قوتِ گویائی بنی آدم کا امتیازی خاصہ ہے، بنی آدم میں ہر فرد چاہتا ہے کہ اس کی بات سنی جائے اور اس کی بات پر غور کیا جائے۔ بات میں یہ تاثیر کیسے پیدا کی جائے کہ وہ محض سماعت سے ٹکرانے کے بعد فضا میں تحلیل نہ ہو، بلکہ دلوں میں اتر کر گداز پیدا کرے۔ جذبات کو ابھارے، حوصلوں کو بڑھائے، عزائم کو مضبوط کرے، سوئی ہوئی قوم کو جگائے، غفلت کی دھوپ سینکنے والوں کو اشہب عمل پر سوار کر دے، کامیابی کا یقین دلائے اور خالق کے احکام سلجھے ہوئے انداز میں مخلوق کو پہنچائے۔ اس کے لیے ماہرینِ فن نے ہر عصر اور ہر زبان میں مختلف اسالیب میں کچھ اصول وضع کیے ہیں۔
عہدِ موجود میں اردو زبان کے دائرے میں جن حضرات کو باشعور طبقہ میں سنا جاتا ہے اور جن کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے ان میں ایک نمایاں نام مفکر اسلام حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب کا ہے۔ آپ مستشرقین کے پھیلائے ہوئے شبہات کا مدلل جواب بھی دیتے ہیں، انسانی حقوق کے خوشنما لیبل کی آڑ میں خاندانی اور معاشرتی اقدار پر ہونے والے مہلک صہیونی وار کے عواقب و نتائج سے بھی امت کو آگاہ کرتے ہیں، قادیانی مغالطوں کا بھی پردہ چاک کرتے ہیں، عصرِ حاضر میں احکامِ شریعت کے نفاذ اور اس کی عملی شکل کے خدوخال بھی واضح کرتے ہیں، سودی معیشت کے خاتمے اور اسلامی اقتصادی نظام کی ترویج کے لیے بھی مختلف پلیٹ فارم پر گفتگو کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چاہتے ہیں کہ یہ تگ و دو ان کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ ہر فاضل اور عالم ان کی طرح سماج کے مختلف طبقوں میں نفوذ کریں، اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق جدید محاورے اور زمانۂ حال کے اسلوب سے ہم آہنگ کلام کرے۔ اس کے لیے آپ وقتاً فوقتاً نوجوان فضلاء کرام کے سامنے کچھ اساسی اصول اور جوہری نکات رکھتے ہیں جن کو ملحوظ رکھ کر ایک فاضل انتہائی مؤثر طریقے سے معاشرے میں دینِ اسلام کو ایک زندہ جاوید ضابطۂ حیات کی شکل میں پیش کر سکتا ہے۔ آپ کے یہ ارشادات مختلف رسائل و جرائد کے صفحات میں منتشر اور بکھرے ہوئے تھے، حافظ خرم شہزاد صاحب نے انتہائی محنت، لگن اور محبت سے ان کو ترتیب کی لڑی میں پرو کر کتابی شکل میں امت کے سامنے پیش کیا، اور آخر میں ’’ختامہ مسک‘‘ کے مصداق حضرت مولانا محمد شاہ نواز فاروقی مدظلہ مہتمم دارالعلوم فاروقیہ گوجرانوالہ کے فنِ خطابت کے حوالے سے بیان فرمودہ اہم نکات بھی شامل کر دیے ہیں۔
حافظ خرم شہزاد صاحب کو رب العزت نے اپنے اساتذہ کے علوم و معارف اور افکارِ امت تک پہنچانے کا خاص ذوق نصیب فرمایا ہے۔ اصحابِ علم کو ایسے تلامذہ ملنا یقیناً قدرت کا ایک خصوصی انعام ہوتا ہے، جس طرح امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحبؒ کے علوم و معارف کی تشریح، توضیح اور تسہیل کا کام مسبب الاسباب نے حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب سے لیا، اسی طرح خود علامہ زاہد الراشدی صاحب کے ارشادات، خطبات اور مقالات کو ترتیب کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اللہ پاک نے حافظ خرم شہزاد صاحب کو موفق کیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی سعی قبول فرما کر ان کو مزید توفیق سے نوازیں۔ علامہ زاہد الراشدی صاحب کی صلابتِ فکر اور حافظ خرم شہزاد صاحب کی حسنِ ترتیب کا یہ حسین مرقع (۴۸) صفحات پر مشتمل ہے، کاغذ اعلیٰ، سرورق عمدہ اور طباعت صاف ہے۔