، پھر زمانہ کے حادثات کی نذر ہو گیا۔

نکاح نامے میں عورت کے لیے طلاق کا حق

سوال: اسلام میں طلاق کا حکم مرد کو ہے، لیکن اگر عورت نکاح کے وقت نکاح نامہ میں اپنے لیے طلاق کا حق لکھوا  لے تو کیا اسے طلاق کا حق حاصل ہو جائے گا؟ (محمد زاہد گوجرانوالہ)

جواب: ہاں، اگر نکاح نامے میں خاوند عورت کو طلاق کا حق تفویض کر دے تو عورت کو بھی طلاق کا حق حاصل ہو جائے گا اور آج کل نکاح ناموں میں تفویض طلاق کی شقیں اسی پس منظر میں ہیں۔

ملا جیونؒ کون بزرگ تھے؟

سوال: پرانے علماء میں ملا جیونؒ کا نام بھی سننے میں آتا ہے۔ یہ کون بزرگ تھے؟ (محمد طاہر  گوجرانوالہ)

جواب: ملا جیونؒ برصغیر کے نامور علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا نام احمد تھا، لکھنؤ کے قریب امیٹھی نامی قصبہ میں ۲۵  شعبان ۱۰۲۷ ء میں پیدا ہوئے۔ سات سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا اور پھر علوم متداولہ کی تکمیل کر کے ساری زندگی درس و تدریس میں گزار دی۔ اورنگ زیب عالمگیرؒ کے استاذ تھے اور فتاویٰ عالمگیری مرتب کرنے والے علماء میں شامل تھے۔ اصولِ فقہ پر ان کی مایہ ناز تصنیف ”نور الانوار“ درس نظامی کے نصاب میں شامل ہے۔ قرآن کریم کی احکام والی آیات کی بھی تفسیر لکھی ہے جو ”تفسیرات احمدیہ“ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ ان کی وفات کا قصہ بھی عجیب ہے۔ وفات سے پہلی رات خواب میں دیکھا کہ آسمان سے ایک ستارہ ٹوٹ کر گر گیا ہے۔ صبح اٹھے تو فرمایا کہ آج کوئی بڑا عالم و فاضل اس جہان سے رخصت ہونے والا ہے۔ اسی روز آپ کا انتقال ہو گیا۔ ان کی تاریخ وفات ۸ ذی قعده ۱۱۳۰ھ ہے۔

کسی شخص کو شرعی مصلحت کی بناء پر جماعت سے روکنا

سوال: اگر کسی شخص کے مسجد میں آ کر  جماعت میں شامل ہونے سے خرابی کا اندیشہ ہو تو کیا اسے نماز میں آنے سے روکا جا سکتا ہے؟ (محمد نوید یونس گلیانہ ضلع گجرات)

جواب: فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ، ج۱، ص۱۱۵ میں حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن صاحبؒ لکھتے ہیں کہ

”جو کہ حفظِ امن میں خلل انداز ہو اور باعثِ شر و فساد ہو اور عام نمازیوں کو تکلیف دہ اور ایذا رساں ہو اور اس کا فعل موجب اشتغال طبع ہو، اس کو جماعت سے روکنا قانون شرع کے مطابق ہے ۔ حدیثیں اور آثار اور اقوالِ فقہاء اس پر صاف دال ہیں۔“


سوال و جواب

(الشریعہ — دسمبر ۱۹۹۱ء)

الشریعہ — دسمبر ۱۹۹۱ء

جلد ۳ ۔ شمارہ ۱۲

برسرِ عام پھانسی اور سپریم کورٹ آف پاکستان
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قرآن و سنت کے دو محافظ طبقے: فقہاء اور محدثین
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

مرکزیت، عالم سلام کی بنیادی ضرورت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتی

امام ولی الله دہلوىؒ
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

خصائصِ نبوت
پروفیسر عبد الرحیم ریحانی

ملک کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ اور نفاذِ شریعت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پروفیسر یوسف جلیل کی دنیائے نحو و منطق
مولانا رشید احمد

ربوٰا کی تمام صورتیں حرام ہیں: وفاقی شرعی عدالت کا ایک اہم فیصلہ
روزنامہ جنگ

رسول اکرمﷺ کی تعلیمات
شری راج گوپال اچاریہ

آپ نے پوچھا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آؤ طب پڑھیں
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اقتباسات
ادارہ

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter