فحاشی و عریانی: معاشرے کی تباہی کا سبب

مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

اللہ رب العزت نے انسان کو خیر کے کاموں پر عمل کرنے اور اس کی اشاعت کرنے کی تلقین کی ہے، اسی طرح کچھ امور ایسے ہیں جن سے اللہ رب العزت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، ان میں سے فحاشی و عریانی ہے۔ ذیل میں اس سے فحش کاموں سے اجتناب سے متعلق قرآن حکیم کی آیات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پیش کیے جا رہے ہیں:

شیطان فحش کاموں کی تعلیم دیتا ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (النور ۲۱)۔ 

ترجمہ: اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم پیروی نہ کرنا شیطان کے نقش قدم کی، اور جو کوئی پیروی کرے گا شیطان کے نقش قدم کی تو یقینا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا کہ بیشک وہ تو بے حیائی اور برائی ہی سکھاتا ہے۔

کھلے عام، چھپ کر گناہ کرنا حرام ہے

ارشاد باری تعالی ہے: 

قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ..... وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ( الانعام ۱۵۱)۔ 

ترجمہ: آپ کہیے کہ آؤ تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے ۔۔ اور بےحیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق کے ساتھ ،  ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔

ارشاد باری تعالی ہے: 

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ....(الأعراف۳۳)  

ترجمہ: آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں ، اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو ناحق کسی پر ظلم کرنے کو۔ 

امام رازیؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس آیت کے الفاظ مَا ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ میں ایک نقطہ پوشیدہ ہے کہ: انسان جب ظاہری معصیت کے کاموں سے اجتناب کرتا ہے لیکن سری گناہوں سے اجتناب نہیں کرتا، تو یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا یہ اجتناب لوگوں کے ڈر کی وجہ سے ہے نہ کہ اللہ کی بندگی و اطاعت کی وجہ سے، تو یہ تصور سراسر باطل ہے اور جو اس نیت سے ظاہراً گناہ نہیں کرتا لیکن چھپ کر تمام معصیت کے کام کرتا ہے تو اس امر کا اندیشہ کہ وہ کفر میں مبتلا نہ ہو جائے۔ اور جو شخص ظاہری و باطنی گناہوں سے اجتناب کرتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے اور اس کی اطاعت و بندگی میں اپنے آپ کو معصیت کے کاموں سے بچاتا ہے۔ (  رازی،محمد بن عمر(606)،التفسیر الکبیر،دار إحياء التراث العربي - بيروت1420 هـ ج۱۳،ص۱۷۸)

ڈاکٹر وھبۃ الزحیلیؒ فرماتے ہیں: ایک قول یہ ہے کہ الظاہر سے مراد وہ معصیت کے کام ہیں جو انسان اپنے ظاہری اعضاء سے کرتا ہے اور باطن سے مراد وہ معصیت کے کام ہیں جن کا تعلق دل سے ہو جیسے تکبر، حسد۔ (  زحیلی،وھبہ بن مصطفی ،التفسیر المنیر فی العقیدۃ والشریعۃ والمنھج،ج۸،ص۹۷)

ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت نے سختی کے ساتھ ظاہری اور باطنی گناہوں کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے۔

فحشاء سے مراد

اس کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں قبیح ہو وہ فحش ہے۔ مثلاً: بخل، زنا، برہنگی، عریانی، عملِ قومِ لوط، جنسی زیادتی، محرمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، گالیاں بکنا، بدکلامی کرنا وغیرہ۔

اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا فحش کے زمرے میں آتا ہے۔ مثلاً جھوٹا پروپیگنڈہ، بہتان تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے، ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر آویزاں کرنا، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا وغیرہ۔

حیا اور فحاشی کے نتائج

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ، وَلَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ» (ترمذی،محمد بن عیسیٰ،سنن ترمذی،ح۱۹۷۴)۔  

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چیز میں بھی بے حیائی آتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے اور جس چیز میں حیاء آتی ہے اسے زینت بخشتی ہے“۔

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْحَيَاءُ وَالْعِيُّ شُعْبَتَانِ مِنَ الإِيمَانِ، وَالْبَذَاءُ وَالْبَيَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ» (  سنن ترمذ،ح۲۲۲۷)۔ 

حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیاء اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں، جب کہ فحش کلامی اور کثرت کلام نفاق کی دو شاخیں ہیں۔‘‘

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَأَبِي سَمُرَةُ جَالِسٌ أَمَامِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْفُحْشَ، وَالتَّفَحُّشَ لَيْسَا مِنَ الْإِسْلَامِ، وَإِنَّ أَحْسَنَ النَّاسِ إِسْلَامًا، أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا" (مسند احمد بن حنبل ،۲۰۸۳۱)۔  

سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’بیشک بدگوئی اور بدزبانی، اسلام سے نہیں ہے اور اسلام کے لحاظ سے سب سے اچھے لوگ وہ ہیں، جن کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔‘‘

فحاشی کے فروغ کے وسائل

فحش کاموں میں مبتلا ہونے کے دو اہم وسیلیں ہیں:  (۱) زبان کے ذریعے فحاشی کا فروغ ، (۲) آنکھ کے ذریعے فحش کام۔

(۱) زبان کے ذریعے فحاشی کا فروغ 

انسانی جسم کے اعضاء میں ایک عضو زبان ہے جس کے ذریعے سے انسان اپنا مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اس نعمت کو خیر اور بھلائی کی اشاعت میں استعمال کرنے کی تعلیم دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زبان کا استعمال اگر درست کیا جائے تو معاشرے میں امن قائم رہتا ہے، خاندان مستحکم ہوتے ہیں، آپس کے تعلقات برقرار رہتے ہیں اور ہر طرف خیر کا پہلو غالب نظر آتا ہے۔ لیکن اگر اس کا استعمال درست نہ کیا جائے تو بدتمیزی کا غلبہ ہوتا ہے، معاشرتی اقدار پامال ہو جاتے ہیں، رشتوں کی اہمیت فنا ہو جاتی ہے، آپس میں عدم اعتمادی کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ معاشرے کو پرامن اور تہذیب یافتہ رہنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی تعلیم دی ہے کہ فحش گوئی سے اجتناب کیا جائے، ذیل میں چند احادیث ذکر کی جا رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان کو غلط استعمال کرنے سے انفرادی و اجتماعی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَ يَهُودِيٌّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّأمُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَعَلَيْكَ» ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ فَعَلِمْتُ كَرَاهِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ فَسَكَتُّ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ، فَقَالَ: السَّأمُ عَلَيْكَ، فَقَالَ: «عَلَيْكَ» ، فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ فَعَلِمْتُ كَرَاهِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ، ثُمَّ دَخَلَ الثَّالِثُ، فَقَالَ: السَّأمُ عَلَيْكَ، فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قُلْتُ: وَعَلَيْكَ السَّأمُ وَغَضَبُ اللَّهِ وَلَعْنَتُهُ إِخْوَانَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ، أَتُحَيُّونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا لَمْ يُحَيِّهِ اللَّهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ قَالُوا قَوْلًا فَرَدَدْنَا عَلَيْهِمْ، إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ حُسَّدٌ، وَهُمْ لَا يَحْسُدُونَا عَلَى شَيْءٍ كَمَا يَحْسُدُونَا عَلَى السَّلَامِ، وَعَلَى آمِينَ» (ابن خزیمہ،محمد بن اسحاق،(م:۳۱۱)،صحیح ابن خزیمہ،ح۱۵۸۵)۔  

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: السام علیک یا محمد (اے محمد آپ پر ہلاکت ہو) ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وعلیک (اور تجھ پر بھی)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بولنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار نظر آئے۔ میں خاموش رہی۔ پھر دوسرا یہودی داخل ہوا اس نے بھی یہی کہا: السام علیک، میں نے بولنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر پھر ناپسندیدگی کے آثار نظر آئے۔ پھر تیسرا یہودی داخل ہوا اور کہا: السام علیک، مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہہ دیا: وعليك السام وغضب اللہ ولعنته، اخوان القردة والخنازیر (تم پر بھی ہلاکت ہو اور اللہ کا غضب اور اس کی لعنت بندروں اور خنزیر کے بھائیو) تم رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌کو ایسا سلام کہہ رہے ہو جو اللہ تعالیٰ نے انہیں نہیں کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ فحش کو پسند نہیں کرتا نہ ہی تکلف سے فحش کہنے کو پسند کرتا ہے، انہوں نے ایسی بات کہی تو ہم نے بھی انہیں جواب دے دیا۔ یقیناً یہودی حاسد قوم ہے، کسی چیز پر یہ ہم سے اتنا حسد نہیں کرتے جتنا حسد یہ ہم سے”سلام“ اور ”آمین“ پر کرتے ہیں

عن عبد الله بن عمرو بن العاصي قال: سمعت رسول الله - صلي الله عليه وسلم - يقول: "الَظلم ظلمات يومَ القيامة، وإياكم والفحْشِ، فإن الله لا يحب الفحْش ولا التفَحُّش،.. (احمد بن حنبل،مسند احمد بن حنبل،ح۶۴۸۷)۔  

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ظلم کرنے سے بچو! اس لیے کہ ظلم قیامت والے دن (کئی) ظلمتوں کا باعث بنے گا، بدگوئی سے بچو، بیشک اللہ تعالیٰ بدزبانی اور فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا۔

بدگوئی، فحش کلام کی کثرت قیامت کی علامت میں ہے

عبد الله بن عمرو عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: إن الله تعالى لا يحب الفاحش و لا المتفحش ثم قال: و الذي نفس محمد بيده لا تقوم الساعة حتى يظهر الفحش و التفحش و سوء الجوار و قطيعة الأرحام و حتى يخون الأمين و يؤتمن الخائن (محمد بن عبداللہ حاکم نیساپوری،مستدرک علی الصحیحن علی الصحیحن،ح۸۵۶۶)۔ 

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بدگوئی اور فحش گوئی كو نا پسند كرتا ہے۔ اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تك امین کو خائن نہ سمجھا جائے اور خائن کو امین نہ سمجھا جانے لگے، اور فحش گوئی، بدگوئی، قطع رحمی اور برے پڑوسیوں كی اكثریت نہ ہو جائے۔

درج بالا احادیث سے یہ امر معلوم ہوا کہ زبان کے توسط سے فحش پھیلانا کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی قباحت اس سے بھی ثابت ہے کہ اللہ رب العزت بھی اس کو پسند نہیں کرتا۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی فطرت بھی ہر اس کام سے دور رہنا پسند کرتی ہے کہ جو اس کی طبیعت کے موافق نہ ہو، لیکن شیطان اپنی ذمہ داری بخوبی انجام دیتے ہوئے انسان کو فحش گوئی اور بدکلامی پر آمادہ کرنے کے لیے مستقل کوشش کرتا رہتا ہے ۔اب یہ بندہ مؤمن کا امتحان ہے کہ وہ اپنے آپ کو شیطانی امر کا پابند بناتا ہے یا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ 

آج ہمارے معاشرے میں بہت تیزی کے ساتھ فحش گوئی اور بدکلامی ،الزام تراشی کی بیماری پھیلتی جا رہی ہے، ایک شخص کسی دوسرے پر اعتراض کرتا ہے تو دوسرا شخص ذاتیات پر اتر آتا ہے اور بے جا الزام تراشی کی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں معاشرتی ماحول آلودہ ہو جاتا ہے اور یہ کام اگر ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے کیا جائے تو معاشرے پر اس کے ہولناک اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ آج اس امر کا لحاظ نہیں رکھا جاتا کہ بدکلامی کے نتیجے میں معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری اولاد اور ہمارا معاشرہ پر امن رہے اور تہذیب یافتہ بنے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کریں بالخصوص خاندانی زندگی میں اور میڈیا پر ہونے والے مارننگ شوز وغیرہ پر۔ اس کے نتیجے میں اللہ رب العزت اپنی رحمتیں نازل فرمائیں گے۔

(۲) آنکھ کے ذریعے فحش کام

جس دور میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں انسانوں کے درمیان روابط کے وسائل غیر محدود ہیں، جہاں ان کے ذریعے سے انسان کو فائدہ حاصل ہو رہا ہے اسی طرح یہ وسائل اپنے اندر نقصانات بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بندہ مؤمن اللہ کے ہاں اپنے ہر عمل کا جوابدہ ہے حتیٰ کہ اپنے جسم کے اعضاء کا بھی کہ اس نے ان اعضاء سے خیر کا کام کیا یا برائی کا، اس کا بھی جواب دینا ہو گا۔ آنکھ کے جسم کا ایک عضو ہے جس کی حفاظت کرنا بندہ مومن کی ذمہ داری ہے اس لیے کہ قیامت کے روز اس کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِه عِلْمٌ إنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل ۳۶) ۔

جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔

آج کے دور میں ان اعضاء کی حفاظت کی ذمہ داری مزید بڑھ چکی ہے کہ انٹرنیٹ پر فحش ویڈیوز کی بھر مار ہے ،جب کوئی ویب سائٹ پر جاتے ہیں تو ایک طرف عریاں تصاویر، ویڈیوز کے لنک دستیاب ہوتے ہیں، اسی طرح ٹک ٹاک، سنیک ویڈیوز جن کے ذریعے بے ہودگی کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اپنی اپنے اہلِ خانہ کی اور اپنے اردگرد رہنے والوں کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں۔ اسی طرح اس زمرے میں مختلف محافل بھی شامل ہیں جن میں ناچ گانے ہوتے ہیں، اسی طرح غیر محرم خاتون کو دیکھنا اور اس کے برعکس بھی کہ کوئی لڑکی غیر محرم لڑکے کو کو دیکھے۔ گویا جتنے بھی برائی کے کام دیکھنے کے ذریعے سے ہو سکتے ہیں وہ سب حرام ہیں۔ اس لیے بحیثیت مومن و مومنہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آپ کو برائی کے دلدل سے بچائیں تاکہ اللہ رب العزت بھی ہم مہربان ہو۔

فحاشی عریانی کے معاشرتی زندگی پر اثرات

فحاشی کے ذریعے سے معاشرتی زندگی پر درج ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں :

  • اللہ کی نافرمانی عام ہو جاتی ہے
  • برائی کا راستہ آسان ہو جاتا ہے
  • دل سیاہ ہو جاتا ہے
  • رزق سے برکت ختم ہو جاتی ہے
  • مختلف قسم کی وبائیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
  • بداعتمادی کی فضا قائم ہو جاتی ہے
  • مختلف صورت میں اللہ کی طرف عذاب آتے ہیں۔

برائی سے نجات کے وسائل و ذرائع

  1. اللہ سے توبہ و استغفار کرنا اور گناہ دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔ یہ بات ذہن رکھیے کہ انسان کتنے ہی گناہ کر لے اگر وہ موت سے قبل توبہ تائب ہوتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں۔
  2. اللہ کے بتائے ہوئے نظام زندگی سے اپنی زندگی کو مرتب کرنا۔
  3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنا۔
  4. پنج وقتہ نماز کی پابندی کرنا۔
  5. قرآن حکیم کی تلاوت کرنا۔
  6. برائی کے تمام راستوں کو اپنے اوپر حرام کر لینا۔
  7. اللہ سے خیر کے راستوں پر استقامت کی دعا کرنا۔
  8. خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔

اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور دین اسلام کے موافق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

دین اور معاشرہ

(الشریعہ — اپریل ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — اپریل ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۴

احکام القرآن،عصری تناظر میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۱)
ڈاکٹر محی الدین غازی

اجتہاد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

مقبوضہ بیت المقدس اور بین الاقوامی قانون
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

قراردادِ مقاصد پر غصہ؟
مجیب الرحمٰن شامی

چیف جسٹس آف پاکستان کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے پر ملی مجلسِ شرعی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا متفقہ تبصرہ اور تجاویز
ادارہ

بعد اَز رمضان رب کا انعام بصورت عید الفطر
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

فقہ الصحابہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی: لفظ بدون متبادل
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

فحاشی و عریانی: معاشرے کی تباہی کا سبب
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حیدر: پاکستان کا مقامی طور پر تیار کردہ نیا مرکزی جنگی ٹینک
آرمی ریکگنیشن

جامعہ گجرات کے زیر اہتمام’’تعمیرِ شخصیت میں مطالعۂ سیرت النبیؐ کی اہمیت‘‘ لیکچر سیریز
ادارہ

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور برگد کے اشتراک سے ’’مساوات، جامع اور پائیدار مستقبل‘‘ کانفرنس
ادارہ

’’خطابت کے چند رہنما اصول‘‘
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ’’دورہ تفسیر و محاضراتِ علومِ قرآنی‘‘
مولانا محمد اسامہ قاسم

Quaid-e-Azam`s Vision of Pakistan
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter