بعد اَز رمضان رب کا انعام بصورت عید الفطر

مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی


مسلمان رمضان المبارک میں اللہ پاک کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں، اسے منانے میں فرائض و واجبات کی ادائیگی کرتے ہیں۔ جب رب راضی ہوتا ہے تو خوشی کے اظہار کے لیے اپنے بندوں کو ایک دن بھی عنایت کرتا ہے اور وہ دن عید الفطر کا ہوتا ہے۔ عید الفطر یا عید عالمِ اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے جو کہ ماہ رمضان المبارک کے اختتام کی نشاندہی کرتا ہے اور ہر سال بڑی دھوم دھام سے یکم شوال کو منایا جاتا ہے، جبکہ شوال اسلامی کیلنڈر کا دسواں مہینہ ہے۔

عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خوشی، جشن، فرحت اور چہل پہل کے ہیں۔ جبکہ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں، یعنی روزہ توڑنا یا ختم کرنا۔ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللہ تعالی بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، لہٰذا اس تہوار کو عید الفطر قرار دیا گیا ہے۔ عید الفطر وہ انعام ہے جو امتِ مسلمہ کو رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کے بعد عطا ہوا ؎

یہ خوشی ہے روزہ داروں کے لیے
روزے جو گئے اُن کی رسید آئی ہے

عالمِ اسلام ہر سال دو عیدیں مناتے ہیں؛ عید الفطر اور عید الاضحٰی۔ عید الفطر کا یہ تہوار جو کہ پورے ایک دن پر محیط ہے اسے چھوٹی عید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں سورت البقرہ میں اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق؛ ہر مسلمان پر ماہ رمضان کے تمام روزے رکھنا فرض ہیں جبکہ اسی ماہ میں قرآن مجید کے اتارے جانے کا بھی تذکرہ ہے، لہٰذا اس مبارک مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔

عمومی طور پر عید کی رسموں میں مسلمانوں کا آپس میں عید مبارک کہنا، گرم جوشی سے ایک دوسرے سے نہ صرف ملنا بلکہ آپس میں مرد حضرات کا مردوں سے بغل گیر ہونا، رشتہ داروں اور دوستوں کی آؤ بھگت کرنا شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بڑے بوڑھے بچے اور جوان نت نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں، مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور جگہ جگہ میلے ٹھیلے منعقد ہوتے ہیں، جن میں اکثر مقامی زبان اور علاقائی ثقافت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔

خصوصی طور پر مسلمان صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں، پھر دن چڑھے ایک مختصر سا ناشتہ یا پھر کھجوریں کھانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں ،جو کہ ایک طرح سے اس دن روزہ کے نہ ہونے کی علامت ہے۔ مسلمانوں کی ایسے مواقع پر اچھے یا نئے لباس زیب تن کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جبکہ نئے اور عمدہ لباس پہن کر مسلمان اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد، عید گاہوں اور کھلے میدانوں میں جاتے ہیں۔ شاعر (احمد علی برقی اعظمی) نے اس عید الفطر کے منظر کو کچھ یوں بیان کیا ہے:

دلوں سے سب کے کدورت مٹائے عیدالفطر
نقوشِ بُغض و حسد کو مِٹائے عیدالفطر
دلوں میں شمعِ محبت جَلائے عیدالفطر
جو غمزدہ ہیں اُنہیں آکے شادکام کرے
جو رو رہے ہیں انہیں بھی ہنسائے عیدالفطر
بڑھائے حوصلہ پژمُردہ دل ہیں جو اُن کا
جو گِر رہے ہیں اُنہیں بھی اُٹھائے عیدالفطر
یہ اُستوار کرے رشتہ محبت کو
ہے جو بھی عہدِ وفا وہ نِبھائے عیدالفطر
دیار غیر میں ہیں جو، رہیں خوش و خُرم
وطن کی یاد کو دل سے بُھلائے عیدالفطر
ہوں ہمکنار خوشی سے سبھی امیر و غریب
ہمیں بھی اور اُنہیں، راس آئے عیدالفطر
خزاں کی زد میں نہ گُلزارِ زندگی ہو کبھی
چمن میں اپنے نئے گل کِھلائے عیدالفطر
یہ سدِ باب کرے تیرگی کا اے برقی
کبھی نہ شمعِ اخوت بُجھائے عیدالفطر

یاد رکھیے! نماز عید میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ تکبیریں کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ عید کے روز غسل کرنا، خوشبو استعمال کرنا، اور اچھا لباس پہننا سنت ہے۔ عید الفطر کے روز روزہ رکھنا حرام ہے۔ عید کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہو نے سے ضحوہ کبریٰ تک ہے۔ ضحوہ کبریٰ کا صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے کل وقت کا نصف پورا ہونے پر آغاز ہوتا ہے۔ ہر نماز کے ادا کرنے سے پہلے اذان کا دیا جانا اور اقامت کہنا ضروری ہے، مگر عید کی نماز کو اذان اور اقامت سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ جبکہ اس نماز کی صرف دو رکعات ہوتی ہیں، پہلی رکعت میں ثنا کے بعد اور دوسری رکعت میں قراءتِ سورت کے بعد ہاتھ اٹھا کر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔

عید الفطر کی نماز کے موقع پر خطبہ عید کے علاوہ بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالمِ اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔ جس میں اللہ تعالی سے کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ تعالی سے اس کی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں خطبہ عید میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے جیسے فطرانہ کی ادائیگی وغیرہ۔ اس کے بعد دعا کے اختتام پر ہر فرد اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے افراد کو عید مبارک کہتا ہوا بغل گیر ہو جاتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد لوگ اپنے رشتہ داروں دوستوں اور جان پہچان کے تمام لوگوں کی طرف ملاقات کی غرض سے جاتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ زیارت القبور کی خاطر قبرستان کی طرف جاتے ہیں۔ 

شوال یعنی عید کا چاند نظر آتے ہی رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ جبکہ ہر ایک مسلمان کی زبان سے بے اختیار اللہ کی عظمت کی اور شان کے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں، یعنی آہستہ آواز سے تکبیریں کہی جاتی ہے: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد۔ تکبیر کہنے کا یہ سلسلہ نماز عید ادا کرنے تک چلتا ہے۔ 

عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے ہر صاحبِ استطاعت مسلمان مرد و عورت پر صدقہ فطر ادا کرتے ہیں جو کہ ماہِ رمضان سے متعلق ہے۔ جو مسلمان اتنا مالدار ہو کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو، یا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے لیکن ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال و اسباب ہے جتنی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، تو اس پر عید الفطر کے دن کا صدقہ فطر دینا واجب ہے، چاہے وہ سوداگری کا مال ہو یا نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو شریعت میں ’’صدقہ فطر‘‘ کہتے ہیں (درمختار)۔ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد، عورت، آزاد، غلام، چھوٹے، بڑے سب پر واجب ہے۔ صدقہ فطر میں اگر گیہوں یا گیہوں کا آٹا، ستو دیا جائے تو نصف صاع یعنی پونے دو سیر بلکہ احتیاطاً دو سیر دے دینا چاہیے۔ اور اگر گیہوں اور جو کے علاوہ کوئی اور غلہ دینا چاہے جیسے چنا، چاول تو اتنا دے کہ اس کی قیمت نصف صاع گندم یا ایک صاع جو کے برابر ہو جائے۔ اور اگر غلہ کے بجائے اس کی قیمت دی جائے تو سب سے افضل ہے (درمختار)۔

ہجرت مدینہ سے پہلے یثرب کے لوگ دو عیدیں مناتے تھے، جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول ہوتے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے۔ خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدن، معاشرت اور اِجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوا، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جس کا تذکرہ سنن ابی داؤد کی حدیث میں ملتا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہلِ مدینہ دو دن بطور تہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا فرمایا: یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ (یعنی اب تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟) انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔ یہ سن کر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیے ہیں، یوم الاضحیٰ اور یوم الفطر۔ غالباً‌ وہ تہوار جو اہلِ مدینہ اسلام سے پہلے عہدِ جاہلیت میں عید کے طور پر منایا کرتے تھے وہ نوروز اور مہرجان کے ایام تھے، مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تہوار منانے سے منع فرما دیا اور فرمایا اللہ تعالی نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام و اکرام کے طور پر عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے مبارک ایام مسلمانوں کو عطا فرمائے ہیں۔

رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جب مسلمانوں کی عید یعنی عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے، اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزا ہے جو اپنا کام مکمل کر دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: اے فرشتو! میرے بندوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نماز عید کی صورت میں) دعا کیلئے چلاتے ہوئے نکل آئے ہیں۔ مجھے میری عزت و جلال، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں اِن کی دعاؤں کو ضرور قبول کروں گا۔ پھر فرماتا ہے: بندو! تم گھروں کو لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) لوٹتے ہیں حالانکہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔

قرآن مجید میں سورہ المائدہ کی آیت ۱۱۴ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک دعا کے حوالے سے عید کا ذکر موجود ہے: ارشاد باری تعالی ہے: عیسٰی ابن مریم نے عرض کیا کہ اے اللہ! ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار دے (اور اس طرح اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے (بطور) عید (یادگار) قرار پائے، اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا فرمانے والا ہے۔ اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں یہ (خوان) تم پر اتار تو دیتا ہوں، مگر اس کے بعد جو کفر کرے تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو سارے جہانوں میں اور کسی کو نہ دیا ہو۔

کسی قوم کی خوشی اور مسرت کے دن کو قرآن نے عید کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ اور جو دن کسی قوم کے لیے اللہ تعالی کی کسی خصوصی نعمت کے نزول کا دن ہو وہ اس دن کو اپنا یومِ عید کہہ سکتی ہے۔

آج پوری دنیا میں مسلمان بڑی دھوم دھام سے عید الفطر کا تہوار مناتے ہیں، جہاں خوشی منانے کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاقی اقدار کی پاسداری بھی کی جاتی ہے۔ جبکہ اقوامِ عالم امت ِمسلمہ کے اس تہوار کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے ان بھائیوں کو بھی یاد رکھیں جنہیں گلے ملنے والا کوئی نہیں، جن کو نیا لباس میسر نہیں، جن کا چولہا اس مبارک دن بھی جلتا دکھائی نہیں دیتا۔ اصل عید تو اس کی ہوتی ہے جو عید کے اس مبارک دن بے سہارا لوگوں کو سہارا دیتا ہے۔ اسلام میں صدقہ فطر بھی اس بات کی دلیل ہے کہ جو اس خوشی میں شامل نہیں ہو سکتے آج کے دن وہ بھی صدقہ فطر کے مستحق بن کر اس خوشی میں شامل ہو جائیں۔ 

آئیے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم بھی ان لوگوں کو گلے لگائیں گے جو گلے لگانے کے اصل مستحق ہیں۔ اللہ پاک ہمیں بھی حق داروں کی قدر اور ان کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین بحرمۃ سید الانبیاء والمرسلین۔

سیرت و تاریخ

(الشریعہ — اپریل ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — اپریل ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۴

احکام القرآن،عصری تناظر میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۱)
ڈاکٹر محی الدین غازی

اجتہاد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

مقبوضہ بیت المقدس اور بین الاقوامی قانون
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

قراردادِ مقاصد پر غصہ؟
مجیب الرحمٰن شامی

چیف جسٹس آف پاکستان کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے پر ملی مجلسِ شرعی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا متفقہ تبصرہ اور تجاویز
ادارہ

بعد اَز رمضان رب کا انعام بصورت عید الفطر
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

فقہ الصحابہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی: لفظ بدون متبادل
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

فحاشی و عریانی: معاشرے کی تباہی کا سبب
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حیدر: پاکستان کا مقامی طور پر تیار کردہ نیا مرکزی جنگی ٹینک
آرمی ریکگنیشن

جامعہ گجرات کے زیر اہتمام’’تعمیرِ شخصیت میں مطالعۂ سیرت النبیؐ کی اہمیت‘‘ لیکچر سیریز
ادارہ

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور برگد کے اشتراک سے ’’مساوات، جامع اور پائیدار مستقبل‘‘ کانفرنس
ادارہ

’’خطابت کے چند رہنما اصول‘‘
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ’’دورہ تفسیر و محاضراتِ علومِ قرآنی‘‘
مولانا محمد اسامہ قاسم

Quaid-e-Azam`s Vision of Pakistan
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter