آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ انسانی ضروریات اور انسانی ماحول ایک حالت پر قائم رہنے والی چیز نہیں ہے، اور تمدنی ترقیات کے ساتھ ہی ساتھ انسانی ضروریات کا تبدیل ہونا ضروری امر ہے۔ لہٰذا آپؐ نے بہت سی فرعی باتوں سے متعلق خود احکام صادر فرمانے مناسب نہیں سمجھے، اور ان لوگوں کے فہم و فراست پر فیصلہ چھوڑ دیا ہے جو قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری پیغمبر مانتے اور کتاب و سنت کے اصولی احکام کو واجب التعمیل جانتے ہیں۔
کتاب و سنت کے قوانین کو لازمی اور قابلِ عمل جاننے والوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اجتہاد و تفقہ سے کام لیں اور کتاب و سنت کی روشنی میں ضروری اور ہنگامی قانون بنائیں۔ اس کو فقہ اور قیاس کہتے ہیں۔ اور مجتہد مصیب بھی ہو سکتا ہے اور مخطی بھی۔ لیکن اگر صاحبِ اجتہاد نے اپنی پوری طاقت اور وسعت صَرف کی اور مع ہذا اس سے غلطی ہو گئی، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے بلکہ وہ ماجور ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمتِ بے پایاں سے ثواب کا مستحق ہو گا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا حکم الحاکم فاجتہد و اصاب فلہ اجران، واذا حکم فاجتہد واخطا فلہ اجر واحد۔ (بخاری ج ۲ ص ۱۰۹۲ و مسلم ج ۲ ص ۷۶ و مشکوٰة ج ۲ ص ۳۲۴)
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ کرے اور اجتہاد کرتے ہوئے درست فیصلہ کرے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ اگر اس سے خطا سرزد ہو تو اس کو ایک ہی اجر ملے گا۔‘‘
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت اور مشقت کو ہرگز رائیگاں نہیں کرتا، تو اجتہاد کرتے وقت جو تکلیف اور کاوش مجتہد کو ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اس پر اس کو ضرور ایک اجر مرحمت فرمائے گا۔ اور اصابتِ رائے کی صورت میں ایک اجر اجتہاد کا اور ایک اصابتِ رائے کا اس کو حاصل ہو گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مجتہد صحیح معنی میں مجتہد ہو۔ ورنہ ’’القضاۃ ثلاثہ‘‘ کی حدیث میں اس کی تصریح ہے کہ جاہل آدمی کا فیصلہ اس کو دوزخ میں لے جائے گا (رواہ ابوداؤد، ابن ماجہ، مشکوٰۃ ج ۲ ص ۳۲۴)۔
اس صحیح روایت سے اجتہاد کا درست ہونا، اور خطا کی صورت میں مجتہد کا معذور بلکہ ماجور ہونا صراحت سے ثابت ہوا۔ صرف بطور تائید و شاہد کے حضرت معاذ بن جبلؓ (المتوفی ۱۸ھ) کی روایت بھی سن لیجئے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو اس وقت آپؐ نے حضرت معاذ سے فرمایا کہ
کیف تقضی اذا عرض لک قضاء؟ قال اقضی بکتاب اللہ۔ قال فان لم تجد فی کتاب اللہ؟ قال فبسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ قال فان لم تجد فی سنة رسول اللہ؟ قال اجتہاد برایی ولا آلو۔ قال فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صدرہ و قال الحمد للہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضی بہ رسول اللہ۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد والدارمی و مشکوٰة ج ۲ ص ۳۲۴)
’’تو کس طرح فیصلہ کرے گا جب تیرے سامنے کوئی جھگڑا پیش ہوا؟ حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ میں تجھے وہ بات نہ مل سکے؟ عرض کیا تو پھر سنتِ رسول اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر سنتِ رسول اللہ میں بھی نہ ہو؟ تو حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا کہ الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق عطا فرمائی جس پر اللہ تعالیٰ کا رسول راضی ہے۔‘‘
حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفی ۷۷۴ھ) اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: باسناد جید کما ہو مقرر فی موضعہ (تفسیر ج ۱ ص ۳) ۔ اس روایت کی سند عمدہ اور کھری ہے جیسا کہ اپنے موقع پر ثابت ہے۔
اس روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کے اس جواب پر کہ اجتہد برایی (کہ میں قیاس اور رائے سے کام لوں گا) اللہ تعالیٰ کا شکر ادا فرمایا اور اظہارِ مسرت کیا۔ جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے فروعی قوانین کو منجمد رکھنا پسند نہیں فرمایا بلکہ ضرورت کے پیش نظر ایسے قوانین کو استقرائی رکھنا چاہا ہے۔ تاکہ انسان کے قوائے دماغیہ کی نشوونما اور انسانی ترقیات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو سکے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ (المتوفی ۱۳ھ) کے پاس جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کو تلاش کرتے تھے، ورنہ اجتہاد سے کام لیتے تھے۔
ان ابابکرؓ اذا نزلت بہ قضیہ لم یجد لھا فی کتاب اللہ اصلاً ولا فی السنہ اثرا فقال اجتہد برایی فان یکن صوابا فمن اللہ وان یکن خطا فمنی واستغفر اللہ۔ (طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۳۶)
’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر ان کو اس کی وضاحت نہ ملتی تو فرماتے: میں اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہوں، اگر درست ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی عنایت ہو گی، ورنہ میری خطا ہو گی اور میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشہور تابعی قاضی شریحؒ (المتوفی ۸۵ھ) کو خط لکھا۔ اس میں کتاب و سنت اور اجماع کے بعد خاص طور پر اجتہاد کرنے کا ذکر ہے۔ (دیکھیے مسند دارمی ص ۳۴ و مثلہ فی کنز العمال ج ۳ ص ۱۷۴)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بھی اجماع کے بعد قیاس اور اجتہاد کرنے کا حکم دیا کرتے تھے (مسند دارمی ص ۳۴)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کا یہ معمول تھا کہ جب کتاب و سنت کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے کوئی ثبوت نہ مل سکتا تو قال فیہ برایہ (مسند دارمی ص ۳۳ و مستدرک ج ۱ ص ۱۲۷ و قالا صحیح علی شرطہما) اپنی رائے سے کام لیتے تھے۔
الغرض جمہور اہلِ اسلام قیاسِ شرعی کو صحیح اور حجت تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’جمہور از صحابہؓ و تابعین و فقہاء و متکلمین باں رفتہ کہ اصلے از اصولِ شریعت است استدلال میرود بداں بر احکام واردہ بسمع و ظاہریہ انکارش کردہ اند۔‘‘ (افادۃ الشیوخ ص ۱۲۲)
’’جمہور صحابہؓ و تابعینؒ اور فقہاء و متکلمین اس کے قائل ہیں کہ قیاس شریعت کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے، اس کے احکام واردہ بسمع میں باقاعدہ استدلال صحیح ہے اور اہلِ ظاہر نے قیاس کا انکار کیا ہے۔‘‘
اہلِ ظاہر کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ انہوں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ غیر نبی کو یہ مقام کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ دین کی باتوں میں دخل دے۔ اعتراض بظاہر بڑا معقول اور وزنی ہے مگر حقیقت سے بالکل دور ہے۔ اس لیے کہ موجبِ حکم مجتہد اور قائس کا قیاس و اجتہاد نہیں ہے، بلکہ موجب اصل میں وہی شرعی دلیل ہے جو قرآن کریم اور حدیث وغیرہ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ مجتہد کا کام صرف اتنا ہے کہ مسکوت عنہ جزئی کی کڑی دلیلِ شرعی سے جوڑ دیتا ہے اور بس۔ چنانچہ مشہور فیلسوفِ اسلام علامہ ابن رشد ابو الولید محمد بن احمد (المتوفی ۵۹۵ھ) لکھتے ہیں:
واما القیاس الشرعی فھو الحاق الحکم الواجب لشی ما بالشرع بالشی الذی اوجب الشرع لہ ذٰلک الحکم او لعلہ جامعہ بینھما۔ (بدایة المجتہد ج ۱ ص ۳)
’’قیاسِ شرعی اس کو کہتے ہیں کہ جو حکم شریعت میں کسی چیز کے لیے ثابت ہو چکا ہو، اس حکم کو اس چیز کے اوپر بھی چسپاں کیا جائے جو مسکوت عنہ ہے۔ یا تو اس لیے کہ یہ اس کے مشابہ ہے، اور یا اس لیے کہ ان دونوں میں علت جامعہ مشترک ہے۔‘‘
نواب صاحبؒ اس کی تعبیر یوں کرتے ہیں:
’’و اما قیاس پس در اصطلاح فقہاء حمل معلوم بر معلوم است در اثبات حکم یا نفی او بامر جامع میان ہر دو از حکم یا صفت و اختارہ جمہور المحققین‘‘۔ (افادۃ الشیوخ ص ۱۲۱)
مولانا حافظ محمد عبد اللہ صاحب روپڑی لکھتے ہیں:
’’جب انسان کو کوئی مسئلہ قرآن و حدیث سے صراحتاً نہیں ملتا تو وہ قرآن و حدیث میں اجتہاد و استنباط کرتا ہے۔ اور وہ اجتہاد و استنباط قرآن و حدیث سے الگ نہیں کہلاتا۔ اسی طرح صحابی کے اس قول کو، جو اجتہاد و استنباط کی قسم سے ہو، اس کو قرآن وحدیث سے الگ نہ سمجھنا چاہیے بلکہ قرآن و حدیث میں داخل سمجھنا چاہیے۔‘‘ (بلفظہ ضمیمہ رسالہ اہل حدیث ص ۷)
اجتہاد کی اہلیت
یہ بات طے شدہ ہے کہ اجتہاد کے لیے چند نہایت ضروری شرطیں ہیں، جن میں وہ نہ پائی جا سکیں ان کی بات ہرگز حجت نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ صوفیاء کرامؒ کی باتیں بھی شرعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، الّا یہ کہ وہ شریعت کے موافق ہوں۔ چنانچہ علامہ قاضی ابراہیم الحنفی (المتوفی حدود ۱۰۰۰ھ) لکھتے ہیں:
’’اور جو عابد و زاہد اہلِ اجتہاد نہیں وہ عوام میں داخل ہیں۔ ان کی بات کا کچھ اعتبار نہیں۔ ہاں اگر ان کی بات اصول اور معتبر کتابوں کے مطابق ہو تو پھر اس وقت معتبر ہو گی۔‘‘ (نفائس الاظہار ترجمہ مجالس الابرار ص ۱۲۷)
’’مجالس الابرار‘‘ کی حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلویؒ نے بڑی تعریف کی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے کیا ہی خوب ارشاد فرمایا ہے کہ
’’عملِ صوفیہ در حل و حرمت سند نیست۔ ہمیں بس است کہ ما ایشاں را معذور درایم و ملامت نہ کنیم و مر ایشاں را بحق سبحانہ و تعالیٰ مفوض داریم۔ اینجا قول امام ابوحنیفہؒ و امام ابو یوسفؒ و امام محمدؒ معتبر است، نہ عمل ابوبکر شبلیؒ و ابو حسن نوریؒ۔‘‘
’’صوفیاء کی بات حل و حرمت میں سند نہیں ہے۔ یہی کافی ہے کہ ہم ان کو ملامت نہ کریں اور ان کا معاملہ خدا کے سپرد کر دیں۔ اس جگہ حضرت امام ابوحنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کا قول معتبر ہو گا، نہ کہ ابوبکر شبلیؒ اور ابو حسن نوری جیسے صوفیاء کرام کا۔‘‘ (مکتوبات دفتر اول ص ۳۳۵ مکتوب ص ۲۲۶)
یہ بالکل ٹھیک ہے کہ دین کی تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہو چکی تھی۔ مگر تکمیلِ دین کا یہ مطلب ہے کہ قواعد اور کلیاتِ دین پورے طور پر مکمل ہو چکے تھے۔ بعد کو پیش آنے والے واقعات اور حوادث کو ان اصول اور کلیات کے تحت درج کرنا، اور انہی جزئیات کو کلیات پر منطبق کرنے کا نام قیاس و اجتہاد ہے۔ لیکن بسا اوقات جزئیات کا کلیات میں داخل کرنا کسی خاص عارضہ کی وجہ سے بعض لوگوں پر مخفی رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروعی مسائل میں فقہاء اسلام کا اختلاف رہا ہے۔ اور ایسے مواقع پر جو چیز اقرب الی الحق ہو، اس کو قبول کر لینا اور اس پر عمل کرنا نجات کے لیے کافی ہے۔ ہاں اگر قرآن وحدیث سے کوئی نص مل جائے، یا اجماع پر اطلاع ہو جائے، تو اس صورت میں قیاس سے رجوع کرنے میں ہرگز تامل نہیں ہونا چاہیے۔
(ماہنامہ الشریعہ جولائی ۱۹۹۵ء)