ربوٰا کی تمام صورتیں حرام ہیں: وفاقی شرعی عدالت کا ایک اہم فیصلہ

وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس جناب جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن، جناب جسٹس ڈاکٹر علامہ فدا محمد خان اور جناب جسٹس عبید اللہ خان پر مشتمل فل بنچ نے جمعرات کے روز سود سے متعلق ۲۲ قانونی دفعات کو قرآن و سنت کے خلاف اور کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سنا دیا۔ وفاقی شرعی عدالت کے پریس ریلیز کے مطابق اس فیصلے کے ذریعے ۱۱۹ شریعت درخواستوں تین سود موٹو نوٹسوں کو نمٹا دیا گیا۔ عدالت نے ان دفعات کو ۳۰ جون ۱۹۹۲ء تک اسلامی احکام کے مطابق بنانے کی ہدایت جاری کر دی۔ بصورت دیگر یہ دفعات یکم جولائی ۱۹۹۲ء سے موثر نہیں رہیں گی۔ یہ دفعات حسب ذیل قوانین کی ہیں۔

 ۱۔ انٹریسٹ ایکٹ مجریہ ۱۸۳۹ء 

۲۔ گورنمنٹ سیونگ بنکس ۱۸۷۳ء

۳۔ نیگوشی ایبل انسٹرومنٹس ایکٹ ۱۸۸۱ء (قانون دستاویزات قابل بیع و شراع مجریہ ۱۸۸۱ء)

 ۴۔ لینڈ ریکوزیشن ایکٹ ۱۸۹۴ ء  

۵۔ دی کوڈ آف سول پروسیجر ۱۹۰۸ء (مجموعہ ضابطہ دیوانی مجریہ ۱۹۰۸ء)

۶۔ کو آپریٹو سوسائٹی رولز ۱۹۲۷ء

۷۔ کو آپریٹو سوسائٹی رولز ۱۹۲۷ء

 ۸۔ انشورنس ایکٹ ۱۹۳۸ء

۹۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ ۰۱۹۵۶ء

 ۱۰۔ ویسٹ پاکستان منی لینڈر آرڈی ننس ۱۹۶۰ء

۱۱۔ ویسٹ پاکستان منی لینڈرز رولز ۱۹۶۵ء

 ۱۲۔ پنجاب منی لینڈرز آرڈی ننس ۱۹۶۰ء

۱۳۔ سندھ منی لینڈرز آرڈی ننس ۱۹۶۰ء

 ۱۴۔ صوبہ سرحد منی لینڈرز آرڈی ننس ۱۱۹۶۰ء

۱۵۔ بلوچستان منی لینڈرز آرڈی ننس ۱۹۶۰ء

۱۶۔ ایگریکلچرل ڈلپمینٹ بینک آف پاکستان رو لز ۱۹۶۱ء (زرعی ترقیاتی بینک پاکستان قواعد مجریہ ۱۹۶۱ء)

۱۷۔ بینکنگ کمپنیز آرڈی ننس ۱۹۶۲ء

۱۸۔ بینکنگ کمپنیز رولز ۱۹۶۳ء

۱۹۔ بنکس (نیشنلائزیش) ( پے منٹ ان کمپنسیشنز) رولز ۱۹۷۴ء

۲۰۔ بینکنگ کمپنیز (ریکوری آف لونز) آرڈی ننس ۱۹۷۹ء

 ۲۱۔ پاکستان انشورنس کارپوریشن ایمپلائیز اویڈنٹ فنڈ ریگولیشن ۱۹۵۴ء

 ۲۲۔ جنرل فنانشل رولز آف دی سنٹرل گورنمنٹ مع ڈرائنگ اینڈ ڈسبرسنگ آفیسرز بک۔

شریعت درخواستوں کو نمٹانے کی غرض سے وفاقی شرعی عدالت نے ربوٰا کی تعریف، بینکوں کے نظام، افراط زر اور کرنسی کی قیمت میں کمی سے متعلق ایک سوالنامہ مرتب کیا اور اسے ملکی اورغیر ملکی ممتاز علماء کرام، اہل علم، ماہرین معاشیات اور بینک کاروں کو بھیجا گیا، تاکہ ان سوالات کے بارے میں ان کی آراء معلوم کی جا سکیں۔ عدالت کی جانب سے کی جانے والی درخواست پر متعدد اہل علم، ماہرین معاشیات، بینکاروں اور علماء نے عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کیے۔ عدالت نے تمام پہلوؤں اور فاضل وکیل کی جانب سے اٹھائے جانے والے نکات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچی کہ بینک کا سود ربوٰا کے دائرے میں آتا ہے اور ربوٰا اپنی تمام صورتوں میں قطعاً حرام ہے، خواہ قرض پیداواری مقاصد کے لیے لیا گیا ہو یا صرفی مقصد کے لیے۔ قرآن کریم اور سنت کی تصریحات کے علاوہ مدت کے بالمقابل قرض میں منافع کے ربوٰا ہونے پر تمام امت کا اجماع ہے۔ اسلامی فقہ اکیڈیمی جو اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے تحت ۱۹۸۳ء میں قائم ہوئی، اس نے ۱۹۸۵ء میں جدہ میں منعقد ہونے والے اپنے دوسرے اجلاس میں، جس میں تمام ممبر ممالک کی نمائندگی موجود تھی، فیصلہ دیا کہ بینک کا سود ربوٰا ہے جو قرآن کریم میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی آیات حرمتِ ربوٰا کے بارے میں بالکل واضح اور قطعی ہیں اور ان میں سود مفرد اور سود مرکب کا کوئی فرق نہیں ہے۔ رسول کریمﷺ سود کے راستوں کو بند کرنے اور تبادلہ اشیاء میں رونما ہونے والی ناہمواریوں کو ختم کرنے کے بارے میں بہت فکر مند تھے۔ اس موضوع پر بہت سی احادیث موجود ہیں اور رسول کریمﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں اسلامی احکام کو بعینہٖ نافذ فرمایا۔

عدالت نے متشابہات کے اصل مفہوم کا جائزہ لیا اور وفاق اور صوبوں کی جانب سے پیش کی جانے والی اس دلیل پر غور کیا کہ ربوٰا متشابہات کے دائرے میں داخل ہے اور عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ دلیل غلط اور غیر صحیح ہے۔ مسئلہ کی تطبیق جس کے بارے میں کہا گیا کہ نہضالا علماء کانفرنس مشرقی جاوا، انڈونیشیا نے اسے اختیار کیا ہے، قرآن و سنت میں موجود اسلامی احکام کے مطابق نہیں ہے۔ عدالت نے شریعت ایکٹ کے تحت قائم ہونے والے کمیشن کی ربوٰا سے متعلق سفارشات کے انتظار کو مناسب خیال نہیں کیا، کیونکہ یہ مسئلہ کافی عرصے سے حل طلب چلا آ رہا ہے، اس لیے عدالت نے ان درخواستوں کا فیصلہ کرنا اپنا فریضہ محسوس کیا۔

عدالت کا فیصلہ جناب چیف جسٹس نے تحریر کیا اور تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ فیصلے میں فاضل وکیل برائے وفاقی حکومت اور دیگر مدعا علیہان کے دلائل اور ان کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریری آراء کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور صرفی اور تجارتی مقاصد کے لیے دیے جانے والے قرضوں، انڈیکسیشن، افراط زر، کرنسی کی قیمت میں کمی اور مسئلہ سے متعلق دیگر پہلوؤں پر مفصل گفتگو کی گئی۔ نفع نقصان کی شراکت کے بارے میں اسلامی احکام بالکل واضح ہیں اور مضاربہ اور مشارکہ کے ضمن میں جو اصول بیان کیے گئے ہیں ان پر عمل کیا جانا چاہیے۔ فیصلے میں غیر سودی بینکاری سے متعلق متبادل تجاویز پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ یہ بھی واضح کر دینا ضروری ہے کہ معاملے کی اہمیت اور سود کے مسئلے کے بہت دور رس اثرات کے مدنظر عدالت نے ماہرین معاشیات اور ماہرین بینکاری سے مدد حاصل کی اور مسئلے کا بڑی تفصیل سے اسلامی احکام کی روشنی میں جائزہ لیا۔ 

(بشکریہ ”جنگ“ راولپنڈی ۵ا نومبر ۱۹۹۱ء)



اخبار و آثار

(الشریعہ — دسمبر ۱۹۹۱ء)

الشریعہ — دسمبر ۱۹۹۱ء

جلد ۳ ۔ شمارہ ۱۲

برسرِ عام پھانسی اور سپریم کورٹ آف پاکستان
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قرآن و سنت کے دو محافظ طبقے: فقہاء اور محدثین
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

مرکزیت، عالم سلام کی بنیادی ضرورت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتی

امام ولی الله دہلوىؒ
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

خصائصِ نبوت
پروفیسر عبد الرحیم ریحانی

ملک کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ اور نفاذِ شریعت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پروفیسر یوسف جلیل کی دنیائے نحو و منطق
مولانا رشید احمد

ربوٰا کی تمام صورتیں حرام ہیں: وفاقی شرعی عدالت کا ایک اہم فیصلہ
روزنامہ جنگ

رسول اکرمﷺ کی تعلیمات
شری راج گوپال اچاریہ

آپ نے پوچھا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آؤ طب پڑھیں
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اقتباسات
ادارہ

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter