۵ مارچ ۲۰۲۴ء کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور برگد کے اشتراک سے ’’مساوات، جامع اور پائیدار مستقبل‘‘ کے عنوان پر کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پنجاب کی مختلف جامعات کے 30 وائس چانسلرز نے شرکت کی جن میں ڈاکٹر افضل، ڈاکٹر مجاہد کامران، ڈاکٹر فلیحہ کاظمی، ڈاکٹر ظل ہما نازلی، ڈاکٹر خلیق الرحمن، ڈاکٹر کلثوم پراچہ، ڈاکٹر رؤف اعظم، ڈاکٹر محمد علی شاہ، ڈاکٹر عزیرہ رفیق، ڈاکٹر زرین فاطمہ رضوی، ڈاکٹر اشفاق محمود، ڈاکٹر انیلہ کمال، ڈاکٹر محمود سلیم، ڈاکٹر بلال خاں، ڈاکٹر اسلام خاں، ڈاکٹر بلال خاں، ڈاکٹر ندیم بھٹی، ڈاکٹر عامر گیلانی، ڈاکٹر نجمہ نجم، ڈاکٹر عامر گیلانی، ڈاکٹر عدنان نور اور ڈاکٹر اسلام اللہ خاں و دیگر شامل ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر نظام الدین، ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا، ڈاکٹر شعیب اختر، ڈاکٹر کنول امین، ڈاکٹر احمد عثمان، ڈاکٹر راشد کمال الرحمٰن، مولانا زاہد الراشدی، رنجیت سنگھ، پنڈت کاشی رام، سائمن رابن، ڈاکٹر تنویر قاسم، ڈاکٹر آصف منیر، صبیحہ شاہین اور اسامہ نے مکالماتی سیشن میں بطور ماہر اور میزبان شرکت کی۔
کانفرنس کے تین مکالماتی سیشن ہوئے جس میں وائس چانسلرز، ٹیکنوکریٹس، بیوروکریٹس، علماء، اقلیتی راہنما اور سائنس، انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین شریک تھے۔ اختتامی سیشن میں بین المذاہب ہم آہنگی مکالمے کا اہتمام کیا گیا جس میں مولانا زاہد الراشدی، سردار رنجیت سنگھ، کاشی رام، مسٹر رابن اور ڈاکٹر تنویر قاسم نے حصہ لیا۔ برگد کی چیئرپرسن ڈاکٹر غزالہ عرفان نے کانفرنس کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی وائس چانسلرز کانفرنس میں کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے لحاظ سے پاکستان کمزور خطہ ہے جس سے ماحولیاتی نظام، غذائی تحفظ اور توانائی کو خطرات لاحق ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے جدید زرعی ٹیکنالوجی اور مؤثر فیصلہ سازی ناگزیر ہے۔ کانفرنس نے اقلیتوں کے لئے ہائر ایجوکیشن کے اداروں میں 2 فیصد اور ملازمتوں کے 5 فیصد کوٹے پر عملدرآمد یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد منیر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسیحی برادری سمیت تمام اقلیتیں ملک اور صوبے کی تعمیر و ترقی میں مثبت اور فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان کا آئین اور اسلام کی تعلیمات اقلیتوں کے انسانی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق اور وقار کے احترام اور تحفظ کے لیے نفرت اور تشدد کو فروغ دینے والے انتہا پسندانہ نظریات کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے پنجاب ایچ ای سی تمام جامعات میں بین المذاہب ہم آہنگی کی مہم چلا رہا ہے جس کے تحت سیمینارز منعقد ہو رہے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کریں گے۔ جامعات اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے قائم کمیشن کی ہدایات پر عملدرآمد کریں۔ اقلیتی برادریوں کے لئے ملازمتوں کے مختص کوٹے پر سو فیصد عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ ہماری حکومتوں نے اقلیتی برادری کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہمیشہ پائیدار اقدامات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پانی، قابلِ تجدید توانائی کی صلاحیت اور دیگر وسائل سے مالامال ہے، تاہم اسے فیصلوں پر عملدرآمد اور مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس تقریباً 150 ملین ایکڑ فٹ پانی موجود ہے جو سپرے اور ڈرپ اریگیشن جیسی جدید زرعی تکنیک کو اپنانے اور آبپاشی کے روایتی طریقوں کو تبدیل کرنے کی صورت میں اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے، تاہم قومی آبی پالیسی اور دیگر متعلقہ قوانین کے عملی نفاذ کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ایچ ای سی اساتذہ کی جدید خطوط پر تربیت کر رہا ہے، انہیں اعلی تعلیم کے لیے سکالرشپس کی فراہمی اور بصیرت فراہم کر رہا ہے۔ پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات میں امن اور رواداری کے فروغ کے لیے تعلیمی بیانیہ تیار کر لیا جس کی سفارشات حکومت پنجاب کو پیش کی جائیں گی۔
ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا کہ امن کے فروغ کیلئے مذہبی ہم آہنگی ناگزیر ہے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔ رواداری پر مبنی تعلیمی بیانیہ معاشرے کے مختلف طبقات کو اختلافات کم کرنے اور پرامن طور پر ایک ساتھ رہنے کے قابل بنائے گا۔ جامعات معاشرے میں امن، رواداری، بقائے باہمی کے فروغ اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے میڈیا، سول سوسائٹی، انجمنوں، سرکاری حکام اور عام لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ جامعات میں مکالمے اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دیا جائے گا۔ اگر عام افراد باشعور ہوں گے تو نفرت پر مبنی بیانیہ نہیں پھیل سکے گا اور شدت پسندی کم ہو گی۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے سول سوسائٹی سے اشتراک کریں گے۔ احترام انسانیت اور رواداری تعلیم یافتہ معاشرے کی پہچان ہے، امن اور رواداری کے بغیر اعلیٰ تعلیم کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ قوموں کی ترقی کے لیے ہم آہنگی اور مساوات ناگزیر ہے۔
ڈاکٹر شاہد منیر کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس تھنک ٹینک ہیں جو درپیش چیلنجز کی روشنی میں سفارشات تیار کرتے ہیں اور اپنے ممالک کو بحرانوں سے نکالتے ہیں۔ ہم ماہرین پر مشتمل ایک ’’مارل تھنک ٹینک‘‘ قائم کریں گے جو متوازن معاشرے کے قیام کے لیے سفارشات تیار کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک متوازن شخصیت کی تعمیر کے لیے جامعات میں مکالمے، افہام و تفہیم کا کلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا کو غربت، دہشت گردی اور موسمیاتی تبدیلیوں اور مختلف تنازعات کا سامنا ہے۔ زینو فوبیا، اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور تفرقہ بازیاں ایسے انتہا پسند رویے معاشروں کو توڑتے ہیں۔ ہمیں انسانوں اور معاشروں کو جوڑنا ہے، ایک دوسرے کے قریب لانا ہے، ترقی کے لیے تہذیب اور رواداری پیدا کرنی ہے، ہم نے انسانی وسائل کو بڑھانے کے مواقع پیدا کرنے ہیں، عدمِ برداشت کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں، ترقی خانہ جنگی کی فضا میں نہیں ہو سکتی۔ سیاسی، سماجی، مذہبی راہنماؤں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو اچھے اخلاق سکھائیں۔