اخلاق محمودہ اور اخلاق ذمیمہ کا فرق
— از امام ولی الله دہلویؒ
کیا میں تمہیں اس قانون سے روشناس نہ کروں کہ کس طرح ایک ہی صفت مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے محمود بھی ہو سکتی ہے اور مذموم بھی۔ بادشاہ اور فقیر دونوں مانگتے ہیں۔ بادشاہ اپنی رعیت سے مانگتا ہے اور بھکاری اپنی قوم کے اغنیاء اور مالداروں سے مانگتا ہے۔ ان دونوں میں خطِ فاصل قوت و غلبہ اور عجز و نیاز کی صفتیں ہیں۔ بادشاہ کا مطالبہ چونکہ قہر و غلبہ پر مبنی ہوتا ہے وہ قوم کا سردار کہلاتا ہے اور بھکاری مغلوب اور عاجز ہوتا ہے اس لیے فقیر سمجھا جاتا ہے۔
الحاصل حسن و قبح میں اس خط تمیز کو اصول و قانون کے طور پر یاد رکھو اور ان شکوک و شبہات سے بچو جو اخلاق محمودہ اور اخلاق ذمیمہ میں بظاہر التباس سے عوام الناس کے ذہنوں میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ (البدور البازغہ مترجم، ص ۸۱)
جہاد: انسانی اجتماعیت کی ضرورت
— از امام انقلاب مولانا عبید الله سندهیؒ
زمانہ حال کا یہ سب سے افسوسناک حادثہ ہے کہ عدم تشدد کو، جو انقلاب کی تیاری کے لیے بہترین ذریعہ ہے، سیاست کا لازمی اور دائمی جزء قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ انسانی سیاست کی قطعی غیر طبعی ترجمانی ہے۔ قرآن حکیم اور اس کی بنیاد پر حکمت ولی اللّٰہی اس سے قطعاً انکار کرتے ہیں اور قرار دیتے ہیں کہ چونکہ انسان بہیمیت اور عقلیت، یا ملکیت سے مرکب ہے۔ یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ انسان اجتماعی حیثیت سے اپنی ارتقائی زندگی کے کسی دور میں بھی بہیمیت سے علیحدہ ہو جائے گا۔ اس لیے جنگ اور قتال، جہاد جس کے ذریعہ سے ملکیت یا عقلیت بہیمیت پر غالب آتی رہے گی انسانی معاشرہ کا لازمی جزء رہے گا۔ انسانیت فقط عدم تشدد یا مصالحت سے کبھی ترقی نہیں کر سکتی، بلکہ ہمیشہ انقلاب سے آگے بڑھتی ہے، جس کے لیے تشدد اور عدم تشدد دونوں ضروری ہیں۔ (تفسیر سوره مزمل)
کفر کے درجات اور شرعی احکام
— مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ
آیت ”و من لم يحكم بما انزل الله فاولئک هم الکافرون“ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص حکم منصوص کے خلاف حکم دے یا فیصلہ کرے وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ یہی مذہب خوارج کا ہے۔ علماء اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حکم خداوندی کو حقیر یا غلط یا خلافِ مصلحت یا خلافِ تہذیب سمجھ کر اس کا انکار کردے اور قانونِ شریعت میں تغیر و تبدل کر کے اپنی طرف سے نیا حکم تجویز کرے، جیسا کہ یہود نے حکمِ رجم کے مقابلہ میں اپنی رائے سے ایک نیا حکم تیار کر لیا تھا تو ایسا شخص بلاشبہ کافر ہے اوراگر
دل میں حکم خداوندی کی تصدیق اور اس کی عظمت و حقانیت کا اعتراف موجود ہے اور محض غلبۂ نفس یا کسی دنیاوی مجبوری اور معذوری کی بنا پر بادلِ نخواستہ حکم خداوندی کے خلاف فیصلہ کر دے تو وہ کافر نہ ہو گا بلکہ فقط گنہگار ہوگا۔
جو شخص اعتقادی طور پر ”ما انزل الله“ کو حق جان کر اور حق مان کر پھر عملاً فیصلہ اس کے خلاف کرے تو ایسے شخص کو اصطلاح شریعت میں عملی کافر کہا جا سکتا ہے، نہ کہ اعتقادی کافر۔ یعنی اس کی عملی حالت کافروں جیسی ہے اگرچہ اعتقاد مسلمانوں جیسا ہے۔ اسی وجہ سے عبد اللہ بن عباسؓ سے منقول ہے کہ آیت ”فاولئک ھم الکافرون“ میں کفر سے وہ کفر مراد نہیں جو اس کو ملتِ اسلام سے خارج کر دے اور یہ ایسا کافر نہیں جیسے کوئی اللہ اور ملائکہ اور کتب اور رسل کا کافر ہو بلکہ یہ ”کفر دون کفر“ اور ”ظلم دون ظلم“ اور ”فسق دون فسق“ ہے۔ ”ولیس بالكفر الذی تذهبون الیہ“ یعنی کفر اور ظلم اور فسق کے درجات ہیں بعض کفر اعتقادی ہیں اور بعض عملی اور ہر ایک کا حکم جدا ہے۔
دیدہ دلیر واعظ
— حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ
ایک واعظ کی مجلس میں امام احمد بن حنبلؒ اور یحییٰ بن معینؒ شریک تھے۔ واعظ نے بہت سی احادیث غلط سلط امام احمد بن حنبلؒ کے حوالہ سے بیان کیں۔ یہ دونوں بزرگ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنستے رہے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ جب وعظ ختم ہوا تو امام احمد بن حنبلؒ آگے بڑھے اور واعظ سے پوچھا کہ آپ احمد بن حنبل کو جانتے ہیں؟ تو کہا ہاں جانتا ہوں۔ پھر فرمایا۔ مجھے بھی جانتے ہیں؟ کہا: نہیں۔ امام صاحبؒ نے فرمایا میں ہی تو احمد بن حنبل ہوں۔ واعظ نے بڑی دلیری سے کہا کہ خوب کہا، آپ یہ سمجھتے ہیں کہ احمد بن حنبلؒ ایک آپ ہی ہیں۔ معلوم نہیں کتنے آپ جیسے احمد بن حنبلؒ دنیا میں موجود ہیں۔ (مجالس حکیم الامت تھانوی ص۲۶۸)
موجودہ دور کے اہل کتاب
— مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ
اہل کتاب سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جو مذہباً اہل کتاب ہوں، نہ کہ وہ صرف قومیت کے لحاظ سے یہودی یا نصرانی ہوں، خواہ وہ عقیدۃً دہریہ ہوں۔ اس زمانہ کے نصاریٰ عموماً برائے نام نصاری ہیں ان میں بکثرت ایسے ہیں کہ جو نہ خدا کے قائل ہیں اور نہ مذہب کے قائل اور آسمانی کتاب کے قائل۔ ایسے لوگوں پر اہل کتاب کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ان کے ذبیحہ اور ان کی عورتوں سے نکاح کا حکم اہل کتاب کا سا نہیں ہوگا۔
حضرت نانوتویؒ کا اصولِ میزبانی
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ
حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویؒ مالدار مہمانوں کو معمولی کھانا اور غرباء کو عمدہ کھانا کھلاتے تھے۔ کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ مہمان کو ایسا کھانا کھلانا چاہیے جو عموماً وہ نہ کھاتا ہو۔ (مجالس حکیم الامتؒ، ص۲۶۰)
فتویٰ کی اہلیت
امام مالک بن انسؒ نے فرمایا کہ میں نے فتویٰ دینا شروع نہیں کیا جب تک کہ میں نے ستر مشائخ سے دریافت نہ کیا کہ کیا آپ کے نزدیک مجھ میں فتوی دینے کی لیاقت ہے؟ تو سب نے فرمایا کہ ہاں! تب میں نے فتویٰ دیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اے جناب! اگر وہ بزرگوار مشائخ آپ کو اس امر سے منع کر دیتے تو؟ امام مالکؒ نے کہا کہ اگر منع کر دیتے تو میں باز رہتا۔ (تلبیس ابلیس اردو، ص۱۶۴)