گذشتہ اشاعت میں وبائی نزلہ یعنی انفلوئنزا پر ایک مفصل تحریر پیش کی تو اکثر حضرات نے فرمایا کہ ہمیں نزلہ، زکام کے ساتھ ہی جسم میں کھجلی، دردیں، تھکاوٹ اور قبض کی شکایات بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ کچھ نے فرمایا کہ ہم مستقل الرجی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ الرجی کا شکار تو عموماً وہ حضرات دیکھے گئے ہیں جن کی مختلف وجوہات پر قوت مدافعت کمزور ہوچکی ہو۔ تاہم اس پر ان شاء اللہ پھر کسی نشست میں عرض کروں گا، کیونکہ بذات خود یہ کوئی بیماری نہیں، صرف ہماری کوتاہ اندیشی سے معاشرہ میں جڑ پکڑ چکی ہے، جس میں فیشن کی بھرمار، غذائی عادات کی تبدیلی اور اعصابی نظام کا بگاڑ ہے۔ یہ ایک تمہید طولانی ہے، پھر بھی ایک نسخہ ہمہ صفت موصوف پیش کرتا ہوں جو آپ کو اوور ہال کر دیا کرے گا اور مذکورہ بالا تمام تکالیف سے ان شاء اللہ چھٹکارہ مل جائے گا۔
جسمِ انسانی میں جب خلطیں جمع ہو جاتی ہیں تو نکلنے کے لیے کچھ ذرائع اختیار کرتی ہیں، یہی ذرائع بیماریاں بن جاتی ہیں۔ جیسے نواصیر، نکسیر، بواسیر، بلغم کی کثرت، پیپ کا اخراج وغیرہ وغیرہ۔ ایک ہی دوا سے کئی خلطوں کو خارج کرنے کے لیے کچھ سادہ مگر نہایت زود اثر اور سستی ادویات سے اطباء عظام نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ جیسے حنظل (تمبہ) اور سنامکی کہ ان سے تقریباً تین تین اخلاط بیک وقت خارج ہو جاتی ہیں۔
سنا ایک خود رو پودا ہے جو حجاز مقدس کے آس پاس پیدا ہوتا ہے، یہی سنامکی ہے۔ برصغیر میں آج سے ایک سو بیاسی سال پہلے لائی گئی تھی، جبکہ مصر کے علاقے میں باقاعدہ کاشت کی جا رہی ہے۔ سوڈان سے یہ مغربی ممالک کو بھیجی جا رہی ہے۔ وطن عزیز میں پنجاب اور سندھ میں کاشت ہو رہی ہے۔ جو فوائد میں کچھ کم ہے، مگر مسہل ضرور ہے۔ یہ دماغ کا تنقیہ کرتی ہے اور اخلاط ثلاثہ کا مخرج ہے۔ اس لیے درد کمر، عرق النساء، درد پہلو، وجع الورک، وجع المفاصل نویتی، بخار میں مستعمل ہے۔ کرم شکم کی قاتل، درد سر، درد شقیقہ اور مرگی میں بھی مفید مانی گئی ہے۔
علامہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ اس کے مضراثرات بنفشہ اور منقیٰ کے ساتھ کھانے سے بالکل ختم ہو کر یہ اکسیر صفت نسخہ بن جاتا ہے۔
(۱) چنانچہ منقیٰ بنفشہ ستالکی تین تین ماشہ پاؤ ڈیڑھ پاؤ پانی میں جوشاندہ بنا کر پھر تھوڑا تھوڑا پیتے رہیں تو مذکورہ بالا امراض کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
(۲) یا تین ماشہ پتے ڈنٹھل صاف کر کے ایک تولہ شہد کے ساتھ بھی شام یا رات کو استعمال کرنے سے یہی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
(۳) حکیم رازی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ سنامکی کے ساتھ شاہترہ استعمال کیا جائے تو جسم میں تمام زہریلے مادہ کو خارج کر دیتا ہے اور یہی نکتہ میں بھی آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اس کا مجھے بھی تجربہ ہو چکا ہے اور بھاری بھرکم جسم رکھنے والے خواتین و حضرات کے لیے تو نعمت سے کم نہیں۔ اسی نسخہ سے بعض دفعہ الرجی کا بھی صفایا ہو جاتا ہے اور جسم سے سوزش، خارش وغیرہ بھی نیست و نابود۔ مختصر بات یہ ہے کہ سنامکی کو تنہا استعمال میں نہ لائیں، سنامکی اپنے اندر بڑی کشش رکھتی ہے۔ اپنے معالج سے مشورہ کر کے دیکھیں کئی در کھلیں گے ان شاء اللہ۔
(۴) چوتھا نسخہ ملاحظہ فرمائیں۔ سنامکی ڈیڑھ ماشہ کو باریک کر کے گھر میں گلقند (یہ مصدقہ شدہ ہونی چاہیے) دو تولے میں ملا کر دودھ یا پانی سے کھلائیں تو ایک پاخانہ کھل کر آ جاتا ہے اور تمام فاسد مادے ختم ہو جاتے ہیں۔ تاہم اس کا دست آور حصہ بچہ کی ماں کے خون میں جذب ہو کر دودھ میں شامل ہو کر بچے کے پیٹ میں بعض دفعہ مروڑ پیدا کر دیتا ہے، تاہم اطباء عظام میں ایک چورن سینکڑوں سال سے مستعمل ہے جو کہ آیور ویدک میں لکھا ہے مگر چینی کے بغیر یہی چورن ایلوپیتھی میں بھی مستعمل ہے۔ یہ اس کی افادیت ہے۔ آیور ویدک طب میں اس کا نام مدھ دریچن چورن ہے۔ طب کے باغات سے تو آپ پھل کھاتے آئے ہیں اور کھاتے رہیں گے ان شاء اللہ آج آپ آیور وید طب کے درخت کا ایک پھل کھا کر دیکھیں تمام طبیں بھول جائیں گے۔ یہی چورن وہ تمام مائیں استعمال کرسکتی ہیں جن کی گودوں میں پھول سے نازک بچے اٹھکیلیاں لے رہے ہیں۔ اس کے استعمال سے ماں بچہ دونوں کی صحت ہمیشہ اچھی رہے گی۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام یہی تو ہے۔
نسخہ:
سنامکی، آملہ سار، ملٹھی، سونف، چینی پانچ اجزاء ہم وزن کو باریک کر کے شام کو چھ ماشہ سے ایک تولہ تک پانی سے کھائیں۔ میں نے آپ کی خدمت میں حکمت کی ایک ہی پوٹلی کھولی ہے، آپ علماء کرام اور مفسرین عظام یا محدثین کرام سے دریافت فرمائیں۔ ہر قسم کے غلیظ، ردی، فاسد مادوں پر بقول جناب پیر پگاڑہ صاحب جھاڑو پھیر دیتی ہے۔ علامہ ذہبیؒ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حافظ ابن قیمؒ کے قیمتی خیالات ابھی باقی ہیں۔ ابن سیناؒ نے سنامکی کو دل کے امراض کے لیے، جوڑوں کے درد، جلدی امراض، خونی امراض کے علاوہ وہ جریان جس میں سفید رطوبت خارج ہوتی ہے (کہ یہ جریان کا مرض نہیں) میں استعمال کیا ہے۔ آپ اس کا چورن اپنے استعمال میں لا کر مستفید ہو سکتے ہیں۔ مثانہ اور پتھری کے امراض میں یہ چورن اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ جواب کے لیے جوابی خط سے یاد فرمائیں۔