پشاور میں آرمی پبلک سکول کے قتل عام کے سانحے کے بعد اس مرض کا علاج جنگی بنیادوں پر کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ سانحہ کے بعد تو جیسے پوری قوم کے پاؤں تلے سے زمین کھنچ گئی ہو۔ ہماری خوبصورت ،نرم و نازک سول حکومت تو گویا حواس باختہ ہو گئی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم جو سورج اور چاند کی طرح دن رات مدور رہتے تھے، وہ اپنے سارے دورے بھول بھال کے درپیش صورت حال میں قید ہو گئے ہیں۔ ہمارے آرمی چیف طبعاً فعال و سر گرم شخص ہیں۔ اتنا سرگرم و فعال آرمی چیف شاید ہماری قومی فوج کے حصے میں پہلے نہیں آیا۔ صورت حال میں پہلی دوسری اور تیسری اے پی سی ہوئی۔ ان سب میں آرمی چیف شریک ہوئے۔ ان کانفرنسوں میں آرمی چیف کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ ہماری سیاسی قیادت مکمل طور پر ناکام اور غیر متعلقہ ہو گئی ہے۔ یہ صورت حال پیدا ہونا تھی۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مرحلہ میں طالبان نے نواز لیگ ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا۔ مولانا فضل الرحمن پر تو طالبان پہلے ہی اعتماد کرنے کو تیار نہ تھے۔ مذاکرات میں سیاسی قیادت صورت حال پر گرفت قائم نہ کر سکی۔ اس طرح فوج نے وزیر ستان آپریشن شروع کر دیا۔ سیاسی حکومت کو کئی روز کے بعد آپریشن کی حمایت کرنا پڑی۔ اے پی سی میں سیاسی قیادت کا آرمی چیف کے ساتھ بار بار بیٹھنا آئین، قانون اورجمہوریت کا معمولی شعور رکھنے والے کے لیے زبردست شرم کا باعث ہے۔پھر ہمارے آرمی چیف نے ہر صوبے میں جا کر ہر وزیر اعلیٰ کو کور کمانڈرز کی صحبت میں دے کر حالات کو ایک رخ دینے کی جو کوشش کی ہے، اس کے بارے میں ابھی سوال اٹھانے کا وقت نہیں کہ تمام سیاسی قیادت ہتھیار ڈال چکی ہے، البتہ مولا نا فضل الرحمان اس مرحلہ میں مذہبی قوتوں کو نشانہ بنانے کا حوالہ دے کر میدان میں اتر آئے ہیں۔
فوجی کے ساتھ لفظ عدالت کی ترکیب لگانا ذہنی دیوالیہ پن سے کسی طرح کم نہیں۔ اس تاریخی سفر کو جو مولوی تمیزالدین کیس سے شروع ہوا تھا اور عاصمہ جیلانی کیس سے ہوتے ہوئے نظریہ ضرورت کو دفن کرنے پر ختم ہوا تھا، جرنیل اسے پھر سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ شاید ہمارے بہادر جرنیل اس امر سے آگاہ نہیں کہ تاریخ کا عمل کبھی واپس نہیں ہوتا۔ قوم آرمی پبلک سکول کے واقعے سے جس ہیجان و طغیان میں مبتلا ہوئی ہے، وہ بہت فطری ہے۔ اس طغیانی صورت حال میں ہو ش مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ سیاسی قیادت نے فوجی قیادت کے سامنے جس طرح سرنڈر کیا ہے، وہ سیاسی شعور رکھنے والے ہر شخص کے لئے سخت پریشانی کا باعث ہے۔ یہ سرنڈر وکلا تحریک کے بعد، اس تحریک کا کریڈٹ کا کریڈٹ لینے والے لیڈروں کے لیے اتنا شرمناک ہے کہ جنرل نیازی اگر زندہ ہیں تو وہ خود اور مر گئے ہیں تو ان کی روح بھی شرمسار ہو گی۔ فوج کا اپنی حدود سے نکل کر نرم و نازک سول حکومت کا گلا دبا کر حالات کو ایک رخ دینے کی کوشش میں ملک کی خیر نظر نہیں آتی۔
اس آپریشن میں شدت پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے سانحہ سے پیدا ہو گئی ہے۔ شدت کی یہ کیفیت نو گیارہ کے امریکی ٹاورز پر خود ساختہ و پرداختہ حملوں کے بعد جیسی ہے۔ ہماری پوری سیاسی قیادت جو پہلے آپریشن کی حمایت بڑی کم دلانہ طور پر کر رہی تھی، اب بالکل ڈھیر ہو گئی ہے۔ تمام فیصلے فوجی قیادت کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنسوں میں متفقہ ایجنڈا منظور کروانے کے بعد آئین اور قانون میں ترمیم ہو گئی ہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام کو آئینی cover دینے کا اقدام بظاہر پورا کر لیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے راحیل شریف صاحب رحیل ہو چکے ہیں۔ دو دن کے اندر انہوں نے علاقائی کور کمانڈروں کو ساتھ لے کر چاروں وزرائے اعلیٰ سے ملاقات کی ہے۔ اس صحبتِ خالصہ کے نتیجہ میں وزرائے اعلیٰ فوجی آپریشن اور فوجی عدالتوں کی تسبیح فرمانے لگے ہیں۔ دستور کی ترمیم کے نام پر اس کی مکمل پائمالی اختیار کر لی گئی ہے۔ اس میں وکلا تحریک کے سب سے بڑے ہیروبھی شامل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے بھی تمام شہری حقوق سرنڈر کر دئے ہیں۔ ’’ریاست ہو گی ماں کے جیسی‘‘ کا گیت گانے والے فوجی عدالتوں کے قیام میں ممد و معاون ہو گئے ہیں۔ اگر اسے سرنڈر کہا جائے تو جناب اعتزاز احسن کا یہ سرنڈر جنرل نیازی کے سرنڈر سے کم شرمناک ہے یا زیادہ ؟یہ طے طلب ہے۔
اس طویل مخدوش صورت حال میں جناب افتخارچوہدری نے ایک بار پھر اپنا افتخار قائم رکھا ہے۔ انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے دستور میں ترمیم بھی گئی تو وہ دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہونے کی بنا پر غیر آئینی ہو گی۔میڈیا کے زور پر صورت حال میں فوجی عدالتوں کے قیام کو اضطرارثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں ۱۹۵۴ء کے زمانے میں واپس لے جانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جسٹس منیر کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے۔ کیا افتخار چوہدری کے ہوتے ہوئے یہ ہو سکے گا؟ اس کا فیصلہ وقت کر دے گا۔
عبدالرشید غازی اور مولانا عبدالعزیز کی معذور والدہ اپنے بیٹے کے ساتھ ’’ہلاک ‘‘ہوئی اور اس کی لاش بھی کہیں نہ ملی۔ اس آپریشن کے نتیجہ میں غائب ہونے والی بچیوں کا آج تک سراغ نہیں ملا۔ اسی طرح باجوڑ کے ڈرون حملے میں اسی بچے ہلاک ہوئے توان کے ٹکڑے جمع کر کے سراج الحق سواتی نے جنازہ پڑھایا تھا۔ ان کو شہید کیسے کہا جائے کہ ڈرون طیارے تو اب تقدس پا چکے ہیں۔ان کو ہماری بہادر فوج گرا سکتی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی سنجیدہ احتجاج کیا جاتا ہے۔ بات لمبی کرنے کے بجائے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آمنہ مسعود جنجوعہ سے کون جا کر کہے گا کہ ہماری ایجنسیوں نے جن ہزاروں بچوں، بوڑھوں جوانوں اور عورتوں تک کو اٹھا کر غائب کر کے جس ستم سے دوچار کیا ہے، وہ ان پر رونے دھونے کا سلسلہ بند کیوں نہیں کرتی۔ ’’ضرب عضب ‘‘کی کامیابی کے پس منظر میں گم اور غائب کردہ افراد کے مسئلے کو ذہن سے نکال دینا ہو گا۔ اس رونے دھونے کو اب جرم قرار دے دیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔جسٹس افتخار چودھری تو عدم پتہ افراد کے معاملات ایک انکوائری کمیشن کے سپرد کر کے خود ریٹائر ہو گئے ہیں۔منیر اے ملک بھی اسی مسئلے پر احتجاج کے طور پر اٹارنی جنرل کے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اپنے ضمیر اور کردار کو بچا لیا۔ چلیے یہ ہو گیا۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ سال ہا سال سے عدم پتہ لوگوں کی ماؤں کا منہ بند کرنے کا بھی کوئی نسخہ تیار ہونا چاہیے۔میرا ’’خیال ‘‘ہے کہ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آمنہ مسعود جنجوعہ کو کم از کم منظر سے غائب کر دیا جائے۔ ویسے تو عملاً یہ ہو گیا ہے۔ میڈیا پر اب ان کا کوئی تذکرہ نہیں۔ کمیشن اپنا کام خوب کر رہا ہے، مگر کہاں تک؟ سیاسی جماعتوں کے ہاں اس مسئلے کو رسمی طور پر زیر بحث نہیں لایا جاتا۔
اب انصاف پھانسی کے پھندے کے ساتھ ہوگا ۔ محبت کی فصل گولیوں سے بوئی جائے گی۔ فوجی عدالتیں ضیاء الحق کے justice ready doctrine of کے تحت قائم کی جا رہی ہیں۔ اس میں فیصلے برق رفتاری سے ہوں گے۔انصاف لینے کے لیے آپ کو کہیں جانا نہیں پڑے گا۔ یہ آپ کے گھر میں گھس جائے گا۔ کسی کو پلک جھپکنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ وکیل ہو گا اور نہ ہی اپیل کا حق۔ سماعت ایک رسم ہو گی اور فیصلہ اوپر والوں کے مطابق، تاکہ جب اپیل اوپر جائے تو فیصلہ میں کوئی مشکل نہ ہو۔ آرمی میں ڈسپلن اسی کو کہتے ہیں۔ سعودی عرب کا معاشرہ فوری انصاف کی وجہ سے crimeless ہے۔اس پر عالمین گواہ ہیں۔ انصاف کی گاڑی بلٹ ٹرین کی رفتار سے چلے گی، خواہ نیچے پٹری بوسیدہ ہی کیوں نہ ہو۔ دنوں کی بات ہے کہ ہر سو ایسے انصاف کا دور دورہ ہو جائے گا۔
فوجی عدالتوں کے قیام کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ موجودہ خصوصی عدالتیں دہشت گردی کے کیسوں میں انصاف نہیں کر سکیں۔ کیا یہ سوال اٹھانے کی اجازت ہو گی کہ جن کیسوں میں عدالتوں نے سزائے موت سنائی، اس پر عمل درآمد کیوں نہ ہونے دیا گیا؟ سزا کے بعد عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنا دستور پاکستان کی واضح خلاف ورزی ہے۔
اس اہتمامِ خشک و تر کے بعد دیکھیں گے کون نام لیتا ہے عافیہ صدیقی اور اس کی اسی سالہ قید اور قید سے رہائی کا۔ کوئی مسئلہ نہیں ۔ ایسے ہر مسئلے پر مٹی ڈالنے کا عمل شروع ہی نہیں بلکہ مکمل ہو چکا ہے۔ یہ آپریشن مکمل ہو کر رہے گا۔ عدم پتہ لوگوں کو سب بھول چکے ہیں۔ ان کے قصے اور کہانیاں افتخار چوہدری چرا لے گئے ہیں۔ اب کسے ضرورت ہو گی ان کے ذکر کی۔ اب صرف فوجی جوانوں کے بچوں کا ماتم ہوگا ۔ وہی شہید ہونے کے اعزاز رکھتے ہیں۔ ڈرون اور پاک فضائیہ کے طیاروں پر بچوں اور عورتوں کو شناخت کرنے کے لئے detectors لگے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اب ایسے حملوں میں ہلاک ہونے والے بچوں اور عورتوں کا واویلا کرنے والوں کو آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا۔ ان کو کسی نے شہید کہنا چاہا تو ایسوں کا نام و نشان بھی نہ ہو گا اور
کون کہے گا حق کی داستاں جب ہم نہیں ہوں گے
وجہ یہ ہے کہ اب سب ایک ہی page پر ہیں۔
آرمی سکول پر حملہ کے بعد صرف غیر محفوظ آرمی سکولوں کی سیکوریٹی کی ضرورت تھی۔ مگر خوف کی مریض حکومت نے ملک بھر کے سکولوں کی سیکوریٹی کا مسئلہ بنا کر دہشت پھیلا دی ہے۔ اس طرح دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا؟ دہشت گردی کا خوف پھیلانے کے بجائے بہادری سے اسے فیس کیا جانا چاہیے۔ امن و سلامتی کی ایک ہی صورت ہے کہ قانون سب کے لیے ایک جیسا ہو۔ پروٹو کول کسی کے لیے بھی نہ ہو۔ صدر سے لے کر ایس ایچ او تک، سب کو پروٹو کول ختم کر دیا جائے۔ ہم فاروقِ اعظم کی باتیں کرتے ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ چشم فلک نے حضرت عمر فاروق کو ایک لمحہ کے لیے بھی پروٹو کول کے حصار میں دیکھا ہے؟ لہٰذا منافقت ترک کی جائے اور ہر کوئی عام عام آدمی کی طرح رہے۔ کوتاہی جو بھی کرے، اس کو قرار واقعی سزا ملے۔ جتنا کوئی ذمہ دار ہوئے، اتنا ہی اسے سزار وار ٹھہرایا جائے۔ کسی درجے میں رعایت کا امکان ہے تو صرف کمزور و مجبور کے لیے۔ طاقت ور کے لیے رعایت کا کوئی تصور نہیں ہو سکتا۔ امن قائم کرنا ہے تو سوسائٹی کو اسلحہ سے پاک کر دیا جائے۔ سعودی عرب میں سپاہی کے پاس بس ایک چھڑی ہوتی ہے۔یہ چھڑی بے لاگ، درست اور سچی تفتیش کی علامت ہے۔یہ انصاف کے ترازو کو قائم رکھنے میں عدالت کی مدد گار ہوتی ہے۔ جس معاشرے میں انصاف ہو گا، وہاں خوف ، غم اور دہشت کا بیج پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ ہاں، اگر اس کے بر عکس صورت پر اصرار کیا گیا تو پھر کیا ہو گا؟مایوسی ، مایوسی اور مایوسی، مگر ہم اس جانب کیوں جائیں۔ ہمارا عزم امن اور انصاف ہی ہو سکتا ہے۔