یہ نہایت مسرت بخش امر ہے کہ اب بھی میں دیکھتا ہوں کہ موجودہ تعلیم یافتہ مسلمان اپنی عبادت بعینہٖ اس طرح کرتے ہیں جیسے کہ ان کے مذہبی پیش رو کرتے تھے۔ یہ اور یہ چیز بے شک اعتقاد میں حسن اور ایمان میں استقامت پیدا کرتی ہے۔ جب کبھی بھی میں ان تمام چیزوں کا خیال کرتا ہوں تو میں یہ کہے بغیر نہیں رہ پاتا کہ اسلام میں کوئی ایسی چیز پوشیدہ ہے جس کی وجہ سے اہل اسلام آج تک اس پر قائم ہیں، جس کا ہندو مت میں فقدان ہے بلکہ وہاں تو بجائے اس کے کوئی ایسی چیز ہے جس نے انہیں ان اصول و قواعد کی پابندی کے بجائے ان کے چھوڑنے کی طرف مائل کر دیا ہے۔ اس ضمن میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اسلام میں ایک غیبی قوت موجود ہے جس نے باوجود موجودہ تعلیم و تہذیب کے انہیں اپنی روش پر برقرار رکھا ہے۔
آپ تمام اصحاب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور ان کی محبت اور عفو و درگزر کی پرزور سفارشی تعلیمات کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے جنہیں انہوں نے وہاں پھیلایا جہاں کے لیے ان چیزوں کا نام بھی بالکل غیر مانوس تھا اور ان ذریعوں کو معلوم کرنا چاہیے جو انہوں نے اپنے گرد و پیش والوں کے لیے اختیار کیے تھے، جس کی وجہ سے وہ ایک بالکل نئی بامفید اور صداقت پر مبنی تہذیب کو نہایت آسانی اور تیزی کے ساتھ ہر طرف پھیلانے میں کامیاب ہوئے۔ جس کا اثر مغرب والوں نے بہت تیزی کے ساتھ قبول کیا اور جس سے وہ آج تک بدرجہ اتم مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ اسلام اور تعلیمات محمدیؐ میں ایک خاص چیز تھی جو کسی دوسرے مذہب کا پیغمبر نہ لایا تھا، جس کی وجہ سے تمام عالم کو بہت قلیل عرصہ میں ان تمام خصوصیات سے مالا مال کر دیا گیا جن کی اسے شدید ضرورت تھی اور جن کے نہ ہونے کی وجہ سے دنیا بہت پیچھے پڑی ہوئی تھی۔
میں نے جہاں تک ممکن تھا اسلام اور محمدؐ کی زندگی کا مطالعہ نہایت شوق و عظمت کے جذبے کے ساتھ کیا تھا، لیکن پھر بھی میں اس کا یقین رکھتا ہوں کہ وہ ایک ایسا بحر محیط ہے جس کا عبور میرے امکان سے باہر ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ ہندوستان کے اکثر حلقوں میں محمدﷺ کی صحیح تفہیم نہیں ہوئی۔ اس سلسلہ میں ابھی بہت کچھ کام کیا جا سکتا ہے، جو ایک کارِ خیر ہوگا۔ اس کا بیڑہ اٹھانے کے بعد یہ بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ میرا یہ خیال کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کی صحیح تفہیم اکثر حلقوں میں مفقود ہے بالکل صحیح ہے۔ اس کے لیے ناقص معلومات اور خراب ذہنیتوں کو دور کر دیا جائے، تلوار کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے سامنے واضح کر کے ہر حقیقت کو بیان کرنا چاہیے۔ بُرے خیالات قائم کر لینے اور بُرے برتاؤ سے پیش آنے سے کچھ نہیں ہوتا، سمجھنے اور سمجھانے اور ہر چیز کی گہرائیوں کو سمجھانے سے دماغوں کی اصلاح ہوتی ہے۔ ایک چیز کا ایک ہی ملک میں جب غلط مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ دور دراز کے ممالک کے واقعات اور حالات کا صحیح اندازہ ہو سکے اور بعض حقیقت سے بعید چیزوں کا بھی یقین نہ کر لیا جائے۔
اس موجودہ مخالفت کا سبب مقامات کا اور واقعات کا اختلاف اور ہم خیال پڑوسیوں کا فقدان ہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تقریباً چودہ سو سال دنیا میں موجود تھے اور وہ بھی ہندوستان سے ایک بالکل مختلف نوعیت کے ملک میں، اس لیے ان کی عرب کی زندگی کے حالات ان قوموں کی سمجھ میں اچھی طرح نہیں آ سکتے جو اس ماحول میں نہ تو خود رہ چکے ہوں اور نہ جن کے اسلاف ہی۔ بلکہ اس کے برعکس انہوں نے ہندوستان میں ترقی معکوس کے زمانہ میں پرورش پائی ہے، اس لیے یہی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ اول تو دوسروں کی غلط فہمیوں کو برداشت کرنے کی عادت ڈالی جائے اور ان میں تعلیم کے ذریعے ان چیزوں کو نکالنے کی کوشش کی جائے۔
میں اپنے دائرہ احباب میں ایسے بہت سے اچھے مسلمان پاتا ہوں جن کے ساتھ رہ کر میں اپنی زندگی کو ان قدیم مسلمانوں کی صحبت کے مشابہ سمجھنے لگا ہوں جن کے متعلق مجھے مطالعہ کے ذریعے کچھ علم ہوا ہے۔ آج سے اٹھارہ سال پہلے جب میں جیل خانہ میں تھا، اس وقت بھی میرے ساتھ دو نہایت اچھے عقائد کے مسلمان دوست تھے، جنہوں نے اس سلسلہ میں میری بہت زیادہ مدد کی۔ کوشش و محنت کر کے قرآن مجید کے نہایت اچھے ترجمے اور مفید تعلیمات میرے لیے بہم پہنچائیں، جنہیں میں کبھی بھول نہیں سکتا۔
(بشکریہ دیوبند ٹائمز، ۱۵ستمبر ۱۹۹۱ء)