DHA لاہور، پاکستان آرمی کا ماتحت بااختیار ادارہ ہے، جس کا مقصد اپنے رہائشیوں کو عالمی سطح کے معیار کے مطابق رہائشی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ بنیادی طور پر آرمی آفیسرز کے لیے بننے والے اس رہائشی منصوبہ کو بعد ازاں عوام الناس کے لیے وسعت دے دی گئی۔ اسی نام سے کراچی اور اسلام آباد میں بھی ادارے موجود ہیں۔
DHA لاہور، نہ صرف رہائشی سہولیات کے لحاظ سے ایک ممتاز حیثیت کاحامل ہے بلکہ دینی امور اور مساجد کا مستحکم ومنظم شعبہ، 25 سال سے یہاں آباد لوگوں کی مذہبی و روحانی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ اس وقت کل 35 مساجد موجود ہیں جو ’’مسجد ۔ تمام مسلمانوں کے لیے‘‘ کے غیر فرقہ وارانہ اور وحدتِ امت کے وسیع تر سلوگن اور مقصد کے تحت قائم ہیں۔
شعبہ مساجد کی خصوصیات
1۔ منفرد طرزِ تعمیر:
ڈی ایچ اے لاہور کی جملہ مساجد، جدید مسلم فن تعمیر کا شاندار شاہکار ہیں جن کے طرزِ تعمیر میں ترکی، عرب، ملائیشیا، ایران کی مساجد کے طرزِ تعمیر اور ڈیزائن کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ موسمی تبدیلیوں کے پیش نظر ہر مسجد کے ڈیزائن اور تعمیر پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
2۔ جملہ سہولیات کی فراہمی:
نمازی حضرات کی سہولت کے پیش نظر ، تمام مساجد میں دورِ جدید کی ہر وہ سہولت موجود ہے جس سے نمازی حضرات مکمل اطمینان وسکون سے عبادات اور دینی امور انجام دے سکیں۔مساجد کا عملہ مستعدی سے دن بھر صفائی میں مصروف رہتاہے۔
3۔ غیرفرقہ وارانہ اور مسلکی تعصبات سے مبرّا ماحول:
ڈی ایچ اے لاہور کی مساجد اور شعبہ دینی امورکی سب سے منفرد خصوصیت اس کا ہرقسم کے فرقہ وارانہ اور مسلکی تعصب سے پاک ہونا ہے۔ کوئی مسجد کسی نام سے منسوب نہیں بلکہ محلوں اور سیکٹرز کے نام سے مساجدمنسوب ہیں(مثلاًجامع مسجد فیز ۲، جامع مسجد Xسیکٹر وغیرہ)۔ کسی بھی قسم کی مسلکی علامت یا شعار سے مبرّا مساجد نہ صرف خود مسلمانوں کی وحدت کا پیغام ہیں بلکہ ان میں کسی بھی قسم کی مسلکی یا گروہی سرگرمی بھی ممنوع ہے۔
4۔ ائمہ وخطباء کا تقرر:
ڈی ایچ اے لاہور وہ واحدادارہ ہے جہاں شعبہ مساجد کا جملہ عملہ یعنی امام وخطیب، مؤذن وخادم اور سویپر حضرات کا تقرر ایک باقاعدہ نظم اور پروسیجر کے تحت عمل میں آتا ہے۔محدود نشستوں کے لیے معروف قومی اخبارات میں اشتہار دیا جاتا ہے جس میں امام وخطیب کے لیے حفظِ قرآن کریم، تجوید،آٹھ سالہ درسِ نظامی کے علاوہ کسی بھی عصری یونیورسٹی سے ایم اے پاس ہونا جبکہ مؤذن وخادم کے لیے حفظ، تجوید، میٹرک اور درسِ نظامی ترجیحاً ہونا لازمی ہے۔ آمدہ درخواستوں کو تمام سرٹیفکیٹس سمیت چیک کیاجاتاہے۔ اہل امیدواران کو تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو کی اطلاع دی جاتی ہے۔ مقررہ تاریخ کو ایم اے اور درجہ دورۂ حدیث سطح کا تحریری امتحان ہوتا ہے ، جس کے بعد حفظ وتجوید کا امتحان لیاجاتاہے۔ دونوں مرحلوں میں پاس شدہ امیدواران کی فہرست نمازِ عصر کے بعد آویزاں کردی جاتی اور اگلے ہی روز ان کو انٹرویو کے لیے بلایا جاتاہے ۔ آرمی آفیسرز اورعلماء کرام کا ایک بورڈ ان کی علمی، فنی اور شخصی قابلیت کا امتحان لیتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں منتخب امیدواران سے سیکرٹری اور ایڈمنسٹریٹر ڈی ایچ اے انٹرویو کرتے ہیں۔ کسی بھی مرحلے پر کوئی بھی مجاز فرد ،کسی پہلو میں کمی کو دیکھتے ہوئے امیدوار کا انتخاب منسوخ کرسکتا ہے۔
5۔ ائمہ وخطباء کے فرائضِ منصبی:
منتخب ہونے والے ائمہ وخطباء کو ان کے فرائضِ منصبی تحریری صورت میں ان کے اقرار کے ساتھ ان کو دے دیے جاتے ہیں۔ جس میں سرفہرست مساجد کے غیرفرقہ وارانہ ماحول کو برقرار رکھنا اور کسی بھی قسم کی مسلکی وابستگی اور اس کے کسی بھی طرح اظہار سے اجتناب کرنا ہے۔ اس کے علاوہ نماز پنجگانہ کی امامت، روزانہ درسِ قرآن (جس کی ہفتہ وار رپورٹ ڈائریکٹر دینی امور ملاحظہ کرتے ہیں)، جمعۃ المبارک وعیدین کے خطبات، نمازِ تراویح کی امامت ائمہ وخطباء کی ذمہ داری ہے۔ مساجد کی صفائی اور انتظام کی نگرانی، نمازی حضرات سے بہترین اور مثالی اخلاقی رویہ روا رکھنا، ذاتی شخصیت کو مثالی بنائے رکھنا، صاف اور شرعی لباس زیب تن رکھنا بھی ائمہ وخطباء کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ ملازمت کے دوران کسی بھی موقع پر کسی فرقہ وارانہ سرگرمی میں مشغولیت یا خلافِ منصب کسی بھی حرکت پر انضباطی کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
6۔ خطباتِ جمعہ وعیدین کی تیاری:
شعبہ مساجدڈی ایچ اے لاہوراس لحاظ سے بھی منفرد اور ممتاز ہے کہ یہاں خطبات کی تیاری کا ایک منظم ومربوط اہتمام ہے ۔سال بھر کے جملہ خطبات کے عنوانات قمری سال کے آغازسے قبل ہی طے کرنے کے لیے علماء پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جو باقی ائمہ وخطباء سے تجاویز لے کر دورِ حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آمدہ سال کے جملہ خطبات کے عنوانات اور ان کے مرتبین کی فہرست ڈائریکٹر دینی امور کی تصدیق سے تمام خطباء میں تقسیم کردیتی ہے۔ ہر خطیب صاحب سال میں تقریباً تین عدد خطبات تحریر کرتے ہیں۔جس کو متعلقہ فیز کے خطیبِ اعلیٰ کی تصدیقات اور ضروری تصحیحات کے بعد ڈائریکٹر دینی اموردیکھتے ہیں ،ضروری تبدیلیوں اور ان کی تصدیق کے بعد اس کی کاپیاں کروا کر کم از کم ایک ہفتہ قبل تمام خطباء کو دے دی جاتی ہے۔ جس کی تیاری کے لیے ، ڈائریکٹر دینی امور کی موجودگی میں شعبہ مساجد کے تمام عملہ کی دو میٹنگز ہوتی ہیں ۔ بروز پیر،تمام خطباء کی موجودگی میں، تحریر شدہ خطبہ لفظ بہ لفظ پڑھا جاتا ہے۔ اس پر علماء اصلاح کے لیے اپنی مزید تجاویز دیتے ہیں۔ ہفتہ میں دوسری بار جمعرات کے روز ایک خطیب اور ایک مؤذن اسی خطبہ کو تمام ائمہ ومؤذنین کے سامنے ویسے پیش کرتا ہے جیسے آئندہ جمہ کو ڈلیور ہوناہوتاہے۔ یوں ہفتہ بھرجہاں خطبہ جمعہ کی تیاری کا سلسلہ جاری رہتا ہے وہاں ائمہ وخطباء کا باہمی ربط وتعلق بھی ایک خوشگوار ماحول میں مزید پروان چڑھتاہے۔
7۔ مذہبی اجتماعات:
جمعۃ المبارک اور عیدین کے علاوہ ، ہرسال چار مزید اجتماعات ایسے ہیں جو اپنی نوعیت میں منفردہیں۔ اولاً: ہر ماہ کی تیسری بدھ کو ڈی ایچ اے کی مختلف مساجد میں ماہانہ اصلاحی پروگرام ہوتے ہیں جن میں عوام الناس کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ ماہانہ اصلاحی پروگرامز کے مقررین اور ان کے عنوانات بھی خطباتِ جمعہ کی طرح سال کے آغاز میں طے کر دیے جاتے ہیں۔ ثانیاً:۸تا۱۲ ربیع الاول میں محافلِ ذکرِ حبیبﷺ کے سلسلہ میں ڈی ایچ اے کی مرکزی مساجد میں پانچ اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جس میں روایتی جلسوں سے ہٹ کر، سیرت نبوی کے روشنی میں اصلاحی پہلو ؤں پر بیان کے لیے ملک بھرسے ان انتہائی علمی وسنجیدہ شخصیات کو دعوت دی جاتی ہے جو تعصب سے پاک اور وحدتِ امت کے لیے معتدل سوچ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ثالثاً: ہرسال عازمین حج کے لیے دوروزہ’’تربیتِ حج سیمینار ‘‘ منعقد کیاجاتاہے جس میں ’گھر سے واپس گھرتک‘ تمام سفر کے لیے شرعی راہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔رابعاً: گذشتہ سالوں میں سالانہ محفلِ حسنِ قراء ات منعقد ہوتی رہی جو فی الحال سیکورٹی کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر منعقدنہیں ہورہی۔
شعبہ مساجد ڈی ایچ اے لاہور کی مذکور ودیگر خصوصیات کی بناء پر لاہور اور مضافات کی کئی رہائشی کالونیوں مثلاً گرین سٹی، پیراگون سٹی، بحریہ ٹاؤن، سنٹرل پارک وغیرہ کی انتظامیہ کی طرف سے ، DHA شعبہ مساجد کا ضابطۂ اخلاق نافذ کیاگیا ہے۔ کئی سوسائیٹیز اس کو عملاً نافذ کرنے میں ہماری مدد کی خواہشمند ہیں۔
دیگر نظام ہائے مساجد کی مشکلات اور ان کے حل کے لیے تجاویز
دیگر علاقوں یا آبادیوں میں لوگوں کی دینی وروحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مصروف ائمہ وخطباء اور خدام کے متنوع قسم کے مسائل ہیں جس کو تین اقسام میں بیان کیا جا سکتا ہے: انتظامی، معاشی اور علمی مسائل۔
انتظامی مسائل:
ڈی ایچ اے لاہور کے برعکس دیگر علاقوں یا آبادیوں میں موجودزیادہ تر مساجد کسی منتظم فرد یا کمیٹی کی سربراہی میں چلتی ہیں ۔ ان مساجد میں ائمہ وخطباء کا انتخاب ذاتی تعلقات یا پھر مسجد کمیٹی کی منظوری کے ساتھ ہوتاہے۔ اکثرائمہ کچھ عرصہ بعد اسی کمیٹی یا منتظم فرد سے نالاں نظر آتے ہیں۔ہرچند تمام مساجد کی کمیٹیاں یا منتظم افراد ہرگز ایسے نہیں تاہم ایسی شکایات کا انکار بھی نہیں کیاجاسکتا۔ بہرصورت ان اختلافات کی بنیادی وجہ : کمیٹی کے اختیارات اورائمہ مساجد کے فرائضِ منصبی کا پہلے سے طے نہ ہونا ہے۔کیونکہ امام مسجد کو کمیٹی یا اس کے کسی فرد کے اختیارات کے ناجائز استعمال جبکہ کمیٹی کو امام صاحب کی دیگرمصروفیات پر اعتراض ہوتاہے۔ ایسی صورت میں اگر تقرری سے قبل امام صاحب اور مساجد کے انتظامی ذمہ داران اس بات کا اہتمام کرلیں کہ ہر دو کے اختیارات اور ذمہ داریوں کا تعین تحریری صورت میں ہوجائے تو بہت حد تک، بعد کے اختلافات سے بچا جاسکتاہے۔
معاشی مسائل:
ائمہ کے دوسرے قسم کے مسائل معاشی ہیں۔ تنخواہ کا کم ہونا، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے دیگر علمی مصروفیات اوراس کی وجہ سے ذمہ داریوں میں کوتاہی، کمیٹی یا منتظم افرادکے ساتھ اختلافات یا پھر ’رخصت‘ پر منتج ہوتی ہیں۔ اس سلسلہ میں اولاً تو مذکورہ اصول کہ تمام باتیں طے ہونی چاہئیں ورنہ اس کے لیے جدید معاشیات کے فارمولے کو زیرغور لانا پڑے گا۔
معاشیات کا مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی چیز کی قدر بڑھانے کے لیے دو کاموں میں سے کوئی ایک کام کیاجاتا ہے: یا تو طلب ورسد کے قدرتی نظام میں واضح فرق ڈال دیا جائے۔ یعنی عام مسلمانوں کو جس قدر ائمہ وخطباء کی ضرورت ہو اس قدر مہیا نہ ہوں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں بلکہ الحمدللہ ائمہ وخطباء کی ’بہتات‘ ہے۔دوسرا یہ کہ مہیا چیز کے معیار اور کوالٹی کو اتنا بڑھا دیاجائے کہ عوام الناس اس کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے کے لیے راضی ہوں۔مؤخر الذکر کام آسانی سے ممکن ہے ۔ لیکن اس کے لیے کئی سطحوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، مثلاً جو ائمہ وخطباء کے شعبہ سے منسلک ہونا چاہیں، ان کے لیے وفاق کی سطح پر باقاعدہ نصاب ترتیب دیاجائے، جس کی تکمیل پر ہی وہ امام وخطیب مقرر ہوسکتے ہوں اورعوام الناس اس سے آگاہ بھی ہوں۔ دوسرے ،مدارس کی سطح پر شعوری طور پر ایسانظام ہو جو طلبہ کی علمی واخلاقی تربیت کو عملی میدان میں آنے سے قبل یقینی بنائے۔ تیسرے، انفرادی سطح پر علماء اس منصب اورذمہ داری کے لیے حسّاس ہوں اور حادثاتی طور پر نہیں بلکہ شعوری طور پر اپنی شخصیت کو سنواریں جو ان کوامام وخطیب کے منصب کے اہل بنا دے۔ اس کے لیے ایسا لٹریچر زیرِ مطالعہ رہے جوان کوعملی راہنمائی فراہم کرے۔ مثلاًحضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا تمام لٹریچر، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ کے خطبات کے علاوہ مولانا عبدالرؤف چشتی کی ’خطیب اورخطابت‘، اورمولانا مفتی محمد زید صاحب کی ’تحفۃ العلماء‘ اس سلسلے میں قابل ذکر ہیں۔ ان اقدامات کے بعد امید ہے کہ ’مارکیٹ‘ میں آنے والی ’پروڈکٹ‘یعنی ائمہ وخطباء ،کی قدر میں اضافہ ہوگا۔
علمی مسائل:
مجھ سمیت کم وبیش اکثر علمائے کرام فراغت کے بعد اپنی علمی ترقی کو ، مصروفیات کا بہانہ بنا کرروک دیتے ہیں۔ کسی بھی مسجد میں کسی خطیب کے کم از کم ایک سال کے خطبات اوران کے مندرجات کو سنا، یا دیگر حالات میں ’برداشت‘ کیاجاتاہے ، روایتی طرزِ بیان یا روایتی خطبات کو بار بار دہرانا اور عدمِ مطالعہ کے سبب دورِ حاضر کے جدید مسائل سے چشم پوشی اور ان کے حل کے لیے اپنے سامعین کی تشنگی دور نہ کرنا بھی امام وخطیب کے مقام ومرتبے کو متأثر کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر امام وخطیب نہ صرف فراغت اور عملی میدان میں آنے کے بعد اپنے دورِ طالبعلمی کے نقائص کو دور کرے بلکہ مزید علمی ترقی کے لیے دینی جرائد، روزانہ کا اخبار، اور علمی وتحقیقی کتب زیر مطالعہ رکھے اور ہر خطبہ جمعہ کی تیاری جمعہ سے دوگھنٹے قبل نہیں بلکہ چھ روز پہلے سے شروع کردے۔ مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ، فرماتے تھے کہ میں آئندہ جمعہ کی تیاری پچھلے جمعہ کی نمازِ عصر سے شروع کردیتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ نیلاگنبدلاہور کی مسجد میں ان کے ۲۰ منٹ کے بیان کے لیے جمعہ کی پہلی آذان کے وقت مسجد بھرچکی ہوتی تھی۔
ہمارے معاشرے میں اکثر مساجدمیں عقائد وعبادات پر بہت گفتگو ہوتی ہے لیکن روزمرہ کے معاشی، معاشرتی اور اخلاقی مسائل، شخصی کردار کی تعمیر، سماجی مشکلات اور عام مسلمان کی زندگی میں اس کو درپیش فقہی مسائل مثلاً طلاق، خلع، نکاح، بیوعِ فاسدہ وغیرہ کے بارے میں شاید کبھی خطیب صاحب بیان فرمائیں۔چنانچہ خطباء کرام کو دورِ حاضر میں عوام الناس کو درپیش ان مسائل کو ضرور پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔
علاوہ ازیں ان تمام مشکلات کے حل کے لیے ایک قابل عمل تجویز یہ بھی ہے کہ ایک علاقے کے ہم خیال علماءِ کرام باہمی ربط کو مضبوط بنائیں۔ ہفتہ میں کم ازکم ایک بار اپنے انتظامی، معاشی اور علمی مسائل کو ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کریں۔ اور باہمی اصلاح کے اس نظم کو وسعت دیں۔ اس سے نہ صرف دوسرے حضرات سے علمی استفادے کا موقع ملے گا بلکہ انتظامی حوالے سے بھی افرادی قوت میں اضافہ ہوگا، جس کے باعث مقامی اختلافات میں دیگر علمائے کرام بھی مدد کرسکیں گے۔
چند گذارشات، اپنے محدود تجربہ کی روشنی میں عرض کی ہیں ، قوی امید ہے کہ ان پر عمل کرنے کی صورت میں ہم اپنے بہت سے مسائل ومشکلات پر قابو پاسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ دین مبین کی خدمت کے لیے استقامت اور جملہ مسائل کے حل کے لیے وسائل دستیاب فرمائیں۔ آمین،
واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین۔