حضرت مولانا محمد نافع رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ ماہ کے دوران ایک غمناک خبر نے سب کو رنجیدہ کر دیا کہ استاذ محترم حضرت مولانا محمد نافعؒ کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ علمی دنیا انہیں اہل السنۃ والجماعۃ کے علمی ترجمان اور صحابہ کرامؓ کے ناموس و وقار کے تحفظ کی علامت کے طور پر جانتی ہے۔ وہ امام اہل السنۃ حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے اس علمی قافلہ کے ایک فرد تھے جنہوں نے اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد کے فروغ و تحفظ اور حضرات صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم کی حیات و خدمات کی اشاعت اور ان کے بارے میں معاندین کی طرف سے مختلف ادوار میں پھیلائے جانے والے اعتراضات اور شکوک و شبہات کے جواب و دفاع میں مسلسل جدوجہد کی ہے۔ ان میں حضرت مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ ، حضرت علامہ دوست محمد قریشیؒ ، حضرت مولانا قائم الدین عباسیؒ ، حضرت مولانا عبد الحئی جام پوریؒ ، اور حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کے اسماء گرامی سر فہرست ہیں، جبکہ اس قافلہ کے غالباً آخری فرد حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود دامت برکاتہم کچھ عرصہ سے علیل اور صاحب فراش ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور حضرت علامہ صاحب کو صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

حضرت مولانا محمد نافع جھنگویؒ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورۂ حدیث کے ساتھیوں میں سے تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے۔ میرا ان سے استفادہ کا تعلق تو طالب علمی کے دور سے تھا کہ ان کی بہت سی تصانیف بالخصوص ’’رحماء بینہم‘‘ اور حضرت علامہ خالد محمود مدظلہ کے متنوع مضامین کا مجموعہ ’’عبقات‘‘ اس قسم کے مسائل میں میرے لیے راہ نمائی کا سب سے بڑا ذریعہ چلے آرہے ہیں، مگر ایک بار مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کی معیت میں چنیوٹ کے چند علماء کرام کے ساتھ جامعہ محمدی شریف میں حضرت مولانا محمد نافعؒ کی خدمت میں حاضری دی تو ان سے تلمذ کا شرف اور ان کی سند کے ساتھ روایت حدیث کی اجازت کی سعادت بھی ہم لوگوں نے حاصل کی۔ وقتاً فوقتاً ان کی خدمت میں حاضری کا موقع ملتا رہتا تھا۔ وہ شفقتوں اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی کسی تازہ تصنیف سے بھی نوازتے تھے، اور کوئی نہ کوئی مسئلہ یا حوالہ بھی ان سے مل جایا کرتا تھا۔ 

ایسے بزرگوں کی وفات پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’’یرفع اللہ العلم بقبض العلماء‘‘ کی عملی تصویر تو ذہن میں پھر سے تازہ ہو جاتی ہے، مگر اس خلا کو مسلسل بڑھتے دیکھ کر دل ڈوبنے لگتا ہے۔ مشیت ایزدی کے سامنے کیا چارہ ہے، اللہ تعالیٰ حضرت استاذ محترمؒ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ان کے تلامذہ و متوسلین کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ تا دیر جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ 

اخبار و آثار

(فروری ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter