پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے گزشتہ روز ایک مجلس میں اسرائیل پر ایرانی حملہ سے پیداشدہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگ کا ایک حصہ ہے جسے زمینی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کی اس وقت جنگ کے تین بڑے فریق ہیں:
① ایک فریق اسرائیل ہے جو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے لیے مسلسل جنگ لڑ رہا ہے اور پیش قدمی کرتا جا رہا ہے۔ ② دوسرا فریق ایران ہے جو ’’دولتِ فاطمیہ‘‘ کے لیے برسرِ پیکار ہے۔ اور عراق، شام، یمن، لبنان میں اس کی موجودگی اور کردار اس کے سنجیدہ ہونے کی واضح علامت ہے۔ ③ جبکہ تیسرا فریق عرب ممالک اور اقوام ہیں جن کے پاس کوئی وژن نہیں ہے، اپنی بادشاہتوں اور حکومتوں کا تحفظ ہی ان کا واحد ایجنڈا دکھائی دے رہا ہے جس کے لیے وہ امریکہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسرائیل سے بھی توقعات وابستہ کرنے لگے ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ کی عملی اور مؤثر حمایت اور امداد صرف اسرائیل کو حاصل ہے، جبکہ عربوں کو وہ زبانی تسلی دینے کے لیے بھی تیار دکھائی نہیں دیتا۔ ④ اس کشمکش کا ایک ممکنہ فریق ترکیہ بھی ہو سکتا ہے جو خلافتِ ِعثمانیہ کے دور کو یاد کرتے ہوئے ماضی کی طرف واپسی کی سوچ رکھتا ہے، لیکن وہ ابھی پس منظر میں ہے اور اس کشمکش سے فائدہ اٹھانے کے لیے امکانات اور مواقع کی تلاش میں ہے۔
اس وسیع تر جنگ سے اس عالمی جنگ کا ماحول قریب آ رہا ہے جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاحمِ کبریٰ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس لیے ایران کو صرف تماشائی کردار سمجھنا اس جنگ کے پس منظر، تہہ منظر اور پیش منظر تینوں سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہو گا۔ اصل ضرورت مسلم حکمرانوں کا مل بیٹھ کر موجودہ تناظر کو پوری طرح سمجھتے ہوئے کوئی مشترکہ اور اجتماعی حکمتِ عملی طے کرنے کی ہے۔ جبکہ اہلِ فکر و دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ گروہی، علاقائی اور قومی تعصبات کے چشموں سے آزاد ہو کر کھلی فضا میں زمینی حقائق کا جائزہ لیں اور امتِ مسلمہ کی صحیح سمت راہنمائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔