حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا ایک الہامی خواب اور ہماری اقتصادی مشکلات

جنگِ خلیج کے بعد تیسری دنیا بالعموم اور اسلامی دنیا بالخصوص سخت افراتفری اور اضطراب و انتشار کی صورت حال سے بری طرح دو چار ہے۔ ہر ملک کو معاشی وسائل کی قلت کا اور ضروریات کی کثرت کا سامنا ہے۔ اس عالم گیر قلت و اضطراب کے پیچھے سب سے زیادہ جو عوامل کار فرما ہیں ان میں اقتصادی و معاشی مسائل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ خدانخواستہ پیٹ کا مسئلہ ہی انسانی زندگی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے یا یہ کہ زمین کی پیداوار اور قدرت کے خزانوں میں کچھ کمی واقع ہو گئی ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے قارونوں نے ”انسانی غذائی ضروریات“ کی تقسیم کا ایسا غیر منصفانہ اور ظالمانہ طریقہ اپنایا ہے جو قدرت کی فطری تقسیم کے یکسر خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاح احوال کی تمام تر کوششوں کے باوجود صورت حال نہ صرف جوں کی توں برقرار ہے بلکہ اس کی پیچیدگی میں بھی پہلے سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اور اب انسان اس معاشی قتل گاہ میں اپنی خود کشی کے انتظار میں گھڑیاں گن رہا ہے۔

شروع شروع میں لوگوں کا گمان تھا کہ اصل مسئلہ ”پیداوار کی قلت“ کا ہے، لہٰذا اگر پیداوار کو بڑھا دیا جائے تو یہ معاشی مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا، مگر جب پیداوار سو سو گنا اور بعض شعبوں میں ایک ایک ہزار گنا تک بھی بڑھ گئی تب بھی صورت حال جوں کی توں رہی۔ اس پر پیداواری معاشیات Economics of Production سے توجہ ہٹا کر تقسیم معاشیات Economics of Distribution)) کی جانب مبذول کرائی گئی اور کہا گیا کہ چونکہ دولت اور ذرائع دولت کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے اس لیے یہ فساد اور ہنگامہ ہے۔ مگر تقسیم معاشیات کے نفاذ پر پوری ایک صدی بیت جانے کے باوجود بھی اصلاح احوال کی کوئی امید پیدا نہیں ہوئی، بلکہ صورت حال پہلے سے بھی بدتر ہے۔

معاشیات کے قدیم نظام کی جگہ معاشیات خورد (Micro Economics) کو کھڑا کیا گیا، مگر تجارتی چکر (Trade Cycle) اور کساد بازاری نے اس نظامِ فکر کی بنیادیں ہلا دیں تو انسان نے معاشیات کلاں کا دامن تھاما۔ مگر نئی افراط زر (Affluence) کی ”بلائے بے درماں“ نے اس نظم معیشت میں دراڑیں ڈال دیں اور یہی خوش حالی درد سر بننا شروع ہوئی تو اب معاشیات کے طالب علم کسی نئے معاشی نظام کی طلب و جستجو میں ہیں۔ گویا یہ ایک گھن چکر ہے جس میں انسان ہر سطح پر پس رہا ہے اور گردش کر رہا ہے اور اس کا حال اس سے بہتر نہیں کہ

؏  ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

عالم اسلام کی حالت

اس معاشی گھن چکر میں یوں تو تمام دنیا بالخصوص تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک پس رہے ہیں مگر ان میں بھی مسلم ممالک کی حالت زیادہ تشویشناک ہے۔ یورپ کی استعماری طاقتوں نے ایک ایک کر کے تمام مسلم ممالک کو اپنی امداد، اپنے قرضوں، اپنی سائنسی تکنیک اور اپنے اسلحہ کے جال میں اس طرح پھانس رکھا ہے کہ وہ تڑپنے سسکنے کے باوجود نہ تو سامراج کے اس آہنی جال کو توڑ سکے ہیں اور نہ ہی اس سے نکلنے کی کوئی اور تدبیر ہی کر پائے ہیں۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ وہ ہمارے پڑھے لکھے وزیروں اور ان کے بالیاقت سیکریٹریوں اور ان کے زیر اثر پنپنے والے بزعم خویش دانش وروں کو اس صورت حال سے بچنے کی اگر کوئی تدبیر سوجھتی بھی ہے تو وہ یہ کہ ہم یو رپ کے سامراجی نظام کو جوں کا توں اپنا لیں اور ان کے جابرانہ نظام کو خود پر مسلط کر لیں۔ گویا ہماری حالت اس بارے میں وہی ہے جو میر تقی میر کے اس شعر میں بیان ہوئی ہے ؎

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

آج کوئی امریکہ و برطانیہ کے سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) کی بات کرتا ہے تو کوئی روس و چین کے سوشلزم (Socialism) اور کمیونزم (Communism) کو اپنانے کی تدبیر سمجھاتا ہے۔ الغرض اس ”طوطی خانے“ میں عجیب و غریب قسم کی بولیاں بولی جا رہی ہیں اور ہم لوگ اس قرآنی حکم کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ

”یایھا الذین امنوا لا تتخذوا الیھود والنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض“ (المائدۃ)
اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ، وہ ایک دوسرے کے رفیق و ساتھی ہیں۔

دوسروں کو چھوڑ کر اس وقت صرف پاکستان کی اقتصادی حالت پر اگر ایک نظر ڈال لی جائے تو صورت حال کی صحیح تصویر نظر آسکتی ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز کی ۱۹۹۰ء کی بجٹ تقریر کے مطابق پاکستان اس وقت قرضوں کی ادائیگی کے ضمن میں ہر سال اسی ارب روپے ادا کر رہا تھا۔ اب ۱۹۹۱ء میں صورت حال اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہو گئی ہے، جس سے پاکستان پر موجود قرضوں کی ضخامت کا اندازہ خود کیا جا سکتا ہے اور اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ پاکستان کو اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی بیرونی امداد کی ضرورت پیش آرہی ہے۔

پھر اسی پر بس نہیں، یورپین ممالک اور عالمی بنک پاکستان پر مسلسل معاشی دباؤ جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں ہر روز پاکستانی کرنسی میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے اور اس وقت کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہے، کیونکہ اب تو بیرونی ممالک نے بھی قرض و امداد سے ہاتھ روک لیا ہے، جس کی بناء پر ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہے۔

پھر پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کی معیشت کو افراط زر، ادائیگیوں میں عدم توازن، بیرونی تجارت میں مسلسل خسارے، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، رشوت ستانی اور لوٹ کھسوٹ جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں سود اور سودی نظام معیشت نے، جو اس وقت اقوام عالم کی معیشت کا جزو لا ینفک ہو کے رہ گیا ہے، ہماری قومی اور ملی زندگی اور ملی سوچ کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اس نظام معیشت کے بل بوتے پر سرمایہ دارا اپنے سرمائے کے ذریعے امیر سے امیر تر ہو رہا ہے اور غریب شبانہ روز محنت اور مشقت کے باوجود دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھا سکتا۔ ہر آنے والا دن ہمارے مسائل اور مصائب میں اضافہ کر رہا ہے۔ امریکہ نے عراق کو سرنگوں کرنے کے بعد عملاً تمام بلاد اسلامیہ پر اپنا تسلط قائم کر دیا ہے اور اس وقت جب دنیا اکیسویں صدی کے سورج کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہے، مسلم امہ بے پروا اور غافل ہیں۔ بقول غالب:

اپنے ماضی سے بے خبر اور مستقبل سے بے پروا اپنے حال میں مگن ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارے دن خود بخود پھر جائیں گے اور دنیا میں از خود سبز انقلاب آ جائے گا، بقول غالب ؎

قرض کی پیتے تھے مئے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

اصلاح احوال کی کوششیں اور ان کے نتائج

معاشیات کی ان گوناگوں خرابیوں اور برائیوں کے خاتمے کے لیے بظاہر اب تک کئی کوششیں کی جا چکی ہیں، مگر اس کے باوجود صورتحال بگڑی تو ہے مگر سنوری نہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ دم توڑتی ہوتی انسانیت کو ”آب حیات“ اور ”اکسیر شفا“ کے نام پر جو دوا کھلائی جاتی ہے وہ بذات خود ”زہر ہلاہل“ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم امہ کی اس حالت پر

؏ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

والا مصرعہ راست آتا ہے۔ لیکن کیا واقعی اسلام حالات حاضرہ کے مسائل کا چیلنج قبول کرنے سے قاصر ہے اور کیا فی الحقیقت اسلام کے پاس موجودہ مسائل و مصائب کا کوئی علاج موجود نہیں ہے؟ ہمارے خیال میں اسلام عصر حاضر کے تمام مسائل کا حل پیش کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے، مگر اس کا کیا علاج کہ ہمیں اپنے اس حاذق و ماہر طبیب سے دوا لیتے ہوئے شرم اور عار محسوس ہوتی ہے۔ اس پر اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ

؏ تفو بر تو اسے چرخ گردوں تفو

اسلام کا عادلانہ اور منصفانہ نظام معیشت ہے کہ جس پر عمل پیرا ہو کر تمام اقتصادی اور معاشی خرابیوں سے بچا جا سکتا ہے اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ اسلام کے اس اقتصادی نظام کو اپنانے کے نتیجے میں نہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت رہتی ہے اور نہ ہی رسوائے زمانہ سوشلزم و کمیونزم کی۔ یہ تمام نظام وقتی اور انتقامی جذبوں کی پیداوار ہیں، جبکہ اسلام کا عادلانہ نظام معیشت ہمہ گیر اور آفاقی بین الاقوامی نوعیت کا ہے۔

اسلام کا اقتصادی نظام کہاں ہے؟

مگر جب ہم اسلام کے اقتصادی نظام کا نام لیتے ہیں تو سننے والا فوراً یہ پوچھتا ہے کہ یہ اسلامی اقتصادی نظام کہاں ہے اور اسے کس طرح اپنایا جا سکتا ہے؟

یہ سوال اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ چند چیزوں کے نام بدل دینے اور ان کو اسلامی برقعہ پہنا دینے سے اسلامی نظام قائم ہو سکتا ہے۔ بینک کے تمام سودی نظام کو ہماری حکومت نے اسی کلیے سے اسلامی بنا دیا۔ پہلے سود کو سود کہا تو جاتا تھا، اب سود پر اسلامی بینکاری یا نفع و نقصان میں شراکت کا لیبل لگا دیا گیا۔ پہلے ٹی وی پر عورتیں برہنہ سر ہوتی تھیں، اب انہیں اسلامی دوپٹہ اوڑھا دیا گیا۔ پہلے ہمارے حکمرانوں کے احکام غیر اسلامی ہوتے تھے، اب ان کے شروع میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھنے کا حکم دے کر یک قلم انہیں اسلامی بنا دیا گیا۔ آج کے پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ دور میں اس قسم کی مضحکہ خیز اور بچکانہ باتیں کرکے ہم نہ تو دنیا کو دھوکہ دے سکتے ہیں اور نہ حالات حاضرہ کے جبر سے بچ سکتے ہیں۔

بہرحال اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمیں صدق دل سے اسلامی نظام معیشت کی تلاش ہے تو وہ ہمیں امام العصر شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تشریحات میں ملے گا۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا لافانی کردار

یہاں یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ شاہ صاحبؒ نے اس بارے میں جو کچھ لکھا اور بیان کیا ہے اس کی حیثیت صرف وضاحت اور تشریح کی ہے۔ اصل مآخذ ہمارے سامنے قرآن و سنت، اجماع امت اور قیاس ہی کے ہیں۔ اسلام کے ان مآخذ اربعہ کو ہر شخص ٹھیک طور پر نہیں سمجھ سکتا، اسی بناء پر ائمہ مجتہدین کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ شاہ صاحبؒ بھی اپنے دور اور آئندہ آنے والے دور کے امام و مجتہد تھے۔ قدرت نے ان کو اس وقت میں پیدا کیا جب دنیا پرانے دور سے نکل کر مشینی دور میں داخل ہو رہی تھی۔ وہ ان دونوں ادوار کے سنگھم پر اس وقت تشریف لائے جب دنیا کو ان کی ضرورت تھی اور کائنات کی سائنسی بنیادوں پر تہذیب نو شروع ہونے والی تھی۔ اسی بنا پر انہوں نے خود کو اس دور کے امام و قائد کے طور پر پیش کیا۔ فیوض الحرمین کے چوالیسویں مکاشفے میں شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں:

”میں نے خواب میں دیکھا کہ میں قائم الزمان ہوں۔ قائم الزمان سے میری مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اس دنیا میں نظام خیر کو قائم کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے اپنے ارادے کی تکمیل کے لیے مجھے بطور ایک طریق کار کے مقدر فرمایا۔“ (فیوض الحرمين، ص ٢٩۷)

شاہ صاحبؒ ۱۱۱۴ ھ / ۱۷۰۳ء میں اس وقت پیدا ہوئے جب درویش صفت بادشاہ عالمگیر (م۱۱۱۹ھ/ ۱۷۰۷ء) اپنی وسیع اور عظیم الشان سلطنت کو چھوڑ کر عالم آخرت کو سدھارنے والا تھا اور ۱۱۷۶ھ / ۱۷۶۲ ء میں اس وقت دہلی میں انتقال فرمایا جب مغلیہ حکومت آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ایام ایک نہایت پر آشوب اور پرخطر دور میں بسر فرمائے، اس لیے ان کے ذہن میں حالات حاضرہ کی بڑی صحیح اور سچی تصویر تھی۔ پھر انگریزوں کے اقتدار و تسلط کی ابتدا بھی انہی کے دور میں ہوئی۔ اس حوالے سے شاہ صاحبؒ جدید استعمار سے بھی نابلد نہ تھے۔ پھر قدرت نے شاہ صاحبؒ کو ایسی فہم و بصیرت اور ذکاوت و فطانت سے نوازا تھا کہ وہ بڑی عمدگی کے ساتھ آنے والے حالات سے بھی پوری طرح واقف و آگاہ تھے۔ وہ اپنے نور بصیرت سے جانتے تھے کہ مسلمانان عالم پر کیسا کڑا وقت آنے والا ہے۔ لہٰذا انہوں نے نہایت بالغ نظری سے آنے والے حالات کا تجزیہ کیا اور پھر اپنی خوابیدہ قوم کو جگانے اور ان کی اصلاح کے لیے اسلام کے مختلف نظام ہائے حیات کی بہت خوبصورت اور جامع تشریح فرمائی۔

ہمارے مسائل کا ولی اللہی حل

 حضرات! اب دیکھنا یہ ہے کہ امام العصرؒ نے ان مسائل کے حل کے لیے کیا فارمولا پیش کیا ہے؟ اس ضمن میں اصولی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام العصرؒ نے اسلامی تعلیمات کی اس طرح توضیح و تفصیل بیان فرمائی ہے کہ اس سے ہماری اقتصادی، معاشرتی، سماجی، سیاسی اور اخلاقی زندگی کا ہر مسئلہ بخوبی حل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس عنوان پر امام العصرؒ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا ذکر تو تفصیل چاہتا ہے، جس کی یہاں ضرورت ہے اور نہ گنجائش، البتہ اس مختصر سی تحریر میں امام العصرؒ کے پیش کردہ اقتصادی نظام کے دو نکات کا ذکر مناسب ہوگا، جن کی حیثیت اس باب میں ”مبادیات“ کی سی ہے۔

فک كل نظام

امام العصرؒ کے ہاں اسلام کے اقتصادی نظام کا نقطہ آغاز یہ ہے کہ اسلامی اقتصادی نظام کو مکمل طور پر نئے سرے سے شروع کیا جائے۔ ان کے نزدیک اسلام کے اقتصادی نظام کی کسی دوسرے نظام کے ساتھ پیوند کاری ناممکنات میں سے ہے۔ ان کے نزدیک کسی گندی اور پلید شے کو ملمع چڑھا کر پاک بنایا جا سکتا ہے اور نہ اسلام کا برقع پہنانے سے کوئی چیز واقعی پاک اور طاہر ہو سکتی ہے۔

ان کے نزدیک رات رات ہے اور دن دن ہے۔ دو اور دو مل کر فقط چار بنتے ہیں، تین یا پانچ ہرگز نہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک اسلامی نظام کی کسی اور ازم یا نظام کے ساتھ مصالحت و معاونت ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کے بجائے وہ تم اس بات کے قائل ہیں کہ اسلامی نظام کا نفاذ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پوری شدت کے ساتھ باطل نظام کو کدال کے ذریعے ضرب کلیم لگا کر اسے چکنا چور اور ملیامیٹ نہ کر دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ایک الہامی مکاشفے میں یہ مضمون بیان کیا ہے۔ وہ ”فیوض الحرمین“ کے چوالیسویں مکاشفے میں فرماتے ہیں:

”اسی دوران میں میں نے دیکھا کہ میں لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ میں ہوں، جس میں رومی بھی ہیں اُزبک بھی اور عرب بھی ... میں نے دیکھا کہ یہ سب کے ساتھ میرے غضب ناک ہونے کی وجہ سے غصے میں بھرے ہوئے ہیں اور مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ اس وقت اللہ تعالی کا کیا حکم ہے؟ میں نے ان سے کہا ”فک کل نظام“ یعنی ہر (باطل) نظام کو توڑنا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ کب تک؟ میں نے جواب دیا کہ جب تک تم یہ نہ دیکھ لو کہ میرا غصہ فرو ہو گیا ہے۔“ (فیوض الحرمین، ص ۲۹۸)

میرے نزدیک شاہ صاحبؒ کا مذکورہ بالا مکاشفہ مکمل طور پر الہامی ہے، جس کا نمایاں ثبوت یہ ہے کہ ان کے اس مکاشفے کے بعد واقعی دنیا کا ہر نظام ٹوٹا، مسلمان جو آدھی دنیا سے زیادہ پر حکمران تھے مقہور و معتوب ہوئے، یورپ جو صدیوں سے غفلت وبدمستی کے عالم میں تھا، اس صدی میں کروٹ لے کر اٹھا اور مسلمانوں سے ان کے مقبوضات اور بحر و بر کی حکومت چھین لی۔ سلطنت مغلیہ ایک قصہ پارینہ بنی، سلطنت عثمانیہ کا زوال اس زمانے سے شروع ہوا۔ نیپولین نے ۱۷۹۰ء میں اٹھ کر شہنشاہیت کا تختہ الٹ دیا اور مارٹن لوتھر ایک جرمن عالم نے ۱۵۵۳ء میں پاپائیت کی بساط لپیٹ دی، جس کے نتیجے میں عیسائیت کا ایک نیا روپ سامنے آیا، جس کے ماننے والے پروٹسٹنٹ Protestents)) کہلاتے ہیں۔ پروٹسٹنٹ درحقیقت برائے نام (قدیم) مذہب کو مانتے ہیں۔ انہوں نے مذہب کو انسان کا پرائیویٹ اور نجی معاملہ بنا دیا۔ یہ تمام تبدیلیاں شاہ صاحبؒ ہی کے زمانے میں رونما ہوئیں، لہٰذا شاہ صاحبؒ کا مذکورہ بالا فقرہ اس اعتبار سے بھی ایک الہامی فقرہ ہے۔

علاوہ ازیں اس فقرے میں ”تعمیر و اصلاح“ کے پروگرام کے لیے بھی لائحہ عمل موجود ہے، اس طرح کہ جب تک کسی باطل نظام کی تخریب مکمل نہ ہو، اس وقت تک اسلام کے عادلانہ نظام کی خشت اول کیسے رکھی جا سکتی ہے اور کیونکہ کسی بوسیدہ عمارت کی محض ایک دو اینٹیں اکھیڑ کر نئی لگا دینے یا پرانی عمارت پر نیا رنگ و روغن کر دینے سے عمارت نئی نہیں بن جاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ باطل نظام کے محل کی ہر اینٹ اکھیڑ دی جائے، ہر پتھر علیحدہ کر دیا جائے اور ہر دیوار مسمار کر دی جائے۔ اس لیے کہ جب تک ایسانہ کیا جائے اس وقت تک نفاذِ اسلام کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس تناظر میں شاہ صاحبؒ کا مذکورہ بالا فقرہ قوانین فطرت سے بھی پوری طرح ہم آہنگ و ہم رنگ ہے، اس لیے کہ کسی عمارت کو بنانے کے لیے از سر نو اس کی تعمیر کی جاتی ہے، ورنہ بقول شیخ سعدی

؏ تا ثریامی رود دیوار کج

والی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔

اس پس منظر میں جب ہم مسلم امہ بالخصوص وطن عزیز پاکستان کا نام لیتے ہیں تو یہاں واضح طور پر یہ نظر آتا ہے کہ اب تک ”اسلامی نظام“ کا پہلا تقاضا بھی پورا نہیں کیا گیا اور اب تک کی تمام تر کوششوں اور کاوشوں کا ماحصل یہ ہے کہ ”ملمع سازی اور برقع پوشی“ کے ذریعہ پرانے ہی نظام کو اسلامی ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو مفید ہونے کے بجائے اُلٹی نقصان دہ اور مضر ہے۔

اس کے برعکس اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم ان سے پہلے اپنی آستینوں میں چھپے ہوئے بتوں کو ”ضربِ لا“ سے پاش پاش اور چکنا چور کریں، پھر اس پر ”الا اللہ“ کے نظامِ اسلام کی عمارت سازی کے کام شروع کریں اور جب تک ”لا“ کی ضرب نہ لگائی جائے اس وقت تک ”الا اللہ“ کے اثبات کی بنیا دیں کیسے استوار کی جا سکتی ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ صدر ضیاء الحق سے لے کر نواز شریف تک کی تمام کوششوں اور کاوشوں کے باوصف فی الوقت پاکستان نفاذ اسلام سے بہت دُور ہے اور اب تک کی جانے والی تمام کوششیں نہ صرف نفاذ اسلام کے مقصد کا حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں، بلکہ ان کے نتیجے میں خرابی اور فساد میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

مذہب و اقتصادیات کا باہم ربط و ضبط

گو مشرق و مغرب کے بہت سے فلاسفہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر چکے ہیں کہ مذہب و اقتصادیات کا باہم کوئی تعلق نہیں ہے اور ہمارے ملک کے بھی بعض ترقی پسند دانشور ان کے ساتھ طبلے کی تھاپ پر رقص کرنے میں مصروف ہیں، مگر صورت حال یہ ہے کہ سوشلسٹ روس میں پون صدی کی تمام جابرانہ کوششوں کے باوجود ایک مرتبہ پھر بڑی تیزی سے مذہب کا احیاء ہو رہا ہے اور ان شاء اللہ یہاں کے مسلمان ماضی کی طرح مستقبل کی سیاست میں بھی عنقریب اپنی آزادی کے بعد اہم کردار ادا کریں گے۔ ”کمیونسٹ چین“ میں بھی اسلام زنده و توانا صورت میں موجود ہے۔ پولینڈ، چیکو سلواکیہ، یوگو سلادیہ، امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے کٹر اسلام دشمن ممالک میں بھی اسلام کی تیزی سے اشاعت ہو رہی ہے، جس سے مذکورہ بالا نظریے کی تردید ہوتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ پیٹ کے ساتھ مذہب کا بڑا گہرا رشتہ ہے۔ دونوں کو اگر ایک ساتھ ملحوظ نہ رکھا جائے تو اس کے خطرناک اثرات برآمد ہوتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ مستقبل میں انسان کی بقاء اور نشوونما کے لیے جس طرح کے نظام کی ضرورت ہے وہ نظام صرف اسلام ہی پیش کر سکتا ہے اور اسلام کے اس نظام میں ”مذہب و معیشت“ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسی لیے امام العصرؒ اسلامی اقتصادی نظام کے پہلو کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مذہب و اخلاق اقتصادیات کے بغیر اور اقتصادیات مذہب و اخلاق کے بغیر نامکمل اور ناتمام ہے۔

شاہ صاحبؒ کے نزدیک یہ نظامِ تکوینی انبیاءؑ کے لائے ہوئے تشریعی کے مطابق ہونا چاہیے۔ بلکہ اسے اس تشریعی نظام کے لیے ممد و معاون اور خادم بن کر اپنا رہنا چاہیے۔ ان کے نزدیک جب دونوں کے درمیان یہ ربط ٹوٹ جاتا ہے تو معاشیات و اخلاقیات دونوں کو شدید بحران سے واسطہ پڑتا ہے، جس کا اثر مذہب و اخلاق، عوام کی پرسکون زندگی، انسانوں کے باہمی رو ابط اور تہذیب و تمدن، الغرض زندگی کے تمام چھوٹے بڑے شعبوں پر پڑتا ہے اور انسانی زندگی مفلوج ہو کے رہ جاتی ہے۔ شاہ صاحبؒ کے نزدیک انسانوں کے اجتماعی اخلاق اس وقت بالکل برباد ہو جاتے ہیں جب کسی جبر سے ان کو کسی اقتصادی تنگی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ایک مقام پر شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں:

”اسی طرح چونکہ انسان مدنی الطبع ہے اور اجتماعی زندگی کے بغیر وہ اپنے لیے لوازمِ حیات بہم نہیں پہنچا سکتا اور نظام تمدن کا قیام سراسر انسانوں کے باہمی تعاون پر موقوف ہے، اس لیے شرائع میں ان کو باہمی تعاون کا حکم دیا گیا اور یہ کہ معاشرے کا کوئی فرد بھی سوائے معقول عذر کے بیکار نہ رہے۔ ہر ایک آدمی اپنے لیے کوئی ایسا شغل اختیار کرے جو کسی نہ کسی شکل میں نظامِ تمدن کو بہتر صورت پر قائم رکھنے کے لیے مفید ہو۔“ (حجۃ اللہ البالغہ، جلد دوم)

شاہ صاحبؒ کا یہ نکتہ بھی آج کے مادی دور کے لیے بڑا اہم ہے۔ آج دنیا میں جتنے بھی اقتصادی اور معاشی نظام کام کر رہے ہیں، ان میں اس تلازم کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ آج انسان کو یہ تو بتایا جاتا ہے کہ آج کی سب سے بڑی ضرورت روٹی، کپڑا اور مکان ہے، مذہب نہیں یا پھر مذہب کی طفل تسلیوں سے مزدوروں کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا زر خرید غلام بنا دیا جاتا ہے اور مذہب کے حوالے سے اس پر صبر و قناعت کی تلقین کی جاتی ہے۔ مگر ایک ایسے وقت میں جبکہ پیٹ میں کھانے کو کچھ نہ ہو، گھر میں بچے بھوک سے بلبلا رہے ہوں، مذہب کے نسوں سے لوگوں کو قابو نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح محض پیٹ بھر کر لوگوں کو کھانا کھلا دینے سے بھی ان کی بقا کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس لیے شاہ صاحبؒ کی تاکید یہ ہے کہ ایسا نظام معیشت ہو کہ جس میں ہر شخص کو کھانے کو روٹی، پہننے کو کپڑا اور رہنے کو مکان بھی ملے اور اس کے ساتھ ساتھ مذہب و اخلاقیات پر اسے کاربند رکھا جائے۔ یہی اسلامی نظام کی خصوصیت ہے۔


آراء و افکار

(الشریعہ — نومبر ۱۹۹۱ء)

الشریعہ — نومبر ۱۹۹۱ء

جلد ۳ ۔ شمارہ ۱۱

تحریک خلافت اور اس کے ناگزیر تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام محمد بن اسمعیل بخارى رحمہ الله
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

اللہ رب العزت کی زیارت کیسے ہو گی؟
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتی

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا ایک الہامی خواب اور ہماری اقتصادی مشکلات
ڈاکٹر محمود الحسن عارف

اناجیل کی اصل زبان اور ارامی اناجیل کی گمشدگی کے اسباب
پادری برکت اللہ

اسلامی ممالک میں سائنس کی ترویج
محترمہ انجمن آراء صدیقی

آہ! جناب ارشد میر ایڈووکیٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آپ نے پوچھا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قبض، کھانسی، نزلہ، زکام
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لباس کے آداب
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

اللہ والوں کی صحبت کا اثر
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter