بین الاقوامی معیارات اور توہینِ مذہب کے قوانین پر رپورٹ

(انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن کی طرف سے مئی ۲۰۲۳ء میں شائع کردہ رپورٹ کے تعارفی کلمات کے ایک حصے کا ترجمہ دوسری طرف کے موقف کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)

توہینِ مذہب کے قوانین صحافت کے لیے ایک انوکھا چیلنج پیش کرتے ہیں۔ توہینِ مذہب کے قوانین غالب مذہبی روایات کو ترجیح دیتے ہیں اور انسانی حقوق کے اصولوں کی بہتری کی حوصلہ افزائی کے اظہار کو محدود کر کے مذاہب کے متعلق ترجیحات قائم کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح وہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ مذاہب کو ارتقاء سے روکتے ہیں کہ مذہبی نظریات پر اثر انداز ہونے والی رپورٹنگ اور رائے کو محدود کرتے ہیں اور نتیجتاً‌ ترقی کے عمل کو سست کرتے ہیں یا روک دیتے ہیں۔ درحقیقت نسلی-مذہبی سیاسی تقسیم/نظاموں کے موجودہ دور میں توہینِ مذہب کے قانون کا سیاسی صحافت پر بھی حوصلہ شکنی کا سنگین اثر پڑتا ہے۔

توہینِ مذہب کے قوانین، جو مذہب پر تنقید یا توہین کرنے والے بیانیہ کی اجازت نہیں دیتے، بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے، سوائے بعض محدود صورتوں کے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت ایسی پابندیاں صرف اس صورت میں قابلِ قبول ہیں جب وہ ایسے قومی، نسلی یا مذہبی نفرت کے اظہار کو ہدف بنائیں جو امتیازی سلوک، دشمنی یا تشدد پر اکسانے کا باعث بنتا ہو، جیسا کہ بین الاقوامی شہری اور سیاسی حقوق کے معاہدے کے آرٹیکل 20(2) میں بیان کیا گیا ہے۔

آرٹیکل 18 کے تحت آزادئ فکر، ضمیر اور مذہب کے حق کا تجزیہ اکثر ایسے حق کے طور پر کیا جاتا ہے جسے آرٹیکل 19 کے تحت آزادئ رائے کے ساتھ متوازن ہونا چاہیے، اور آرٹیکل 20 کے ساتھ بھی جو کہ آزادئ رائے پر قابلِ اجازت پابندیوں کا تعین کرتا ہے۔ تاہم آرٹیکلز کو سرسری پڑھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آرٹیکل 18، 19 اور 20 اس طرح سے ترتیب دیے گئے ہیں کہ وہ باہم ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں (یا مکمل کرتے ہیں)۔

جبکہ صورتحال یہ ہے کہ آدھی دنیا، کم از کم 95 ممالک، اب بھی ایسے قوانین رکھتے ہیں جو توہینِ مذہب کی سزا دیتے ہیں۔ یہ تناسب بعض خطوں میں زیادہ ہے: مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے زیر تجزیہ تمام ممالک میں توہینِ مذہب کا کوئی نہ کوئی قانون موجود ہے، جبکہ 70 فیصد ایشیائی ریاستوں میں بھی توہینِ مذہب پر پابندی ہے۔ اگرچہ بعض ممالک، خاص طور پر یورپ میں، اپنے توہینِ مذہب کے قوانین کو منسوخ کر چکے ہیں، لیکن کئی انہیں برقرار رکھتے ہیں، اور موریطانیہ، نیپال، عمان اور روس جیسی ریاستوں نے تو انہیں مضبوط کیا ہے۔ تقریباً یہ تمام توہینِ مذہب کے قوانین فوجداری ہیں جو قید کی سزائیں دیتے ہیں۔ اور کم از کم چار منظور شدہ توہینِ مذہب کے قوانین اس جرم کے لیے سزائے موت نافذ کرتے ہیں۔

نتیجے کے طور پر توہینِ مذہب کے معاملے میں بین الاقوامی قانون اس ریاستی طرزعمل کے بالکل برعکس ہے جس میں اب بھی بہت سے ایسے قوانین نافذ ہیں، ان میں مغربی جمہوریتیں اور یورپ بھی شامل ہیں، جن میں سے اگرچہ بعض ممالک میں وہ متروک ہو چکے ہیں۔ اس ریاستی طرزِ عمل سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ توہینِ مذہب کے قوانین صحافت کی حوصلہ شکنی کے لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ اس کی ایسی رپورٹنگ اور رائے کم ہے جو مذہبی نظریات پر اثر انداز ہوتی ہو۔ مثال کے طور پر افغانستان، الجزائر، مصر، بھارت، انڈونیشیا، ایران، موریطانیہ، پاکستان، روس اور سعودی عرب سمیت بہت سی ریاستوں میں میڈیا کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے توہینِ مذہب کے قوانین کا استعمال دیکھا گیا ہے۔ ان میں سے بعض ممالک میں اس جرم کی سزا موت ہے اور اس کے نتیجے میں پھانسیاں دی گئی ہیں۔

بین الاقوامی قانون کے برعکس توہینِ مذہب پر پابندیوں کی اخلاقی حیثیت علاقائی اور قومی سطح پر متنازعہ ہے، خصوصاً‌ مقامی سطح پر عدالتوں، حکومتوں، میڈیا اور شہریوں کے درمیان جمہوری مباحثوں میں۔ اس طرح صحافت اور درحقیقت خود حق گوئی ہی توہینِ مذہب کے قوانین کا شکار ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پر 2022ء کے دوران ایران میں مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہروں کے جواب میں صحافتی آزادئ رائے پر حکومتی کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ احتجاج کے بعد تقریباً 95 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا، بعض کو توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت۔ ان میں سے ایک کیس کھیلوں کے صحافی احسان پیربرناش کا ہے جنہیں اکتوبر 2022ء میں مہسا امینی کی موت کے بعد ٹویٹر کے ذریعے مظاہروں کی کھلے عام حمایت اور رپورٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں ان الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا اور سزا دی گئی: (i) اسلام کی توہین کرنے کا جرم، (ii) اسلامی جمہوریہ کی حکومت کے خلاف جارحیت پر اکسانا، اور (iii) اسلامی جمہوریہ کے نظام کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلانا۔ انہیں 18 سال قید کی سزا سنائی گئی (جس میں سے آٹھ سال معطل/تخفیف کیے گئے)۔

دنیا بھر میں توہینِ مذہب کے مخالف قوانین کو منسوخ کرنا آزادئ رائے اور آزادئ اظہار کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ تاہم توہینِ مذہب کے قوانین پر بین الاقوامی بحث نامکمل ہو گی جب تک کہ توہینِ مذہب کے نفرت انگیز مذہبی اظہار کے بارے میں بات نہ کی جائے، یا ایسے اظہار کے بارے میں جس سے مذہبی نظریات کی تنقید کی آڑ میں اس کے پیروکاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

دائرہ کار اور طریقہ کار

یہ رپورٹ پانچ حصوں میں تقسیم کی گئی ہے:

پہلے حصے میں مصنف اور نیشنل لاء یونیورسٹی دہلی کے اصل کام کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں عالمی سطح پر توہین مذہب کے قوانین کو مرتب کیا گیا ہے۔ پھر بین الاقوامی آزادئ رائے کے معیارات کے بنیادی اجزاء اور توہینِ مذہب سے ان کے تعلق کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد رپورٹ توہینِ مذہب کے قوانین کا جائزہ لیتے ہوئے یہ تجزیہ کرتی ہے کہ کیسے اور کیوں یہ قوانین ان (بین الاقوامی معیارات) پر کم از کم طور پر پورا اترنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔

دوسرے حصے میں توہینِ مذہب اور نفرت انگیز اظہار کے درمیان پائے جانے والے ابہام کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

تیسرے حصے میں اس بات کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ ریاستوں کی طرف سے توہین مذہب کے قوانین کا نفاذ صحافت کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے اور اس سلسلہ میں اکثر منصفانہ مقدمہ اور ضروری مراحل کے کم از کم تقاضوں پر پورا نہیں اترتا، جس میں کہ ان قوانین کے تحت صحافیوں پر مقدمات چلانے پر توجہ دی گئی ہو۔

چوتھے حصے میں توہین مذہب کے قوانین میں حالیہ اصلاحات پر غور کیا گیا ہے، جن میں ان کے اثرات کو ختم یا کم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مضبوط بنانے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

اور آخر میں ریاستوں کے لیے توہینِ مذہب کے قوانین کے حوالے سے سفارشات پیش کی گئی ہیں۔

اس رپورٹ میں توہینِ مذہب کے وہ قوانین شامل ہیں جو کسی ایک یا زیادہ خداؤں، کسی خاص مذہب کے اصولوں، رہنماؤں یا پیروکاروں، یا عام طور پر مذہب کی توہین یا بدنامی والے اظہار سے نمٹتے ہیں۔ اس میں ریاستی نظاموں میں توہینِ مذہب کے طور پر موجود قوانین کے ساتھ ساتھ ارتداد (جو مذہبی عقیدے کو ترک کرنے یا اس کا انکار کرنے سے روکتے ہیں) یا انحراف (جو قبول شدہ عقائد کے برخلاف رائے یا نظریے کو ہدف بناتے ہیں) کو جرم قرار دینے والے قوانین بھی شامل ہیں۔

یہ رپورٹ ایسے قوانین کا مکمل جائزہ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں ہتکِ عزت کے عمومی قوانین، نفرت انگیز اظہار کے قوانین، یا ان قوانین سے متعلق بین الاقوامی معیارات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کی بنیادی تحقیق بڑی حد تک 2019ء اور 2020ء کے درمیان کی گئی تھی، جبکہ اپریل 2023ء تک ان قوانین میں ہونے والی تبدیلیاں اور ترامیم شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ممکن ہے اس رپورٹ میں اس طرح کی معلومات مکمل طور پر شامل نہ ہو سکی ہوں۔

HLP Blasphemy Laws report


عالم اسلام اور مغرب

(الشریعہ — اپریل ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اپریل ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۴

انبیاء کی اہانت کا جرم اور عالمی برادری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ خلافِ شریعت ہے
ڈاکٹر محمد امین

تحکیم سے متعلق حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کے مواقف کا مطالعہ اور خوارج کا قصہ
علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مذہبی شناختیں: تاریخی صورتحال اور درپیش چیلنجز
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

اقبال: پاکستانی جوہری توانائی منصوبے کا معمارِ اوّل
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

عید کا تہوار اور شوال کے روزے
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

موجودہ عرف و حالات کے تناظر میں نمازِ جمعہ کیلئے شہر کی شرط
مفتی سید انور شاہ

وطن کا ہر جواں فولاد کی دیوار ہو جائے
سید سلمان گیلانی

بین الاقوامی معیارات اور توہینِ مذہب کے قوانین پر رپورٹ
انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن ہیومن رائٹس انسٹیٹیوٹ

Blasphemy Against Prophets and the International Community
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۳)
ڈاکٹر محی الدین غازی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۲)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۳)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

ماہانہ بلاگ

’’نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے‘‘
مولانا طارق جمیل

اتحادِ مذاہب کی دعوت اور سعودی علماء کا فتویٰ
سنہ آن لائن

امام ترمذیؒ، ایک منفرد محدث و محقق
ایم ایم ادیب

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

فقہی منہاج میں استدلال کے سقم اور اہلِ فلسطین کے لیے استطاعت کی شرط
ڈاکٹر عرفان شہزاد

تراث، وراثت اور غامدی صاحب
حسان بن علی

غزہ کے لیے عرب منصوبہ: رکاوٹیں اور امکانات
عرب سینٹر ڈی سی

غزہ کی خاموش وبا
الجزیرہ
حدیل عواد

حافظ حسین احمد بھی چل بسے
سید علی محی الدین شاہ

حافظ حسین احمد، صدیوں تجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
مولانا حافظ خرم شہزاد

دارالعلوم جامعہ حقانیہ کا دورہ / یومِ تکمیلِ نظریہ پاکستان
پاکستان شریعت کونسل

ماہنامہ ’’الحق‘‘ کا مولانا عبد القیوم حقانی نمبر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہنامہ ’’الحق‘‘ کا خصوصی نمبر دو جلدوں میں
ڈاکٹر محمد امین

ماہنامہ نصرۃ العلوم کا فکرِ شاہ ولی اللہؒ نمبر
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

مولانا عبد القیوم حقانی کی تصانیف
ادارہ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter