نام و نسب
طبقات الشافعیۃ الکبری (ص ۲ و ۳ ج ۲) اور تذکرۃ الحفاظ (ص ۱۲۲، ج۲) میں آپ کا نام و نسب یوں درج ہے: ”محمد بن اسمعیل بن ابراہیم بن المغیرة بن بردزبہ بن بذذبہ جعفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ“
بردزبہ مجوسی تھے۔ ان کے بیٹے مغیرۂ یمان جعفی والئ بخارا کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔ اسی نسبت سے جعفی مشہور ہوئے۔ یہ نسبت موالاۃ اسلام کی ہے۔
ولادت
امام بخاریؒ ۱۳ شوال ۱۹۴ھ بروز جمعہ بعد از نماز جمعہ پیدا ہوئے اور یہی قول راجح اور صحیح ہے۔ مادہ تاریخ ولادت ۱۹۴ھ صَدَقَ ہے۔
ابتدائی حالات
آپؒ کے والد ماجد اسماعیلؒ کی وفات آپ کی صغر سنی میں ہی ہو گئی تھی۔ لہٰذا آپ نے اپنی والدہ محترمہ کی تربیت و نگرانی میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ آپ کو بچپن سے ہی علم کا بہت شوق تھا۔ مستزاد برایں آپ کی ذکاوت مفرطہ نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔
طبقات (ج ۲ ص ۴) میں ہے: احمد بن مفضل بلخیؒ نے فرمایا کہ امام بخاریؒ بچپن میں نابینا ہو گئے تھے۔ ان کی والدہ نے خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زیارت کی۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری کثرت گریہ اور دعا کی وجہ سے تیرے بیٹے کی نظر لوٹا دی ہے۔ چنانچہ امام بخاریؒ صبح اٹھے تو بینا تھے۔“ اور اسی طبقات میں جبریل بن میکائیلؒ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ انہوں نے امام بخاریؒ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب میں خراساں پہنچا تو میری نظر ضائع ہو گئی، وہاں ایک آدمی نے خطمی لیپ کرنے کا کہا، چنانچہ ایسا کرنے پر بفضلہٖ تعالیٰ میری نظر واپس ہو گئی۔
آغاز تعلیم
حضرت امام بخاریؒ نے ۲۰۵ ھ میں سماعِ حدیث کا آغاز کیا اور امام ابن مبارکؒ کی تصانیف یاد کیں۔ چنانچہ طبقات (ص ۴، ج ۲) میں ابو جعفر محمد بن ابی حاتم الوراق کا قول ہے کہ میں نے امام بخاری سے تعلیم کی ابتدا کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ مکتب میں دس سے کم یا دس سال کی عمر میں ہی میرے دل میں حفظ حدیث کا شوق پیدا ہوا۔ حسب تصریح علامہ سبکیؒ (طبقات ص۲، ۳، ج ۲) و حافظ ابن حجرؒ (مقدمہ فتح الباری، ص ۲۵۰، ج ۲) امام بخاریؒ نے تعلیم کی خاطر ابتدائی سفر ۲۱۰ھ میں سولہ سال کی عمر میں شروع کیا اور ایک ہزار سے زائد اساتذہ سے حدیثیں لکھیں۔ (تذكرة الحفاظ ص ۱۲۳، ج ۲ و طبقات سبکی ص ۵، ج ۲)
یوں تو امام بخاریؒ کے ایک ہزار سے زیادہ اساتذہ تھے جیسا کہ بیان ہو چکا ہے اور علامہ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ (ص ۱۲۳، ج ۲) میں خود امام بخاریؒ کا یہ مقولہ نقل کیا ہے: ”قال كتبت عن اكثر من الف رجل“ کہ میں نے ایک ہزار سے بھی زیادہ اساتذہ سے حدیثیں لکھی ہیں۔ البتہ چند مشہور اساتذہ و مشائخ کے نام یہ ہیں۔
مشائخ امام بخاریؒ
امام بخاریؒ کے مشائخ بخارا میں محمد بن سلام بیکندیؒ، محمد بن یوسف بیکندیؒ، عبد اللہ بن محمد المسندی، ابراہیم بن الاشعث و طائفۃ معہم۔
مشائخ بلخ میں سے مکی بن ابراہیم الحنفیؒ، ان کے علاوہ یحییٰ بن بشرؒ، زاہدؒ، قتیبہؒ و جماعۃ معہم ہیں۔
مشائخ مرو میں سے علی بن الحسن بن شقیقؒ، عبداقؒ و جماعۃ معہم ہیں۔
مشائخ نیشاپور میں سے یحییٰ بن یحییٰؒ، بشر بن الحکمؒ اور ان کے علاوہ اسحٰق مشہور ہیں۔
مشائخ ری میں سے حافظ ابراہیم بن موسی وغیرہ ہیں۔
مشائخ بغداد سے شریح بن النعمانؒ، عفانؒ اور ان کے علاوہ حضرات محدثین کرامؒ کا ایک گروہ اور معلیّٰ بن منصورؒ (تلمیذ ائمہ ثلاثہ احناف) وغیرہ ہیں۔
مشائخ بصرہ میں سے ابو عاصم النبیل الضحاکؒ، بدل بن المحبزؒ اور محمد بن عبد الله الانصاری الحنفیؒ (تلمیذ صاحبین) وغیرہ مشہور مشائخ ہیں۔
مشائخ کوفہ میں سے ابو نعیمؒ (تلمیذ ابی حنیفہؒ) طلق بن غنامؒ، حسن بن عطیہؒ، خلاد بن یحییٰؒ اور قبیصہؒ وغیرہ مشہور ہیں۔
مشائخ مکہ میں سے امام حمیدیؒ اور
مشائخ مدینہ میں سے عبد العزیز اویسیؒ اور مطرف بن عبد اللہؒ وغیرہ مشہور ہیں۔
ان کے علاوہ واسط، مصر، دمشق، قیساریہ، عسقلان اور حمص وغیرہ میں بھی بہت سے مشائخ سے حدیث سنی۔ بنا بر اختصار ان کے ذکر کے لیے یہاں گنجائش نہیں۔
تلامذہ امام بخاریؒ
امام بخاریؒ کے تلامذہ کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ طبقات (ص۱۲۲، ج۲) وغیرہ میں مشہور تلامذہ یہ مذکور ہیں:
امام ابو زرعہؒ، ابو حاتمؒ، مسلمؒ، محمد بن نصر مروزیؒ، صالح بن محمد جزرةؒ، ابن خزیمہؒ، ابو العباس السراجؒ، ابنِ قریشؒ، محمد بن جمعہؒ، یحییٰ بن محمد بن صاعدؒ، ابو حامد بن الشرفیؒ وغیرہم اور امام بخاریؒ سے جامع صحیح کے سب سے آخری راوی منصور بن محمد بزدویؒ المتوفی ۳۲۹ھ ہیں اور امام بخاریؒ سے سماع حدیث کرنے والوں میں سب سے آخر میں وفات پانے والے ابو ظہیر عبد الله بن فارس البلخی المتوفی ۳۴۶ھ ہیں۔
وفات
امام بخاریؒ نے تیرہ دن کم باسٹھ سال کی عمر میں شوال المکرم کی پہلی شب (شب شنبہ) ٢٥٦ھ میں سمرقند سے دو فرسخ (چھ میل) کے فاصلہ پر خرتنگ میں وفات پائی۔ طبقات (ص۱۴، ج ۲) میں ہے کہ مادہ تاریخ حمید ۶٢ ہے۔ غالب بن جبریاںؒ نے کہا کہ امام بخاریؒ ہمارے ہاں چند دن ٹھہرے۔ سخت مریض تھے اور ابوحسان مہنب بن سلیم کے بیان کے مطابق امام بخاریؒ وفات کے وقت تنہا تھے۔ صبح کے وقت گھر میں فوت شدہ پائے گئے۔ مادہ تاریخ وفات نور ۲۵۶ ہے۔
تدفین
شنبہ کے روز عید الفطر کے دن ظہر کی نماز کے بعد خرتنگ میں مدفون ہوئے۔ طبقات (ص ۱۵، ج ۲) میں ہے کہ بعد از دفن قبر مبارک کی مٹی سے بہت تیز خوشبو کافی دن تک مہکتی رہی اور قبر سے آسمان تک سفید روشنی کے ستون دکھائی دیتے تھے، جس کو دیکھنے کے لیے لوگ بکثرت آتے جاتے اور تعجب کرتے تھے۔