ابن عباس کے مولیٰ، شعبہ بیان کرتے ہیں کہ مسور بن مخرمہؓ عبد اللہ بن عباسؓ سے ملنے کے لیے آئے تو ابن عباس نے ریشم کا لباس پہن رکھا تھا (اور انگیٹھی یا چولہے پر پرندوں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں)۔ مسور بن مخرمہ نے لباس پر اعتراض کیا تو ابن عباس نے کہا کہ میں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ریشم پہننے سے منع فرمایا تو آپ کے پیش نظر تکبر اور تجبر سے منع فرمانا تھا (جو اس وقت اس لباس کے ساتھ وابستہ تھا)، لیکن ہم بحمد اللہ ایسے نہیں ہیں (جو تکبر کے اظہار کے لیے اسے پہنتے ہوں)۔ مسور نے پوچھا کہ یہ انگیٹھی پر تصویریں کیسی ہیں؟ ابن عباس نے کہا کہ آپ دیکھتے نہیں کہ ہم نے انھیں کیسے آگ کے ساتھ جلا رکھا ہے؟ جب مسور رخصت ہو گئے تو ابن عباسؒ نے کہا کہ یہ لباس بھی میرے جسم سے اتار دو اور ان تصویروں کے سر بھی کاٹ دو۔ (معجم کبیر، مسند احمد ودیگر کتب حدیث)
مسور بن مخرمہ اور ابن عباس (جو دونوں جلیل القدر صحابی ہیں) کے اس مکالمے سے ایک طرف یہ واضح ہوتا ہے کہ فقہائے صحابہ کیسے احکام کو ان کی علت کی روشنی میں سمجھتے تھے اور دوسری طرف یہ کہ اکابر اہل علم کیسے اپنے لیے زیادہ مبنی بر احتیاط طریقے کو پسند کرتے تھے۔ یہ اس بات کا بھی ایک عمدہ نمونہ ہے کہ اکابر اہل علم موجب اشتباہ اور خلاف اولیٰ چیزوں پر ایک دوسرے کو متنبہ کرتے اور ایک دوسرے کی نصیحت اور تنبیہ کو قبول کیا کرتے تھے۔
ابن عباسؓ نے ریشم پہننے اور تصاویر کے نمایاں ہونے کی ممانعت کو ان کی علت یعنی تجبر وتکبر اور تصویر کی تعظیم سے متعلق قرار دیا اور اس سے یہ اخذ کیا کہ اگر ریشم پہننے کا محرک تکبر نہ ہو اور تصویر نمایاں ہونے کے باوجود اس میں تعظیم کا پہلو دکھائی نہ دیتا ہو تو یہ دونوں امور حدود جواز میں آ جاتے ہیں۔ مسور بن مخرمہ نے بھی بظاہر ان کے استدلال پر کوئی معارضہ نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ممانعت کا اصل مدار اس کی علت پر ہوتا ہے اور علت کے انفکاک سے ممانعت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
اس کے باوجود ابن عباسؓ نے مسور بن مخرمہ کے جانے کے بعد یہ محسوس کیا کہ علم دین میں لوگوں کے لیے ایک نمونہ اور مرجع ہونے کی حیثیت سے ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ احتیاط کے طریقے پر کاربند رہیں اور ریشم پہننے اور تصویر آویزاں کرنے کی ممانعت کی، ظاہر کے لحاظ سے ہی پابندی کریں تاکہ یہ عام لوگوں کے لیے اشتباہ کا موجب نہ ہو اور سد ذریعہ کا اصول غیر موثر نہ ہو جائے۔