مقبوضہ بیت المقدس اور بین الاقوامی قانون

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

(۲۰ مئی ۲۰۲۱ء کو یوٹیوب چینل ’’شیبانی فاؤنڈیشن‘‘ پر نشر ہونے والی گفتگو)


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ آج اس نشست میں ہم اس پر گفتگو کریں گے کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں فلسطین کے اس تنازع کی حیثیت کیا ہے۔ اس موضوع پر گفتگو کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سارے لوگوں کو اس معاملے میں بین الاقوامی قانون کی تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ اور اس وجہ سے اس موضوع پر جتنے مباحثے ہو رہے ہیں اور جتنی گفتگو ہو رہی ہے میری ناقص رائے میں اس میں بنیادی ایشیوز کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، اور جو بحث ہے وہ صحیح نہج پر نہیں جا رہی۔ اس لیے میں چاہتا یہ ہوں کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کچھ بنیادی جو نکات ہیں وہ آپ کے سامنے رکھوں۔ 

جہاں تک بین الاقوامی قانون کے متعلق مسلمانوں کے نقطۂ نظر کا تعلق ہے، وہ اپنی جگہ ایک مستقل مسئلہ ہے، کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون اور جو موجودہ بین الاقوامی نظام ہے یہ مغربی اقوام کی پروڈکٹ ہے، اور انہوں نے ظاہر ہے اپنے مقاصد اور اپنے اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سسٹم بنایا ہوا ہے۔ اور اگر اس کی تاریخ کو دیکھیں تو ۱۶۴۸ء سے جب ویسٹفالیا (Westphalia) کا معاہدہ ہوتا ہے، اور جدید قومی ریاستوں کا آغاز ہوتا ہے تو اگلے دو سو سال تک تو اس قانون کو اور اس نظام کو صرف یورپ تک ہی محدود سمجھا جاتا رہا۔ اور غیر یورپی اور غیر مسیحی اقوام کا تو اس میں کوئی کردار ہی نہیں تسلیم کیا گیا تھا۔ لیکن بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ مختلف وجوہات کی بنا پر بالآخر بیسویں صدی میں غیر یورپی غیر مسیحی اقوام بھی اس نظام میں شامل ہو گئیں۔ لیکن اس نظام میں غیر مسیحی اور غیر یورپی اقوام کی شمولیت کے لیے جو شرائط تھیں، اگر آپ انٹرنیشنل لاء کی کسی بھی بنیادی کتاب جیسے مثال کے طور پر اوپن ہائم کی مشہور کلاسک کتاب ’’انٹرنیشل لاء‘‘ اس میں دیکھیں تو وہ شرائط یہی تھیں کہ آپ نے ہماری شرائط پر اور ہماری اقدار کو مانتے ہوئے اس نظام کا حصہ ہونا ہے۔ اور اگر ہم آپ کو اس میں شامل ہونے دیں گے تب آپ اس میں شامل ہو سکیں گے۔ اس طرح کے امور بالکل واضح ہیں۔ تو ہم ان کی شرائط پر اور ان کے سسٹم اور ان کے رولز آف دی گیم کو مانتے ہوئے یوں کہیں کہ  اس میں شامل ہوئے ہیں، اور تب شامل ہوئے ہیں جب انہوں نے ہمیں شامل کرنا چاہا۔ 

انٹرنیشل لاء کے متعلق ہماری بنیادی ریزرویشنز (تحفظات) اپنی جگہ موجود ہیں۔ لیکن اس وقت ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ انٹرنیشنل لاء جس طرح بنا ہوا ہے، اس کی روشنی میں اور اس کے اصولوں کی روشنی میں اس مسئلے کی حیثیت کیا ہے، اور یہ تنازع اصل میں بنتا کیا ہے۔  ورنہ اگر ہم اسلامی اصولوں کی روشنی میں بات کریں اور قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں تو ہمارے نزدیک تو اسرائیل کا وجود ہی سرے سے ناقابلِ تسلیم ہے اور بہت بڑا ظلم ہے۔ اور اس کے متعلق اسلامی اصولوں کی روشنی میں الگ سے گفتگو ہم کر سکتے ہیں اور کریں گے ان شاء اللہ۔ لیکن اس وقت یہ دکھانا مقصود ہے کہ جو موجودہ بین الاقوامی قانونی نظام ہے، اگر ہم اس کے اصولوں پر اور اس کے اندر رہتے ہوئے بات کریں تو پوزیشن کیا بنتی ہے۔ 

میں شروع کروں گا اس معاملے کو پہلی جنگِ عظیم سے۔ جب پہلی جنگِ عظیم میں عثمانی خلافت اور دیگر جن کے ساتھ ان کا اتحاد تھا ان کو شکست ہوئی، اور برطانیہ اور فرانس وغیرہ نے جنگ میں کامیابی حاصل کی، تو اس کے بعد مفتوحہ جو علاقے تھے اور جتنے ممالک تھے ان کا کرنا کیا ہے؟ اس معاملے میں ان فاتح اقوام کا آپس میں ایک معاہدہ ہوا، ورسائی (The Treaty of Versailles 1919) کا معاہدہ جس کو کہا جاتا ہے۔ اس میں انہوں نے طے کیا کہ فرانس کے پاس کونسا علاقہ ہو گا، برطانیہ کے پاس کون سا ہو گا وغیرہ۔ اس معاہدہ کی رو سے انہوں نے آپس میں طے کیا تھا کہ فلسطین اور آس پاس کا علاقہ برطانیہ کے کنٹرول میں ہو گا۔ اور جنگ کے دوران میں برطانیہ نے صہیونی تنظیم کو باقاعدہ تحریری طور پر ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر جب فلسطین کا کنٹرول ہمیں ملے گا تو ہم یہاں یہودیوں کا قومی وطن بنائیں گے۔ اس کو بالفور ڈیکلریشن (Balfour Declaration) کہتے ہیں جو انہوں نے ۱۹۱۷ء میں انہوں نے تحریری طور پر صہیونی تنظیم کے سربراہ کو لکھ کر اپنا وعدہ دیا تھا۔ 

جب برطانیہ نے ورسائی معاہدے کے تحت یہ کنٹرول بھی حاصل کیا اور پھر ۱۹۱۹ء میں جب نئے عالمی نظام کی تشکیل کیلئے ایک میثاق طے پایا اور ایک معاہدہ طے پایا اور ’’لیگ آف نیشنز‘‘ وجود میں آ گئی، تو اس لیگ آف نیشنز نے، یوں کہیں کہ ان فاتح اقوام کی آپس میں جو انڈرسٹینڈنگ تھی اسی کو قانونی صورت دے کر مینڈیٹ سسٹم ایک بنایا۔ انتداب کا نظام جس کو اردو میں کہا جاتا ہے۔ اور برطانیہ کو یہ فلسطین اور آس پاس کا علاقہ بطور مینڈیٹ دیا گیا، بطور امانت دیا گیا۔ اور آئیڈیا یہ تھا کہ یہاں آپ نے یہاں کے لوگوں کو اپنی حکومت خود چلانے کیلئے اہل بنانا ہے۔ یہ ابھی تہذیب کی سطح سے ذرا نیچے ہیں۔ اور بحیثیت سفید فام آپ کی ذمہ داری ہے ان کو مہذب بنانے کی، تو آپ نے ان لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔ نہ صرف فلسطین اور آس پاس کے علاقے بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی ان کا کنٹرول ہوا، انہوں نے مینڈیٹس بنا کر ان کے تین درجے بنا دیے تھے۔ مینڈیٹ اے، مینڈیٹ بی، مینڈیٹ سی۔ تو فلسطین اور یہ جو علاقے تھے یہ مینڈیٹ اے میں تھے۔ اور معاہدہ میں یہ طے پایا تھا کہ مینڈیٹ اے کے تحت جو اقوام آتی ہیں ان کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنے آقا کا انتخاب کریں کہ انہوں نے فرانس کے تحت زندگی گزارنی ہے یا برطانیہ کے تحت زندگی گزارنی ہے۔ لیکن عملاً اس چوائس کو نافذ نہیں کیا گیا۔ بہرحال برطانیہ نے مینڈیٹ کی ذمہ داری اٹھائی اور پھر یوں کہیں کہ ۱۹۱۷ء، ۱۹۱۸ء سے لے کر ۱۹۴۸ء تک جب برطانیہ کا کنٹرول یہاں رہا، تو دنیا بھر سے یہودیوں کو یہاں اکٹھا کر کے آباد کرانے کی ایک پوری مہم چلائی گئی۔ ورنہ یہاں یہودیوں کی آبادی بہت تھوڑی تھی۔

۱۹۴۷ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کے سامنے، جب نئی تنظیم دوسری جنگِ عظیم کے بعد بنی، نیا نظام بنا، تو ۱۹۴۷ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کے سامنے معذوری ظاہر کی کہ اب میں مزید مینڈیٹ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور یہ میں آپ کے حوالے کر رہا ہوں۔ اس موقع پر اقوام متحدہ نے ایک پارٹیشن پلان، تقسیم کا ایک منصوبہ منظور کیا۔ اس منصوبے پر بھی ہمیں بہت سارے تحفظات ہیں۔ لیکن اگر ہم اس منصوبے کو جوں کا توں لے لیں تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، تو اس منصوبے کے مطابق اس علاقے کو تقسیم ہونا تھا عربوں میں اور یہودیوں میں۔ اور اس دوران میں جب یہودیوں نے اسرائیل ریاست کے قیام کا اعلان کیا تو اس منصوبے میں جو اُن کو زمین دی گئی تھی اس سے کہیں زیادہ انہوں نے قبضے میں لے لی۔

اب قبضے کے متعلق ایک بنیادی بات یہ یاد دلانی ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز تک فتح کے بعد قبضہ اور اس کے بعد اس علاقے کا اپنے ساتھ الحاق کرنا، یہ بین الاقوامی عرف کا حصہ تھا اور اس کو باقاعدہ ایک قانونی جواز مل جاتا تھا۔ اگر کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کے علاقے پر قبضہ کر لیتی، اپنا قبضہ مستحکم کر لیتی، پھر اس حصے کو اپنا حصہ ڈکلیئر کر لیتی، اس کا اپنے ساتھ الحاق کر الیتی، تو اس کے بعد کہا جاتا کہ یہ جگہ اب اس قابض ریاست کا حصہ ہو گئی ہے، اور اب اس پر ان کا کنٹرول ہے اور ان کا ٹائٹل ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے اس سلسلہ کو روکا گیا، اور ۱۹۲۸ء میں ایک بنیادی معاہدہ ہوا امریکہ اور فرانس کے درمیان ابتدائی طور پر، لیکن بعد میں دیگر ریاستیں بھی اس میں شامل ہو گئیں۔ اس معاہدہ کو ’’پیکٹ آف پیرس‘‘  کہا جاتا ہے یا Kelogg-Briand Pact بھی کہتے ہیں۔ اس میں یہ طے پایا کہ طاقت کے استعمال کے ذریعے، جنگ کے ذریعے تنازعات کو حل نہیں کیا جائے گا، اور اس وجہ سے یہ اصول طے پایا کہ اگر جنگ کے نتیجے میں کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کے علاقے کو قبضہ میں لے لے تو وہ قبضہ ناجائز ہو گا، اور جلد یا بدیر قابض طاقت کو وہاں سے نکلنا ہو گا۔ 

اسی طرح ۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ کا منشور بنا، اقوام متحدہ کی تنظیم وجود میں آئی، تو اس کے منشور میں بھی باقاعدہ طور پر صراحت سے کہا گیا کہ طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی ناجائز ہے۔ اور کسی ملک کی علاقائی سالمیت یا سیاسی خودمختاری کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا، نہ اس کی دھمکی دی جائے گی۔ چنانچہ نہ صرف جنگ اور طاقت کا استعمال بلکہ اس کی دھمکی بھی ناجائز ہو گئی۔ اس وجہ سے قبضے کے ذریعے، فتح کے ذریعے، زبردستی الحاق کر کے کسی علاقے کو اپنے قبضے میں لے لینا، یہ اب بین الاقوامی قانون کی رو سے ناجائز ہے۔ 

نہ صرف یہ بلکہ اس کے ساتھ اس بات کا بھی اضافہ کیجئے کہ بین الاقوامی قانونِ جنگ، جس کو بین الاقوامی قانونِ انسانیت بھی کہا جاتا ہے، انٹرنیشنل ہیومینیٹرین لاء، اس کے اصولوں کی رو سے یہ بات مسلّم ہے، یہ طے ہے کہ جب تک قبضہ برقرار ہے تو حالتِ جنگ برقرار ہے۔ بلکہ یہاں تک اس قانون کی رو سے مسلّم ہے، جنیوا کنونشنز میں اس کی صراحت کی گئی ہے کہ اگر کوئی ریاست کسی علاقے کو قبضے میں لے لے تو خواہ اس قبضے کے خلاف کوئی مزاحمت نہ ہو، ایک گولی بھی نہ چلے، کوئی قابض طاقت کو روکے بھی نہ، اور نہ قبضے کے بعد اس کے خلاف کوئی مزاحمت ہو، اس کے باوجود یہ قبضہ ناجائز ہو گا اور یہ حالتِ جنگ ہو گی۔ مزید یہ کہ جنیوا کنونشنز اور جو بھی انٹرنیشنل ہیومنیٹیرین لاء کے معاہدات ہیں اور جو اس کے ساتھ متعلقہ بین الاقوامی عرف ہے اور بین الاقوامی قانون کے قواعدِ عامہ ہیں، ان کی رو سے یہ بات بھی مسلّم ہے کہ جو مقبوضہ علاقے ہیں ان کے لوگوں کو قابض طاقت کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ وہ مقبوضہ علاقے کے اندر سے بھی مزاحمت کر سکتے ہیں، وہ کسی اور علاقے میں جا کر جیسے جلاوطن حکومت قائم کی جاتی ہے، وہاں سے بھی مزاحمت جاری رکھ سکتے ہیں، دوسری ریاستیں بھی ان کی مدد کر سکتی ہیں، یہ ساری باتیں بین الاقوامی قانون کی رو سے طے شدہ ہیں۔ 

اب ایک اور بات کو بھی میں یہاں شامل کرنا چاہوں گا وہ حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، Right to Self Determination کا۔ اس کے متعلق بہت پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے، اگر ہم پہلی جنگ عظیم کے آس پاس ہی شروع کریں تو وُڈرووِلسن جو امریکی صدر تھا، اس کے جو مشہور فورٹین پوائنٹس (چودہ نکات) تھے ان میں حقِ خود ارادیت کا بھی ذکر تھا کہ لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ کس طرح کی حکومت ان کی ہو گی؟ اور کون ان پر حکومت کرے گا؟ اور جو بھی حکومت کرے گا تو حاکم کو جو اختیار ہو گا وہ محکوم کی مرضی سے حاصل ہو گا۔ اسی طرح چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں بھی اس طرح کی باتیں کی تھیں لیکن جیسے مغربی طاقتوں کا منافقت کا ایک عمومی طریقہ ہوتا ہے تو چرچل کو بھی بعد میں کہنا پڑا کہ نہیں یہ جو میں نے باتیں کہیں تھیں ان کا تعلق تو صرف یورپ کی حد تک تھا کہ یورپ میں جرمنی نے یا دیگر طاقتوں نے جن علاقوں کو قبضے میں لیا تھا تو ان کو آزادی کا حق حاصل ہے۔ لیکن وقت کا پہیہ رکتا نہیں ہے، آگے بڑھتا ہے۔ تو اس لیے جب اقوام متحدہ کی تنظیم بنی تو اس میں بھی حقِ خود ارادیت تمام اقوام کیلئے تسلیم کیا گیا۔ پھر جو انسانی حقوق کا بین الاقوامی اعلان کیا گیا ، یونیورسل ڈکلیریشن آف ہیومن رائٹس ۱۹۴۸ء میں، اس میں بھی ، اور پھر جو سیاسی حقوق سے متعلق بنیادی معاہدہ (The International Covenant on Civil and Political Rights) اقوام متحدہ کی کوششوں سے تشکیل پایا ۱۹۶۶ء میں ، اس میں بھی حقِ خود ارادیت کو بنیادی ترین حق کے طور پر مانا گیا تمام لوگوں کیلئے۔ اس کے ساتھ اس بات کا اضافہ کیجئے کہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بہت ساری قراردادیں حقِ خود ارادیت کے متعلق منظور کی ہیں۔ اور اس وجہ سے ۱۹۶۰ء کی دہائی کو تو یوں کہیں ڈی کولونائزیشن کی دہائی کہتے ہیں۔ کیونکہ افریقہ میں، ساؤتھ امریکہ میں، ایشیا میں بہت ساری ریاستیں آزاد ہو گئیں، مغربی طاقتوں سے انہوں نے آزادی حاصل کی۔ 

اس تناظر میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے ایک اور جنگ کے ذریعے بہت سارے علاقے قبضے میں لے لیے، شام سے، لبنان سے، مصر سے، اردن سے، تو یہ سارے علاقے مقبوضہ علاقے (Occupied Territories) ہیں۔ اور اقوام متحدہ کا سرکاری موقف اب بھی یہ ہے کہ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے جو علاقے قبضے میں لیے ہیں وہ مقبوضہ علاقے ہیں، ان میں اسرائیل کو قابض طاقت کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ علاقے اسرائیل کے ملک کا حصہ نہیں ہیں۔ یروشلم یعنی ہمارا القدس انہی علاقوں میں شامل ہے۔ القدس پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے۔ چاہے ۱۹۶۷ء میں یہ قبضہ ہوا ہو، ترپن چون سال ہو گئے ہوں، لیکن یہ قبضہ ہے، یہ ناجائز ہے، یہ جرم ہے، اور جلد یا بدیر اسرائیل کو بہرحال یہاں سے نکلنا ہو گا۔ 

جب فلسطینی آزادی کی تحریک چل پڑی تو یاد رکھیے کہ حقِ خود ارادیت کے متعلق بین الاقوامی فورمز پر، جنرل اسمبلی میں، یا جہاں کہیں بھی جتنی بھی بحث ہوئی ہے، تو بنیادی طو رپر حقِ خود ارادیت کی بحث میں مرکزی فریق کی حیثیت فلسطین کے لوگوں کو حاصل رہی۔ اور حقِ خود ارادیت کے معاملے میں عام طور پر جو بھی بحث ہوتی تھی ، اس کے حق میں ہوتی تھی، یا اس کے خلاف مغربی طاقتوں کی جانب سے ہوتی تھی، تو بیک گراؤنڈ میں فلسطین کا مسئلہ ہوتا تھا۔ اسی لیے جب اس سے تقریباً  دس سال بعد ۱۹۷۷ء میں جنیوا معاہدات کے ساتھ دو مزید معاہدے اضافی شامل کیے گئے جن ہم ایڈیشنل پروٹوکولز کہتے ہیں، ان میں جو پہلا ایڈیشنل پروٹوکول ہے ۱۹۷۷ء کا، اس میں جب یہ قرار پایا کہ حقِ خود ارادیت کے لیے لڑنے والوں کو باقاعدہ Combatant (جنگجو) کی حیثیت حاصل ہے، یعنی بین الاقوامی قانون کی رو سے ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہتھیار اٹھائیں، وہ جنگ میں شامل ہوں۔ اور جب وہ فریقِ مخالف کی قید میں آئیں گے تو ان کو جنگی قیدی کی حیثیت حاصل ہو گی۔ تو یہ ساری بحث بھی بنیادی طور پر فلسطینی آزادی کی تحریک کے تناظر میں ہو رہی تھی۔ اس میں یہ تسلیم کیا گیا کہ ان کو آزادی کیلئے لڑنے کا حق حاصل ہے۔ اور جب ان کو لڑنے کا حق حاصل ہے تو ظاہر ہے کہ ان کو دوسری ریاستوں کی جانب سے سپورٹ ملنے کا حق بھی حاصل ہے۔ 

اس ضمن میں ایک اور اہم ترین دستاویز کی طرف میں اشارہ کرنا چاہوں گا، وہ ۲۰۰۳ء میں اقوام متحدہ کی جو عدالت ہے جس کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف کہا جاتا ہے، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، اس کا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کا پس منظر یہ ہے کہ قابض اسرائیلی طاقت نے مقبوضہ علاقے میں دیوار تعمیر کرنی شروع کی تاکہ وہ خود کو حملوں سے محفوظ کرے۔ جیسے امریکہ آج بھی کہتا ہے کہ اس کو دفاع کا حق حاصل ہے۔ تو یہ دفاع کا حق کیسے حاصل ہے اسے؟ وہ تو قابض طاقت ہے، وہ تو خود جارح ہے، اس نے علاقے کو قبضے میں لیا ہوا ہے، اور اس کا قبضہ ناجائز ہے۔ تو کیا اب وہ اپنے آپ کو محفوظ کرنے کیلئے مقبوضہ علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس میں دیوار تعمیر کر سکتا ہے؟ 

یہ سوال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی طرف بھیجا کہ آپ اس کے قانونی نتائج ہمیں بتائیں۔ کیا قابض طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کو اس دیوار کی تعمیر کا اختیار حاصل ہے؟ اور اگر یہ دیوار کی تعمیر ناجائز ہے تو پھر اسرائیل کیلئے اس کے نتائج کیا ہیں؟ بین الاقوامی اداروں کی کیا ذمہ داری ہے؟ دیگر ریاستوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟

اقوام متحدہ کی جو بین الاقوامی عدالتِ انصاف ہے، اس میں اور سلامتی کونسل وغیرہ میں آپ نے فرق کرنا ہے۔ جو سلامتی کونسل ہے وہ سیاسی ادارہ ہے، وہاں فیصلے قانون اور اصول کی بنیاد پر نہیں ہوتے، سیاسی مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اور جو بین الاقوامی عدالتِ انصاف ہے تو وہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کرتی ہے۔ اس لیے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے اس فیصلے کی بڑی اہمیت ہے۔ اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے تمام احباب سے میری  گزارش ہو گی کہ وہ یہ فیصلہ تو ضرور پڑھیں۔ یہ فیصلہ بھی آپ کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی ویب سائیٹ سے مل سکتا ہے، اس کی سمری بھی مل سکتی ہے۔ کم از کم وہ سمری تو ضرور پڑھیں۔ 

اس میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے طے کیا ہے کہ اس مقبوضہ علاقے پر اسرائیل نامی قابض ریاست کے قبضے کی کیا حیثیت ہے۔ اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ پھر قبضے سے متعلق جو قانون ہے Occupation Law اس کے تحت قابض ریاست یا قابض طاقت کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں کر سکتی؟ مثال کے طور پر وہ مقبوضہ علاقے کے لوگوں سے اپنی وفاداری کا حلف نہیں لے سکتی، ان کو اس پر مجبور نہیں کر سکتی۔ پھر مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو کیا حقوق حاصل ہیں؟ پھر بین الاقوامی جو انسانی حقوق کا قانون ہے، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس لاء، اس کے تحت کیا کیا نتائج اس پر مرتب ہوتے ہیں؟ اسی طرح بین الاقوامی قانونِ جنگ کی رو سے کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں؟ اسرائیل نے کیا کیا خلاف ورزیاں کی ہیں؟ پھر دیگر ریاستوں کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ اور بین الاقوامی اداروں کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ یہ سارا کچھ اس فیصلے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کی وسیع پیمانے پر اشاعت بہت زیادہ ضروری ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے جب اس معاملے کا جائزہ لیا تو وہ کن نتائج تک پہنچی ہے؟ 

اگر ہم اسلامی شریعت کے اصولوں کی روشنی میں اس معاملے کا جائزہ لیں تو مظالم کی فہرست میں مزید بھی اضافہ ہو جاتا ہے، اور ہماری ذمہ داریوں کی فہرست میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم دوسرے فریق کے ساتھ گفتگو کیلئے بین الاقوامی قانون کو ایک مشترکہ معیار کے طور پر مانیں، اور ان کے ساتھ اس پر بحث کریں کہ آئیں کم از کم اس معیار کو تو مانیں جس کو آپ نے ہم پر مسلط کیا  ہوا ہے۔ اس معیار کی رو سے دیکھیں کہ آپ کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ ہماری کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ اس مسئلے کی نوعیت کیا ہے؟ تو اس کیلئے سب سے اہم دستاویز یہ ۲۰۰۳ء کا بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا فیصلہ ہے۔ 

اس بحث کی روشنی میں خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے اسرائیل کو ان علاقوں میں قابض طاقت کی حیثیت حاصل ہے، وہ یہاں آبادکاری نہیں کر سکتا، یہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل نہیں کر سکتا، یہاں ایسی تبدیلیاں نہیں لا سکتا جو دور رَس ہوں، جو ریورس نہ کی جا سکتی ہوں۔ یہاں کے لوگوں پر وہ اس طرح کا اختیار نہیں رکھتا جیسے کوئی جائز حکومت اپنے لوگوں پر رکھتی ہے۔ اور جلد یا بدیر اس کو یہاں سے نکلنا ہو گا۔ اب اس کیلئے عملاً یہ جو مظلوم لوگ ہیں، ان کو ان ظالم لوگوں سے بچانے کیلئے بین الاقوامی قانون کی رو سے ہمارے پاس کیا آپشنز ہیں اور ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان پر ہم انشاء اللہ آئندہ نشست میں گفتگو کریں گے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔



  1. The Peace of Westphalia 1648
  2. Balfour Declaration 1917
  3. President Woodrow Wilson's 14 Points 1918
  4. British Palestine 1917-1948
  5. The Treaty of Versailles 1919
  6. League of Nations 1920
  7. The Kellogg-Briand Pact 1928
  8. United Nations 1945
  9. The Geneva Convention 1949/1977
  10. International Covenant on Civil rights 1966
  11. Six-Day War 1967
  12. International Court of Justice's Judgment 2003
  13. Oppenheim's "International Law"

فلسطین و اسرائیل

(الشریعہ — اپریل ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — اپریل ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۴

احکام القرآن،عصری تناظر میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۱)
ڈاکٹر محی الدین غازی

اجتہاد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

مقبوضہ بیت المقدس اور بین الاقوامی قانون
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

قراردادِ مقاصد پر غصہ؟
مجیب الرحمٰن شامی

چیف جسٹس آف پاکستان کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے پر ملی مجلسِ شرعی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا متفقہ تبصرہ اور تجاویز
ملی مجلس شرعی

بعد اَز رمضان رب کا انعام بصورت عید الفطر
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

فقہ الصحابہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی: لفظ بدون متبادل
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

فحاشی و عریانی: معاشرے کی تباہی کا سبب
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حیدر: پاکستان کا مقامی طور پر تیار کردہ نیا مرکزی جنگی ٹینک
آرمی ریکگنیشن

جامعہ گجرات کے زیر اہتمام’’تعمیرِ شخصیت میں مطالعۂ سیرت النبیؐ کی اہمیت‘‘ لیکچر سیریز
ادارہ

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور برگد کے اشتراک سے ’’مساوات، جامع اور پائیدار مستقبل‘‘ کانفرنس
ادارہ

’’خطابت کے چند رہنما اصول‘‘
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ’’دورہ تفسیر و محاضراتِ علومِ قرآنی‘‘
مولانا محمد اسامہ قاسم

Quaid-e-Azam`s Vision of Pakistan
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter