اللہ رب العزت کی زیارت کیسے ہو گی؟

افادات: امام ولی اللہ دہلویؒ، شاہ رفیع الدین دہلویؒ

ترجمہ و توضیح: مولانا صوفی عبد الحمید سواتی


أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ (المتوفاة ۵۸ھ) اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ (المتوفی ۳۲ھ) ان آیات مبارکہ کو، جو سورہ النجم میں وارد ہوئی ہیں، حضرت جبرائیل علیہ السلام کے حق میں کہتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت بصری کا انکار کرتے ہیں۔ حضرت ابوذر غفاریؓ (المتوفی ۳۲ھ) سے دونوں قسم کی روایتیں ثابت ہیں۔ ”ھو نور انی اراه“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ اور ابوذر غفاریؒ سے یہ روایت بھی ثابت ہے: ”رأیت نورا فسجدت“ کہ میں نے نور کو دیکھا اور میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔

ام المؤمنین حضرت عائشہؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا استدلال درج ذیل آیات و احادیث سے ہے۔

(۱) ”ما کان لبشر ان يكلمہ اللہ الا وحیا او من ورائ حجاب او یرسل رسولا“ (زخرف)

کسی انسان اور بشر کی یہ حد و شان نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے براہ راست کلام کرے، بجز اس کے کہ یا تو وحی کے ذریعے یا حجاب کے پیچھے سے یا فرشتہ بھیج کر اس کے ذریعہ کلام کرتا ہے۔

(۲) ”لا تدركہ الابصار وھو یدرك الابصار وهو اللطیف الخبیر“ (انعام)

آنکھیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ آنکھوں کو پا سکتا ہے اور وہ نہایت ہی باریک بین اور خیبر رکھنے والا ہے۔

(۳) ”ھو نور انی اراه“

وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟

اور دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ معراج کی شب قلب کے ساتھ بھی رؤیت ہوئی ہے جیسا کہ مفسر قرآن صاحب روح المعانی سید آلوسیؒ (المتوفی ۱۲۷۰ھ) وغیرہ نے کہا ہے کہ آپؐ کے قلب مبارک میں قوتِ ابصار بھی تھی۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ (المتوفی۶۸ھ) رؤیت قلب (فؤاد) اور رؤیت بصر دونوں کے قائل ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ (المتوفی ۷۳ھ) اور امام حسن بصریؒ (المتوفی ۱۱۰ھ) اور دیگر حضرات بھی اسی کے قائل ہیں۔ بلکہ حضرت حسن بصریؒ تو قسم اٹھا کر کہتے تھے: حضرت محمدﷺ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے اور حضرت عروہ بن زبیرؒ بھی اسی بات کو ثابت کرتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ کیا تم لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ خلت حضرت ابراہیمؑ کے لیے ہو اور کلام حضرت موسیٰؑ کے لیے اور رؤیت حضرت محمدؐ کے لیے!

یہ حضرات ام المومنین عائشہؓ یہ اور عبد اللہ بن مسعودؓ کے استدلال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ آیت ”ما کان لبشر ان يكلمہ اللہ“ یہ تو کلام کے بارے میں ہے نہ کہ رؤیت کے مطابق اور ”لا تدركہ الابصار“ میں ادراک کا ذکر ہے اور ادراک تو احاطہ کو کہتے ہیں اور وہ تو حق تعالی کے بارہ میں محال ہے، کیونکہ وہ خود محیط ہے نہ محاط۔ اور رؤیت آخرت میں تو تمام مومنین کے لیے ثابت ہے، جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں ہے: ”وجوہ یومئذ ناضرۃ إلى ربها ناظرة“ (قيامت)

 بہت سے چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اور اپنے پروردگار کی طرف دیکھنے والے ہوں گے۔

اور علاوہ ازیں بکثرت احادیث صحیحہ میں اس کا ثبوت موجود ہے۔ اس کے برخلاف فرقہ معتزلہ، فرقہ مرجیہ، فرقہ خوارج، روافض اور بعض دیگر اہل بدعت اس کے منکر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر رؤیت ثابت ہو تو اللہ تعالیٰ کے لیے جہت اور مکان ثابت ہو گا اور یہ اس کی شان تنزیہ کے خلاف ہے۔ اہل السنۃ والجماعۃ رؤیت کے قائل ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ رؤیت بے کیف ہوگی۔ رؤیت کا تعلق اسباب سے بھی اور بغیر اسباب دونوں طرح ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالی قادر مطلق ہے، جس طرح وہ اسباب سے رؤیت پیدا کرتا ہے اسی طرح بغیر اسباب کے بھی رؤیت کو پیدا کر سکتا ہے۔

مفسرین کرام کا ایک گروہ یہ بھی کہتا ہے کہ شب معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤیت باری تعالٰی حاصل ہوئی تھی، وہ عالم اسباب سے خارج تھی، کیونکہ وہ حظيرة القدس میں سدرۃ المنتہیٰ کے پاس واقع ہوئی تھی۔ وہ ناسوتی عالم میں نہیں واقع ہوئی، لہٰذا کوئی اشکال نہیں۔ (مظہری) اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی۔ آپﷺ کے علاوہ تمام لوگوں کے لیے خواہ انبیاءؑ ہوں یا غیر انبیاء یہ بات ہے۔ جس طرح آپﷺ نے فرمایا: ”انکم لن تروا ربکم حتی تموتوا“ کہ تم لوگ اپنے پروردگار کو نہیں دیکھ سکتے جب تک مر کر دوسرے جہاں میں نہ پہنچ جاؤ۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا: ”لن ترانی“ وہ بھی مشروط تھا: ”فان استقر مکانہ فسوف ترانی“ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اس مادی جہاں میں وہ قوت و طاقت نہیں جو دوسرے جہاں میں حاصل ہوگی۔ ”فبصرک الیوم حدید“ آج تمہاری نگاہ بہت تیز ہے۔ وہ سب چیزیں اب تمہیں نظر آ رہی ہیں جو مادی جہاں میں تم نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اس آیت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ جس طرح سورج کے دیکھنے میں دوپہر کے وقت جب ابر و گرد و غبار بھی نہ ہو تو کوئی چیز مانع نہیں ہو سکتی، اسی طرح چودھویں کے چاند کو دیکھنے میں بھی کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی، اسی طرح عالم آخرت میں رؤیت باری تعالی ہو گی۔

حضرت امام ولی اللہؒ اپنی کتاب ”الخیر الكثیر“ میں لکھتے ہیں کہ رؤیت (باری تعالی کو دیکھنے) کی حقیقت علم حضوری اور انکشاف تام ہے، یعنی کامل درجہ کا انکشاف ہے۔ یہ انکشاف کبھی ذات اقدس کا ہوتا ہے اور کبھی صفات عالیہ مقدسہ کا ہوتا ہے اور اس انکشاف کی کیفیت یہ ہے کہ انسان کا اپنا تقرر و تحقق جب مضمحل اور محو ہو جائے تو ایک ہی واحد صمد کی ذات اقدس رہ جاتی ہے۔ اس مادی جہاں میں جو ناقص عالم ہے توحید و انکشاف کا یہ درجہ کبھی مکمل نہیں ہوسکتا۔

اہل السنۃ والجماعۃ کے لیے آفریں ہے کہ انہوں نے وہی بات کہی ہے جو حق ہے اور واقعہ کے مطابق ہے کہ آنکھ کو بھی اس انکشاف کامل میں کسی نہ کسی طرح دخل ہے اور یہ بات ان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور تقلید کی برکت سے حاصل ہوئی ہے۔

امام ولی اللہؒ (المتوفی۱۱۷۶ھ) یہ بھی فرماتے ہیں کہ بہت کچھ رد و قدح اور چھوٹی بڑی باتوں کو دیکھنے کے بعد ہمیں اس بات کا یقین حاصل ہوا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے رب تعالٰی کو اپنی ان ہی سر آنکھوں سے دیکھا ہے اور موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کانوں سے اللہ تعالی کا کلام سنا ہے۔ ان باتوں پر تمہیں تعجب نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ان کو تسلیم کر لینا چاہیے اور ان پر ایمان لانا چاہیے۔ ان باتوں کا انکار کرنا جہالت اور طیش ہو گا یعنی بے جا غصہ، عاجزگی اور درماندگی کی علامت ہوگی۔ (عربی، ص۱۳)

اس مسئلہ کو ذرا زیادہ وضاحت کے ساتھ حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلویؒ (المتوفی ۱۲۳۳ھ) نے اپنی بعض تحریروں (جوابات سوالات اثنا عشرہ فارسی) میں اس طرح بیان کیا ہے۔

سوال دوم: قیامت کے دن اللہ تعالٰی کی ملاقات اور رؤیت ہو گی یا نہیں ؟ اگر ہو گی تو کس طرح ہو گی، کیا تجلی ذات کی شکل میں یا تجلی صفات کی شکل میں؟

جواب: اس فقیر نے ایک رسالہ ”درر و دراری“ میں اس مسئلہ کی تفصیل لکھی ہے، جس کو اس مقام میں نقل کرنا باعث طوالت ہوگا، لیکن ہر حال اس کا مختصر سا بیان اس مقام میں لکھا جاتا ہے۔

اس سلسلہ میں مختصر بات یہ ہے جس پر اہل السنۃ و الجماعۃ کا اتفاق ہے کہ دیدار الٰہی جنت میں بے کیف ہو گا یعنی بغیر رنگ، شکل، بعد اور جہت کے ہو گا۔ اس مسئلہ کی توضیح اہل عقل اور اہل کشف کے محققین نے جس طرح بیان کی ہے وہ چند وجوہات پر ہے۔ چنانچہ حکمائے اسلام میں سے حکیم ابو نصر فارابیؒ (جس کو معلم ثانی بھی کہا جاتا ہے) اپنی کتاب ”نصوص“ میں لکھتے ہیں کہ کسی شے کا انکشاف کبھی جزی شخصی کے طریق پر ہوتا ہے اور کبھی کسی شے کا انکشاف وجوہ کلیہ سے ہوتا ہے، جبکہ عنوان ایک ہی شخص کا ہوتا ہے یا اشخاص کثیرہ ہوتے ہیں۔

اول (جزی شخص کے طریق پر انکشاف) کو رؤیت کہتے ہیں اور

ثانی (وجوہ کلیہ سے انکشاف ہو جبکہ عنوان شخص واحد کا ہو) کو معرفت کہتے ہیں اور

ثالث (وجوہ کلیہ سے انکشاف، جبکہ عنوان اشخاص کثیرہ ہوں) کو علم کہتے ہیں۔

جب تک نفس ناطقہ یا روح کا تعلق بدن کے ساتھ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا تعلق دوسری قسم (معرفت) کے ساتھ ہوتا ہے اور جب بدن سے روح الگ ہو جائے تو یہ معرفت ترقی کر کے درجہ اول تک پہنچ جائے گی اور اسی کو رؤیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (شاہ رفیع الدینؒ فرماتے ہیں کہ) اور یہ جو بیان کیا گیا ہے یہ ابو نصر فارابیؒ کے کلام کا مضمون ہے، عبارت کا ترجمہ نہیں۔

(اور شاہ رفیع الدینؒ فرماتے ہیں) کہ حضرت امام مجدد الف ثانیؒ (المتوفی ۱۰۳۴ھ) اس طرح فرماتے ہیں کہ جو جزم و یقین اور لذت مبصر (دیکھنے والا) اور باصرہ کو معائنہ کے وقت حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ کے ساتھ اس ذات مقدس کی بہ نسبت اسی طرح جزم دیقین اور لذت مبصر و باصرہ میں پیدا ہو جائے گی اور اس کو سوائے ابصار اور رؤیت (یعنی آنکھوں سے دیکھنے اور دیدار) کے کسی دوسری چیز سے نہیں تعبیر کیا جاسکتا۔ کیونکہ اس کے سوا کوئی بھی دوسری عبارت کمال انکشاف پر دلالت نہیں کرتی اور یہ کلام جو ہم نے نقل کیا ہے اس میں کچھ تھوڑا سا تغیر اور اصلاح بھی کی گئی ہے، کیونکہ مجدد صاحبؒ کے کلام شریف میں حصول جزم اور باصرہ کے اندر لذت کے الفاظ نہیں۔

شاہ رفیع الدینؒ فرماتے ہیں کہ علماء کا اتفاق ہے کہ رؤیت وہی ادراک قلبی ہے جو بتوسط حاسہ بصر حاصل ہوتا ہے، مجرد (محض) ادراکِ قلبی نہیں۔ ورنہ یہ بات فرقہ معتزلہ کے قول کے مطابق ہو جائے گی، کیونکہ وہ رؤیت کی یہی تاویل کرتے ہیں کہ قلبی ادراک اور یقین اور علم کا نام ہی رؤیت ہے۔

اور بعض دوسرے حضرات کے کلام سے مستفاد ہوتا ہے کہ مشاہدہ کرنے والے اور دیکھنے والے شخص کے اندر رؤیت کا تحقق اس وقت ہوتا ہے جب مرئی (یعنی دکھائی دینے والی چیز) کا عکس جلیدیہ (شفاف رطوبت جو آنکھ کے ڈھیلے میں بھری ہوئی ہوتی ہے) پر پڑتا ہے اور پھر یہاں سے مجمع النور تک پہنچتا ہے اور پھر وہاں سے حس مشترک میں پہنچتا ہے اور وہاں اس کے سامنے نفس ناطقہ، صورت خیالیہ، صورت و ہمیہ اور صورت عقلیہ تجرید کرتا ہے تو اس طرح رؤیت کا عمل مکمل ہوتا ہے، یعنی رؤیت حاصل اور متحقق ہوتی ہے اور اسی راستے سے صورت نزول کرتی ہے کہ علم عقلی یعنی جو علم عقل میں متحقق اور ثابت ہے وہ بواسطہ وہم اور خیال حس مشترک پر جب نزول کرتا ہے تو ابصار جیسی حالت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن جب تک جلیدیہ تک نزول نہیں ہوتا اس وقت تک حقیقی ابصار یا رؤیت نہیں ہو سکتی۔

اور اس جہاں (عالم آخرت) میں جبکہ نفوس مقدسہ اور مطمئنہ ہو جائیں گے اور کمال درجہ کا اتصال مبداء کے ساتھ پیدا کر لیں گے تو اس ذات مقدس کی نورانی شعائیں قوت عقلیہ اور قوت دہمیہ پر پرتو افگن ہوں گی اور وہاں سے قوتِ خیال اور حس مشترک پر نزول کریں گی اور فیوض الٰہیہ کے شیوع (پھیلاؤ اور انتشار) کی وجہ سے قوت مدرکہ میں اور نیند (نوم) کے مواقع کے مرتفع ہونے کی وجہ سے اور حواس کے معطل ہونے کی بنا پر مجمع النور میں اور جلیدیہ میں بھی اس کی ریزش (یعنی نزول) ہوگا اور جس طرح خیالات اس مادی جہان (ناسوتی اور مادی جہان) میں جہت اور مکان میں نہیں ہوتے ان کے لیے جہت اور مکان کی ضرورت نہیں، اسی طرح وہ معاینہ، مشاہدہ اور رؤیت حقیقہ بھی کسی جہت اور مکان میں نہیں ہوگی۔

اور کچھ دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ حدیث شریف میں جو کچھ رؤیت کے بارہ میں وارد ہوا ہے، اس سے جہت کی نفی اور لوازم جسمیت کے سلب پر اشارہ نہیں پایا جاتا۔ ہاں اس قدر ہے کہ وہ تجلی عیانی (مشاہداتی تجلی) اور صوری تجلی تمام مظاہر سے دو وجہ سے امتیاز رکھتی ہے۔ بہرحال تمام مخلوقات جو کہ جناب حق تعالیٰ کی صفات کے مظاہر ہیں (یعنی خدا تعالیٰ کی صفات کے فیض سے ہی ان کا ظہور و بقاء ہے) اس سے اس طرح امتیاز ہو گا کہ ذات اس مقام میں الوہیت کے عنوان سے ظاہر ہوگی اور باقی تمام مظاہر میں مخلوق اور انواع کائنات کے عنوان سے ظاہر ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آگ سے ندائے ”انا اللہ ولا الہ الا انا“ ظاہر ہوئی۔

اور دوسری وجہ امتیاز یہ ہے کہ تمام تجلیات صور یہ، خیالیہ اور حسیہ جو اس جہان سے وقوع پذیر ہوتی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ذات مقدسہ کا ظہور اس مقام میں ان صورتوں سے بالکل مبائن اور دیگر صورتوں میں ہو گا جو کائنات کے اندر معلوم صورتوں میں ہوتا ہے اور عظمت و کبریا نور و بہا اور جمال وصفا کے ساتھ اس حد تک مقرون ہو گا اور اپنے کمالات ذاتیہ اور دیگر کمالات بھی اس کے ساتھ شامل ہوں گے، ایسے کہ نہایت ہی اکمل اور اشرف ناظر کے بھی وہم و عقل کے حوصلہ میں گنجائش نہ ہوگی اور ہرگز ان کو اپنے تصور میں نہیں لا سکے گا۔

اور اہل السنۃ نے جو اس جہاں کی رؤیت کو بے کیف لکھا ہے تو یہ دراصل فرقہ معتزلہ کے اشکالات کو رفع کرنے کے لیے کیا ہے، جس سے جسمیت کے لوازم ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن جب تجلی کی حقیقت معلوم ہو جائے گی تو یہ جملہ اشکالات رفع ہو جائیں گے۔ (تجلیات کی پوری حقیقت اور ان کی تفصیلات شاہ اسمٰعیل شہیدؒ (المتوفی ۱۲۴۶ھ) کی کتاب ”عبقات مبحث تجلیات“ میں ملاحظہ کریں۔)

اور بایں ہمہ بعض اکابر یہ فرماتے ہیں کہ نفس کو شہودِ حق میں قوی استغراق کی وجہ سے کسی اور چیز کا احساس نہیں ہو گا۔ یعنی زمان، مکان، جہت اور اپنے وجود وغیرہ کسی چیز کا سوائے مشاہدہ کے احساس نہیں ہوگا اور اسی کو معائنہ اور رؤیت بے جہت و بے شکل و بے لوازم جسمیت کہا جاسکتا ہے اور دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کی تفصیل بھی اسی طرح ہے کہ جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ میں نے بالکل صاف و صریح طور پر زید و عمر کو دیکھا ہے، حالانکہ زید و عمر کے بعض اعراض کے سوائے کچھ نہیں دیکھا، (یعنی اگر دیکھا ہے تو زید و عمر کا رنگ، شکل، قد اور ظاہری ہیئت وغیرہ ہی دیکھی، اس کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔)

اور جب مشاہد یعنی دیکھنے والے اور مشاہدہ کرنے والے کے بارے میں تعبیر کی یہ چشم پوشی اور مسامحت روا ہوتی ہے اور ایک ایسے لفظ کے بارے میں کہ اس کا موضوع لہ لغوی لفظ رؤیت ہے جب یہ مسامحت برداشت کی جاتی ہے تو اس ذات اقدس کے بارہ میں جو انتہائی ترفع اور بلندی پر ہے کیا کوشش ہو سکتی ہے اور کس طرح التزام کیا جا سکتا ہے اس ذات محض کی کنہہ و حقیقت کے بارے میں جو کہ ادراک کے تعلق اور فہم سے معرا (منزہ) ہے کہ وہ قید احساس و ابصار میں واقع ہو سکتی ہے۔

لیکن یہ رؤیت خواص دعوام کے حق میں تین وجہ سے مختلف ہوسکتی ہے۔

۱۔ قرب وبعد کی وجہ سے۔ ۲۔ قلت وکثرت کی وجہ سے۔ ۳۔ صفات کی معرفت کی زیادتی اور کمی کی وجہ سے

ایسی معرفت جو دنیا میں حاصل کی جا سکتی ہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس بات میں شبہ نہیں کہ بدن ارضی کو روح حیوانی (نسمہ) کی نسبت سے ذات مقدسہ کے پانے میں حجاب بہت زیادہ ہے اور اسی طرح روح حیوانی کو بہ نسبت عالم مثال سفلی کے جو جنات و شیاطین کا مقام ہے یہ حجاب زیادہ ہے اور اسی طرح عالم مثال سفلی کو بہ نسبت عالم مثال علوی جو کہ ملائکہ مقربین کا مقام ہے۔ جو عالم مثال ترقی کرتا ہے تو اسی عالم کی صورت کو حاصل کرتا ہے اور بدن اس کا روح علویہ کا حکم پیدا کرتا ہے۔ جو چیز یہاں غیب ہوتی ہے وہاں شہادت ہو جاتی ہے۔

”واشرقت الارض بنور ربها“ (زمر)

جگمگا اور چمک اٹھی زمین اپنے رب کے نور سے۔

اور اعمال کے حقائق اور ملائکہ کے ہیکل (شکل و شباہت، وضع قطع) اور جنت و نار کے احوال معائنہ و مشاہدہ میں آجائیں گے تو لامحالہ اللہ تعالیٰ کی اعظم تجلیات جبکہ کارخانہ تدبیر اور قضاء و قدر کے فیضان اور نزول شرائع کی بنیاد اس پر ہے اور ملائکہ کا صدور امر و نہی بھی اس مقام سے ہے۔ یہ تمام اتصال نفس کے مراتب کے اعتبار سے عیاں و آشکارا اور تجلی افگن ہوگا اور جوارح و اعضاء بدن قویٰ کے تابع ہونے کی بنا پر ان تمام واردات کے لیے سواری بن جائیں گے، یعنی ان پر بھی اس کا ورود ہوگا تو یقین ہے کہ معائنہ بصری کی حالت حاصل ہو جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب


دین و حکمت

(الشریعہ — نومبر ۱۹۹۱ء)

الشریعہ — نومبر ۱۹۹۱ء

جلد ۳ ۔ شمارہ ۱۱

تحریک خلافت اور اس کے ناگزیر تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام محمد بن اسمعیل بخارى رحمہ الله
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

اللہ رب العزت کی زیارت کیسے ہو گی؟
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتی

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا ایک الہامی خواب اور ہماری اقتصادی مشکلات
ڈاکٹر محمود الحسن عارف

اناجیل کی اصل زبان اور ارامی اناجیل کی گمشدگی کے اسباب
پادری برکت اللہ

اسلامی ممالک میں سائنس کی ترویج
محترمہ انجمن آراء صدیقی

آہ! جناب ارشد میر ایڈووکیٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آپ نے پوچھا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قبض، کھانسی، نزلہ، زکام
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لباس کے آداب
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

اللہ والوں کی صحبت کا اثر
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter