(علامہ شبیراحمد ازہر میرٹھی نے مسند احمد بن حنبل کی اردو میں ایک مفصل (ناتمام) شرح لکھی ہے۔ اس شرح کی مسند عثمانؓ بن عفان اور مسند علیؓ بن ابی طالب کے مسودات کے مطالعہ کے دوران یہ طویل نوٹ ملا، اس کو بعض ضروری حوالوں کے اضافہ اور بعض عبارتوں کے ترجمہ کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ غ)
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند صفحات جنگِ نہروان اور اس کے پس منظر اور فتنۂ خوارج کے متعلق ہدیۂ ناظرین کر دیے جائیں تاکہ تحکیم سے متعلق سیدنا حضرت علیؓ اور سیدنا امیر معاویہؓ کے مواقف کے بارے میں جو آثار و روایات آئی ہیں ان کے فہم میں سہولت ہو سکے۔
جنگِ صفین جب انتہائی خطرناک صورت اختیار کر گئی اور مسلمانوں کی شجاعت کا وہ قیمتی سرمایہ جو تقریباً تمام دنیا کی فتح کے لیے کافی ہو سکتا تھا باہمی خانہ جنگی کی نذر ہو کر رہ گیا تو حضرت امیر معاویہؓ کی جانب سے نیزوں پر مصاحف (قرآن کی کاپیاں) بلند کیے گئے اور بہ آواز بلند پکار پکار کر کہا گیا:
من لثغور الشام بعد اہل الشام و من لثغور اہل العراق بعد اہل العراق؟ فلما رأ الناس المصاحف قد رفعت قالوا نجیب الی کتاب اللہ عز و جل و نثیب الیہ۔ (الطبری تاریخ الرسل والممالک الجزء الخامس تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم الطبعۃ الثانیۃ دارالمعارف مصر ص 48)
’’اہلِ شام فنا ہو گئے تو ان کے بعد شام کی سرحدوں کی حفاظت اہلِ کفر سے کون کرے گا؟ اور اہلِ عراق فنا ہو گئے تو ان کی سرحدیں کس کی حفاظت میں رہیں گی؟ لوگوں نے جب مصاحف کو بلند دیکھا تو کہا ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب پر لبیک کہتے اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔‘‘
ابو مخنف یحیٰ بن لوط (جو مشاجراتِ صحابہ میں طبری کا خاص راوی ہے اور تمام ائمہ رجال نے اس کو کذاب قرار دیا ہے) نے عبدالرحمٰن بن جندب کے طریق سے روایت کی ہے کہ حضرت علیؓ نے یہ حال دیکھ کر اپنے لشکر کو سمجھایا اور جنگ جاری رکھنے کی ہدایت کی اور اس موقع پر قرآن کی طرف دعوت کو معاویہ و اہلِ شام کا مکر و فریب قرار دیا (دیکھیے ایضاً صفحہ 49) ہماری تحقیق میں حضرت سیدنا علیؓ کے بارے میں یہ بات درست نہیں جو اس روایت کے ذریعہ سے پھیلا دی گئی ہے اور عام طور پر مؤرخین اس کو صحیح تسلیم کیے بیٹھے ہیں۔ اس کی تحقیق آگے آئے گی۔ طبری کے مطابق اس پر مسعر بن فدکی تمیمی اور زید بن حصین طائی اور دیگر قاریانِ قرآن نے جو اُن کے ساتھ تھے حضرت علیؓ سے بڑی دیدہ دلیری سے کہا:
یا علی اجب الی کتاب اللہ اذا دعیت الیہ والاندفعک برمتک الی القوم او نفعل کما فعلنا بابن عفان۔ ان علینا ان نعمل بما فی کتاب اللہ عز و جل فقبلناہ۔ واللہ لتفعلنہا او لنفعلنہا بک الخ (ایضاً ص 49)
’’اے علی کتاب اللہ کی دعوت تمہیں دی جا رہی ہے تو اسے قبول کرو ورنہ ہم تمہیں پکڑ کر اہلِ شام کے حوالہ کر دیں گے یا تمہارے ساتھ بھی وہی کریں گے جو عثمانؓ کے ساتھ کر چکے ہیں۔ ہم پر کتاب اللہ پر عمل کرنا لازم ہے۔ ہم نے اُسے قبول کر لیا ہے۔ خدا کی قسم تمہیں بھی اسے قبول کرنا پڑے گا ورنہ ہم تمہیں ہلاک کر دیں گے۔‘‘
(یہ روایت اگر صحیح ہو تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ کے ساتھ انتہائی شریر و بدتمیز لوگوں کا بڑا عنصر جمع ہو گیا تھا جنہیں امیر المؤمنین سے تمیز سے بات کرنی بھی نہیں آتی تھی، نیز یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ ہی وہ باغی تھے جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو انتہائی بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔غ)
اس روایت کے مطابق مجبور ہو کر حضرت علیؓ نے جنگ بندی کا حکم دے دیا اور اشتر نخعی کو جو ہنوز جنگ میں مصروف تھا واپس بلا لیا۔ ابن جریر کہتے ہیں:
قال ابو مخنف حدثنی عبد الرحمٰن بن جندب الازدی عن ابیہ ان علیا قال عباد اللہ امضوا علی حقکم و صدقکم قتال عدوکم، ان معاویۃ و عمرو بن العاص و ابن ابی معیط و حبیب بن مسلمۃ و ابن ابی سرح والضحاک بن قیس لیسوا باصحاب دین ولا قرآن، انا اعرف بہم منکم قد صحبتہم اطفالاً وصحبتہم رجالا فکانوا شر اطفال و شر رجال۔ وبحکم انہم ما رفعوہا ثم لا یرفعونہا ولا یعلمون بما فیہا وما رفعوہا لکم الا خدیعۃ ودَہنا و مکدیدۃ الخ (ایضاً تاریخ الطبری ص49 حرب صفین)
’’یعنی حضرت علیؓ نے فرمایا: اللہ کے بندو! اپنے حق و صدق کے لیے دشمن سے لڑتے رہو، معاویہ، عمرو بن العاص، ابن ابی معیط، حبیب بن مسلمہ فہری، عبد اللہ بن ابی سرح اور ضحاک بن قیس یہ لوگ قرآن اور دین والے لوگ نہیں، میں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں، جب یہ بچے تھے تب اور جب یہ بڑے ہوگئے تب بھی بہت بُرے لوگ تھے۔ یہ قرآن کو جو بلند کر رہے ہیں اس کے معانی نہیں جانتے اور یہ صرف تمہیں دھوکہ اور جل دینے کے لیے قرآن بلند کر رہے ہیں۔‘‘
یہاں بطور جملہ معترضہ چند کلمات میں حضرت علیؓ کے اس اعتذار کے بارے میں بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں جو اولاً تحکیم کے عدمِ قبول کے سلسلہ میں آپ نے ارشاد فرمایا تھا۔
صفین میں جب امیر معاویہؓ کی جانب سے مصاحف بلند ہوئے اور کہا گیا کہ ہمارے تمہارے درمیان کتاب اللہ ہے، باہمی خوں ریزی کی بجائے ہم اس کتابِ عزیز سے اپنے نزاعات کا فیصلہ طلب کریں۔ تو لشکرِ علی میں سے ایک معتدبہ گروہ نے اس آواز پر لبیک کہی۔ لیکن آگے اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ اس وقت حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’انی اعلم بالقوم منکم‘‘ میں ان لوگوں یعنی معاویہ و عمرو بن العاص وغیرہما کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ ’’انہم لیسوا باصحاب دین ولا قرآن‘‘ یقیناً یہ لوگ نہ دین والے ہیں نہ قرآن والے، یعنی دین و قرآن سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
سوال یہ ہے کہ سیدنا علیؓ نے کس بناء پر یہ انتہائی سخت بات فرمائی تھی؟ کیا معاویہؓ و عمرو بن العاصؓ وغیرہ نے دینِ اسلام میں داخل ہونے کے بعد کبھی اس سے خروج کیا تھا؟ کیا یہ لوگ فرائضِ دین اور احکام کے پابند نہ تھے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب قطعاً نفی میں ہے۔ پھر ایسا بھی نہیں تھا کہ معاویہؓ و عمروؓ نے علیؓ سے بیعت کر لی ہو اور اس کے بعد ان کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکاہو اور خود خلافت کا دعویٰ کیا ہو کہ ان حضرات کو باغی ہی قرار دیا جا سکے۔ بلکہ بظاہر تو معاویہؓ و عمروؓ اپنے ساتھ دین اور قرآن کی تائید ہی رکھتے تھے، کیونکہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ خلیفۂ مظلوم عثمانؓ کے قاتلین میں سے جو لوگ علیؓ کے ساتھ ہیں، علیؓ کو چاہیے کہ ان پر کتاب اللہ کا حکم نافذ کریں۔ اور حکمِ شرعی کے مطابق انہیں اولیاءِ مقتول کے حوالہ کر دیں۔ حضرت سیدنا علیؓ ان کے اس مطالبہ کو، جو سراسر حق مطالبہ تھا، تسلیم نہیں فرماتے تھے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ معاویہؓ و عمرو بن العاصؓ اور ان کے اصحاب و اعوان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فوج کشی نہیں فرمائی تھی، یہ لوگ حملہ آور نہ تھے بلکہ مدافعت کی پوزیشن میں تھے۔ پس اِن لوگوں کے متعلق ’’لیسوا باصحاب دین ولا قرآن‘‘ کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟
اسی تبصرہ میں آگے حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’انی صحبتہم اطفالاً و رجالاً فکانوا شر اطفال و شر رجال‘‘ میں نے ان لوگوں کا بچپن بھی دیکھا اور بلوغ کے بعد کا زمانہ بھی، یہ لوگ ہمیشہ سے شر پسند اور شریر رہے ہیں، جب بچے تھے تو بدترین بچے تھے اور جب مرد بنے یعنی بالغ ہوئے تو بدترین مرد رہے۔
میں کہتا ہوں کہ تاریخی طور پر یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس لیے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ حضرت علیؓ کی پیدائش کے وقت جوان تھے۔ عمرو بن العاص آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سال پہلے پیدا ہوئے۔ وہ کہتے تھے کہ مجھے عمر بن الخطابؓ کی پیدائش کی رات یاد ہے۔ ہجرتِ نبویہ کے وقت تقریباً ستاون (۵۷) سال کے تھے۔ اور تقریباً ایک سو سال کی عمر پا کر سنہ ۴۳ھ میں وفات پائی۔ جبکہ حضرت علیؓ سنہ ۴۰ھ میں بعمر تریسٹھ یا چونسٹھ یا پینسٹھ یا اٹھاون سال شہید ہوئے ہیں اور ہجرتِ نبویہ کے وقت علیؓ ۲۳ سالہ یا ۲۴ یا ۱۸ سالہ نوجوان تھے۔ یوں حضرت علیؓ نے عمروا ابن العاصؓ کا بچپن تو پایا ہی نہیں۔
رہے حضرت امیر معاویہؓ تو وہ حضرت علیؓ کے ہم عمر تھے، معاویہؓ کی وفات بعمر اٹھتر یا چھیاسی سال سنہ ۵۹ھ یا سنہ ۶۰ھ میں ہوئی ہے۔ یوں ہجرتِ نبویہ کے وقت حضرت معاویہؓ ۱۸ سالہ یا ۲۶ سالہ نوجوان تھے یعنی عمر میں حضرت علیؓ کے لگ بھگ تھے۔ لیکن جاہلیت یا اسلام میں حضرت علیؓ کے حضرت معاویہ سے کبھی بھی مصاحبانہ روابط نہیں رہے۔
پھر عمرو ابن العاصؓ تو کیا معاویہؓ کے متعلق بھی علیؓ کا ’’انی صحبتہم اطفالا و رجالاً‘‘ کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ پھر اسلام سے قبل معاویہؓ و عمرو بن العاصؓ خواہ کچھ بھی رہے ہوں لیکن سعادتِ اسلام سے بہرہ مند ہو جانے کے بعد خلافتِ عثمانی کے ختم ہونے تک طویل مدت میں حضرت عمرو ابن العاصؓ اور حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کی کوئی شرارت نہ حضرت علیؓ کے علم میں آئی نہ کسی اور صحابی کو اس کی اطلاع ہوئی۔ لہٰذا ان کے متعلق ’’فکانوا شر اطفال و شر رجال‘‘ کہنا ظاہر ہے کہ ایک فضول و غیر معقول بات ہے۔
اس کے بعد اس روایت میں ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’انما رفع القوم ہذہ المصاحف خدیعۃ ووہنا ومکیدۃ‘‘ ان لوگوں نے اس وقت مصاحف صرف اس لیے بلند کیے ہیں کہ اس طرح یہ ہمیں جُل دے کر اور مکر و فریب سے کام لے کر شکست سے بچنا چاہتے ہیں، ان کے دھوکے میں نہ آؤ۔
ممکن ہے کہ فی الواقع حضرت علیؓ نے یہ بات کہی ہو اور بدگمانی کے باعث انہوں نے حضرت معاویہؓ کی طرف سے رفع مصاحف کو مکر و فریب پر ہی حمل کیا ہو۔ لیکن ظاہ رہے کہ حضرت علیؓ نبی معصوم نہیں تھے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر وحی نازل نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے محض حضرت علیؓ کے اس فرمانے کی بنا پر یہ سمجھ لینا درست نہیں ہے کہ فی الواقع حضرت معاویہ و عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہما نے اس طرح اصحابِ علیؓ کو جُل دینا ہی چاہا تھا۔ بلکہ سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں جب کشتوں کے پشتے لگ گئے اور باہمی خوں ریزی اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو معاویہؓ وغیرہ کو اندیشہ ہوا کہ جنگ کی چکی اسی طرح پستی رہی اور مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو اسی طرح ذبح کرتے رہے تو اس کا نتیجہ خطرناک ہو گا۔ جب شام و عراق کی طاقتیں اس میدان میں ضائع ہو جائیں گی تو شام و عراق کی حفاظت کرنے اور پڑوس کے کافر دشمن ممالک کی دستبرد سے مملکتِ اسلام کو بچانے کا کیا ذریعہ رہ جائے گا؟ اس لیے انہوں نے مومنانہ خلوص اور دلسوزی کے ساتھ عامۃ المسلمین کو جنگ سے باز رہنے اور کتاب اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی تھی۔
لیکن بُرا ہو روافض اور افسانہ نویس مؤرخوں کا کہ ان بدبختوں نے اس واقعہ کو اس طرح پیش کیا ہے کہ جیسے یہ لوگ میدانِ صفین میں ہر وقت معاویہؓ و عمرو بن العاصؓ کے پیچھے لگے رہتے تھے اور ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ نوٹ کرتے جاتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ سہ شبانہ روز کی مسلسل جنگ نے بالآخر اہلِ شام کی ہمتیں پست کر دیں اور حضرت علیؓ کی ذوالفقار اور اشترنخعی کی شمشیر آبدار نے لشکرِ معاویہؓ کی صفوں کو تہ و بالا اور درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ معاویہؓ نے گھبرا کر عمرو ابن العاصؓ سے مشورہ کیا کہ اب کیا کیا جائے۔ عمرو ابن العاصؓ نے کہا کہ نیزوں پر قرآن بلند کرا کر منادی کراؤ کہ مسلمانو آپس میں مت لڑو، ہمارے تمہارے درمیان کتاب اللہ ہے، اس کے احکام کے مطابق اپنے جھگڑے طے کر لو۔ عمروؓ نے کہا تھا کہ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ لشکرِ علیؓ میں پھوٹ پڑ جائے گی، کچھ لوگ ہماری بات کو نہ مانیں گے تو کچھ ماننے والے بھی ضرور نکل آئیں گے، ان میں باہم اختلاف ہو جائے گا اور یہ ہی ہمارا مقصد ہے۔ (ایضاً ص 49)
یہ افسانہ روافض کا ساختہ و پرداختہ ہے اور اُس کے بیان کرنے والوں میں سے کسی شخص کا ثقہ ہونا تو الگ رہا کوئی شخص ایسا بھی نہیں ہے جو جنگ میں خود موجود رہا ہو۔ اس افسانہ کے غلط اور خالص جھوٹ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ تجویز معاویہؓ و عمرو ابن العاصؓ نے محض وقتی طور پر جنگ کو روکنے اور شکست سے بچنے کے لیے رکھی ہوتی تو وہ معاہدۂ تحکیم کی بعد میں پابندی بالکل نہ کرتے۔ حالانکہ تاریخ طبری وغیرہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علیؓ سے بڑھ چڑھ کر اس معاہدہ کی پابندی معاویہؓ نے کی تھی۔
مثلاً معاہدہ میں یہ بھی شامل تھا کہ حکمین یعنی عمرو بن العاص و ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے ساتھ اجتماع گاہ میں معاویہؓ و علیؓ دونوں بذاتِ خود موجود رہیں گے۔ چنانچہ طبری ہی میں ہے کہ چار شنبہ ۱۳ صفر سنہ ۳۷ھ کو فریقین کے درمیان معاہدۂ تحکیم لکھا گیا۔
علی ان یوافی علی موضع الحکمین بدومۃ الجندل فی شہر رمضان و معاویۃ مع کل واحد منہما اربع مأۃ من اصحابہ وتباعہ ( ایضاً ص 58)
حضرت معاویہؓ قرارداد کے مطابق وقتِ مقرر پر دومۃ الجندل پہنچ گئے لیکن حضرت علیؓ نے خود جانے سے انکار کیا اور اپنی بجائے ابوموسیٰ اشعریؓ کے ساتھ شریح بن ہانی و عبد اللہ بن عباسؓ کو بھیج دیا۔
’’وافی معاویۃ باہل الشام وابی علی واہل العراق ان یوافوا‘‘ (ایضاً ص 58) اور طبری میں یہ بھی ہے کہ جب حکمین جمع ہوئے تو حضرت عمرو ابن العاصؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے کہا: سب سے پہلے ہمیں جس حق کا فیصلہ کر دینا چاہیے وہ یہ ہے کہ معاہدہ کی دفعات کی پابندی کرنے والوں کے بارے میں ہم یہ طے کر دیں اور مان لیں کہ یہ لوگ اہلِ وفا ہیں۔اور پابندی نہ کرنے والوں کے متعلق طے کر دیں کہ یہ لوگ اہلِ غدر ہیں۔ ابو موسٰیؓ نے اس سے اتفاق کیا اور یہ بات لکھ لی گئی کہ اس معاہدہ کے بارے میں معاویہؓ نے وفا اور علیؓ نے غدر کا طریق اختیار کیا ہے۔
طبری نے اس کو یوں روایت کیا ہے:
فلما اجتمع الحکمان وتکلما قال عمرو ابن العاص یا ابا موسٰی رأیت اول ما نقضی بہ من الحق ان نقضی لاہل الوفاء بوفائہم و علی اہل الغدر بغدرہم قال ابو موسیٰ وما ذاک؟ قال الست تعلم ان معاویۃ واہل الشام قدوفوا وقدموا للموعد الذی واعدناہم ایاہ؟ قال بلیٰ قال عمروا فاکتبہا فکتبہا ابو موسیٰ (ایضاً ص 58)
الغرض تحکیم کو اولاً نہ ماننے کے سلسلہ میں حضرت سیدنا علیؓ کے اعتذار میں ان کی طرف تین باتیں منسوب کی گئی ہیں:
اول یہ کہ آپ نے معاویہؓ و عمرو بن العاصؓ کے متعلق فرمایا: ’’انہم لیسوا باصحاب دین ولا قرآن‘‘۔
دوم یہ کہ آپ نے فرمایا: ’’انی صحبتہم و عرفتہم اطفالا و رجالا فکانوا شر اطفال و شر رجال‘‘۔ یہ دونوں ہی باتیں بالکل غلط ہیں جیسا کہ اوپر تفصیل آئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ روافض نے زبردستی اپنے گندے ذہن سے یہ گندے کلمات حضرت علیؓ کی زبان میں رکھنے کی کوشش کی ہے جس کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ وہ ایسی بازاری اور ناشائستہ زبان ہرگز نہ تھی۔ بے شک حضرت علیؓ نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ، طلحہ، زبیر اور معاویہ و عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے جنگ کی ہے، لیکن ان حضرات کی شان میں حضرت علیؓ نے ایسے گندے کلمات ہرگز استعمال نہ کیے ہوں گے جن کی بے حیا اور دروغ باف لوگوں نے آپ کی طرف نسبت کی ہے۔ سبحان اللہ کیا عجیب بات ہے کہ معاویہؓ و عمرو بن العاصؓ سیدنا علیؓ کی شان میں کبھی کوئی گستاخانہ کلمہ زبان سے نہ نکالیں اور علیؓ ہر وقت انہیں گالیاں دیتے رہیں؟ کیا عقل اسے باور کر سکتی ہے؟ فی الواقع حضرت علیؓ کے ساتھ ان کے ان دوست نما دشمنوں نے بڑی زیادتیاں کی ہیں اور تہذیب و شرافت اور اخلاق کے لحاظ سے اپنی جھوٹی روایات کے ذریعہ علیؓ کی جو تصویر کھینچی ہے یقیناً یہ تصویر اُس عظیم و جلیل الشان صحابی رضی اللہ و کرم وجہہ کی تصویر نہیں ہو سکتی جو آغازِ عمرسے ہی صاحبِ خلقِ عظیم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضِ صحبت سے مستفیض رہا ہے۔
تیسری بات اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ امیر معاویہؓ کی طرف سے رفعِ مصاحف کو حضرت علیؓ نے مکر و فریب پر مبنی قرار دے کر اپنی فوج کو ہدایت کی کہ اسے نظر انداز کر دیں اور برابر جنگ و قتال میں مصروف رہیں۔ اوپر میں نے برسبیل تنزل اس بات کے متعلق کہا تھا کہ ممکن ہے حضرت علیؓ نے بدگمانی کی بنا پر یہ بات کہہ دی ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بھی کسی صحیح اسناد کے ساتھ مروی نہیں ہے اور جس روایت میں اس کا ذکر ہے وہ موضوع اور جھوٹی روایت ہے۔ اس کے موضوع ہونے کی دلیل یہ ہی کافی ہے کہ اس میں ولید بن عقبہ بن ابی معیط اور عبداللہ بن سعد بن عمرو بن ابی سرح کا بھی ذکر ہے۔ حالانکہ یہ دونوں نہ حرفِ صفین میں شریک ہوئے نہ اہلِ اسلام کی کسی اور خانہ جنگی میں۔ ظاہر ہے کہ جب یہ موجود ہی نہیں تھے اور حضرت علیؓ کے خلاف کسی جنگ میں انہوں نے حصہ ہی نہیں لیا تو علیؓ ان کو معاویہؓ و عمرو بن العاصؓ کے ساتھ اس تبصرہ میں کیسے شامل کر سکتے تھے؟ رہی اس کی سندی حیثیت تو اس کا راوی عبد الرحمٰن اور اس کا والد جندب دونوں مجھول شخص ہیں، صحاح ستہ تو کیا مسند احمد میں بھی ان کی کوئی روایت درج نہیں ہے۔
بہرحال ان روایتوں کے مطابق حضرت علیؓ نے جنگ بندی کا حکم دے دیا اور اشتر نخعی کو جو ہنوز جنگ میں مصروف تھا واپس بلا لیا۔ جنگ بند ہو جانے پر حضرت علیؓ کی طرف سے اشعث بن قیس کندی نے حضرت معاویہؓ سے جا کر پوچھا کہ تم لوگ کیا چاہتے ہو؟ امیر معاویہؓ نے فرمایا:
لنرجع نحن وانتم الی ما امر اللہ بہ فی کتابہ، تبعثون منکم رجلا ترضون بہ ونبعث منا رجلا ثم ناخذ علیہما ان یعملا بما فی کتاب اللہ لا یعدوانہ ثم نتبع ما اتفقا علیہ فقال لہ الاشعث بن قیس ہذا الحق فانصرف الی عنی فاخبرہ بالذی قال معاویۃ (ایضاً ص 51)
’’ہم تم دونوں فریق کتاب اللہ کی طرف رجوع کریں تم اپنا ایک آدمی جو تمہیں پسند ہو مقرر کرو اور ہم اپنا ایک آدمی مقرر کریں۔ ان دونوں سے ہم عہد لیں کہ وہ کتاب اللہ پر عمل کریں اس سے تجاوز نہ کریں۔ وہ دونوں جس فیصلہ پر متفق ہو جائیں ہم سب اسے مان لیں۔ اشعث نے کہا، یہ تجویز درست ہے۔ اشعث نے واپس آکر حضرت علیؓ کو اس سے آگاہ کیا۔‘‘
شیعانِ علیؓ نے بھی اس تجویز سے اتفاق کر لیا۔ اس تجویز پر اتفاق ہو جانے کے بعد معاویہؓ نے کہلا بھیجا کہ ہم اپنی طرف سے عمرو بن العاصؓ کو حَکم مقرر کرتے ہیں۔ اشعث بن قیس وغیرہ نے کہا: ہم ابوموسیٰ اشعریؓ کو منتخب کرتے ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: تم نے میری نافرمانی کرتے ہوئے جنگ بندی کر دی تو کم ازکم حَکم مقرر کرنے میری رائے مانو، ابو موسیٰ اشعریؓ کو اپنا حَکم و نمائندہ مت بناؤ۔ اشعث و زید بن حصین و مسعر بن فدکی نے کہا: ہم ابوموسٰیؓ کے علاوہ کسی کو پسند نہیں کرتے ’’فانہ ماکان یحذرنا وقعنا فیہ‘‘ کیونکہ ابو موسٰیؓ جس چیز سے ہمیں ڈراتے تھے ان کی بات نہ ماننے کی وجہ سے ہم اُسی آفت یعنی خانہ جنگی اور قتلِ مسلمین کی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ حضرت علیؓ نے کہا: ’’فانہ لیس لی بثقۃ قد فارقنی و خذل الناس عنی ثم ہرب منی حتی آمنتہ بعدا شہر‘‘ یعنی مجھے ابو موسٰیؓ پر بھروسہ نہیں ہے، وہ خود بھی مجھ سے الگ ہو گئے اور لوگوں کو بھی میرے پاس آنے سے روکا، پھر وہ بھاگ گئے یہاں تک کہ کئی ماہ بعد میں نے ان کو امن دیا۔
حضرت علیؓ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ تم عبد اللہ بن عباس کو اپنا نمائندہ بناؤ۔ ان لوگوں نے کہا: ابن عباس تو آپ کے بھائی اور جانب دار ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا اچھا تو اشتر نخعی کو حَکم مقرر کرتا ہوں۔ اس کے جواب میں اشعث نے کہا: ’’وہل سعر الارض غیر الاشتر؟‘‘ اشتر نے ہی تو زمین میں اس خانہ جنگی کی آگ بھڑکائی ہے۔ نیز اشعث نے کہا: ’’وہل نحن الا فی حکم الاشتر؟‘‘ جناب عالی ہم اشتر کے ماتحت اور زیر حکم تو بنے ہوئے ہیں ہی۔ حضرت علیؓ نے پوچھا: ’’وما حکمہ؟‘‘ اشتر کا حکم کیا ہے جسے مان رہے ہو؟ اشعث نے کہا: ’’حکمہ ان یضرب بعضنا بعضا بالسیوف حتی یکون ما اردت وما اراد‘‘ اس کا حکم یہ ہے کہ ہم باہم لڑتے اور ایک دوسرے کی گردنیں مارتے رہیں تا آنکہ آپ کی اور اس کی مراد حاصل ہو۔ بالآخر حضرت علیؓ نے ان کی بات قبول فرما لی اور ابو موسٰیؓ کو نمائندہ و حَکم بنانے کی منظوری دے دی اور ابوموسٰیؓ جو فریقین سے الگ تھلگ اور بالکل غیر جانبدار ہو کر مقامِ عُرض میں مقیم تھے، بلا لیے گئے۔ ابو موسٰیؓ کو جب یہ معلوم ہوا کہ اہلِ عراق و اہلِ شام یعنی علیؓ و معاویہؓ میں صلح ہو گئی اور جنگ رک گئی ہے تو بہت خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا، لیکن جب ان سے کہا گیا کہ آپ کو حَکم مقرر کیا گیا ہے تو اس پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا اور اظہارِ افسوس کیا۔ (ایضاً ص 52)
طبری کے اس بیان سے چند باتیں مستفاد ہوتی ہیں:
اول یہ کہ حضرت علیؓ نے جنگ بندی اور تحکیم کو اپنی صوابدید و مرضی سے نہیں بلکہ بالجبر قبول فرمایا تھا اور ظاہر ہے کہ جبر اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ لشکرِ علیؓ کی اکثریت نے علیؓ کو مجبور کیا ہو۔ کیونکہ اگر اکثریت جنگ بندی کے خلاف ہوتی اور صرف ایک حقیر سی اقلیت ہی اس پر اصرار کرتی تو حضرت علیؓ ہرگز اس کو قبول نہ فرماتے۔ (طبری اور دیگر مؤرخین کی یہ بات درست نہیں ہے، جیسا کہ آگے آئے گا)۔
دوم یہ کہ باہمی خانہ جنگی کا عظیم نقصان اہلِ شام کی طرح اہلِ عراق بھی محسوس کر رہے تھے اور اہلِ عراق کے قلوب اشتر نخعی کی طرف سے مکدر ہو گئے تھے کیونکہ اسی فتین شخص نے جنگ کی آگے بھڑکانے میں زیادہ حصہ لیا تھا اور اب بھی وہ جنگ جاری رکھنے پر مصر تھا۔
سوم یہ کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو اصحابِ علیؓ اور خصوصاً اہلِ کوفہ نے اس لیے پسند کیا تھا کہ وہ اہلِ اسلام کی باہمی خانہ جنگی کو نہایت ناپسند کرتے تھے اور ان دونوں متحارب فریقوں سے الگ تھلگ ہوگئے تھے اور جنگِ جمل کے موقع پر جب کہ حضرت علیؓ نے عمار بن یاسرؓ و حضرت حسنؓ اور اشتر نخعی کو کوفہ میں مقاتلین کی فراہمی کے لیے بھیجا تھا تو اس وقت ابوموسٰی اشعریؓ نے جو کہ والئ کوفہ تھے لوگوں کو جنگ و قتال سے باز رہنے کی فہمائش کی تھی اور فتنہ سے مجتنب رہنے کی تلقین فرمائی تھی۔ مگر اشتر نخعی نے ابو موسٰیؓ کی سخت توہین و بے عزتی کی اور انہیں قصرِ امارت سے نکال باہر کیا تھا۔ لیکن اہلِ کوفہ کو جب جمل و صفین کے معرکوں میں اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنا پڑا اور ان کے ہاتھوں سے قتل ہونا پڑا تو انہیں ابو موسٰیؓ کی نصیحتیں یاد آئیں۔ ابو موسیٰ اشعریؓ کی پختہ سیرت، خدا ترسی، خلوص اور امن پسندی کا ان لوگوں کو طویل تجربہ تھا، اس لیے اس مصالحت کے موقع پر ابو موسٰیؓ کے تقرر پر ان لوگوں کا اصرار بالکل بجا و معقول تھا۔
الغرض فریقین میں مصالحت کی بات پختہ ہو گئی اور طے ہو گیا کہ دونوں حَکم کتاب اللہ کی روشنی میں جو فیصلہ کریں گے فریقین اسے قبول کریں گے اور اس پر کاربند ہوں گے۔یہ معاہدہ لکھا جانے لگا تو حضرت علیؓ نے بسم اللہ کے بعد اس کا عنوان یہ لکھوایا: ’’ہذا ما تقاضی علیہ علی امیر المؤمنین و معاویۃ بن ابی سفیان‘‘ یہ وہ معاہدہ ہے جو امیر المؤمنین علی اور معاویہ کے درمیان طے پایا ہے۔ اس میں لفظ امیر المؤمنین پر حضرت معاویہؓ کی طرف سے اعتراض ہوا کہ ہم نے علیؓ امیر المؤمنین تسلیم ہی نہیں کیا ہے، یہ لفظ کتابت سے ساقط کر دینا چاہیے۔ آخر حضرت علیؓ نے اسے بھی مان لیا اور فریقین کے درمیان معاہدہ پختہ و مکمل ہو گیا۔
اس واقعہ کو ابو مخنف نے عبد الرحمٰن بن جندب سے اور اس نے اپنے باپ جندب سے بہ این لفظ روایت کیا ہے:
فقال عمرو اکتب اسمہ و اسم ابیہ ہو امیرکم فاما امیرنا فلا۔ و قال لہ الاحنف لا تمح اسم امارۃ المؤمنین فانی اتخوف ان محوتہا الاترجع الیک ابدا، لا تمحہا و ان قتل الناس بعضہم بعضا۔فابی ذلک علی ملیا من النہار ثم ان الاشعث بن قیس قال امح ہذا لاسم برحہ اللہ فمحی وقال علی اللہ اکبر سنۃ بسنۃ ومثل بمثل واللہ انی لکاتب بین یدی رسول اللہ ﷺ یوم الحدیبۃ اذ قالوا لست رسول اللہ ولا نشہد لک بہ ولکن اکتب اسمک واسم ابیک فکتبہ عمرو ابن العاص سبحان اللہ ومثل ہذا ان نشبہ بالکفار ونحن مؤمنون؟ فقال علی یا ابن النابغۃ ومتی لم تکن للفاسقین ولیا وللمسلمین عدوا؟ وہل تشبہ الاامک التی وضعت بک؟ فقام فقال لایجمع بینی وبینک مجلس ابدا بعد ہذاالیوم۔ فقال لہ علی وانی واللہ لا ارجوا ان یطہر اللہ مجلسی منک و من اشیاعک؟(الطبری الجزء الخامسص 52)
’’یعنی اس موقع پر حضرت علیؓ نے صلح حدیبیہ کے واقعہ کو یاد کیا تو عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ سبحان اللہ ہمیں کافروں سے تشبیہ دی جا رہی ہے حالانکہ ہم مسلمان ہیں! اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا اے نابغہ کے بیٹے! (عمرو بن العاص کی والدہ کو نابغہ کہا جاتا تھا، طبری نے ایک جگہ بعض بد زبان راویوں کے حوالہ سے یا ابن العاہرۃ کے الفاظ بھی نقل کیے ہیں، نعوذ باللہ۔ غ) تم فاسقوں کے دوست اور مسلمانوں کے دشمن کب نہیں رہے؟ تمہاری نسبت اس ماں ہی کی طرف تو کی جائے گی جس نے تم کو جنا ہے؟ عمروؓ نے کہا: آج کے بعد میں اور تم کسی مجلس میں اکٹھے نہ ہوں گے۔ علیؓ نے جواب دیا: مجھے امید ہے کہ اللہ تم جیسوں سے میری مجلس کو پاک ہی رکھے گا۔‘‘
لیکن باور کرنا چاہیے کہ علیؓ و عمرو بن العاصؓ کا یہ مکالمہ جو اس روایت میں مذکور ہے جندب یا اس کے بیٹے کا گھڑا ہوا ہے۔ (اوپر گزر چکا ہے کہ یہ دونوں روای نہایت ضعیف ہیں۔غ) حضرت عمرو بن العاصؓ کو گالیاں بک کر اس رافضی نے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں۔ عمرو بن العاصؓ عمر میں علیؓ سے ۳۳ یا ۳۴ سال بڑے تھے۔ اسلام میں ان کے شاندار کارنامے ہیں، کوئی ڈھکی چھپی چیز نہ تھے۔ اور تہذیب و شرافت کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہرگز اتنے پست اور فروتر نہ تھے کہ عمرو بن العاصؓ تو ان کی شان میں ایک نازیبا بات بھی اپنی زبان سے نہ نکالیں اور علیؓ انہیں ایسی مغلظ گالیاں بکیں۔
اس کے متعلق قابلِ اعتماد روایت وہ ہے جسے ابن جریر نے ابو مخنف کی ذکر کردہ اس روایت کے بعد ثبت کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
حدثنی علی بن مسلم الطوسی ثناحبان ثنا مبارک عن الحسن قال اخبرنی الاحنف ان معاویۃ کتب الی علی ان امح ہذا الاسم ان اردت ان یکون صلح فاستشار وکانت لہ قبۃ یاذن لبنی ہاشم فیہا ودیاذن لی معہم، قال ماترون فی ما کتب بہ معاویۃ ان امح ہذا لاسم قالوا برحہ اللہ، فان رسول اللہ ﷺ حین وادع اہل مکۃ کتب ’’محمد رسول اللہ‘‘ فابوا ذلک حتی کتب: ’’ہذا ما قاضی علیہ محمد بن عبد اللہ فقلت لہ ایہا الرجل مالک وما لرسول اللہ ﷺ: و انا لو علمنا احدا من الناس احق بہذا الامر منک لبا یعناہ ثم قاتلناک وانی اقسم باللہ لئن محوت ہذا لاسم الذی بایعت علیہ وقاتلتہم لایعود الیک ابدا۔ (طبری ایضاً الجزء الخامس ص 53)
علی بن مسلم طوسی نے حبان بن ہلال بصری سے اور حبان نے مبارک بن فضالہ بصری سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ حسن بصری نے ذکر کیا کہ مجھے احنف بن قیس نے بتایا کہ امیر معاویہؓ نے صفین میں معاہدہ صلح کے متعلق حضرت علیؓ کو لکھا کہ اگر آپ واقعی صلح چاہتے ہیں تو صلح نامہ سے لفظ ’’امیر المؤمنین‘‘ ساقط کر دیں۔ علیؓ نے اس کے متعلق اپنے اس خاص خیمہ میں مشورہ لیا جس میں بنی ہاشم کو اور مجھ کو آنے کی اجازت دیتے تھے۔ فرمایا کہ معاویہؓ کے اس اصرار کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، ہم اسے قبول کر لیں یا رد کر دیں؟ بنی ہاشم نے کہا: اللہ نے اس لفظ کو مٹانے کی اجازت دی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین مکہ کے اصرار پر لفظ ’’رسول اللہ‘‘ کو مٹا دیا تھا اور لکھا تھا کہ ’’ہذا ما قاضی علیہ محمد بن عبد اللہ‘‘۔ احنف کا بیان ہے کہ یہ سن کر میں نے (احنف نے) کہا: اس معاملہ میں رسول اللہ ﷺ کے اس عمل سے استدلال کرنا درست نہیں ہے (کہ آپؐ کا رسول ہونا کسی کے ماننے نہ ماننے پر موقوف اور امت کے انتخاب پر مبنی نہ تھا بلکہ آپؐ کی رسالت تو من جانب اللہ تھی اور آپ اللہ کی طرف سے صریح وحی کی وجہ سے رسول تھے، جبکہ کسی شخص کا امیر المؤمنین ہونا وحی الٰہی پر مبنی نہیں بلکہ اس کا تعلق امت کی رضامندی اور اس کے انتخاب سے ہے، رسول کا دعویٰ رسالت سے دست بردار ہونا یا اللہ تعالیٰ کا اسے معزول کر دینا متصور نہیں، جبکہ امیر المؤمنین مستعفی بھی ہو سکتا ہے اور امت بھی اسے معزول اور برطرف کر سکتی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے عصبیت کی بنا پر آپ سے بیعت نہیں کی ہے بلکہ اپنے علم میں آپ کو خلافت کا اہل تر سمجھ کر آپ کی خلافت و امارت کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالا ہے اور اگر ہمارے علم میں آپ کی بہ نسبت خلافت و امارتِ عامہ کا کسی اور شخص کو زیادہ حق حاصل ہوتا اور وہ اس کا آپ کی بہ نسبت اہل تر ہوتا تو ہم اسی سے بیعت کر کے آپ سے جنگ کرتے جس طرح کہ آپ سے بیعت کر کے ہم معاویہؓ وغیرہ سے برسر پیکار ہیں۔) اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر آپ نے یہ لفظ ’’امیر المؤمنین‘‘ جس کی آپ نے بیعت لی ہے اور جس کی بنا پر آپ نے لوگوں سے جنگ کی ہے مٹا دیا تو یہ خطاب آئندہ کبھی آپ کی طرف واپس لوٹ کر نہ آئے گا، یعنی پھر آپ امیر المؤمنین نہ بن سکیں گے۔
یہ روایت سند کے اعتبار سے قابلِ اعتماد ہے اور معنی و درایت کے لحاظ سے بھی درست ہے۔ اس کے تمام رواۃ صدوق و ثقہ ہیں۔ علی مسلم طوسی امام بخاری و ابوداؤد و نسائی کے شیوخ میں سے ہیں اور ثبت و ثقہ ہیں۔ اور حبان بن ہلال بصری بھی بالاتفاق ثبت و ثقہ ہیں۔ امام احمد نے ان کے متعلق کہا ہے: ’’الیہ المنتہی فی التثبت بالبصرۃ‘‘۔ ابن سعد نے ان کو ثبت و ثقہ و حجت بتایا ہے۔ اور مبارک بن فضالہ بصری امام حسن بصری کے مشہور تلامذہ میں سے ہیں، صدوق و ثقہ ہیں۔ حسن بصری اور احنف دونوں ثقہ تابعی ہیں۔
دیکھیے اس روایت میں اس تہذیب سے گرے ہوئے مکالمہ کا کوئی ذکر نہیں جس کی ابو مخنف کی روایتِ سابقہ میں حضرت علیؓ و حضرت عمرو ابن العاصؓ کی طرف نسبت کی گئی ہے۔ علاوہ بریں یہ روایتِ صحیحہ کذب و دروغ کے اُن دبیز پردوں کو بھی چاک کر دیتی ہے جو مؤرخین نے صفین میں اس مصالحت اور جنگ بندی کے معاملہ میں حضرت علیؓ کے موقف پر تیرہ سو سے برس سے ڈال رکھے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں جیسا کہ ہم اوپر تفصیل سے بتا چکے ہیں کہ حضرت علیؓ اس موقع پر مصالحت اور جنگ بندی کے خلاف تھے اور اپنی فوج کے خصوصاً اُن علماء وقاریانِ قرآن کے دباؤ میں آکر جو بعد میں باغی ہو گئے تھے حضرت علیؓ نے جنگ بندی و تحکیم کو منظور کیا تھا۔ لیکن اس مشہورِ عام افواہ کے برعکس یہ روایت بتاتی ہے کہ حضرت علیؓ نے بطوع و رغبت جنگ بندی و مصالحت کو منظور فرمایا تھا اور اس میں کسی کے دباؤ اور جبر و اکراہ کو دخل نہ تھا۔
اس میں مذکور ہے کہ امیر معاویہؓ نے حضرت علیؓ کو لکھا تھا: ’’امح ہذا الاسم ان اردت ان یکون صلح‘‘ اگر آپ صلح کے خواہش مند ہیں تو معاہدہ کی تحریر میں اپنے نام کے ساتھ ’’امیرالمؤمنین‘‘ لفظ نہ لکھوائیں، اس کو مٹادیں۔ پس امیر معاویہؓ نے اس لفظ کو محو کرنے کو شرطِ صلح قرار دیا تھا۔ اگر حضرت علیؓ اسے تحریر سے محو نہ فرماتے تو معاویہؓ آمادۂ صلح نہ تھے۔ لہٰذا اگر حضرت علیؓ نے جبر و اکراہ اور دباؤ کی وجہ سے صلح کو منظور کیا ہوتا اور انہیں جنگ جاری رکھنے پر اصرار ہوتا تو اس وقت نہایت آسانی کے ساتھ وہ صلح کی گفتگو کو توڑ سکتے تھے۔ اور اگر وہ فی الواقع جویائے صلح نہ ہوتے تو احنف بن قیس کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے امیر معاویہؓ کی ضد پوری کرنے سے انکار فرما دیتے۔
نیز احنف بن قیس کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ امیرالمؤمنین کے محو اثبات کے بارے میں حضرت علیؓ نے خاص کر بنی ہاشم اور احنف بن قیس سے رائے لی تھی۔ بنی ہاشم نے محو کا مشورہ دیا تھا تاکہ صلح کی گفتگو ٹوٹنے نہ پائے، اور احنف نے سختی کے ساتھ اس کی مخالفت کی تھی اور اسے ثابت رکھنے پر زور دیا تھا خواہ اس کے نتیجہ میں جنگ دوبارہ شروع ہو جائے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ احنف کی رائے تنہا احنف کی رائے نہ تھی، احنف اپنی قوم کا سردار اور ذی اثر شخص اور اصابتِ رائے میں ضرب المثل تھا۔ مگر حضرت علیؓ نے صلح جوئی کی خاطر احنف کی رائے مسترد کر دی تھی۔
حالانکہ بعد میں ثابت ہوا کہ جو احنف کی رائے تھی وہ حضرت علیؓ کی فوج میں ایک معتدبہ جماعت کی رائے تھی۔ آٹھ ہزار کی تعداد میں جو لوگ حضرت علیؓ سے کٹ کر نہروان میں جمع ہوگئے تھے ان کا حضرت علیؓ پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ آپ نے معاہدہ کی تحریر سے اپنے لیے امیرالمؤمنین کا لفظ کیوں ساقط کیا، وہ قمیص جو اللہ نے آپ کو پہنائی تھی خود اپنے ہاتھوں سے کیوں اتار دی؟
(نیز ابن کثیر کی ایک اور روایت بھی اصل حقیقت کو سامنے لے آتی ہے۔ ابو وائل بیان کرتے ہیں: کنا بصفین فلما استحر القتال باہل الشام اعتصموا بتل، فقال عمرو بن العاص لمعاویۃ ارسل الی علی بمصحف فادعہ الی کتاب اللہ فانہ لن یابی علیک، فجاء بہ رجل فقال بیننا و بینکم کتاب اللہ … فقال علی نعم انا اولی بذالک بیننا و بینکم کتاب اللہ۔ ہم صفین میں تھے جب اہلِ شام کے ساتھ جنگ خوب زور پکڑ گئی، شامی ایک ٹیلے پر چڑھ گئے۔ عمرو ابن العاصؓ نے معاویہؓ سے کہا: آپ علیؓ کی طرف قرآن بھیج کر ان کو کتاب اللہ کی طرف دعوت دیں، مجھے امید ہے کہ وہ اس سے انکار نہ کریں گے۔ معاویہؓ کی طرف سے ایک آدمی علیؓ کی طرف آیا اور کہا: ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے۔ علیؓ نے قبول کر لیا اور کہا: میں لوگوں کو اس کی دعوت دینے کا زیادہ حقدارہوں، ٹھیک ہے ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب فیصلہ کرے گی، البدایۃ والنہایۃ ج 7 ص 272، اس روایت کی سند امام احمد نے یہ بیان کی ہے: حدثنا یعلی بن عبید عن عبد العزیز بن سیاہ عن حبیب بن ابی ثابت عن ابی وائل احمد سے ہی ابن کثیر نے نقل کیا ہے۔غ)
فریقین کے درمیان معاہدہ لکھا گیا۔ تب حضرت علیؓ کے حکم سے اشعث ابن قیس نے لشکرِ علیؓ کے ایک ایک قبیلہ اور ایک ایک دستہ کے سامنے اُسے پڑھنا اور اس کے مضمون سے لوگوں کو آگاہ کرنا شروع کیا۔ چنانچہ ابو مخنف نے ابو جناب یعنی یحییٰ بن ابی حیہ الکلبی سے روایت کی ہے کہ:
خرج الاشعث بذلک الکتاب یقرئہ علی الناس ویعرضہ علیہم فیقرؤنہ حتی مربہ علی طائفۃ من بنی تمیم فیہم عروۃ بن ادیۃ وہو اخو بلال فقرء علیہم فقال عروۃ بن ادیہ تحکمون فی امر اللہ عز و جل الرجال لا حکم الا للہ ثم شذ بسیفہ فضرب بہ عجز دابتہ ضربۃ خفیفۃ واندفعت الدابۃ (تاریخ الرسل والممالک الجزء الخامس تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم الطبعۃ الثانیۃ دارالمعارف مصر ص 55)۔
اس معاہدہ کے برخلاف یہ آواز تنہا عروۃ بن ادیۃ کی ہی بلند نہیں ہوئی تھی بلکہ ایک اچھا خاصا گروہ کثیر یہی کہنے لگا۔ اب لشکرِ علیؓ دو گروہوں میں منقسم ہو گیا تھا۔ ایک گروہ وہ تھا جس نے اس مصالحت و معاہدہ کو درست قرار دیا تھا ،دوسرا وہ تھا جو اسے نہ صرف غلط بلکہ فعلِ کفر سمجھ رہا تھا۔ بے شک پہلے گروہ کی لشکرِ علیؓ میں اکثریت تھی لیکن یہ دوسرا گروہ بھی تعداد میں کچھ کم نہ تھا۔
حضرت معاویہؓ اپنی فوج لے کر دمشق واپس ہوئے اور حضرت علیؓ نے صفین سے کوفہ کا رخ کیا۔ اور راستہ بھر لشکرِ علیؓ کے ان دونوں گروہوں میں باہم گالم گلوچ اور مار پیٹ ہوتی رہی۔ چنانچہ ابن جریر طبری لکھتے ہیں:
قال ابو مخنف ثنا ابو جناب الکلبی عن عمارہ بن ربیعہ قال خرجوا مع علی الی صفین وہم متوادون احباء فرجعوا متباغضین اعدائ۔ مابرحوا من عسکرہم حتی فشا فیہم التحکیم ولقد اقبلوا یتدافعون الطریق کلہ ویتشائمون ویضطربون بالسیاط۔ یقول الخوارج یا اعداء اللہ ادہنتم فی امر اللہ عزوجل وحکمتم۔ وقال الآخرون فارقتم اما منا و فرقتم جماعتنا فلما دخل علی الکوفۃ لم یدخلوا معہ حتی اتوا حروراء، فنزل بہا منہم اثنا عشر الفا و نادی منادیہم ان امیر القتال شبث بن ربعی التمیمی و امیر الصلاۃ عبد اللہ بن الکواء الیشکری والامرشوری بعد الفتح والبیعۃ للہ عزوجل والامر بالمعروف والنہی عن المنکر۔ (ایضاً ص 63)
’’عمارہ بن ربیعہ کا بیان ہے کہ حضرت علیؓ کے لشکر والے جب صفین کی طرف اہلِ شام پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو اس وقت سب آپس میں دوست اور محبت کرنے والے تھے اور جب صفین سے واپس ہوئے تو اس وقت ایک دوسرے سے بغض رکھنے والے تھے۔ دوست دوست ہو کر گئے تھے اور دشمن دشمن بن کر لوٹے۔ صفین سے ہنوز کوچ نہیں ہوا تھا کہ تحکیم کا واقعہ لوگوں میں پھیل کر موجبِ نزاع بن گیا، وہ ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے گالیوں کا تبادلہ کرتے اور باہم کوڑے مارتے ہوئے واپس روانہ ہوئے۔ خوارج یعنی مصالحت اور تحکیم کو قبول نہ کرنے والے کہتے تھے کہ اے اللہ کے دشمنو! تم نے اللہ کے بارے میں مداہنت برتی اور دین میں انسانوں کو حَکم بنا لیا۔ اور دوسرا گروہ کہتا تھا کہ تم نے ہمارے امام کو چھوڑ دیا اور ہماری جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ تو جب علیؓ کوفہ میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ یہ لوگ کوفہ میں نہیں گئے بلکہ راستہ میں ان سے کٹ کر حروراء پہنچ گئے۔ وہاں ان میں سے بارہ ہزار لوگوں نے پڑاؤ کیا۔ منادی نے اعلان کیا کہ جنگ کا امیر شبث بن ربعی تمیمی رہے گا اور نماز کا امام عبداللہ بن الکواء یشکری ہوگا۔ اور فتح کے بعد خلیفہ کا تقرر باہمی مشورہ سے ہو گا اور بیعت اللہ تعالیٰ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے لی جائے گی۔‘‘
یہ روایت بتاتی ہے کہ خوارج وہ لوگ تھے جو مصالحت کو نادرست سمجھتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ معاویہؓ سے برابر جنگ کی جائے۔ حضرت معاویہؓ اور ان کے ساتھی ان کے نزدیک شرعاً واجب القتل والقتال تھے۔ اور جن لوگوں کو شرعاً قتل کرنا ضروری اور جن سے قتال کرنا واجب ہو ان سے مصالحت درست نہیں۔ (ان میں بہت سے وہ لوگ بھی تھے جو قاتلینِ عثمانؓ میں شامل تھے اور فریقین میں کسی مصالحت کو اپنے لیے موت سمجھتے تھے۔غ)
تحکیم ان دو شخصوں کے بارے میں ہوتی ہے جن میں سے کسی ایک کے متعلق متعین طور پر نہ بتایا جا سکے کہ وہ برسرِحق ہے اور یہ برسرِ باطل ہے۔ لیکن اگر کسی کا برسرِ باطل ہونا ظاہر ہو اور وہ کھلم کھلا جرم کا مرتکب ہو تو اس کے بارے میں تحکیم بے معنی ہے۔ اگر چند لوگوں نے مل کر چوری کی ہو یا زنا کا ارتکاب کیا ہو یا چند لوگ مل کر معاذ اللہ مرتد ہو گئے ہوں تو نہ ایسے مجرمین سے مصالحت ہو سکتی ہے نہ ان کے بارے میں تحکیم کی کوئی گنجائش ہے۔ خصوصاً یہ صورت بالکل غیر معقول و غیر مشروع ہے کہ خود ان مجرمین میں سے ہی ایک شخص کو حَکم بنا لیا جائے۔
یہ تھا ان خوارج کا حضرت معاویہؓ وغیرہ کے بارے میں اور مصالحت و معاہدۂ تحکیم کے متعلق نظریہ و استدلال۔ ان کج فہموں سے کوئی پوچھتا کہ تم لوگ امیر معاویہؓ اور ان کے اصحاب کو واجب القتل اور واجب القتال کیوں سمجھتے ہو؟ جن جرائم کی بنا پر کوئی مسلمان اسلامی قانون کی رو سے واجب القتل ہوتا ہے حضرت امیر معاویہؓ وغیرہ نے ان میں سے کس جرم کا ارتکاب کیا تھا؟ لے دے کر ان پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ صرف بغاوت کا الزام ہے۔ لیکن فی الواقع یہ الزام بھی ان پر عائد نہیں ہوتا، اس لیے کہ حکومتِ اسلامیہ قائمہ کے برخلاف خروج کر کے اسے مٹانے کی کوشش کرنا بغاوت ہے اور بے شک اس جرم کا مرتکب واجب القتل ہے۔ پس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے برخلاف جن لوگوں نے خروج کیا تھا وہ بلااستثناء سب کے سب باغی اور شرعاً واجب القتل تھے۔
امیر معاویہؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت نہیں کی تھی تو حضرت سیدنا علیؓ نے بھی بخاری کی روایت کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کی چھ مہینے تک بیعت نہیں کی تھی۔ انہوں نے عام مسلمانوں کے بعد یہ بیعت چھ ماہ بعد کی تھی، لیکن چونکہ اس پوری مدت میں ان کی طرف سے ابوبکرؓ کے خلاف خروج نہیں ہوا تھا اور عملاً انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کی حکومت کو مٹانے کی کوئی کوشش نہیں فرمائی اس لیے وہ بغاوت کے الزام سے بری رہے۔
حضرت عثمانؓ کے عہد میں اگرچہ حضرت علیؓ امیر المومنین عثمانؓ سے ناخوش سے تھے اور متعدد روایات بتاتی ہیں کہ باغیوں کے سرغنوں مثلاً مالک اشتر سے ان کے تعلقات تھے، اور اس فتنۂ بغاوت کو انہوں نے مٹانے کی کوئی خاص کوشش بھی نہیں فرمائی تھی بلکہ اخیر میں وہ تقریباً غیر جانبدار سے ہو کر رہ گئے تھے۔ اگرچہ ہمارے نزدیک ان روایات کی تحقیق کی ضرورت ہے، لیکن باین ہمہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کے خلاف بغاوت کی تھی یا بغاوت میں حصہ لیا تھا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سیدنا علیؓ نے حضرت عثمانؓ کے خلاف خروج نہیں فرمایا تھا۔
پس اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ حضرت معاویہ و عمرو بن العاص و سعد بن ابی وقاص و عبد اللہ بن عمر و مغیرہ بن شعبہ و نعمان بن بشیر و زید بن ثابت و کعب بن مالک و محمد بن مسلمہ و رافع بن خدیج و فضالہ بن عبید و کعب بن عجرہ و عبد اللہ بن سلام و اسامہ بن زید و صہیب بن سنان و سلمہ بن سلامہ و حسان بن ثابت رضی اللہ عنہم کو محض اس وجہ سے باغی نہیں قرار دیا جا سکتا کہ ان حضرات نے حضرت علیؓ سے بیعت نہیں کی۔ کیونکہ بیعت نہ کرنے کے باوجود ان لوگوں نے عملاً حضرت علیؓ کی حکومت کو ختم کرنے اور ان کے خلاف خروج کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔
رہی جنگِ صفین تو اس میں حضرت امیر معاویہؓ کی حیثیت مدافعانہ تھی۔ معلوم ہے کہ معاویہؓ پورے ملک شام کے حاکم اور ہر دل عزیز امیر تھے۔ ان کے پاس باقاعدہ تربیت یافتہ فوج تھی جس کی وفاداری و اطاعت شعاری ضرب المثل تھی۔ اگر معاویہؓ چاہتے تو علیؓ پر اسی وقت حملہ آور ہو جاتے جب وہ ام المومنین حضرت عائشہ اور طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے مقابلہ میں بصرہ پہنچے تھے اور جنگِ جمل واقع ہوئی تھی۔
تاریخ طبری وغیرہ میں مذکور ہے کہ دراصل حضرت علیؓ نے معاویہؓ ہی پر فوج کشی کے ارادہ سے مدینہ میں تیاریاں کی تھیں اور لشکر کو لے کر ربذہ میں قیام فرمایا تھا۔ اسی دوران انہیں یہ اطلاع ملی کہ ام المؤمنین عائشہؓ اور طلحہؓ و زبیرؓ مکہ سے بصرہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حضرت علیؓ نے شام کا ارادہ ملتوی فرما کر بصرہ کا رخ کیا، اور جب جنگِ جمل سے فارغ ہو گئے تو پھر نوے ہزار کی تعداد میں فوج لے کر شام کی طرف بڑھے۔ حضرت معاویہؓ کو جب اس کا علم ہوا تو وہ بھی تقریباً ستر ہزار سپاہیوں کو لے کر مقابلہ پر آگئے۔ الغرض امیر معاویہؓ نے حضرت علیؓ کے خلاف مسلح خروج کا ارتکاب نہیں کیا تھا کہ انہیں اس بناء پر باغی قرار دیا جا سکے۔
اچھا تو پھر حضرت علیؓ ان کے درپہ کیوں تھے، اور آپ نے ان پر فوج کشی کیوں فرمائی تھی؟ اس لیے کہ امیر معاویہؓ کا حضرت علیؓ کی بیعت سے انکار یقیناً یہ معنی رکھتا تھا کہ پورا ملک شام حضرت علیؓ کے قبضہ و تصرف سے الگ رہے، اور پوری مملکت اسلامیہ دو حصوں اور دو فرمانرواؤں میں منقسم ہو جائے۔ جو بالکل نئی بات ہوتی جس کی گذشتہ اسلامی ادوار میں کوئی نظیر نہیں تھی۔ نیز حضرت علیؓ سمجھتے تھے کہ خلافت کے لیے میرا انتخاب بجا ہے، اور ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ امیرالمؤمنین کی حیثیت سے میرا حکم مانے۔ اسی لیے حضرت علیؓ نے امیر معاویہؓ سے اقرار اور اطاعت کا مطالبہ کیا جسے حضرت معاویہؓ نے رد کر دیا۔ حضرت علیؓ نے انہیں باغی قرار دیا اور سمجھا کہ میری اطاعت قبول نہ کر کے معاویہ امت میں تفرقہ ڈال رہے ہیں۔
پھر حضرت علیؓ کو غلط یا صحیح ایسی اطلاعات بھی پہنچی ہیں کہ معاویہؓ اور ان کے ساتھی خونِ عثمانؓ کا بدلہ خود علیؓ سے لینا چاہتے ہیں اور قتلِ عثمانؓ کی ذمہ داری علیؓ پر ڈال رہے ہیں۔ پس حضرت علیؓ کو معاویہؓ کی طرف سے حملہ کا خطرہ تھا اس لیے بمصداق ؎ ’’علاج واقعہ پیش وقوع باید کرد‘‘ حضرت علیؓ نے خیال فرمایا ہو گا کہ امیر معاویہؓ کے حملہ سے پہلے خود ان پر حملہ کر کے متوقع فتنہ کا سر کچل دیں۔
لیکن حضرت معاویہ یہ سمجھتے تھے اور ان کا یہ سمجھنا غالباً بجا تھا کہ امتِ مسلمہ میں سے اصحابِ عدل نے خلافت کے لیے علیؓ کا انتخاب نہیں کیا ہے، یہ انتخاب گردن زدنی بلوائیوں اور قاتلینِ عثمانؓ کا ہے۔ اور ان فاسقین کا کیا ہوا فیصلہ پوری امت پر کیسے مسلط کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے معاویہ اس انتخاب کو غلط اور ناقابلِ اعتبار قرار دے کر حضرت علیؓ کو جائز امیر المؤمنین ماننے سے منکر تھے۔
ظاہر ہے کہ ایک غیر متعصب اور صحیح واقعات سے باخبر شخص کے لیے مشکل ہے کہ حضرت علیؓ و حضرت معاویہؓ میں سے کسی ایک کو برسرِ حق اور دوسرے کو برسرِ باطل قرار دے سکے۔ اس وقت بھی یہ معاملہ پیچیدہ تھا اور آج بھی پیچیدہ ہے اور غالباً ہمیشہ پیچیدہ رہے گا۔ اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دونوں بزرگ معذور تھے اور دونوں ہی اپنی جگہ برسرِ حق تھے۔
ہاں تو صفین کی باہمی خوں ریزی کو روکنے کی خاطر حضرت معاویہؓ کی طرف سے تحکیم کی تجویز پیش کی گئی جسے حضرت علیؓ نے بطیب خاطر منظور فرما لیا (ہمارے نزدیک وہ روایات غلط ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ نے اس مصالحت و تحکیم کو اپنی فوج کے دباؤ سے قبول کیا تھا اور وہ فی نفسہ جنگ جاری رکھنے کے خواہش مند تھے۔)
تحکیم کا مطلب یہ تھا کہ ایک شخص ذی فہم اور ذی علم حضرت معاویہؓ کی طرف سے ہو جو اُن کے موقف سے پوری طرح باخبر ہو اور ان کی حجتوں اور دلیلوں سے بخوبی واقف ہو کہ کس بنا پر معاویہؓ نے علیؓ کی بیعت سے انکار کیا ہے اور اس معاملہ میں ان کے پاس کیا شرعی حجت ہے۔ اور ایک شخص حضرت علیؓ کی جانب سے ہو جو اُن کے موقف سے اچھی طرح باخبر ہو اور یہ بتا سکے کہ معاویہؓ کو اس دلیلِ شرعی کی بنا پر علیؓ سے بیعت کر لینی چاہیے اور علیؓ فلاں دلیل کی بنا پر جائز امیرالمؤمنین ہیں اور ان کی اطاعت تمام اہلِ ایمان پر لازم ہے اور قاتلانِ عثمانؓ سے علیؓ نے ان وجوہ کی بنا پر قصاص نہیں لیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ تجویز نہایت معقول تجویز تھی اور خوارج نے جو اس پر اعتراض کیا تھا وہ ان کی کم فہمی و کج نظری پر مبنی تھا۔ جاہلوں کا یہ گروہ جنگ بندی اور مصالحت کو دین میں مداہنت اور ضعفِ ایمان کا نتیجہ اور تجویزِ تحکیم کے قبول کرنے کو کفر قرار دے رہا تھا۔ حالانکہ ان دونوں باتوں کا منشاء امت کی خیر خواہی اور ایمان کی قوت تھی۔
خوارج کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ بھی پھیلی ہوئی ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پہلے حضرت علیؓ کو جنگ بندی و مصالحت قبول کر لینے پر مجبور کیا تھا۔ اور جب فریقین کے درمیان معاہدہ مکمل ہو گیا تو ان ہی لوگوں نے اس کی مخالفت شروع کر دی اور اسے کفر قرار دینے لگے، اورحضرت علیؓ سے کہا کہ ہمارا یہ فعل کفر تھا، ہم اس سے تائب ہو چکے ہیں آپ بھی اس سے توبہ کر لیجئے اور اقرار کیجئے کہ یہ ہمارا فعل نہایت غلط اور کافرانہ فعل تھا۔
ہم بتا چکے ہیں کہ حضرت علیؓ نے کسی دباؤ کی بنا پر مصالحت کو قبول نہیں کیا تھا اور ابتدا ہی سے لشکرِ علیؓ میں ایسے لوگ موجود تھے جو کسی قیمت پر مصالحت نہیں چاہتے تھے۔ یہ خوارج ان ہی میں سے (تھے) اور اس سے بھی اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ ان میں قاتلینِ عثمانؓ تھے۔
حروراء میں جمع ہو جانے والے خارجیوں کے پاس حضرت علیؓ نے اول عبد اللہ بن عباسؓ کو بھیجا پھر خود تشریف لے گئے اور سمجھا بجھا کر انہیں کوفہ لے آئے۔ کوفہ میں یہ لوگ وقتاً فوقتاً حضرت علیؓ کو پریشان کرتے رہے، خصوصاً جب آپ خطبہ کے لیے منبر پر کھڑے ہوتے تو چاروں طرف سے ’’لا حکم الا للہ‘‘ کا شور بلند کر دیتے۔ بسا اوقات حضرت علیؓ کو خطبہ جاری رکھنا دشوار ہو جاتا۔
پھر جب حضرت علیؓ نے ابو موسیٰ اشعریؓ کو اور ان کے ساتھ شریح بن ہانی و ابن عباسؓ کو چار سو آدمیوں کے ساتھ جائے موعود یعنی دومۃ الجندل میں مقام ’’اذرح‘‘ کی طرف بھیجا جہاں ہر دو حکم عمرو بن العاصؓ اور ابوموسٰیؓ کو مل کر گفتگو کرنی تھی۔ تو کوفہ کے خارجی عبد اللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے، ان سب نے عبد اللہ بن وہب کو اپنا امیر منتخب کیا اور طے کیا کہ ہم سب ہم خیال لوگوں کو نہروان میں جمع ہو جانا چاہیے۔ راسبی نے خوارجِ بصرہ کو خط لکھ کر صورت ِحال سے مطلع کیا اور انہیں اپنے ساتھ مل جانے کی ترغیب دی۔ راسبی نے مدائن پر قبضہ کر لینے کا پلان بنایا۔ اس کے ساتھ تیس آدمی نکلے، بقیہ لوگ آگے پیچھے نہروان کی طرف روانہ ہوئے۔ راسبی اور اس کے ساتھیوں کو مدائن میں داخل ہونا نصیب نہ ہو سکا، کیونکہ سعد بن مسعود ثقفی نے، جو حضرت علیؓ کی طرف سے مدائن کا حاکم تھا، ان لوگوں سے مطلع ہو کر پانچ سو سواروں کے ساتھ ان کا راستہ روک لیا۔ فریقین میں ہلکی سی جھڑپ ہوئی مگر رات کی تاریکی میں راسبی اپنے ساتھیوں کو لے کر نہروان کی طرف نکل گیا۔ بصرہ سے بھی مسعر بن فدکی تمیمی کی قیادت میں پانچ سو خارجی نہروان جا پہنچے۔
تحکیم کا قضیہ حضرت علیؓ کے موافق نہ ہوا۔ حضرت علیؓ نے اس فیصلہ کو ناحق و باطل قرار دے کر اہلِ کوفہ کو پھر شام پر فوج کشی کے لیے آمادہ فرمایا اور نہروان میں جمع ہونے والے ان خوارج کو لکھا کہ قضیۂ تحکیم ختم ہو چکا ہے، اس لیے اب ہم اہلِ شام کی سرکوبی کا قصد رکھتے ہیں، تم سب لوگ بھی لشکر میں واپس چلے آؤ۔ خوارج نے اس کا یہ جواب دیا:
اما بعد فانک لم تغـضب لربک انما غضبت لنفسک فان شہدت علی نفسک بالکفر و استقبلت التوبۃ نظرنا فی ما بیننا و بینک والا فقد نابذناک علی سواء ان اللہ لا یحب الخائنین (ایضا ص 78)
’’حمد و صلاۃ کے بعد واضح ہو کہ آپ اپنے رب کے لیے نہیں بلکہ اپنی ذات کے لیے غضبناک ہوئے۔ پس آپ اس کا اقرار کریں کہ آپ نے تحکیم قبول کر کے کفر کا ارتکاب کیا تھا اور ازسرنو توبہ کریں تو ہم اپنے اور آپ کے معاملہ میں غور کریں گے ورنہ ہمارا آپ سے کوئی تعلق نہیں، ہم کھلم کھلا آپ کے مخالف ہیں، بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
حضرت معاویہؓ و اہلِ شام سے نبرد آزما ہونے کے لیے حضرت علیؓ کے پاس مقام نخیلہ میں اڑسٹھ ہزار دو سو مردوں پر مشتمل لشکر جمع ہو گیا اور مزید فوج کے لیے آپ نے سعد بن مسعود ثقفی عاملِ مدائن کو تاکید لکھی۔ اِدھر خوارج نے عبد اللہ بن خباب کو، جو حضرت علیؓ کی طرف سے مدائن کے کچھ علاقہ پر حاکم تھے اور اپنی حاملہ کنیز کے ساتھ کوفہ کی طرف آرہے تھے، پکڑ کر ذبح کر دیا۔ حضرت علیؓ کو اس کی اطلاع ہوئی، تحقیقِ حال کے لیے حارث بن مرہ عبدی کو بھیجا، خوارج نے اسے بھی قتل کر دیا۔ تب حضرت علیؓ نے وہ لشکر لے کر نخیلہ سے نہروان کی طرف کوچ کیا۔ آخری بار آپ نے ان بدبختوں کو پھر راہِ راست پر لانے کی کوشش کی اور کہلایا کہ تم میں سے جن لوگوں نے عبداللہ بن خباب و حارث بن مرہ کو قتل کیا ہے انہیں ہمارے حوالہ کر دو۔ خوارج نے اس کے جواب میں کہا کہ ہم سب ہی اس قتل میں شریک تھے۔ بالآخر میدانِ کارزار گرم ہوا۔ خوارج کل چار ہزار تھے، ان میں سے تقریباً سو آدمی امان مانگ کر حضرت علیؓ کے ساتھ آملے۔ پانچ سو آدمیوں کو لے کر فروہ بن نوفل اشجعی الگ ہو گیا، کچھ لوگ متفرق طور پر کوفہ کو چلے گئے۔ عبد اللہ بن وہب راسبی کے ساتھ صرف دو ہزار آٹھ سو لوگ بچے جو چشمِ زدن میں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیے گئے۔ ان میں سے کئی آدمی قاتلانِ عثمانؓ میں شامل تھے جیسے حرقوص بن زہیر اور شریح بن اوفی عبسی۔