اناجیل کی اصل زبان اور ارامی اناجیل کی گمشدگی کے اسباب

حضرت کلمۃ اللہ کی مادری زبان ارامی تھی۔ دور حاضرہ میں علماء اس امر پر متفق ہیں کہ آپ کی مادری زبان ارامی زبان کی دو شاخ تھی جو ”یہودی کنعانی “ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ بولی مسیحی کنعانی سے ملتی جلتی ہے۔ ہم کو یہ بات بھی معقول نظر آتی ہے کہ حضرت ابن اللہ یونانی زبان سے بھی کچھ کچھ واقف تھے اور اس زبان کو بول بھی سکتے تھے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے اہل یہود یونانی زبان میں تعلیم دی تھی۔ کیونکہ آپ کے سامعین سب کے سب یہودی تھے، جن کی اور آپ کی مادری زبان ارامی تھی۔ اہل یہود ارض مقدس میں یہودی سامعین کے واسطے مذہبی امور اور تبلیغ کے لیے یونانی استعمال نہیں کرتے تھے اور نہ وہ ایسا کر سکتے تھے، کیونکہ یہود جیسے قوم پرست لوگوں کے لیے یہ ایک خلاف فطرت بات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مقدس پولوس نے یہودی ہجوموں سے ارامی میں بات کی تھی۔

اناجیل کی اصل زبان

چشم دید گواہوں کے بیانات صرف زبانی بیانات ہی نہ تھے جو نصف صدی سے زائد عرصے تک سینہ بسینہ ایک پشت سے دوسری پشت تک پہنچائے گئے تھے۔ یہ بیانات جو ارامی زبان میں تھے اناجیل اربعہ کے ماخذ تھے اور یہ ماخذ تحریری تھے کیونکہ حافظ کے لیے یہ ناممکن ہے کہ انجیلی بیان کے واقعات کو مسلسل طور پر ایسا حفظ کرے کہ نہ تو واقعات کی ترتیب میں فرق آئے اور نہ بیانات کے لفظوں اور فقروں میں اختلاف واقع ہو، اور کہ ان بیانات کے الفاظ اور فقرے ایسی صحت کے ساتھ سینہ بسینہ دو تین پشتوں تک حفظ رہے ہوں کہ حضرت کلمۃ اللہ کے کلام بلاغت نظام کی تمام خصوصیات اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ محفوظ رہیں۔

پس اناجیل کے ماخذ ارامی زبان میں اناجیل کی تصنیف سے مدتوں پہلے احاطۂ تحریر میں آ چکے تھے اور اناجیل کے مصنفوں کے ہاتھوں میں تھے۔

چونکہ حضرت کلمۃ اللہ اپنے یہودی سامعین کو ارامی زبان میں تعلیم دیتے تھے اور انجیل نویسوں کے سامنے ماخذ ارامی زبان میں تھے اور وہ دورِ اولین یہودی مسیحی کلیساؤں کے لیے اپنی اناجیل کو تصنیف کر رہے تھے، پس یہ امر قدرتی ہے کہ وہ اپنی اناجیل کو ارامی زبان میں لکھتے۔

 گذشتہ چالیس سالوں میں علماء کی تحقیق نے اس نتیجہ کو نہایت تقویت دی ہے کہ انا جیل پہلے پہل ارامی زبان میں لکھی گئی تھیں۔ یہ نظریہ ابتدا میں جے۔ ٹی۔ مارشل نے اکیس پوزیٹر ۱۸۹۱ ء تا ۱۸۹۳ء کے نمبر ون میں پیش کیا تھا۔ اس زمانے میں مسیحی فضلاء نے ارامی زبان کا ایسا وسیع مطالعہ نہیں کیا تھا۔ علماء کو ان دنوں میں اس حقیقت کا علم بہت کم تھا کہ آنخداوند کی بعثت سے قبل صدیوں پہلے ارامی اہل یہود کی ادبی زبان تھی اور عوام الناس کے لیے کتابیں ارامی زبان میں ہی لکھی جاتی تھیں۔ چنانچہ اہل یہود کی بعض کتابوں کی نسبت چالیس سال پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ پہلے پہل وہ عبرانی یا یونانی میں لکھی گئی تھیں، لیکن اب یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ پہلے پہل ارامی میں تصنیف کی گئی تھیں۔

ڈاکٹر برکت جیسے پائے کا عالم اناجیل کی نسبت کہتا ہے:

”یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں تک اناجیل کے نفس مضمون اور ذہنی فضا کا تعلق ہے وہ یونانیت کے اثر سے بالکل پاک ہیں اور بادی النظر میں وہ ارامی اصل کا ترجمہ معلوم دیتی ہیں۔ ان کے خصوصی موضوع اور بنیادی تصورات، جس کے گرد اناجیل کے تصورات گھومتے ہیں، سب کے سب کا تعلق خداوند کے زمانے سے ہے۔ مثلاً خداوند خدا کی بادشاہت، مسیح موعود کا تصور، عدالت کا دن، آسمان کا خزانہ، ابراہام کی گود وغیرہ سب کے سب یہودی تصورات سے متعلق ہیں اور رومی یونانی دنیا کے تصورات کا ان تصورات سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ ہم کو اناجیل میں ”بقائے روح“ کا مسئلہ نظر نہیں آتا لیکن روز قیامت کا ذکر ملتا ہے۔ ہم کو نیکی کا یونانی فلسفیانہ معیار نہیں ملتا لیکن خدا کی راست بازی کا ذکر ہے۔ ہم کو تزکیۂ نفس کا نشان نہیں ملتا، لیکن گناہوں کی معافی کا تصور ہر جگہ موجود ہے۔ تمام اناجیل اربعہ میں کفر، شرک اور الحاد کے خلاف ایک لفظ بھی پایا نہیں جاتا۔ یہ امور ثابت کرتے ہیں کہ اناجیل اربعہ میں یونانیت کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔ تمام اناجیل میں ہر جگہ صرف یہودی فضا ہی ہے اور اناجیل نے اسی ارامی فضا میں ہی پرورش پائی ہے۔ “

پروفیسر سی۔ سی۔ ٹوری کا یہ نظریہ ہے کہ اناجیل اربعہ سب کی سب پہلے پہل ارامی زبان میں لکھی گئی تھیں، جن کا بعد میں یونانی زبان میں لفظی ترجمہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ٹوری کوئی معمولی پایہ کا عالم نہیں ہے، بلکہ ارامی اور یونانی زبان کے ماہرین میں صف اول کا ماہر ہے۔ وہ ایک نہایت زبردست زبان دان اور ماہر علم اللسان ہے، جس کے علم کا لوہا تمام علماء مانتے ہیں۔ چنانچہ فوکس جیکسن اور کرسپ لیک کہتے ہیں:

”حق تو یہ ہے کہ ٹوری کی کتاب میں جو دلیل اناجیل کی زبان سے متعلق ہے وہ مستقل حیثیت رکھتی ہے اور جہاں تک اناجیل کے پہلے پہل ارامی زبان میں لکھے جانے کا تعلق ہے، اس کے نظریہ کے مخالفین تا حال کوئی قطعی جواب نہیں دے سکے۔ “

 ڈاکٹر ولہاسن جیسے علماء (جو ارامی اور یونانی دونوں زبانوں کے ماہر ہیں) کی تصانیف ہر شخص پر اناجیل کے ان نکات کو ظاہر کر دیتی ہیں جو ان لوگوں سے چھپی رہتی ہیں جو دونوں زبانوں سے واقف نہیں ہوتے۔

چونکہ آنخداوند نے اپنے سامعین کو ارامی زبان میں مخاطب کیا تھا، پس اگر کوئی شخص آپ کے فرمودہ کلمات کا اصل مطلب جاننے کا خواہش مند ہے تو یہ لازم ہے کہ وہ یونانی ترجمہ کے الفاظ کے پردے کے پیچھے جائے اور اُن اصل ارامی الفاظ کو معلوم کرے جو آپ نے فرمائے تھے اور آپ کے خیالات کی طرزِ ادا کو جانے اور آپ کے زمانے کے خاص حالات اور کیفیات کا جائزہ لے۔ ان باتوں کا علم صرف یونانی ترجمہ سے نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ آخر ترجمہ ہے اور اصل نہیں ہے۔

ارامی اناجیل کی گمشدگی کے اسباب

ہم نے گذشتہ فصلوں میں فیصلہ کن اندرونی اور اس بیرونی شہادت سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مقدس لوقا کی انجیل کے سوا تمام اناجیل اربعہ پہلے پہل ارامی زبان میں لکھی گئی تھیں۔ اندرونی شہادت ایسی صاف اور واضح ہے کہ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ بیرونی شہادت کے حق میں صدیوں کے مختلف علماء کے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں، جن سے ظاہر ہے کہ یہ مصنف اس ایک بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ اناجیل ارامی زبان میں تھیں۔ یہ حقیقت ان عالم مصنفوں کے لیے بھی موجب حیرت تھی، کیونکہ ان کے زمانے میں ارامی نسخے ناپید ہو گئے تھے اور صرف یونانی اناجیل ہی ہر جگہ مروج تھیں۔

اس کے خلاف بعض محتاط نقاد یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اناجیل اربعہ ہم تک یونانی زبان میں ہی پہنچی ہیں اور یہ سب قدیم اور جدید ترجمے یونانی متن سے ہی ترجمہ کیے گئے ہیں۔ ہم کو اب تک کوئی ایسا نسخہ دستیاب نہیں ہوا جس میں کسی ارامی الاصل انجیل کا جز بھی ہو اور کلیسیائی روایات میں ارامی الاصل اناجیل کا کہیں ذکر نہیں آتا۔

لیکن یہ دلیل منطقیانہ استدلال کے خلاف ہے۔ کسی شے کی گمشدگی یا ناپیدگی سے اس کا عدم وجود ثابت نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی چیز ہم کو دستیاب نہیں ہوئی تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کبھی وجود میں ہی نہیں آئی تھی۔ مثلاً علماء اس امر کو قبول کرتے ہیں کہ مکابیوں کی پہلی کتاب عبرانی اصل کا یونانی ترجمہ ہے۔ اب یہ کتاب عبرانی میں موجود نہیں، لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ یہ کتاب پہلے پہل عبرانی میں نہیں لکھی گئی تھی۔

ایک اور مثال یہودی مورخ جوزیفیس کی کتاب ”تاریخ جنگ یہود“ ہے۔ یہ بات سب کو مسلم ہے کہ اس نے یہ کتاب ایسے لوگوں کے لیے ارامی زبان میں لکھی تھی جو ارامی پڑھتے لکھتے تھے۔ یہ لوگ نہ صرف کنعان کے یہود تھے بلکہ پارتھیا، بابل، عرب کے دور و دراز مقامات کے قبائل، فرات کے پار کے یہودی اور ادیابین کے باشندے تھے۔ تھیکرے ہم کو بتلاتا ہے کہ اس نے یہ کتاب رومی حکام کے ایماء پر لکھی تھی تاکہ پراپا غنڈا کے کام آئے۔ یعنی اس کتاب کا مقصد یہ تھا کہ مغربی ایشیا میں بغاوت اور فساد فرو ہو جائے۔ پر اب ارامی زبان میں یہ کتاب موجود نہیں ہے، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ کتاب اس زبان میں کبھی لکھی ہی نہ گئی تھی۔

حق تو یہ ہے کہ کسی زمانے یا کسی صدی یا کسی زبان کی کتابوں کا محفوظ رہنا محض ایک اتفاقیہ امر ہوتا ہے۔ ہم آگے چل کر ان اسباب پر بحث کریں گے جن کی وجہ سے ارامی اناجیل کا رواج بند ہوگیا۔

ارامی اناجیل کے وجود کے خلاف ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اناجیل کے تمام مشکوک یونانی الفاظ کا ایسی ارامی زبان میں تا حال ترجمہ نہیں کیا گیا جو تمام علماء کے نزدیک مسلم ہو۔ لیکن یہ بھی کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہم مکابیوں کی پہلی کتاب کو لیں جو عبرانی اصل کا یونانی ترجمہ ہے۔ جب علماء اس کتاب کے یونانی الفاظ کا دوبارہ عبرانی میں ترجمہ کرتے ہیں تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ اصل عبرانی الفاظ کا ہر جگہ ایسا یقینی طور پر ترجمہ نہیں ہو سکتا جس کے سامنے سب علماء سرِ تسلیم خم کر دیں۔ حالانکہ عہد عتیق کے عبرانی متن کا سیپٹواجنٹ میں ترجمہ موجود ہے اور دونوں یونانی متن علماء کے سامنے موجود ہیں؛ تاہم ان کو تعین کرنا پڑتا ہے کہ سیپٹواجنٹ کے مترجمین کے سامنے عبرانی اصل متن کے کیا الفاظ تھے۔

یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ پہلی صدی کی کنعانی تحریرات اب ناپید ہیں اور ہمارے پاس اس خاص زمانہ کی ارامی زبان کی کتب موجود نہیں، جس زمانہ میں اناجیل ارامی میں تصنیف کی گئیں۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ اناجیل پہلے پہل ارامی میں لکھی ہی نہ گئی تھیں۔ ارامی زبان خداوند مسیح کے زمانہ سے مدتوں پہلے نشوونما پا کر ترقی کر چکی تھی اور اس کی خصوصیات ہر زمانہ میں اور ہر جگہ جہاں یہ زبان بولی جاتی تھی، قائم اور برقرار رہیں۔ چنانچہ دیگر زبانوں کی طرح ارامی زبان کے بھی مخصوص محاورات اور نحوی ترکیبیں وغیرہ فوراً پہچانی جا سکتی ہیں، خواہ وہ ترجمہ کی صورت میں ہی موجود ہوں۔ علاوہ ازیں اس معاملہ میں انکلوس اور یونتن کے تارگم جو انہوں نے انبیاء کی صحف مقدسہ پر لکھے ہیں بڑے کام کے ہیں۔ کیونکہ ان سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ پہلی صدی مسیحی میں ارض مقدس میں کس قسم کی ارامی زبان مروج تھی۔ اس کے علاوہ ہمیں ایک کتبہ دستیاب ہوا ہے جو ۴۴ قبل مسیح کا ہے اور خداوند کی پیدائش سے پہلے ہیرو دیس اعظم کے عہد کے یہودی کتبے ملے ہیں جن سے منجئ عالمین کے زمانہ کی ارامی زبان معلوم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ان اعتراضات کی اصل وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ علماء صدیوں سے یہی مانتے چلے آئے ہیں کہ اناجیل کی اصل زبان یونانی ہے، لیکن اگر ہم اس نظریہ کو مان لیں تو اناجیل کی مشکلات بدستور قائم رہتی ہیں۔ کیونکہ جیسا ہم اپنی کتاب ”اناجیل اربعہ کی اصل زبان اور چند آیات کا نیا ترجمہ“ میں ثابت کر چکے ہیں۔

(۱) اگر بعض مقامات پہلے پہل یونانی میں لکھے گئے تھے تو ان کی سمجھ ہی نہیں آتی، لیکن جب ان کا ارامی زبان میں دوبارہ ترجمہ کیا جاتا ہے تو ان کے معانی روشن ہو جاتے ہیں۔

(۲) بعض الفاظ کو یونانی مترجم نے غلط اعراب دے کر یا غلط پڑھ کر ترجمہ کر دیا ہے، جس سے یونانی متن کا مطلب خبط ہو جاتا ہے۔

(۳) یونانی متن کے بے ڈھنگے اور غرائب محاورات اور نحوی ترکیبیں جو یونانی زبان کے خلاف ہیں۔

 (۴) حروف جار اور افعال کی مختلف صورتوں کا استعمال جو بعض اوقات حیران کن ہو جاتا ہے، لیکن جب ان کا دوبارہ ارامی زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو دقت دور ہو جاتی ہے۔

پس یہ نظریہ کہ اناجیل پہلے پہل ارامی زبان میں لکھی گئی تھی صحیح ہے۔

مسیحی علم ادب جو ارا می زبان میں لکھا گیا تھا سب کا سب ضائع ہو گیا ہے۔ اس میں اناجیل کی نقلیں بھی شامل ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہ عدادت تھی جو یہودیوں اور مسیحی کلیسیا میں بڑھتی گئی تھی۔ ۶۰ء میں یہ خلیج ایسی وسیع نہیں ہوئی تھی۔ (اعمال ۲۸: ۲۰- ۲۲) اس زمانہ میں جیسا ہم اس باب کے شروع میں بتلا چکے ہیں یسوع ناصری کے شاگرد بھی وفادار یہودی شمار کیے جاتے تھے۔ (اعما ۲۲ باب) گو وہ بدعتی سمجھے جاتے تھے۔ ان کی ”اناجیل“ کو عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، لیکن یروشلم کی تباہی نے یہ نقشہ پلٹ دیا۔ تب علمائے یہود نے اناجیل کے خلاف فتوے صادر کر دیے اور مسیحی کتابوں کو تباہ کر دیا۔ کیونکہ ان کو نہ صرف یہ اختیار حاصل تھا، بلکہ ان میں ایسا کرنے کی قدرت بھی تھی۔ طیطس کے ماتحت رومیوں نے رہا سہا ارامی لٹریچر برباد کر دیا، جس طرح اس سے پہلے مکابیوں کے زمانہ میں یونانیوں نے تباہ کر دیا تھا۔ (۱۔ مکابی ۱: ۵۶۔۵۸)

اہل یہود سے کہیں زیادہ یہودی مسیحی کلیسیا برباد، تباہ اور پراگندہ ہوگئی، کیونکہ کنعان کی بت پرست آبادی ان کو یہودی تصور کرتی تھی اور اہل یہود ان کو بدعتی، صلح جُو اور شکست پسند خیال کرتے تھے۔ چنانچہ ۶۶ء سے ذرا پہلے اہل یہود کے فسادات میں خداوند کا بھائی یعقوب، جو یروشلم کی کلیسیا کا سر تھا، شہید کر دیا گیا۔ پس یہ اغلب ہے کہ یروشلم سے مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد اور گلیل کے بڑے شہروں سے (جہاں قوم پرست تند مزاج یہودی بستے تھے) یہودی مسیحی ۶۶ء سے پہلے بھاگ کر پراگندہ ہو گئے تھے۔

یہودی مسیحیوں کی پراگندگی نے اس رشتہ اور تعلق کو توڑ ڈالا جو غیر یہودی مسیحیوں میں اور ان روایات میں تھا، جن کا تعلق خداوند کے رسولی حلقہ اور چشم دید گواہوں سے تھا، جنہوں نے خداوند کے معجزات کو دیکھا تھا اور آپ کے کلمات طیبات کو سنا تھا۔

ارامی اناجیل کے ناپید ہونے کے اسباب میں نہ صرف یہودی مسیحیوں کی پراگندگی ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم وجہ یہ تھی کہ کلیسیا میں غیر یہود کی اکثریت ہو گئی تھی اور یہ اکثریت روز بروز بڑھتی گئی تھی۔ آنخداوند اور آپ کے شاگرد ارامی بولنے والے سامی نسل کے یہودی تھے، لیکن دو پشتوں کے اندر اندر مسیحی کلیسیاؤں کی ایک بڑی اکثریت یونانی بولنے والی اور سلطنت روم کے شہروں میں رہنے والی ہو گئی، جس نے یونانی خیالات میں پرورش پائی تھی۔ قدرتاً ارامی انجیل کا نقل ہونا رفتہ رفتہ بند ہو گیا کیونکہ ان اناجیل کا یونانی زبان میں اس وقت تک ترجمہ ہو چکا تھا، جن کی نقلیں کثرت سے ہوتی گئیں۔ حتی کہ ایک وقت ایسا آیا جب ارامی اناجیل ناپید ہو گئیں اور صرف یونانی اناجیل کا ہی رواج ہو گیا اور ان یونانی اناجیل کے ترجمے مختلف ممالک کی زبانوں میں ہوگئے۔ 

(قدامت و اصلیت اناجیل اربعہ، جلد دوم کے مختلف مقامات سے ماخوذ)


مذاہب عالم

(الشریعہ — نومبر ۱۹۹۱ء)

الشریعہ — نومبر ۱۹۹۱ء

جلد ۳ ۔ شمارہ ۱۱

تحریک خلافت اور اس کے ناگزیر تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام محمد بن اسمعیل بخارى رحمہ الله
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

اللہ رب العزت کی زیارت کیسے ہو گی؟
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتی

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا ایک الہامی خواب اور ہماری اقتصادی مشکلات
ڈاکٹر محمود الحسن عارف

اناجیل کی اصل زبان اور ارامی اناجیل کی گمشدگی کے اسباب
پادری برکت اللہ

اسلامی ممالک میں سائنس کی ترویج
محترمہ انجمن آراء صدیقی

آہ! جناب ارشد میر ایڈووکیٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آپ نے پوچھا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قبض، کھانسی، نزلہ، زکام
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لباس کے آداب
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

اللہ والوں کی صحبت کا اثر
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter