اسلامی ممالک میں سائنس کی ترویج

سائنسی ٹیکنیکی علوم و فنون، آزادی و خود مختاری، قوم و ملت، عزت و ناموس، خوشحالی و آسودگی سب ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ اس میں نہ تو کوئی شک کی گنجائش ہے نہ مبالغہ کہ عصر حاضر سائنسی کمالات و عجائبات کا دور ہے۔ تمام قوموں کے عروج و زوال کا پیمانہ سائنسی علوم و فنون کی ترقی و ترویج یا تنزلی و پستی ہے۔ اس لیے نہ صرف تعلیمی اداروں کو اس کی روشنی سے مزین و منور کر دینا چاہیے، بلکہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے، خاص و عام شہری کو سائنسی علوم سے روشناس کرانا، ان کی انداز سوچ و فکر کو سائنٹیفک اصول پر استوار کرنا ملک و قوم کو فوری ترقی کی راہ پر گامزن کر دینے کے مترادف ہے۔ غور و فکر کی صحیح روش، فہم و ادراک، عقل و دانش کو صحیح خطوط پر تربیت کی جائے تاکہ قوم میں بلا جواز جذباتیت، توہمات اور سعی و کوشش کے بغیر صرف تقدیر پر بھروسہ کرنے اور اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارنے کے بجائے عقل و شعور کی روشنی میں صاف واضح نتائج اور اسباب و علل کا بحیثیت مجموعی ادراک حاصل ہو اور جذبۂ تحقیق و تسخیر کائنات سے سرشار ہو کر کسی کام کا بیڑہ اٹھانے کی صلاحیت واہلیت پیدا ہو سکے۔

اسی طرح انسان کے بیشتر مسائل، مسائل در مسائل میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی حل ہو سکیں گے اور برادران ملت معاشرے میں وقتاً فوقتاً پھیلائی جانے والی ارادتاً یا سہواً گمراہ کن افواہوں اور قوم و ملک کو زک پہنچانے والے زہر قاتل پروپیگنڈے سے خود کو محفوظ اور مامون رکھ سکیں گے۔ انسان کی طبعی و نفسانی کمزوری، کج روی، تعصبات، انا، خواہش نفسانی اور خود غرضیوں کو بنیاد بنا کر پروپیگنڈے کی سائنسی اور تیکنیکی علم کی روشنی میں شرپسند عناصر یا مخصوص مفادات کے حامل حضرات ذاتی مفاد یا گروہی مفادات کی خاطر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ، نقصان کو فائدے اور حقیقتاً فائدے کو نقصان میں بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ہار کو جیت اور جیت کو ہار میں بدلنے میں کمال درجہ مہارت رکھتے ہیں، اس طرز فکر کا سد باب کیا جا سکے گا۔ تربیت یافتہ ذہن کا عمل و کردار مکمل و جامع علم کی روشنی میں قطعی واضح اور مستند ہو گا۔ فی الوقت گرد و پیش میں لوگوں کے رویے میں جذباتیت اور لفاظی زیادہ، فعالیت کم یا ناپید ہے۔ یہ سائنٹیفک سوچ کے فقدان کی صریح علامت ہیں، جسے ختم کرنے کے لیے سائنسی ذہن کی تخلیق و ترویج وقت کی بے حد اہم اور اولین ضرورت ہیں۔

تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ صدیوں پہلے جب پوری کائنات پر جہالت و گمراہی کی تاریک رات مسلط تھی، اسی گھپ اندھیرے اور رو سیاہ رات میں ملت اسلامیہ علم و آگہی کی شمع روشن کیے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک پر حکمران تھی اور ان کی راہنمائی کر رہی تھی۔ سائنسی علوم وفنون میں بھی اسے بے حد مستند و اعلیٰ وارفع مقام حاصل تھا۔ علم و فضل میں اس کی فوقیت و برتری کی پوری عالم انسانی معترف اور معتقد تھی۔ دنیائے علم وفن کے مشاق و اہل ذوق حضرات علم کی پیاس بجھانے کے لیے مختلف اسلامی یونیورسٹیوں کا رخ کیا کرتے تھے۔ کہاوت ہے کہ ”دیئے سے دیا جلتا ہے۔“ یورپ کے احیائے العلوم کی تحریک اسی شمع سے فروزاں ہوئی، جسے دست مسلم نے ہی فروزاں کیا تھا۔

مسلمانوں کی بے مثل تاریخی و قابل رشک، قابل ستائش و قابل تقلید کردار کو شاہانہ پرتکلف زندگی، فراوانی، سامان تعیش، خوشحالی اور آسودگی، غفلت فرائض منصبی، تن آسانی، ذمہ داریوں سے روگردانی، بے عملی، تحقیق و جستجو، جوش عمل کے فقدان، عمل پیہم سے عدم توجہی اور جذ بہ تسخیر کائنات سے تہی دستی نے انہیں زوال کے راستے پر ڈال دیا۔ صرف اسلاف کے کارناموں پر فخر و غرور، عیش وعشرت یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ کسی کوشش و جدوجہد کے ہمیشہ دنیا میں حکمران اور ترقی یافتہ رہیں گے۔ اس طرح مسلمانوں نے تخلیق و تعمیر مسلسل کی صفت کو چھوڑ کر نہ صرف یہ کہ اپنی آزادی گنوا بیٹھے، بلکہ عزت و ناموس کو بھی برباد کر دیا۔ پورے جگ میں ذلیل و رسوا ہوئے۔ دنیا کے رہبر نے اپنی غلامی و تحقیر پر اپنی بے عملی سے مہر ثبت کر دی۔

اس کے برعکس مغربی اقوام نے مسلم تحقیق کے علوم و فنون سے استفادہ کرتے ہوئے انہیں ترقی دی۔ سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دیا اور علمی و سیاسی اور دیگر متعدد حیثیتوں سے دنیا پر اقتدار قائم کر لیا۔ اسلامی حکومتوں کا عروج و زوال اور مغربی ممالک تنزلی کے بعد عروج و فروغ اس کہاوت کا مصداق ہے کہ سائنسی علوم و فنون کا فروغ قوموں کی عزت و وقار کا فروغ ہے۔ ملکوں کی آزادی اور ان کی عزت و ناموس ان کی علمی ترقی اور ان کے فروغ میں مضمر ہے۔ مسلم ممالک جو خود کسی زمانے میں ہر معاملے میں خود کفیل تھے، اب اپنی ضروریات میں بھی خواہ وہ سامان حرب ہو یا سامان تجارت، خوراک ہو یا کہ لباس، دوسروں کے دس نگر نظر آتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں کہ گم کردہ روایت اور کھوئی ہوئی میراث کو حاصل کرنے کے لیے، ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہونے کے لیے علم و فضل، سائنس و ٹیکنالوجی میں تحقیق و جستجو کو اپنا رہنما اصول بنایا جائے۔ سائنسی فکر کو ملک میں عام کرنا ہوگا اور اپنی عملی زندگی پر محیط کرنا ہوگا۔ دراصل علم و آگہی اور بامقصد عمل پیہم ہی انسان کو جانور سے ممیز کرتی ہے۔ بامقصد غور و فکر، عمل مسلسل اور جہد مسلسل ہی اس کی اپنی شناخت ہے اور کائنات کو گل و گلزار بنانے کا موجب۔


عالم اسلام اور مغرب

(الشریعہ — نومبر ۱۹۹۱ء)

الشریعہ — نومبر ۱۹۹۱ء

جلد ۳ ۔ شمارہ ۱۱

تحریک خلافت اور اس کے ناگزیر تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام محمد بن اسمعیل بخارى رحمہ الله
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

اللہ رب العزت کی زیارت کیسے ہو گی؟
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتی

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا ایک الہامی خواب اور ہماری اقتصادی مشکلات
ڈاکٹر محمود الحسن عارف

اناجیل کی اصل زبان اور ارامی اناجیل کی گمشدگی کے اسباب
پادری برکت اللہ

اسلامی ممالک میں سائنس کی ترویج
محترمہ انجمن آراء صدیقی

آہ! جناب ارشد میر ایڈووکیٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آپ نے پوچھا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قبض، کھانسی، نزلہ، زکام
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لباس کے آداب
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

اللہ والوں کی صحبت کا اثر
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter