یہ بات کسی بھی خدا ترس، سنجیدہ مزاج اور با شعور مسلمانوں سے مخفی نہیں کہ عالم اسباب میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی روایتی اور درایتی حیثیت سے حفاظت اور نگرانی حضرات محدثین کرامؒ اور حضرات فقہاء اسلامؒ ہی نے کی ہے۔ ان میں اگر ایک گروہ اور طائفہ نے الفاظ اور سند کی نگرانی کی ہے تو دوسرے حزب اور جماعت نے معانی اور مطالب کو محفوظ رکھا ہے۔ اگر ایک فرقہ نے راستہ اور چھلکا محفوظ رکھا ہے تو دوسرے نے منزل اور مغز کو محفوظ و مصئون کیا ہے۔ انہوں نے دینی بصیرت اور فرض شناسی کے جذبہ سے سرشار اور لبریز ہو کر انسانیت کی فلاح و بہبود، ہدایت و رشد، کامیابی و کامرانی کے لیے بڑی محنت اور مشقت سے، بڑی کوشش اور کاوش سے، بے انتہا جفاکشی اور تندہی سے کتاب وسنت اور توحید و رسالت کا نعرہ حق بلند کیا۔ حتی کہ ان کی سعئ بلیغ سے کتاب وسنت کا چرچا عام ہوا، پیروئ شریعت کا غلغلہ بلند ہو گیا اور کیوں نہ ہوتا ان کی نہایت اخلاص و دل سوزی سے پکار ہی صرف ایک پکار تھی کہ مسلمانو! صرف خدا کو پوجو، وہی تمہارا کارساز، حاجت روا، فریاد رس، مشکل کشا اور دستگیر ہے اور حضرت محمد رسول اللہﷺ کی اتباع اور پیروی کرو اور صرف آپؐ ہی کی پیروی میں نجات ہے۔ قرآن کریم کے ابدی احکام پر عمل کرو اور جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صحیح ارشادات کے مطابق زندگی بسر کرو۔ انہوں نے اپنی عقل رسا سے نظام عالم کے نقشے بدل دیے۔ عجائبات عالم کے طلسم کشانی کے حیرت انگیز نظریے پیش کیے۔ ان کی دقیق اور عمیق نکتہ سنجیوں اور بلند خیالیوں کے پیچھے حسن علم کا بہترین نمونہ اور اعلیٰ اسوہ موجود ہے۔ انہوں نے انسانی اوہام و خیالات فاسدہ اور عقائد باطلہ کی زنجیروں کو کاٹ کر دریا برد کر دیا۔ انسانوں کی باہمی گتھی کو سلجھایا۔ انسانی معاشرت کا صحیح ترین خاکہ پیش کیا۔ ہمارے اعمال و اخلاق کا اعلیٰ نقشہ اور ہماری رُوحانی مایوسیوں اور ناامیدیوں کا کامیاب علاج تجویز کیا اور جو لوگ ایمان و عمل کے جوہر سے یکسر خالی تھے اور جو لوگ خرافات اور خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے رہے ان کو علم وتحقیق کی دولت سے مالا مال اور تفحص و جستجو کے جوہر سے روشناس کیا۔
بنی نوع انسان کی حقیقی بھلائی، اعمال کی نیکی، اخلاق کی برتری، دلوں کی صفائی اور انسانی قویٰ میں اعتدال اور میانہ روی پیدا کرنے کی غرض سے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے معانی و مطالب کو نہایت آسان اور سہل کر دیا ہے اور نقلی احتجاج اور عقلی استدلال کا ایسا صحیح اور محیر العقول معیار قائم کیا جس سے دلوں کی تشفی کا اور باطل قسم کے شکوک اور شبہات کے ازالہ کا بہترین اور قابل قدر طریقہ اور راستہ متعین ہو جاتا ہے۔ جس سے مختلف انسانی طبقات ہر وقت اور ہر دور میں برابر استفادہ کر سکتے ہیں اور جس کی تعلیم و عمل کے لافانی سرچشمہ سے شاہ و گدا، منطقی و فلسفی، امیر و غریب، عالم و جاہل، مجاہد و قاضی سب برابر کا فیض پا رہے ہیں۔ ہمارے اجسام و ارواح کے لیے، ہمارے نفوس و قلوب کے لیے انہوں نے ایسے علوم و فنون ترتیب دیے جن سے دنیا کے صحیح تمدن اور بہترین و مکمل معاشرت کی تکمیل ہوئی۔ عقائد واعمال، معاملات واخلاق کے جوہر اجاگر ہو گئے۔ نیکی اور بھلائی ایوانِ عمل کے نقش و نگار ٹھہرے۔ خداو بندہ کا تعلق باہم مضبوط و مستحکم ہوا۔ یہ نفوس قدسیہ اپنے اپنے وقت پر آئے اور گزر گئے اور اس عالم فانی کی کس چیز کو ابدیت حاصل ہے؟ ان کی زندگیاں خواہ کتنی ہی مقدس ہوں، تاہم وہ دوام و بقا کی دولت سے سرفراز نہ تھیں۔ اس لیے آئندہ آنے والے انسانوں کے لیے جو چیز رہبر ہو سکتی ہے وہ ان کی زندگیوں کے تحریری اور روایتی و درایتی عکس اور تصویریں ہیں۔ پچھلے عہد کے تمام علوم وفنون، تحقیقات و خیالات، واقعات و حالات، افکار و حوادث کے جاننے کا واحد ذریعہ ان کی برگزیدہ ہستیاں ہیں۔ جن کی زندگی نوع انسان کی سعادت و فلاح، حسنِ کردار و ہدایت کی ضامن اور کفیل اور اس کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے اور ہمیں ان کی اتباع و تقلید ہی سے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی برکت سے ہی ابدی نجات حاصل ہو سکتی ہے اور کتنی ہی سعید روحیں ہیں جنہوں نے اُن کی آواز پر لبیک اور خوش آمدید کہا، مگر خود غرضوں اور نفس پرستوں نے، خود فریبوں اور حرماں نصیبوں نے ان کی شان کو گھٹانے اور ان کی خدمات جلیلہ کو خاک میں ملانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور بیک جنبش قلم ان کو پیوند خاک کرنے کی ناکام سعی کی۔ افسوس
وہ لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
ظاہر کیے فلک نے تھے جو خاک چھان کے
الحاصل روایت و درایت کا، سند اور معنی کا، محد ثین اور فقہاء کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کسی ایک سے بھی صرف نظر کرنے کے بعد کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کا سمجھنا محال ہے اور احکام و معانی میں تو خاص طور پر حضرات فقہاء کرامؒ ہی کی رائے معتبر اور مستند ہو سکتی ہے۔ کیونکہ بقول امام اعمشؒ محدثین کرامؒ پنساری ہیں جن کے پاس طرح طرح کی قیمتی بوٹیاں (حدیثیں) موجود ہیں، مگر ان کے خواص و مزاج سے فقہاءِ اسلام ہی واقف ہو سکتے ہیں، جو طبیب اور ڈاکٹر ہیں۔ (کتاب العلم، ج ۲، ص۱۳۱)
اور حضرات فقہاء کرامؒ کی معانی اور مطالب میں اس بالا دستی اور فوقیت کو حضرات محدثین کرامؒ نے کھلے لفظوں میں تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ حضرت امام ترمذی (المتوفی ۳۷۹ھ) صاحبِ جامع ایک حدیث کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ
”وكذلك قال الفقهاء وهم اعلم بمعانی الحدیث“ ( ترمذی، ج۱، ص۱۱۸)
اور اسی طرح حضرات فقہاء کرامؒ نے کہا ہے اور وہی حدیث کے معانی کو بہتر جانتے ہیں۔
یہ تو عام حضرات فقہاء کرامؒ کا ذکر خیر تھا، لیکن علی الخصوص حضرات فقہاء احناف کثر اللہ تعالیٰ جماعتہم کے اجتہاد و تفقہ کا ہر دور اور ہر زمانہ میں جو شہرہ رہا ہے وہ کسی منصف مزاج اہل علم سے مخفی ہو سکتا ہے؟ مجموعی طور پر جس محنت و مشقت سے اور جس اخلاص و دیانت سے اور جس عزم و احتیاط سے اور جس متانت اور سنجیدگی سے قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تشریح اور تفصیل انہوں نے کی ہے وہ صرف انہی کا حصہ ہو سکتا ہے۔ وہ آسمانِ علم و تحقیق کے چاند اور سماءِ فقہ و اجتہاد کے آفتابِ ماہتاب اور درخشندہ ستارے ہیں، جو اپنی چمک و دمک سے تاریک دنیا کو علم و تدقیق کی کرنوں سے منور اور روشن کرتے اور ابر رحمت بن کر جہالت کی خشک زمین کو سرسبز و شاداب کرتے رہے ہیں۔ مگر ہائے افسوس! جو ہستیاں دنیا سے جا چکیں، سو جا چکیں، جو باقی ہیں وہ مبارک اور برگزیدہ ہستیاں بھی ایک ایک کر کے اٹھتی جا رہی ہیں۔ اب وہ دور آنے والا ہے کہ جس میں نہ تو کوئی پلانے والا رہے گا اور نہ پینے والا ملے گا اور جو پینے کے لیے آئے گا وہ بصد افسوس یہ کہے گا ؎
تو جو رہا نہ ساقیا پینے کا کیا مزہ رہا
پینا نہ غم ربا رہا پی بھی تو میں نے پی نہیں