مولانا محمد عبید اللہ اشرفی رحمہ اللہ

مولانا مفتی محمد زاہد

حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا واقعی ان شخصیات میں سے تھے جن کے معاصرین میں سے کسی کو ان کا مماثل نہیں کہا جاسکتا۔ علامہ انور شاہ کشمیری اور مرشد تھانوی سے نیاز حاصل کرنے والی پاکستانی کی شاید آخری شخصیت۔ علم فطانت ، ذہانت، حاضر جوابی ، بڑوں کی نسبتوں کے باوجود امتیاز پسندی کا نام ونشان تک نہیں۔ خشکی قریب سے نہیں گذری تھی۔ خود کو متقی ، عابد وزاہد ثابت کرنے کے لیے بھی کبھی خشک بننے کا تکلف نہیں کیا ہوگا۔ آخر عمر تک دورہ حدیث میں طحاوی کی شرح معانی الآثار کا درس دیتے رہے، حالانکہ بخاری جیسی کوئی معروف کتاب بھی لے سکتے تھے۔

مولانا کو یہ خاص امتیاز حاصل تھا کہ انہوں نے فارسی کی ابتدائی کتب سے لے کر صحیح بخاری تک ساری درسی کتب کا پہلا سبق حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ سے پڑھا تھا۔ اس طرح سے اس وقت مولانا تھانوی کے وہ واحد شاگرد تھے۔ ان کے والد ماجد مفتی محمد حسن حضرت تھانوی کے عاشق زار مرید وخلیفہ تھے، لیکن فرمایا کرتے تھے کہ حضرت تھانوی کے ساتھ مجھے بعض ایسی خصوصیات حاصل ہیں جو میرے والد صاحب کو بھی حاصل نہیں، اور یہ بات وہ خود اپنے والد ماجد سے بھی کہا کرتے تھے۔ ایک بات تو وہی ہرکتاب ان سے شروع کرنے والی۔ ایک یہ کہ میں نے حضرت تھانوی سے بچپن میں ایک تھپڑ بھی کھایا تھا۔

شعر وشاعری سے بے تحاشا شغف تھا۔ بہت سے اشعار بڑھاپے میں بھی یاد تھے۔ کرکٹ جیسے کسی زمانے میں مکروہ سمجھے جانے والے کھیل بھی لگاؤ رکھتے تھے۔

اپنے اور اپنے بزرگوں کے بہت سے واقعات سنایا کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد مفتی حسن صاحب لاہور آگئے۔ حکومت میں آپ کے خاصے تعلقات تھے۔ مولانا تھانوی کے کئی متعلقین کو ان کی ہندوستان کی جائیدادوں کے claim میں یہاں پراپرٹیز الاٹ کروائیں، لیکن خود کچھ حاصل نہیں کیا۔ بتاتے تھے کہ مولانا تھانوی کی اہلیہ (جنہیں چھوٹی پیرانی صاحبہ کہا جاتا تھا، مفتی جمیل احمد تھانوی کی ساس اور مولانا مشرف علی تھانوی وغیرہ کی نانی) کو ماڈل ٹاؤن میں ایک بڑی کوٹھی الاٹ کروائی۔ مولانا عبید اللہ بتایا کرتے تھے کہ کئی لوگوں نے مفتی صاحب سے خود بھی کہا اور میرے ذریعے بھی کہلوایا کہ آدھی مفتی صاحب خود رکھ لیں اور آدھی پیرانی صاحبہ کو دلوادیں، لیکن مفتی صاحب نہیں مانے۔ 

اللہ تعالیٰ نے آواز میں عجیب ترنم اور سوز دیا تھا۔ پچپن میں کچھ عرصہ جامعہ اشرفیہ میں صوفی صاحب کے گھر رہنے کا اتفاق ہوا۔ جب کبھی فجر کی نماز پڑھاتے تو مزا آجاتا۔ ’’وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض‘‘  کثرت سے تلاوت کرتے۔ خطبہ جمعہ بھی سننے کے قابل ہوتا تھا۔ کئی لوگوں نے نقل اتارنے کی کوشش کی، لیکن نقل اور اصل میں فرق برقرار رہا۔ غفر اللہ لہ ورفع درجتہ


اخبار و آثار

(اپریل ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter