امام ولی الله دہلوىؒ

نام و نسب

امام ولی اللہ محدث دہلویؒ کا نام قطب الدین احمد ہے جو کہ ولی اللہ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کی کنیت ابو محمد اور ابو الفیاض ہے۔ ولی اللہ نام آپ کو والد محترم کی طرف سے ملا۔ آپ کا تاریخی نام عظیم الدین ہے اور آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے جیسا کہ شاہ صاحبؒ خود فرماتے ہیں:

”سلسلہ نسب ایں فقیر بامیر المومنین عمرؓ بن الخطاب می رسد“ (امداد فی مآثر الاجداد)

شاہ صاحبؒ کا سلسلہ نسب والد کی طرف سے تیس واسطوں سے امیر المومنین حضرت فاروقؓ تک اور والد کی طرف سے سلسلہ نسب امام موسیٰ کاظمؒ تک پہنچتا ہے۔ تو اس لحاظ سے آپ عربی النسل اور فاروقی النسب ہیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے: احمد بن عبد الرحیم بن وجیہ الدین شہید بن معظم بن منصور دہلوی الخ

ولادت

شاہ صاحبؒ کی ولادت اورنگ زیب عالمگیرؒ کی وفات سے چار سال قبل ۴ شوال ۱۱۱۴ھ بمطابق ۲۱ فروری ۱۷۰۳ء بروز بدھ بوقت طلوع آفتاب دہلی میں یو پی کے ضلع مظفر نگر کے قصبہ پھلت میں ہوئی جو کہ شاہ صاحبؒ کا ننہیال ہے۔

ابتدائی تعلیم

شاہ صاحبؒ خود فرماتے ہیں:

”جب میری عمر پانچ سال کی ہوئی تو فقیر مکتب میں داخل ہوا۔ ساتویں برس والد بزرگوار نے نماز پڑھوائی اور روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی۔ اس سال ختنہ کی رسم بھی ادا ہوئی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اسی سال کے آخر میں میں نے قرآن عظیم (حفظ) کیا۔ دس سال کی عمر میں شرح ملا جامی پڑھی اور عام مطالعہ کی راہ میرے لیے کھل گئی۔ چودھویں برس میں میری شادی کر دی گئی اور اس معاملے میں والد بزرگوار نے بڑی عجلت سے کام لیا۔ پندرہ برس کا تھا تو میں نے اپنے والد کے دست مبارک پر بیعت کی اور تصوف کے اشغال میں لگ گیا اور اس میں خاص طور پر نقشبندی مشائخ کے طریق کو اپنا مقصود بنایا۔ اسی سال تفسیر بیضاوی کا ایک حصہ پڑھا۔ اس سال والد بزرگوار نے وسیع پیمانے پر کھانے کا انتظام کیا اور خواص و عوام کو دعوت دی اور اس موقع پر مجھے درس دینے کی اجازت دی۔ الغرض اپنی عمر کے پندرہویں سال اپنے ملک کے دستور کے مطابق جو ضرور ی علوم و فنون تھے میں ان سے فارغ ہو گیا۔ سترہ سال کا تھا کہ حضرت والدؒ رحمتِ حق سے جا ملاقاتی ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد فقیر بارہ سال تک دینی اور علوم عقلیہ کی کتابیں پڑھاتا رہا اور ہرعلم میں فکر و غور جاری رکھا۔“ (الجزء اللطیف)

اخلاق و عادات

شاہ صاحبؒ کو قدرت نے ابتدا ہی سے حکیمانہ مزاج اور مومنانہ اخلاق کا حامل بنایا تھا۔ چنانچہ آپ بچپن ہی سے نرم خو، بردبار، منکسر المزاج، خوکش اخلاق، سنجیده، ستوده صفات، سیر چشم، محنتی، پاکیزه اطوار، فیاض، متقی، پرہیزگار، ملنسار اور متوکل علی اللہ تھے۔ اسی وجہ سے شاہ عبد الرحیمؒ اپنی ساری اولاد میں سے شاہ صاحبؒ کو سب سے زیادہ چاہتے تھے۔ اکثر اوقات خلوت و جلوت میں انہیں اپنے پاس بٹھاتے تھے اور بڑے پُرلطف لہجے میں فرمایا کرتے تھے کہ

”اے میرے بیٹے! میری دل میں بے اختیار یہ بات پیدا ہوئی ہے کہ ایک ہی دفعہ تمام علوم و فنون تمہارے دل میں ڈال دوں۔“

شاہ صاحبؒ کی جوانی بے داغ تھی۔ آپؒ کے مزاج میں عام جوانوں کی طرح تندی و تیزی نہیں تھی۔ حکیمانہ ژوب بینی اور عالمانہ کردار جوانی میں ہی پیدا ہو چکا تھا۔ شاہ صاحبؒ کو والد کی پاکیزہ تربیت نے سیر چشم، مستغنی المزاج اور متوکل علی اللہ بنا دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ بیک وقت ایک حکیم، نکتہ شناس، صوفی باصفا، ایک مفسر، ایک فقیہ، ایک بے مثال صاحب طرز ادیب، انشاء پرداز، شاعر، سیاست دان، معقولی، مفکر، معاشیات کے ماہر، عمرانیات کے رمز آشنا، تاریخ کے غواص، مدبرانہ ذہن کے مالک، مجتہدانہ بصیرت کے حامل اور ایک کامل و اکمل انسان تھے۔

اولاد

شاہ صاحبؒ نے دو شادیاں کیں۔ ان کی پہلی بیوی سے ایک لڑکا محمد دہلوی پیدا ہوا، جس کی وفات ۱۳۰۸ء میں ہوئی (نزہۃ الخواطر)

اسی لڑکے کی وجہ سے شاہ صاحبؒ اپنی کنیت ابو محمد کرتے تھے۔ (الارشاد فی مہمات الاسناد)

پہلی بیوی کی وفات کے بعد دوسری بیوی سے شادی کی اور اس کے بطن سے چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی پیدا ہوئی۔ شاہ صاحبؒ کے سب سے بڑے صاحبزادے جو شاہ صاحبؒ کی وفات کے بعد ان کے جانشین بھی ہوئے وہ شاہ عبد العزیزؒ المتوفی ۷شوال ۹-۱۲۳۸ھ / ۱۸۲۴ ء ہیں۔ دوسرے صاحبزادے شاہ رفیع الدینؒ المتوفی ۶ شوال ۱۲۳۳ھ بمطابق ۱۸۱۷ء ہیں اور تیسرے صاحبزادے شاہ عبد القادر المتوفى ۱۹ رجب ۱۲۳۰ھ بمطابق ۱۸۱۴ء ہیں اور چوتھے صاحبزادے شاہ عبد الغنی المتوفی ۶ محرم ۱۲۹۶ ء ہیں اور ایک صاحبزادی امۃ العزیز ہیں۔

شاہ صاحبؒ کی خصوصیات

شاہ صاحبؒ کو اللہ تعالیٰ نے جن خوبیوں اور خصوصیات سے نوازا تھا ان خصوصیات کو شاہ صاحبؒ نے اپنی مختلف تصانیف میں تحدیث نعمت کے طور پر ذکر فرمایا ہے۔

۱۔ شاہ صاحبؒ کو قائم الزمان بنایا گیا۔

۲۔ آپ کو مجدد دین قویم بنایا گیا۔

۳۔ آپ کو خلعت فاتحیت عطا کی گئی اور آخری دور کا آغاز آپ کے ہاتھ سے کرایا گیا۔

۴۔ وصی ہونے کی وجہ سے آپ اللہ تعالٰی کی مرضیات کی تکمیل کے لیے آلہ جارحہ بنائے گئے۔

۵۔ آپ نے احکام شریعت کے اسرار و مصالح بیان فرمائے۔ شاہ صاحبؒ خود فرماتے ہیں۔

”ان تمام کے رموز و اسرار کا بیان ایک مستقل فن ہے جس کے بارے میں اس فقیر سے زیادہ وقیع بات کسی اور سے نہیں بن آئی ہے۔ اگر کسی کو اس فن کی عظمت و بلندی کے باوجود میرے بیان میں شبہ گزرے تو اسے شیخ عز الدین بن سلام المتوفی ۶۶۰ھ کی کتاب ”قواعد کبریٰ“ دیکھنی چاہیے، جس میں انہوں نے کسی قدر زور مارا ہے مگر پھر بھی وہ اس فن کے عشر عشیر تک نہیں پہنچ پائے۔“ (الجزء اللطیف)

۶۔ آپ کو سلوک طریقت الہام کیا گیا اور اپنے وہ طریق پیش کیا جو صوفیاء کے غلو سے پاک اور جادہ شریعت کا پابند تھا۔

۷۔ آپ نے سب سے پہلے علمائے معاصرین کی مخالفت کے باوجود قرآن کریم کا بلند پایہ ترجمہ کیا۔

۸۔ آپ نے حدیث کی حیثیات کا تعین کیا اور درس حدیث میں تحقیق کی بنیاد ڈالی۔

۹۔ آپ کو الجمع بین المختلفات کا خصوصی علم دیا گیا۔

۱۰۔ آپ کو جامعیت بخشی گئی۔

۱۱۔  آپ کو حکمت عملی یعنی تدبیر معاشیات، سیاسیات و عمرانیات کے شرعی اصول و ضوابط سمجھائے گئے اور کتاب و سنت و آثار صحابہؓ کے ساتھ ان کو تطبیق دینے کی توفیق بخشی گئی۔

۱۲۔  شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں:

”مجھے ایک ملکہ عطا کیا گیا جس کی بدولت میں تمام عقائد و اعمال، اخلاق و آداب کے متعلق یہ تمیز کر سکتا ہوں کہ دین حق کی اصلی تعلیم جو آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی ہے وہ کیا ہے اور وہ کون سی باتیں ہیں جو بعد میں دین حنیف کے ساتھ چسپاں کر دی گئیں اور کس بدعت پسند فرقہ کی تحریف، غلو و افراط یا تہاون و تفریط کا نتیجہ ہیں۔“

۱۳۔  آپ کو علم المصالح و المفاسد اور علم الشرائع و الحدود دونوں دیے گئے۔ شاہ صاحبؒ خود فرماتے ہیں۔

”یہ وہ علم شریف ہے جس کے متعلق بیان کرنے اور اس کے اصولوں کو واضح کرنے نیز مسائل کی تطبیق میں مجھ پر کسی نے سبقت نہیں کی۔“

۱۴۔  آپ نے قدیم علمائے اہل سنت کے عقائد کو دلائل و براہین کی روشنی میں اس طرح ثابت کیا اور انہیں اس طرح معقولیوں کے شکوک و شبہات سے پاک کیا کہ اب ان پر مزید بحث کی گنجائش نہیں رہ گئی۔

۱۵۔  آپ کو کمالات اربعہ ابداع خلق، تدبیر اور تدلی (تجلی) کی حقیقت اور نفوس انسانیہ کی استعداد کا خصوصی علم عطا کیا گیا۔ مندرجہ بالا دونوں علوم شاہ صاحبؒ سے پہلے کسی عالم کو نہیں دیے گئے اور نہ کسی نے ان پر کما حقہ کلام کیا ہے۔

شاہ صاحبؒ نے دس بادشاہوں کا زمانہ پایا ہے

۱۔ اورنگ زیب عالم گیر

۲۔ شاه عالم بہادر شاه اول

۳۔ معز الدین جہاں دار شاه

۴۔ فرخ سیر 

۵۔ رفیع الدرجات 

۷۔ رفیع الدولہ

۸۔ محمد شاہ رنگیلا

۹۔ احمد شاه

۹۔ عالم گیر ثانی

۱۰۔ شاہ عالم ثانی

دار الحدیث کا قیام

مسلمان بادشاہوں کے دور حکومت میں جبکہ قاضی و مفتی ہونا ہی علماء کے لیے باعث افتخار تھا، فقہ، اصول فقہ، صرف و نحو، منطق و معانی، فلسفہ و تاریخ وغیرہ کو چھوڑ کر بھلا علمِ حدیث و تفسیر کی طرف کون توجہ کرتا۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی الحنفىؒ المتوفی ۱۰۵۲ء نے اپنے طور پر علم حدیث کی ترویج و اشاعت کی، لیکن ان کی آواز ظاہر پرست اور دنیا طلب علماء کے غوغائے بے ہنگام میں دب کر رہ گئی۔ سب سے پہلے باقاعدہ اور منظم طور پر علمِ حدیث و تفسیر کی اشاعت کا نظم مدرسہ رحیمیہ دہلی سے حضرت شاہ ولی اللہؒ کی رہنمائی میں کیا گیا اور باقاعدہ صحاح ستہ اور حدیث کی دیگر مرکزی کتب خصوصاً موطا امام مالکؒ کی تعلیم دی جانے لگی، جس سے تمام برصغیر کے علماء و عوام نے استفادہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج برصغیر پاک و ہند اور دیگر قریب کے دیار میں حدیث کا سبق پڑھنے والے طالب علم کی سند حدیث بحیثیت استاد حضرت شاہ ولی اللہؒ تک لازماً پہنچ جاتی ہے۔

مجدد

ہر صدی میں کوئی نہ کوئی مجددِ دین پیدا ہوا ہے، جس نے امت محمدیہؐ کے انسانوں کی رہبری کی ہے اور اسلام کی تبلیغ و نشر و اشاعت کے لیے سر توڑ کوششیں کی ہیں، جس کی پاداش میں انہیں سخت سے سخت مشقتیں اور صعوبتیں برداشت کرنی پڑی ہیں اور قید و بند سے دو چار ہونا پڑا ہے اور طرح طرح کے طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تو اس لحاظ سے شاہ صاحبؒ بارہویں صدی ہجری کے مجدد ہیں، جنہوں نے مسلمانوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور اسلام کی سربلندی کی خاطر آخر دم تک سامراج کے مقابلہ میں سینہ سپر رہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کے نام لیوا انہی کی قربانیوں اور کوششوں کی بدولت آج دم مار رہے ہیں۔ شاہ صاحبؒ نے جو گرانقدر تجدیدی کارنامے سرانجام دیے ہیں وہ رہتی دنیا تک امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہیں۔ شاہ صاحبؒ نے اپنی ذات کے بارے میں اپنی مایہ ناز کتاب ”التفہیمات الالٰہیہ ص ۱۱۰-۱۱۲ ج ۱ میں ”وصی“ اور ”مجدد“ ہونے کا اشارہ فرمایا ہے۔

تدریس

شاہ صاحبؒ نے تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، اصول تفسیر، اصول حدیث، منطق و کلام، سلوک و تصوف، طب و فلسفہ، لغت و معانی، ہندسہ و حساب، علم الحقائق و فن خواص اسماء و آیات اور صرف و نحو عرضیکہ ہر فن کی بیشتر اور مرکزی کتابیں سبقاً سبقاً پڑھیں اور پھر ان میں مکمل دسترس حاصل کی۔ شاہ صاحبؒ کی عمر کے سترھویں سال شاہ عبد الرحیمؒ نے ۱۲ صفر ۱۳۱۱ھ بمطابق ۱۷۱۸ء میں انتقال فرمایا۔ شاہ عبد الرحیمؒ نے مرض الموت کے دوران شاہ صاحبؒ کو بیعت و ارشاد کی اجازت بھی دی اور شاہ صاحبؒ پر مکمل اطمینان اور بھروسہ کرتے ہوئے دو بار یہ جملہ ارشاد فرمایا:

”یدہ کیدی“ (اس کا ہاتھ میرے ہاتھ کی طرح ہے۔)

والد کی وفات کے بعد شاہ صاحبؒ نے کم و بیش بارہ سال تک مدرسہ رحیمیہ کی مسند تدریس کو رونق بخشی اور طلباء و عوام کو علوم وفنون سے روشناس کرایا۔

حج

شاہ صاحبؒ ۱۱۴۳ ھ بمطابق ۱۷۳۱ ھ کو حج و زیارت سے مشرف ہوئے اور تقریباً دو سال حجاز مقدس میں رہے اور رجب ۱۱۴۵ھ بمطابق ۱۷۳۲ء کو اپنے وطن دہلی واپس ہوئے۔ (الجزء اللطیف)

شاہ صاحبؒ نے حج سے واپس آ کر دہلی میں تدریس و تبلیغ، اصلاح و تذکیر کے فرائض تقریباً تہائی صدی انجام دیے۔

وفات

شاہ صاحبؒ کی وفات ۲۹ محرم ۱۱۷۶ھ بمطابق ۱۷۶۲ء کو اکسٹھ سال تین ماہ پچیس دن کی عمر میں ہوئی اور دہلی میں مہندیوں کے قبرستان میں دفن ہوئے۔

تکمیلِ تعلیم

شاہ صاحبؒ نے ظاہری علوم مثلاً تفسیر، حدیث، فقہ، عقائد، کلام، منطق وغیرہ کی تعلیم تو اپنے والد محترمؒ سے پائی تھی، جنہوں نے اکثر کتب اپنے بھائی ابو الرضا محمد المتوفیٰ ۱۰۱۱ھ سے اور کچھ اعلیٰ کتابیں میر زاہد بن قاضی اسلم ہروی المتوفی ۱۱۱۱ھ سے پڑھی تھیں۔ میر زاہد معقولات کے متبحر عالم تھے، لیکن فقہ میں ان کو بہت کم دسترس حاصل تھی۔ شاہ صاحبؒ نے علم حدیث میں سے مشکوٰۃ المصابیح، شمائل النبیؐ اور کچھ حصہ بخاری شریف کا اس دور کے امام محمد افضل المعروف بہ حاجی سیالکوٹیؒ سے پڑھا۔ اس کے بعد شاہ صاحبؒ ۱۱۴۳ء کو حدیث کی تکمیل کے سلسلہ میں حرمین شریفین گئے اور وہاں زیادہ تر مدینہ منورہ میں ہی قیام پذیر رہے اور شیخ ابو الطاہر المدنی الشافعیؒ المتوفی ۱۱۴۵ھ سے حدیث کی تعلیم و اجازت اور جواہر خمسہ کی اجازت حاصل کی۔ شاہ صاحبؒ نے حجاز کے بیشتر محدثین کی خدمت میں زانوئے تلمذ ٹیکا اور حدیث کی اجازت حاصل کی، لیکن شاہ صاحبؒ کا سب سے بڑا استاد جس سے شاہ صاحبؒ کو معنوی مناسبت پیدا ہوئی وہ شیخ ابو الطاہرؒ ہی تھے۔ شیخ ابو الطاہرؒ بھی شاہ صاحبؒ کی تبحر علمی، ذکاوت و شرافت کے معترف تھے۔ چنانچہ وہ فرماتے تھے :

”یسند عنى اللفظ وكنت اصحح المعنى منہ“ (الیانع الجنی)
وہ (شاہ صاحبؒ) ہم سے لفظ کی سند لیتا ہے اور ہم اس سے معنیٰ کی تصحیح کرتے ہیں۔

شیخ ابو الطاہرؒ نے اپنے والد شیخ ابراہیم کردیؒ المتوفی ۱۱۰۱ء سے علمی استفادہ کیا جو کہ شافعی المسلک تھے اور شاہ صاحبؒ زیادہ تر اپنے والد شاہ عبد الرحیمؒ سے مستفید ہوئے جو کہ حنفی المسلک تھے۔ حسن اتفاق سے شیخ ابراہیم کردیؒ اور شاہ عبد الرحیمؒ کی ذہنیت متقارب تھی، کیونکہ دونوں کا سلسلۂ تلمذ جلال الدین دوانیؒ المتوفی ۹۲۸ء تک پہنچتا ہے۔ بنا بریں شاہ صاحبؒ کو شیخ ابو الطاہر مدنیؒ کی صحبت بہت موافق آئی۔ اسی لیے شاہ صاحبؒ شیخ ابو الطاہرؒ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

”شیخ ابو الطاہرؒ سلف صالحین کے تمام اوصاف مثلاً تقویٰ، عبادت، علمی شغف اور بحث و تمحیص میں انصاف پسندی سے متصف تھے۔ جب آپ سے کسی مسئلہ کے بارہ میں رجوع کیا جاتا توجب تک پورا غور و فکر اور کتابوں سے اس کی تحقیق نہ کر لیتے۔ آپؒ اس قدر رقیق القلب تھے کہ جب بھی کوئی اس طرح کی حدیث پڑھتے تو آنکھیں پرنم ہو جاتیں۔ لباس وغیرہ میں کوئی تکلف نہ برتتے۔ اپنے تلامذہ اور خدام سے بھی تواضع سے پیش آتے۔‘‘

تصانیف

شاہ صاحبؒ نے اپنے ۲۸ سالہ تصنیفی دور میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ آپ کی تصانیف کی تعداد پچاس سے بھی بڑھی ہوئی ہے، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

قرآن کے موضوع پر

فتح الرحمٰن فی ترجمۃ القرآن (فارسی) الفوز الكبیر (فارسی) فتح الخبیر (عربی) فی قوانين الترجمہ (فارسی) تاویل الاحادیث فی رموز قصص الانبياء (عربی)

حدیث کے موضوع پر

المسویٰ شرح موطا (عربی) مصفیٰ شرح موطا (فارسی) اربعون حدیثاً مسلسلۃ بالاشراف فی غالب سندہا (عربی) الدر الثمین فی مبشرات النبی الامینؐ (عربی) النوادر من احادیث سید الاوائل والاواخر (عربی) الفضل المبين فی المسلسل من حديث النبی الامینؐ (عربی) الارشاد الی مہمات علم الاسناد (عربی) تراجم البخاری (عربی) شرح تراجم بعض ابواب البخاری (عربی) انتباہ فی سلاسل اولیا ء الله واسانید وارثی رسول اللهؐ (فارسی)

عقائد و کلام اور فقہ کے موضوع پر

حجۃ اللہ البالغہ (عربی) البدور البازغہ (عربی) انصاف فی بیان سبب الاختلاف (عربی) عقد الجيد فی احكام الاجتہاد والتقلید(عربی) السر المكتوم فی اسباب تدوين العلوم (عربی) قرة العین فی تفضيل الشیخین (فارسی) المقالۃ الوضحیۃ فی النصيحۃ والومیۃ (فارسی) حسن العقيده (عربی) المقدمۃ السنیہ (عربی) فتح الودود فی معرفۃ الجنود (عربی) مسلسلات (عربی) رسالہ عقائد بصورت وصیت نامہ (فارسی) جس کا اردو منظوم ترجمہ سعادت یار خان نے تصنیف رنگین کی صورت میں کیا ہے۔

تصوف کے موضوع پر

التفہیمات الالٰہیہ ( عربی، فارسی) فیوض الحرمین (عربی) القول الجمیل (عرب) ہمعات (فارسی) سطعات (فارسی) لمحات (عربی ) لمعات (فارسی) الطاف القدس (فارسی) ہوامع شرح حزب البحر (فارسی) الخیر الکثیر (عربی) شفاء القلوب (فارسی) كشف العين فى شرح الرباعيتين (فارسی) زہراوین (سورۂ بقرہ وآل عمران کی تفسیر) فیصلہ وحدة الوجود و الشہود (مکتوب مدنی عربی)

سیر و سوانح کے موضوع پر

سرور المحزون (فارسی) ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء (فارسی) انفاس العارفین (فارسی) اس کتاب میں یہ سات رسالے شامل ہیں: بوارق الولايۃ (فارسی) شوارق المعرفت (فارسی) امداد فی مآثر الاجداد (فارسی) النبذۃ الابريزیۃ فی اللطیفۃ العزيزیۃ (فارسی) العطیۃ الصمديۃ فی الانفاس المحمديہ (فارسی) انسان العین فی مشائخ الحرمین (فارسی) الجزء اللطیف فی ترجمۃ العبد الضعيف (فارسی)

مکتوبات کے سلسلہ میں

مکتوبات مع مناقب ابی عبدالله و فضیلت ابن تیمیہؒ (فارسی) مکتوب المعارف معہ ضمیمہ مکتوب ثلاثہ (فارسی) مکتوبات فارسی مشمولہ کلمات طیبات (از ابو الخیر بن احمد مراد آبادی) مکتوبات عربی مشمولہ حیات ولی (از حافظ رحیم بخش دہلوی) شاہ ولی اللہؒ کے سیاسی مکتوبات (از خلیق احمد نظامی)

نظم کے سلسلہ میں

اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم (عربی) نظم صرف میر (فارسی) دیوان اشعار (عربی ) جمع و ترتیب: شاہ عبد العزیز و شاہ رفیع الدینؒ۔

اس کے علاوہ رسالہ دانش مندی (فارسی) وغیرہ کتب شاہ صاحبؒ کی یادگار ہیں اور شہرہ آفاق کی حامل ہیں اور بعض تذکرہ نگاروں نے شاہ صاحبؒ کی کتب کے سلسلہ میں ان کی کتاب ذکر الیمون اور رسالہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کتب کے علاوہ بعض کتب شاہ صاحبؒ کی طرف منسوب ہیں جو حقیقت میں شاہ صاحبؒ کی تصانیف نہیں ہیں، بلکہ بعض فرقوں نے اپنے مفاد کی خاطر وہ کتب شاہ صاحبؒ کی طرف منسوب کی ہیں۔ جیسا کہ قرة العين فی ابطال شہادة الحسین، جنت العالیۃ فی مناقب المعاویۃ، تحفۃ الموحدين، بلاغ المبین، قول سدید، اشاره مستمره، رسائل اوائل اور فیما يجب حفظہ للناظر وغیرہ کتب شاہ صاحبؒ کی طرف منسوب ہیں اور ان میں سے اکثر کتب کو غیر مقلدین نے شاہ صاحبؒ کی طرف منسوب کیا ہے۔

قاتلانہ حملہ

شاہ ولی اللہؒ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے گیارہ سو برس کے بعد سرزمین ہندوستان میں قرآن کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ لیکن جب اس کی اشاعت ہوئی تو تہلکہ مچ گیا۔ کٹ ملاؤں نے سمجھ لیا کہ ہماری روزی کی عمارت ڈھا دی گئی، اب جہلاء کبھی قابو میں نہیں آئیں گے اور ہر بات پر بحث کرنے کو تیار ہوجایا کریں گے تو وہ کفر کے فتوے دینے کے بعد شاہ صاحبؒ کے جانی دشمن ہو گئے اور قتل کرنے پر تل گئے۔ ان کے اشارے پر چند بد معاش شاہ صاحبؒ کی تاک میں رہنے لگے۔ اس سازش کا آپ کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔

ایک روز شاہ صاحبؒ عصر کی نماز مسجد فتح پوری میں پڑھ رہے تھے۔ ابھی آپ نے سلام پھیرا ہی تھا کہ دروازے پر شور و غل کی آوازیں آنے لگیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آوارہ گردوں کی ایک جماعت حملہ آور ہونا چاہتی ہے۔ شاہ صاحبؒ کے ساتھ فقط چند خدام تھے اور یہ جماعت بڑی تعداد میں تھی۔ شاہ صاحبؒ نے چاہا کہ کھاری باؤلی والے دروازے سے نکل جائیں، مگر انہوں نے اس طرف آ کر گھیر لیا۔ شاہ صاحبؒ کے پاس ایک چھڑی تھی۔ آپ نے حملہ آوروں سے دریافت کیا کہ آخر آپ لوگ میرے قتل کے درپے کیوں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ تو نے قرآن کا ترجمہ کر کے عوام کی نگاہ میں ہماری وقعت برباد کر دی، اگر یہی حالت رہی تو ہماری آئنده نسلوں کو کوئی ذرہ برابر وقعت نہیں دے گا۔ آپ نے نہ صرف ہمیں برباد کیا ہے بلکہ ہماری اولاد کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ اس پر آپؒ نے فرمایا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالٰی کی عام نعمت کو چند افراد یا ان کی اولاد کے لیے خاص کر دیا جائے؟ کچھ رد و بدل رہی۔ قریب تھا کہ وہ کوئی بُرا اقدام کریں کہ شاہ صاحبؒ کے خدام نے تلواریں سونت لیں اور وہ اوباش جو اُن ملاؤں کے ساتھ تھے، تلواریں دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ سلامت گھر پہنچ گئے۔ (حیاۃ ولی)

شاہ صاحبؒ نے جب قرآن کا ترجمہ کیا تو شیعہ حکام کو بھی یہ بات ناگوار گزری کہ عوام قرآن سے واقف ہوں۔ دہلی میں نجف علی خان کا تسلط تھا جس نے شاہ ولی اللہؒ کے پہنچے اتروا کر ہاتھ بیکار کر دیے تھے تاکہ وہ کوئی کتاب یا مضمون نہ تحریر کر سکیں اور اسی نے مرزا مظہر جان جاناںؒ کو شہید کروا دیا تھا اور شاہ عبد العزیزؒ اور شاہ رفیع الدینؒ کو اپنے قلمرو سے نکال دیا تھا۔

احمد شاہ ابدالی کو حملہ کی دعوت

 جب ہندوستان پر طوائف الملوکی نے اس کا شیرازہ بکھیر دیا تھا تو شاہ صاحبؒ نے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملہ آور ہونے کی بڑی درد مندانہ اپیل کی تھی اور اس کار خیر میں ہاتھ بٹانے کے لیے دیگر بااثر امراء سے بھی خط و کتابت کی تھی۔ احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی آخری لڑائی میں مرہٹوں کے دانت کھٹے کردیے تھے اور ان کی ساری قوت کو پاش پاش کر کے رکھ دیا تھا۔ شاہ صاحبؒ نے احمد شاہ ابدالی کو لکھا کہ:

”عصر حاضر میں آپ سے زیادہ طاقت ور اور پُرشوکت کوئی اور بادشاہ موجود نہیں۔ آپ پر ہندوستان کی جانب قصد کرنا واجب ہے تاکہ مرہٹوں کی قوت ٹوٹے اور ناتواں مسلمان سکھ کا سانس لیں۔“ (شاہ ولی اللہؒ اور ان کے سیاسی مکتوبات)

اور ایک دوسری جگہ شاہ صاحبؒ احمد شاہ ابدالی کو تحریر فرماتے ہیں کہ

”میں اس سیہ کاری سے خدا کے حضور پناہ مانگتا ہوں جو نادر شاہ سے سرزد ہوئی۔ وہ مسلمانوں کا صفایا کرکے مرہٹوں اور جاٹوں کو زندہ سلامت چھوڑ کر لوٹ مار کر کے چلتے بنے اور نتیجہ میں قوت کفار کو فروغ حاصل ہوا، اسلامی لشکر زیر و زبر ہوا اور سلطنتِ دہلی بازیچۂ اطفال بن کر رہ گئی۔“ (شاہ ولی اللہؒ کے سیاسی مکتوبات)

شاہ صاحبؒ کا مسلک

شاہ صاحبؒ نے خود کو حنفی بتایا ہے۔ اس سلسلہ میں ان کی تصانیف سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :

(۱) ”من جملہ ان کے ایک بڑا مسئلہ تقلید اور عدم تقلید کا ہے۔ اس امت کے تمام وہ علماء جن کو قابل استناد سمجھا جا سکتا ہے اس پر متفق ہیں کہ یہ چار مذہب (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) جو آج کل اسلامی دنیا میں مروج ہیں اور ہر ایک مذہب کے مسائل و احکام مدون صورت میں محفوظ اور موجود ہیں ان کی تقلید کرنا جائز ہے۔ اس تعلیم میں کئی ایک مصالح ہیں، خصوصاً آج کے زمانے میں جبکہ ہمتیں بہت ہی پست ہو گئی ہیں، لوگوں پر ہوائے نفسانی کا بھوت مسلط ہے اور ہر ایک اپنی ہی سمجھ اور اپنی ہی رائے پر نازاں ہے۔“ (حجۃ اللہ البالغہ)

(۲) ”جاننا چاہیے کہ ان چاروں مذہبوں کے اختیار کرنے میں ایک بڑی مصلحت ہے اور روگردانی کرنے میں بڑا فساد ہے۔“ (عقد الجيد فی احکام الاجتہاد والتقلید)

(۳) ”مجھ کو پہنچوا دیا رسول اللہﷺ نے کہ حنفی مذہب میں ایک بہت اچھا طریقہ ہے۔ وہ بہت موافق ہے اس طریقۂ سنت سے جو تنقیح ہو ا زمانہ بخاری اور اس کے ساتھ والوں کے۔“ (فیوض الحرمین)

(۴) ”پھر کھلا ایک نمونہ اس سے ظاہر ہوئی کیفیت و تطبیق سنت کے ساتھ فقہ حنفیہ کے اخذ کرنے سے ایک کے قول ثلٰثہ یعنی امام اعظم (ابوحنیفہؒ) اور صاحبین (ابو یوسفؒ و محمدؒ) سے اور کشف ہوئی تخصیص ان کی عمومات کی اور ان کے مقاصد کا وقوف اور اختصار۔“ ( فیوض الحرمین)

(۵) ”جب ایک عامی انسان ہندوستان اور ماوراء النہر میں رہنے والا ہو، جہاں کوئی عالم شافعی اور مالکی اور حنبلی اور ان کی کتب مذہبیہ میسر نہ آ سکتی ہوں تو اس پر واجب ہے کہ صرف حضرت امام ابو حنیفہؒ کے مذہب کی تقلید کرے اور ان کے مذہب سے علیحدہ ہونا اس کے لیے حرام ہے۔ کیونکہ وہ اس وقت شریعت کی رسی ہی اپنی گردن سے اتار کر مہمل بے کار رہ جائے گا۔“ (انصاف فی بیان سبب الاختلاف)

(۶) ایک رسالہ شاہ صاحبؒ نے اپنی آل و اولاد کے لیے بطور وصیت فارسی نثر میں لکھا تھا، جس کا منظوم ترجمہ سعادت یار خان رنگینؔ نے اپنی کتاب ”تصنیفِ رنگین“ کی صورت میں کیا ہے۔ جس کے باب ”بیان رسوماتِ خلق“ میں رنگین صاحب شاہ صاحبؒ کے مسلک کے بارے میں شاہ صاحبؒ کی عبارت کا منظوم ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؎

میرا مذہب ہے مذہب حنفی
 سب پہ روشن ہے یہ جلی و خفی
چاروں مذہب کو جانتا ہوں حق
لیکن بھاتا ہے مجھ کو اس کا نسق

شاہ صاحبؒ کے دھن ہندوستان میں چونکہ فقہ حنفی کو بے حد فروغ حاصل تھا اور شاہ صاحبؒ کے والد اور چچا بھی حنفی مسلک پر کاربند تھے اور ہندوستان کے لوگوں کے دلوں میں فقہ حنفی نے اس قدر ترقی، وسعت اور ہر دلعزیزی حاصل کر لی تھی گویا کہ یہ ان کا قومی مذہب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ صاحبؒ کو بھی بذریعہ الہام یہ بات بتائی گئی کہ وہ فروعات (فقہی مسلک) میں اپنی قوم کی مخالفت نہ کریں۔ ( فیوض الحرمین)

شاہ صاحبؒ چونکہ مجتہد منتسب تھے، اس لیے انہوں نے بعض مسائل میں ترجیح دی۔ جس کو نہ سمجھتے ہوئے بعض نافہم افراد نے ان پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ حالانکہ ایسی ترجیحات تو توضیحات، تشریحات اور تفہیمات کے سلسلہ میں ہوتی ہیں، نہ کہ عقیدہ و مسلک میں۔ شاہ صاحبؒ کا عقیدہ وہی ہے جو اکابر و اسلاف کا ہے، اس بارے میں شاہ صاحبؒ نے خود تصریح فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں:

”آگاہ رہو میں بری اور بیزار ہوں ہر ایسی بات سے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی کسی آیت کے خلاف ہو یا سنت قائمہ کے خلاف ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یا ان زمانوں کے علماء کے اجماع اور متفق علیہ خیالات کے خلاف ہو جن کی خبر دی گئی ہے اور مسلمانوں کی سواد اعظم یا جس کو جمہور مجتہدین نے اختیار کیا ہو۔ اگر اس قسم کی کوئی چیز میری تصانیف و تحریرات وغیرہ میں آگئی ہو تو وہ غلط ہی قرار دی جائے گی۔ اللہ رحم فرمائے اس پر جو ہم کو ہماری اس کوتاہی سے بیدار کرے گا۔“ (حجۃ اللہ البالغہ)

ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا معیار ہے جس کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور گمراہیوں سے بچنے کا یہی طریق ہے۔ اسی اصول پر خود شاہ صاحبؒ کے بعض شذوز کو ترک کیا گیا ہے اور بڑے بڑے علماء، مجتہدین، اصحاب بصیرت کی آراء شاذہ کو رد کر دیا گیا ہے۔ امام ابن ہمامؒ، امام ابن تیمیہؒ، امام قاسم نانوتویؒ اور گذشتہ ادوار کے تمام عبقری اور نابغہ حضرات کی آراءِ شاذہ کو مسلک و مذہب نہیں بنایا گیا۔ ان آراء سے صرف علمی تحقیقی طور پر استفادہ کیا گیا ہے۔

شاہ صاحبؒ کا پروگرام

۱۔ ”وسئلونی ما ذا حكم الله فی هذه الساعۃ قلت فك كل نظام“ ( فیوض الحرمین)

اور لوگوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ اس وقت اللہ تعالی کا کیا حکم ہے؟ میں نے جواب دیا: ”تمام نظاموں کو توڑ دیا جائے۔“ یہ شاہ صاحبؒ کا ایک تاریخی خواب ہے۔

۲۔ اس کے بعد سب سے پہلے فکر کو پاک کرنا ضروری ہے، یعنی ایمان اور توحید کا پاکیزہ عقیدہ اختیار کرنا، رسالت اور قیامت پر یقین اوراسی عقیده پرمسکین نوازی کی بنیاد قائم کرنا۔

۳۔ تعلیم کو جبری اور لازمی بنانا۔

۴۔ ارتکازِ دولت کو روکنا۔

۵۔ تعیش کے اسباب کو مٹانا یا کم سے کم کرنا۔

۶۔ تقشف اور رفاہیت بالغہ کو ختم کرنا اور حالت متوسط کا قیام خوراک، رہائش، لباس، صحت، تعلیم کے لیے ایک متوسط حالت قائم کرنا، جس میں ہر طبقہ کے لوگ شریک ہو سکیں۔

۷۔ مال کے جمع اور خرچ کے قانون (حلال و حرام) کی پابندی کرنا۔

۸۔ تعیش والے پیشے اور حرام پیشوں کو ختم کرنا اور ممنوع قرار دینا اور تمام جائز اور مفید پیشوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور پیشوں کی صحیح تقسیم کرنا۔

۹۔ اپنی جائز ضروریاتِ زندگی سے زائد اثاثہ، جائیداد اور مال کو رفاہ عامہ کے کاموں پر خرچ کرنے کے لیے جماعت کے نام منتقل کرنا۔

۱۰۔ جدید دنیا نے جن چیزوں میں مادی لحاظ سے ترقی کی ہے، اپنے ماحول اور حالات کے مطابق ان سے استفادہ کرنا۔

۱۱۔ مسلمانوں میں جب تک جہاد کا جذبہ رہا وہ ہر میدان میں غالب و فاتح رہیں گے۔ (حجۃ اللہ البالغہ)

امام ولی اللہؒ کے پیش کردہ نظام اجتماعیت و اقتصادیات، معاشیات یا نظامِ اخلاق و سیاسیات سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ شاہ صاحبؒ کے تمام فلسفہ کو پیش نظر رکھا جائے۔ صرف بعض چیزوں کو اختیار کر لینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ شاہ صاحبؒ نے تمام انبیاءؑ کے آسمانی شرائع کو بالعموم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ثابتہ اور اجتماعیات و سیاسیات میں خلفاءِ راشدینؓ کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے اور اس پورے نظام کو شاہ صاحبؒ نے اپنی مایہ ناز کتب ازالۃ الخفاء، الخیر الكثیر، بدور بازغہ میں اور سب سے مکمل طریق پر تمام نظام کو حجۃ اللہ البالغہ میں پیش کیا ہے جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ شاہ صاحبؒ نے قرآن و سنت، صحابہ کرامؓ و محدثین کے فرمان و ارشادات کے مطابق جو کامل نظام پیش کیا ہے یہ انسانی زندگی کے ہر ہر شعبہ پر محیط ہے، خواہ معاشرتی ہو یا اقتصادی، معاشی ہو یا سیاسی، اخلاقی ہو یا انقلابی، انفرادی ہو یا اجتماعی، غرضیکہ ہر پہلو اجاگر کرتا ہے۔

کارل مارکس کا نظام جسے غریب نوازی اور مسکین پروری کا نظام خیال کیا جاتا ہے اور جو اپنی ناکامی کی منزلوں کو چھو رہا ہے، جس کا عینی ثبوت روس میں اس کی ریاستوں کا آزاد ہونا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاہ صاحبؒ کا نظام اس نظام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور یہ مغربی جمہوری نظام ہے اور شاہ صاحبؒ اس کے داعی ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ کارل مارکس مئی ۱۸۱۸ء میں پیدا ہوا اور ۱۸۸۳ء میں فوت ہوا۔ اس کا اشتراکی مینی فیسٹو ۱۸۴۷ء میں شائع ہوا اور اس کی قائم کردہ پہلی انٹرنیشنل کانفرنس کا اجلاس ۱۸۶۴ ء میں منعقد ہوا، جس پر اس کے پروگرام کا پہلی مرتبہ تعارف کرایا گیا۔ اس حساب سے شاہ صاحبؒ پہلی انٹرنیشنل سے ایک سو دو سال پیشتر اور مارکس کے اعلانِ اشتراکیت کی اشاعت سے پچاسی برس قبل وصال فرما چکے تھے۔ پھر کیونکر شاہ صاحبؒ کا پیش کردہ نظام اشتراکی نظام سے مطابقت رکھ سکتا ہے اور شاہ صاحبؒ اس کے داعی ہو سکتے ہیں؟ اللہ تعالٰی ہم سب کو صحیح سمجھ نصیب فرمائے، آمین۔


شخصیات

(الشریعہ — دسمبر ۱۹۹۱ء)

الشریعہ — دسمبر ۱۹۹۱ء

جلد ۳ ۔ شمارہ ۱۲

برسرِ عام پھانسی اور سپریم کورٹ آف پاکستان
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قرآن و سنت کے دو محافظ طبقے: فقہاء اور محدثین
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

مرکزیت، عالم سلام کی بنیادی ضرورت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتی

امام ولی الله دہلوىؒ
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

خصائصِ نبوت
پروفیسر عبد الرحیم ریحانی

ملک کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ اور نفاذِ شریعت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پروفیسر یوسف جلیل کی دنیائے نحو و منطق
مولانا رشید احمد

ربوٰا کی تمام صورتیں حرام ہیں: وفاقی شرعی عدالت کا ایک اہم فیصلہ
روزنامہ جنگ

رسول اکرمﷺ کی تعلیمات
شری راج گوپال اچاریہ

آپ نے پوچھا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آؤ طب پڑھیں
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اقتباسات
ادارہ

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter